احوال لاہور میں ’لوح ‘کی پذیرائی کا

مصنف کا نام
اورنگ زیب نیازی، صاحب مضمون

احوال لاہور میں ’لوح ‘کی پذیرائی کا

(اورنگ زیب نیازی)

شہر لاہور ہمیشہ سے ادبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔حالات جیسے بھی ہوں ،اس کی رونقیں آباد رہتی ہیں۔تقریبِ ملاقات کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آتی ہے۔آبادی کے بے تحاشا پھیلاؤ،بے ہنگم ٹریفک،فضائی آلودگی،ہر الیکشن سے پہلے سڑکوں کی توڑ پھوڑ اور آئے روز مال روڈ پر ہونے والے جلسے،جلوسوں ،احتجاجوں نے بس اتنا کیا کہ ہم ایسے سہل طلب لوگ آدھے گوشہ نشین ہو گئے۔آدھے اس لیے کہ اب بھی اگر تقریب خاص ہو،بلاوا خاص ہو،بلانے والے خاص ہوں تو جائے بغیر بنتی نہیں۔اس بار تقریب ’لوح‘ کی پذیرائی کی تھی،بلایا ممتاز شیخ نے تھا اور اہتمام اولڈ راویئنز ایسوسی ایشن نے کیا تھا۔ان تینوں سے ایک خاص دلی مناسبت ہے کہ ہم خود اولڈ راوین ہیں۔گورنمنٹ کالج سے جتنا عشق ممتاز شیخ کو ہے،اس سے کچھ کم ہمیں بھی نہیں اور ’لوح‘ کی پیشانی پر گورنمنٹ کالج کا امتیازی نشان ثبت ہوتا ہے۔سو رہا نہ گیا۔برادرم ڈاکٹر جواز جعفری کو گھر سے اٹھایا،اپنی گاڑی میں میں بٹھایا اور عین وقت مقررہ پر لبرٹی مارکیٹ کے نجی ہوٹل میں پہنچ گئے۔ہوٹل کی لابی میں ممتاز شیخ مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے بہ نفسِ نفیس موجود تھے۔ممتاز شیخ کھلے دل کے آدمی ہیں،انھوں نے کھلے بازؤں سے استقبال کیا۔یہ ان سے ہماری پہلی ملاقات تھی۔وہ فیس بک اور ٹیلی فون پر جتنے ملن سار،خوش اخلاق اور فراخ دل نظر آتے ہیں،حقیقت میں اس سے بڑھ کر ہیں۔ان سے مل کر بندہ سرشار ہو جاتا ہے۔یہ تقریب مخصوص اور محدود تھی،بس اتنی کہ تقریب کے لیے مختص ہال بھر گیا۔مہمانِ خصوصی جناب ایس۔ایم ظفر کے آتے ساتھ ہی تقریب کا آغاز ہو گیا۔اولڈ راویئنز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شہباز شیخ نے تعارفی کلمات کے بعد مائیک ڈاکٹر ابرار احمد کے حوالے کر دیا۔شومئی قسمت کہ ہماری نشست ان کے سامنے تھی۔ان کی نظر انتخاب ہم پر پڑی اور اظہارِ خیال کے لیے سب سے پہلے ہمارا نام پکاردیا۔ہم اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ہم نے ناراض نظروں سے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں ان سے شکوہ کیا کہ محبی دو منٹ پہلے اشارہ ہی کر دیتے،بندہ کچھ اچھے سے جملے ہی سوچ لیتا ہے۔خیر اب کیا ہو سکتا تھا،ڈاکٹر صاحب سے نیازمندی کا تعلق ہے،وہ جدید نظم کے نمایندہ اور ہمارے پسندیدہ شاعروں میں سے ہیں چناں چہ ا نکار کی مجال نہیں تھی۔ہم نے گورنمنٹ کالج سے اپنے تعلق خاطرکا ذکر کیا اور کہا کہ سوشل میڈیا کے غلبے میں یہ خطرہ تھا کہ ادبی رسائل کی روایت مکمل طور پر دم توڑ جائے گی مگر ’لوح ‘ کے اجراء نے فنون،نقوش اور اوراق کی روایت کو زندہ کردیا ہے۔کہنے کو تو ہمارے ہاں بیسیوں ادبی رسائل نکل رہے ہیں لیکن ان کا معیار دیکھیں تو لگتا ہے کہ ’قحط الرسائل‘ ہے۔اس انحطاط میں ’لوح‘ کا وجود غنیمت ہے۔