نارنگ کی’ غالب شناسی‘: جدلیاتی فکر اور تکثیری شعریات

لکھاری کی تصویر
حنا جمشید

نارنگ کی’ غالب شناسی‘: جدلیاتی فکر اور تکثیری شعریات

از، حنا جمشید

کلامِ غالب کی شعریات اور وسیع ترلسانی تشکیلات اپنے عمیق اور دقیق معنیات کے باعث ہمیشہ سے شارحین اور ناقدین کے لئے کھوج کا محرک بنی رہی ہیں۔ہر دور میں کلامِ غالب کی شعری ساخت کو معانی کے مختلف لبادے پہنائے گئے۔ماضی سے لے کر اب تک غالب شناسی کی روایت میں ہر نیا شناور فکر و معانی کی نئی جہات کا تعیّن کرتا آیا ہے۔ کہنہ مشق تنقید ی روایات کویکسر ترک کر کے اظہار و معانی کے نئے پیمانوں سے شعریاتِ غالب کی قافیہ پیمائی کی گئی۔یہی نہیں بلکہ جدیدیت کے ڈول ڈال کر افتراقیت اورساخت و پرداخت کے پردے میں چھپے معنی کے طلسماتی تنوع کو کھینچ کے باہر نکالنے کی سعی بھی اس سے جدا نہیں۔معاصرینِ غالب،متقدمین ،متاخرین غرض جس نے بھی غالب کو سمجھا اپنے اپنے زاویے سے اپنی اپنی فکری بصیرت اور ذہنی استعدادکے مطابق سمجھا۔حالی،نظم طباطبائی، شوکت میرٹھی، حسرت موہانی، مولانا سہا، عبدالباری آسی، جوش ملسیانی، اثر لکھنوی، عبد الرحمٰن بجنوری ، خورشید الاسلام، احتشام حسین ، ظ۔انصاری، شمس الرحمٰن فاروقی سبھی نے اپنا اپنا غالب دریافت کیا۔اپنے اپنے انداز سے کلام پر رائے زنی اور تشریح و توضیح کی۔شارحین و ناقدین کے ہاں کلامِ غالب سے اخذ کردہ فکر و معنی کی کئی جہات ہیں۔نازک خیالی،ندرتِ مضامیں،معنی آفرینی،تنوع،فلسفہ ہائے زندگی غرض کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے دامن تہی کیا گیا ہو لیکن اسیرانِ غالب کی تشنگی ہنوز باقی ہے۔وہ غالب شناسی کا کوئی نہ کوئی پہلو،فکرِ غالب کی کوئی نہ کوئی جہت، معنی آفرینی کی کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے ہیں۔
بسا اوقات سوال پیدا ہوتا ہے غالب کی تخلیقی علویت میں تشکیلِ شعر کا عمل کن عوامل کے تابع ہے ؟یا غالب کے شعری قالب کی داخلی ساخت و لسانی تشکیلات کی فکری اساس کن راستوں سے ہو کر یہاں تک پہنچتی ہے؟نیزوہ کون سے عوامل ہیں جو غالب کے تخلیقی شعور کا حصّہ بنے نیز ان عوامل کے پس منظر میں کارفرما لاشعوری محرکات کا سبب کیا تھا ؟ان سوالوں کا جواب اور ان عوامل و محرکات کی تلاش و بسیار کی سعی دیگر ناقدین و شارحین کے ہاں بہت کم دیکھنے کو ملی ہے۔یا اگر کسی نے اس موضوعِ پر قلم اُٹھایا بھی ہے تو نہایت سرسری انداز میں وہ بھی ایسے کہ :
ع کیا بنے بات‘جہاں بات بنائے نہ بنے
عصرِ حاضر کے معروف محقق اور نقاد ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کا نام کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ دنیائے تنقید میں ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں نے ان کے مقام کا تعیّن خود ہی کر دیا ہے۔غالب شناسی کی روایت میں ان کی کتاب’’ غالب ،معنی آفرینی،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات‘‘کا محرک بھی غالب کے تخلیقی عمل کی وضاحت اور شعریاتِ غالب کی اساسی فکر کے شعوری ولا شعوری محرکات کی تلاش ہے ۔ انھوں نے اپنی محنت اور قابلیت سے اِن تشنہ سوالوں کا جواب دینے کی سعی کی ہے ۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ شعری تشکیلات میں غالب کی افتادِ ذہنی کو اِس خلقی خصوصیت کا لازمہ قرار دیتے ہیں جس کو غالب نے اکثر و بیشتر اضطراری طور پر استعمال کیا۔ وہ اشعارِ غالب میں تمثیل و کنایہ،رمز و ایماء،تشبیہ و استعارہ اور علامات کے ہیئتی لوازمات کی گہرائی سے جانچ کرتے ہیں اور غالب کے جدلیاتی ڈسکورس کی اہمیت کو آج کے پُر آشوب منظر نامے میں ابھارتے ہیں۔اُن کے نزدیک تخلیقی عمل ایک بھید بھرا رستہ ہے۔لکھتے ہیں:
’’تخلیقی عمل یوں بھی بھید بھرا رستہ ہے۔تنقید اس کی تھاہ لانے کا دعوی ٰ نہیں کر سکتی۔
فقط قرأت کی بنا پر رائے قائم کر سکتی ہے۔یعنی غالب کے ہاں کچھ نہ کچھ افتادِ ذہنی یا فکری
نہاد ایسی ہے جو غالب کے تخلیقی عمل کی خلقی خصوصیت کا لازمہ ہے۔[۱]
اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب شناسی کی روایت میں حالی سے معتبر حوالہ اور کوئی نہیں۔نارنگ بھی حالی کی لیاقت کو تسلیم کرتے ہوئے فکرِ حالی کے ثبات کی نظریاتی بنیادوں کو توسیع دیتے ہیں۔وہ غالب پرابتداء میں بیدل کے اثرات کے باعث اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ لا شعوری طور پر غالب کی جدلیاتی ذہنی ساخت ،افتاد اور بنیاد بیدل کے ساتھ ساتھ سبک ہندی سے بھی متاثر تھی۔لیکن تشکیلِ شعر کا عمل خالصتاََ غالب کے اپنے رنگ کا مظہر تھا ۔
نارنگ صرف طے شدہ سوالات کے جواب نہیں دیتے بلکہ اِس ضمن میں کئی نئے سوالات کو بھی جلا دیتے ہیں۔ مثلََا یہ بات اُن کے لئے بڑی حیران کُن ہے کہ ہندوستان کے تہذیبی وجدان اور ذہنی ساخت میں ایسا کیا ہے کہ ہر سیدھی بات بھی بل کھا کر نکلتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ غالب کے لاشعور کو بھی ہندوستان کے مخصوص تہذیبی وجدان سے متصل کرتے ہیں اور غالب کی ذہنی ساخت کے دیگر لاشعوری محرکات کی تلاش کرتے ہیں جو غالب کے تخلیقی عمل میں بھی شامل رہے ہوں۔غالب کی شعری تشکیلات اور لسانی محرکات کے حوالے سے اُٹھائے گئے سوالات کو انھوں نے اپنے دیباچے’’نطق کو سو ناز ہیں ترے لبِ اعجاز پر‘‘میں مزید نمایاں کیا ہے۔یہ دیباچہ کلامِ غالب کی فکری اساس اور معنویت کے داخلی اظہار کے حوالے سے خاصا اہم ہے۔ابتداء میں غالب کے سبکِ ہندی اور بیدل سے لاشعوری طور پر متاثر ہونے نیز جدلیاتِ غالب کی گردشِ رفتار کا اساسی محرک جاننے اور اس جیسے مزید سوالات کی تشفی کے لئے نارنگ نے اپنی کتاب کے دو ابواب مختص کئے ہیں۔’’دانشِ ہند اور جدلیاتِ نفی‘‘ اور ’’سبکِ ہندی کی روایت اور زیرِ زمیں تخلیقی جڑیں‘‘ جیسے ابواب ایسے کئی سوالات کا احاطہ کرتے ہیں اور ان کے جوابات فراہم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے نزدیک ہندوستاں کے جدلیاتِ نفی کے فکر و فلسفہ کا قدیم ترین سرا اُپنشدوں تک جا پہنچتا ہے ۔جو کہ ایک ماورائی فکر ہے اور جو بعد کے وجودی اور متصوفانہ پیرایوں میں روپ بدل کر منتقل ہوتی رہی ہے۔