ان بیٹیوں کے آنسو کون پونچھے گا!

وقاص احمد
صاحب مضمون، وقاص احمد

(وقاص احمد)

کچھ سال پہلے راقم الحروف کی تعیناتی شہر سے بیس کلومیٹر دور ایک دیہی مرکز صحت پرہوئی.مرکز صحت پہ آنے جانے کے لئے ذاتی سواری کی عیاشی میسر نہ تھی.چناچہ روزانہ ہائی ایس ویگن پر آنے جانے کا آغاز کیا جودراصل ملتان اور بہاول پور کے درمیان آمدورفت کا ایک سستا مقامی ذریعہ تھی.یہ ایک شٹل سروس کی مانند تھی جو کم فاصلے کی سواریوں کو بھی راستے میں آنے والے مختلف پڑاؤ پر اتارتی رہتی تھی.روزانہ علی الصبح ویگن اڈا پر پہنچ کر ایک منظر اکثر دکھائی پڑتا تھا کہ اٹھارہ سے پچیس سال کی عمر کی بہت سے لڑکیاں نقاب ڈالے یا چادریں اوڑھے بڑی بےچینی سے ویگنوں کو بھرنے میں مستعد نظر آتی تھیں.کبھی کبھار تین سے چار لڑکیوں کا گروپ ہوتا تو انھیں ساتھ بیٹھا دیا جاتا مگر اکثر اوقات ان خواتین کو مردوں کے ساتھ ہی بیٹھ کے سفر کرنا پڑتا.سکڑی سمٹائی اپنی چادر اور حرمت کو سنبھالتی غریب گھرانوں کا نور یہ بالکیاں کسی بھی طرح ایسے مسافر کی طرح دکھائی نہ پڑتی جو محض تفریح طبع کے لئے ایک مقام سے دوسری مقام تک عازم سفر ہو.دیگر مسافروں سے کچھ کریدنے پر اندازہ ہوا کہ ویگن کے راستے میں ایک بسکٹ فیکٹری ہے.جہاں صبح نو بجے سے چھ بجے تک شفٹ چلتی ہے.جہاں قوم کی یہ بہادر اور مجبور بیٹیاں ساڑھے چار ہزار سکہ رائج الوقت پر پیکنگ کے عمل سے وابستہ ہیں.ویگن کی اکثر سواریاں اور کنڈکٹر حضرات ان خواتین کو حتی المکان پرائیویسی فراہم کرنے کی کوشش کرتے مگر ڈھائی سو روزانہ دیہاڑی کرنے والے ویگن کے کنڈکٹر کے لئے ممکن نہ تھا کہ مذہبی اخلاقی جواز کو ڈھال بنا کے کسی محو سفر خاتون کی جسمانی اور روحانی تقدیس کی پامالی سے بچاؤ کے لئے اسے مردوں سے الگ کر کے تیس چالیس روپے کی سواری چھوڑ دیتا.یہ خواتین بھی صدیوں سے پڑھائے گئے شرم و حیا کے اخلاقی ضابطوں کو ویگن میں سوار ہونے سے پہلے دروازے پر اتار کر بیٹھتی تھیں کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ ایسا نہ کیا گیا تو کام پر دیر سے پہنچنے کے سبب کرایہ نکال کے بچنے والے پینتیس سو روپے بھی چھن جانے کا ڈر ہے جو ان کے بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کا عارضی آسرا بنے ہوئے ہیں.مردوں کے سراپوں کے مابین کسمساتی بار بار متاع جسم کو اجنبی نظروں اور ان چاہے لمس سے بچانے کی ناکام کوشش کرتی ان بنات حوا کی آنکھیں ہمیشہ ایک جیسے تاثر دیتی .کچھ ان حالات کی عادی ہو چکی تھیں اور اپنی روح بمعہ جسم اس تقدیر کے حوالے کر چکی تھیں جو انھیں شخصی آزادی کا بنیادی تصور بھی نہ دے پائی تھی.
اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ٹی وی پر ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا .سترہ سال کی ایک گڑیا آرام سے اپنی رام کہانی بیان کر رہی تھی جیسے کوئی چھوٹی سی بچی اسکول سے آنے  کے بعد اپنی ماں کو دن بھر کی روداد سناتی ہے.بتا رہی تھی کہ کیسے اس کے سفید پوش باپ کے انتقال کے بعد جب رشتہ داروں نے منہ موڑ لیا اور چھوٹے بہن بھائیوں کے فاقے کے دن دیکھے نہ جاتے تھے تو اس بیٹی نے ماں اور ماں جایوں کے دوزخ کا ایندھن بھرنے کے لئے دبئی میں ہمارے عربی دوستوں کو رقص کی سہولت بہم پہنچانی شروع کر دی.لڑکی کے بقول وہ صرف رقص سے پیسہ کماتی تھی اور مزید کسی مکروہ فعل میں ملوث نہ تھی.اس کے ساتھ بیٹھے ایک شخص جو غالبا کسی ثقافتی طائفے کا آرگنائزر تھا،نے بتایا کہ دس میں سے آٹھ خواتین اس کام کو معاشی مجبوریوں کے سبب اختیار کرتی ہیں.
میرے ایک دوست ہیں جنہوں نے ایک بار ذکر کیا کہ ان کے ایک پرانے دوست شدید مشکلات کا شکار ہیں.آغاز سے ہی ان دوست کا تعلق لوئر مڈل کلاس گھرانے سے تھا.پے در پے بیٹیوں کی پیدائش کے بعد ان کے حالات خراب تر ہوتے گئے.اب کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ گھر کا کرایہ نہیں دے پاتے اور کسی ورکشاپ کے ساتھ غیر استعمال شدہ گیراج میں رہائش رکھنی پڑ گئی ہے.بیٹیاں کسی نا کسی طرح پڑھ گئی تھیں اور ساری کم سے کم انٹر پاس ہیں.ایک بیٹی کو جہیز کی کمی کے باعث طلاق ہو چکی تھی اور وہ گیراج میں دوبارہ آ دھمکی تھی.باقی دو بیٹیاں ابھی غیر شادی شدہ ہیں.میرے دوست کے بقول وہ اپنے اس غریب دوست کی وقتاً فوقتاً مدد کرتا رہتا ہے.مگر وہ جانتا ہے کہ شدید گرمی اور سردی کے موسم میں ٹین کی عارضی دیواروں سے اپنی بیٹیوں کی عزت ڈھانپنامشکل کام ہے.ایسی زندگی گزرنے والی اولاد اس عقوبت خانے سے نکلنے کے لئے کسی غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث ہونے میں کتنی حق بجانب ہے.اس سوال کا جواب قارئین پر چھوڑتے ہیں.ہمارے دوست کے بقول ان صاحب کی بیٹیاں اب اخلاقی دائروں کو توڑ چکی ہیں اور اب اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی بارآواری کے لئے بکنے کو تیار ہیں.
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف کچھ خواتین کا معاملہ ہے جس کو کسی این جی او کے سرکردہ لوگوں کے حوالے سے حل کیا جا سکتا ہے.کیا فیس بک پہ چندہ جمع کر کے ایسی دختران کے آنسو پونچھے جا سکتے ہیں.کیا قلم کو گھسیٹ گھسیٹ کر لفظوں کو گھساتے رہنے سے  الله کی رحمت کی ان بوندوں کو پراگندہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے.اس معاشرے کی اس اجتماعی بے حیائی اور بے غیرتی کا کیا سدباب ہے جس کی مرتکب یہ خواتین نہیں بلکہ اس معاشرے کے شرفا ہیں۔
قدرت کی یہ تتلیاں پتنگوں کی مانند معاشرے کے ہر رخ پر بکھری جا بجا منتظر فردا ہیں.وہ کوئی بھی ہو سکتی ہیں.آپ کے گھر کام کرنے والی ماسی کی بیٹی جو آپ کے ساتھ فرش پر بیٹھ کرٹی وی ڈرامہ دیکھنے پہ مسرور نظر آتی ہے اور آپ کا ہر حکم بجا لاتی ہے،یا  پھرپرائیویٹ اسکول کی استانی جو ہر تنخواہ جہیز جوڑنے کے لئے سنبھالتی پھرتی ہے.سرف بیچنے والی ورکر جو موسم کی سختیوں سے بے نیاز آپ کا دروازہ کھٹکاتی رہتی ہے.گارمنٹ شاپ کی سیلز گرل جو منافع میں معمولی حصّہ کے لالچ میں آپ کی بیوی یا بہن کو مزید خریداری پر اکساتی پر امید نظروں سے دیکھتی ہے.آپ کے اگے ہاتھ پھیلاتی گیارہ بارہ سال کی بچی جس کی آنکھوں سے معصومیت رخصت ہو چکی ہے.یہ سب کردار آپ کے آس پاس ہیں.آپ روز ان سے ملتے ہیں.کیا کبھی ان کرداروں نے آپ پہ اثر ڈالا .کیا ان شبیہوں سے ٹپکتے نوکیلے سوالات نے آپ کے دل میں نشتر چبھوئے.