قحط الرسائل والی ہماری یہ بات ہمارے ایک سینیئر دوست کو بہت بری لگی۔اپنی باری پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ہماری اس بات کو طنزیہ انداز میں یکسر رد کر دیا۔اور کراچی سے نکلنے والے ایک رسالے کی تعریف میں زمین آسمان کا قلابے ملائے کہ اگر وہ نہ ہوتا تو شاید اردو کی ادبی دنیا عالمی ادب کی الف ب سے بھی نا واقف رہتی۔ان کی خدمت میں مکرر عرض ہے کہ قحط الرسائل سے خاکسار کی مراد ہر گز یہ نہیں تھی کہ ’لوح‘ کے سوا اردو میں کوئی دوسرا معیاری پرچہ موجود نہیں۔مدعا یہ تھا کہ بیس کروڑ سے زاید آبادی والے ملک میں،جس کی قومی زبان بھی اردو ہے،اردو ادب کے معیاری رسائل کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔خود ہمارے یہ سینئر دوست اپنی گفتگو میں صرف تین رسائل کے نام لے سکے۔اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں رسائل بھی کسی حد تک کسی خاص نقطہء نظر کی نمایندگی کرتے ہیں۔’لوح‘ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔لوح نے اپنی اطراف کھلی رکھی ہیں۔آپ اس کی فہرست پر نظر دوڑائیں ،آپ کو ترقی پسندوں کے نام بھی نظر آئیں گے،روایت پسندوں کے بھی،جدیدیت پسندوں کے بھی اور مابعد جدیدیت سے دل چسپی رکھنے والوں کے بھی،اس میں ادب کے ساتھ فنون لطیفہ پر بھی وقیع تحریریں ملیں گی،سینئر شاعر ادیب بھی شامل ہوں گے اور مضافات کے غیر معروف اور نو آموز شاعر بھی۔یہاں لوح پر دو اعتراضات بھی سامنے آئے ایک حفظِ مراتب کے حوالے سے دوسرا نثری نظم کے حوالے سے۔ممتاز شیخ نے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے پتے کی بات کہی،ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے تمام سینیئر ادیب قابلِ احترام ہیں لیکن کسی تخلیق کو وہ مقام دیتا ہوں جو اس کا حق ہے۔نثری نظم کے حوالے سے ان کہنا تھا کہ میں نے نثری نظم اور عروضی نظم کو لوح کے ایک ہی حصے میں رکھتا ہوں کہ میری نظر میں نظم صرف نظم ہے،اس کا عروضی یا غیر عروضی ہونا اہمیت نہیں رکھتا۔انھوں نے اپنے زمانہ طالب علمی کی یادوں کو بھی تازہ کیا۔گورنمنٹ کالج سے ان کی شیفتگی کو دیکھ کر ایس۔ایم ظفر نے انھیںFundamentalist Ravian کا خطاب دیا۔اظہار خیال کرنے والے دیگر خواتین و حضرات میں عنبرین صلاح الدین،شائستہ نزہت،حمیدہ شاہین، امجد طفیل،ضیا ء الحسن،سعود عثمانی،قمر رضا شہزاد،جواز جعفری،باقی احمد پوری،حسین مجروح،اختر شمار،نجیب جمال،سعادت سعید،سرفراز احمد،امجد اسلام امجد ،صدیقہ بیگم اور ایس۔ایم ظفر شامل تھے۔اس تقریب میں ’بزرگ‘اولڈ راویئنز کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔غالباََ سب سے ’نئے‘اولڈ راوین ہم ہی تھے کیوں کہ ہم نے گورنمنٹ کالج کے آخری ایک دو برسوں میں وہاں سے تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد یہ ادارہ یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا اور پھر راوین اور غیر راوین کی تمیز بھی اُٹھ گئی۔رب دیاں بے پروائیاں تے کھوتے کھان مٹھائیاں۔