یوں نارنگ اس فکر کی نظریاتی بنیادوں کو بودھی فکر و فلسفہ میں بھی تلاش کرتے ہیں۔اپنے باب ’’بودھی فکر اور شونیتا‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ غالب کی شونیتا اور فکر کا سر چشمۂ فیضاں کہیں نہ کہیں ضروربودھی فکر سے جا کے ملتا ہے جس کا بنیادی کام تصوّرات کی کثافت کو دور کرنا ہے۔یہ اشیاء کی حقیقت کو دیکھنے کا ایک باطنی روّیہ تھا جو غالب کے شعور و لا شعور میں سرایت کر چکا تھا۔چونکہ غالب نے جن چیزوں اور خیالات سے سروکار رکھا وہ ماورائی نہیں ارضی تھے لہٰذا غالب کے ہاں آگہی بھی احساس کے ایک رویے کا نام ہے جو سراسر انسانی روّیہ ہے۔جس کا تعلق غالب کے دل و دماغ میں پنپنے والی جدلیات سے بھی ہے اور دیگر اُمورِ زندگی سے بھی۔
وہ غالب کے تشکیلِ شعر کے عمل کی گرہیں کھولتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح غالب کا تخلیقی عمل سے ادنیٰ سے ادنیٰ لفظ کو بھی فکر کے وسیع معانی پہنا دیتا ہے۔یوں غالب تخیّل کے چاک پر لفظ کو گھماتے جاتے ہیں اور اپنی مرضی کے معنوں میں مجسم کر دیتے ہیں۔اس سے ملتا جلتا کچھ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی کہا تھا کہ:
’’غالب کے اشعار کی بنت میں تشبیہ اور استعارے کے علاوہ تخیّلی ہیولوں
نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔بعض اوقات تو غالب آب و گِل کی دنیا سے اوپر اُٹھ
کرایک ایسا لطیف اور خیالی جہاں تعمیر کر لیتے ہیں جو شاید قدموں کی ہلکی سے ہلکی
چاپ کا بھی متحمل نہ ہو سکے۔‘‘[۲]
وہ غالب کے جدلیاتی ڈسکورس میں عامیانہ اعتقادات،رسومات،نظریے ،مسالک،معمولہ تصورات کو غالب کے ہاں معنی کی بندشوں میں پنہاں دکھاتے ہیں۔کلامِ غالب کے اردو متن کے معنیاتی تجزیے کے لئے انھوں نے اپنی کتاب کے چار ابواب مختص کئے ہیں۔انیس برس کی عمرسے ہوتے غالب کے فکری ارتقاء کو سمجھانے کے لئے انھوں نے خطوطِ غالب سے بتدریج نسخۂ حمیدیہ،نسخۂ یزدانی و گلِ رعنا کے حوالے سے بحث کی ہے۔اس مباحثے سے غالب کے ذہنی و جد لیاتی ارتقاء کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔نیز فکرِ غالب کے سفر کاتسلسل عبد الرحمٰن بجنوری کے قولِ محال سے ہوتا ہواہندوستانی فکر و فلسفہ،جدلیاتِ نفی،بودھی فکر،شونیتا،سبکِ ہندی اور بیدل سے لیکر آج کے منظر نامے تک واضح اور روشن ہو جاتا ہے۔یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جدلیاتِ غالب کا تقابلی مطالعہ مارکسی جدلیات،بودھی جدلیات اور متصوفانہ جدلیات کے تناظر میں بھی پیش کرتے ہیں۔
شعریاتِ غالب کو خاص کر غالب کی ذہنی ساخت،شونیتا،حرکات اور جدلیاتی وضع کے تناظر میں آخری ابواب میں بھر پور طریقے سے اجاگر کیاگیا ہے۔سب سے آخر میں خطوطِ غالب کے ذریعے سے غالب کی داخلی شخصیت کا مطالعہ اوراُس کی تخلیقی جوہریت کوابھارنے کی سعی کی گئی ہے۔جس سے غالب کی عمدہ تخلیقی شخصیت کا ایک اساسی خاکہ بنانے میں وہ کافی کامیاب رہے ہیں۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ شارحین و ناقدینِ غالب سے امکانی حد تک تو استفادہ ضرور کرتے ہیں لیکن اپنی ایک الگ رائے ضرور قائم رکھتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب شناسی کی روایت کو انھوں نے اپنی اس کتاب کے ذریعے جس طرح وسعت بخشی ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔لکھتے ہیں کہ:
’’غالب کی شعریات انحراف آزادی اور اجتہاد کی شعریات ہیں۔اس کا
وظیفہ تجسس تغیر اور تازگی ہے۔ اس کی جدلیاتی کشا کش عدم تیقن کی آگہی کو راہ اسی
لئے دیتی ہے کہ زندگی ایک متناقضہ ہے اور صداقت کا اجارہ کسی کے پاس نہیں۔‘‘[۲۷]
اُن کے نزدیک غالب کے ہاں افتراقی رشتوں کا تواتر بسا اوقات معنی کو التوا میں ڈال دیتا ہے۔گویا اس افتراقیت کے بل بوتے پر غالب کی جدلیاتی افتاد معنی پروری کے امکانات کو لا مختتم کر دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کلاسیکیت پسند، رومانویت پسند، ترقی پسند و جدیدیت پسند سبھی اس التوا سے اپنے اپنے معنی کشید کر لیتے ہیں۔اپنے ایرانی و تورانی پس منظر پر تفاخر کرنے والا غالب کا جدلیاتی اظہار آزادی پہ زور دیتا ہے۔وہ اپنے فلسفیانہ تہذیبی و ثقافتی وجدان کی عکاسی کرتا ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ غالب کے اس جدلیاتی ڈسکورس کو اکیسویں صدی کے تناظر میں سامنے لاتے ہیں جس میں علاقائیت کی بد ترین شکلیں، عصبیت،شدت پسندی و دہشت گردی،استعماریت اور تشدد کا اذیت ناک منظر نامہ شامل ہے۔ایسے میں وہ کلامِ غالب کی معنویت، اسکی فکری توسیع،بے لوثی،آزادگی و کشادگی اور وسیع المشربی سے استفادے کو صلائے عام قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ غالب کے اُن تخلیقی سگنی فائر کو سامنے لاتے ہیں جومعاشرے کی فرسودہ رسوم و قیود پر ضرب لگاتے ہیں ساتھ ساتھ اُن عقائد و مسالک کو بھی رد کرتے ہیں جن میں حقانیت پر زور دیا جائے۔اُن کے نزدیک انحراف، آزادی،تغیر و تازگی پہ منتج شعریاتِ غالب معاشرے میں نئے خیالات کی تخم ریزی کرتی ہیں۔یوں غالب کی جدلیاتی فکر اور تکثیری شعریات معنی کے نئے جہاں کا در وا کرتی ہیں۔
؂ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کیلئے

حوالہ جات
۱۔گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر،’’غالب معنی آفرینی،جدلیاتی وضع،شونیتااور شعریات‘‘،ساہتیہ اکیڈمی۲۰۱۳ء(ص۔۱۷)
۲۔وزیر آغا،ڈاکٹر،’’غالب کا ذوقِ تماشہ‘‘،اقبال اکادمی پاکستان،۱۹۹۷ء(ص۔۴۴)
۳۔گوپی چند نارنگ،’’غالب معنی آفرینی،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات‘‘(ص۔۲۷)

2 Comments

  1. Its scholistic writing about the new paradigm of Ghalib ,S poetry. Ghalib is extraordinary poet of life & cosmology. There are so many dimentions of Great poet. Interrogative style,satire,Dialogue,soliloque,similies & unique metaphors are the things that makes his poetry so lovely & readable. No doubt, Ghalib is prominant figure & legend of urdu poetry due to his unique diction .

Comments are closed.