اس ملک کے صاحب اقتدار اور صاحب نظر لوگوں سے مجھے کوئی شکوہ نہیں.مجھے پروا نہیں کہ صبح شام مسجد کے دالانوں اور میڈیا کے ایوانوں میں تقدیس مشرق کے سبق رٹوانے والے ثنا خوان قوم کی بیٹیوں کی محنت اور عزت کا ارزاں مول لگاتے سرمایہ دار کی تعمیر کردہ مسجد میں اس کے سامنے اس نا انصافی کے خلاف بولنے پہ تیار نہیں.نا ہی مجھے یہ غم ہے کہ سینما گھروں کے پوسٹر پھاڑنے والی سیاسی مذہبی قیادت کو ایسی بچیوں کو چادر اور چاردیواری کا تحفظ دینے کا خیال تک نہیں جو بےکسی کی سولی پہ اپنا جسمانی استحصال کروانے پہ مجبور ہیں.نا ہی یہ کسک میرے دل میں انگارے جلاتی ہے کہ کہ ہر چلتی پھرتی ماڈل گرل کو دوپٹے چڑھانے کے لئے ہمہ وقت مستعد و تیار اخباری دانشورنسوانیت کی اس جبری پامالی پر دھیان نہیں دیتے۔ اس ملک کے صاحب اثر لوگ میرے اور آپ کے مکلف نہیں ہیں.وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو ان کا بنیادی کام ہے.مجھے شکوہ ہے تو آپ سے ہے.آپ جو ان الفاظ کو صفحہ قرطاس سےاپنی آنکھوں سے چن رہے ہیں.آپ جو دم سادھے،چپ بیٹھے محض ڈرائنگ روموں کی اٹکھیلیوں  سے جی بہلانے پہ مصر ہیں.آپ جو روایتی ملکی سیاست کی پہیلیوں کو کھولتے رہنے اور صراط مستقیم کے نسخے باٹنے سے فارغ نہیں ہو پاتے.آپ جو رجعتی دائرے توڑنے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ آپ کے حقیقی مسائل تو آپ کے گھر اور اہل و عیال کے اطراف گھوم پھر کر ختم ہو جاتے ہیں.باقی تو آپ کی علمی قابلیت ہے.آپ کی فکری موشگافیاں ہیں.آپ کے اونچے اونچے تجزیات و تبصرے ہیں.آپ کے پاس معاشرتی پابندیوں کو توڑ کر جسمانی اختلاط کی آزادی کی وکالت کرتی درجن بھر خواتین کی تنقید و تادیب کے لئے تو بہت وقت ہے مگر سماج کے جبر کے سبب اپنی حرمت کو داؤ پر لگاتی ان لاکھوں نازک آبگینوں کو بچانے کا کوئی کلیہ نہیں جو ہر وقت بھیڑیوں کے نرغے میں ہیں اور سلامتی کی طلبگار ہیں.وہ جو عزت نفس کے تاروں کو بکھرنے سے بچانے کے لئے کسی معجزے کے انتظار میں صدیاں بتا رہی ہیں۔
میرے پاس ان بچیوں کے لئے فی الحال کوئی خوشخبری نہیں ہے۔ ابھی کچھ دیر انھیں اسی طرح اس بدبودار معاشرے کا سامنا کرنا ہو گا.ابھی اس جہنم کے مٹ جانے کے دن قریب نہیں۔

About وقاص احمد 10 Articles
وقاص احمد پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ بچوں کے امراض میں پوسٹ گریجوایشن کر رہے ہیں۔ خود کو پاکستانی تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی اوسط مجموعی فہم کا نمائندہ خیال کرتے ہیں اور اسی حیثیت میں اظہار خیال کے قائل ہیں۔