مرا جسم مجھ سے بغاوت پر آمادہ ہے : شہریار کی یاد میں

شہریار

(سرورالہدیٰ)
شہر یار کی چوتھی برسی پر انھیں یاد کرتے ہوے ان کی ایک نظم یاد ’افتاد‘ یاد آتی ہے۔
دیکھتے دیکھتے چپ ہو گئے سب
وہ بھی جو نیند کی شبنم میں نہا کر
کسی نا دیدہ حسیں شکل کے دیدار کی لذت میں بھجن گاتے تھے
وہ بھی جو آنکھوں کے طاقوں میں چراغاں کر کے
چیختے تھے، کبھی روتے کبھی ہنستے تھے
وہ بھی جو زخموں کے پھولوں میں لدے
آسمانوں کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوے کرتے تھے دعا
کیسی افتاد پڑی آخر شب
دیکھتے دیکھتے چپ ہو گئے سب
ستر کی دہائی میں اس نظم کا سفر شروع ہوا تھا جو بدستور جاری ہے۔ محمد حسن نے شہریار کی نظم کے بارے میں کہا تھا کہ یہ آخری مصرع سے شروع ہوتی ہے۔ ’’دیکھتے دیکھتے چپ ہوگئے سب‘‘ نظم کا اختتام بھی ہے اور آغاز بھی۔ شہریار کی ارادی معنویت کیا

Sarwarul Huda

تھی نظم اس سے بہت آگے نکل آئی ہے۔ نظم کی ساخت میں جو داخلی سناٹا ہے وہاں تک پہنچنے میں لمبی چوڑی تمہیدنہیں باندھی گئی ہے ۔ یہ چند آزاد مصرع انسانی زندگی کی تاریخ کو سمیٹ بھی لیتے ہیں۔ نیند کی شبنم میں نہاکر کسی نا دیدہ حسیں شکل کے دیدار کے لیے بھجن گانا ، آنکھوں کے طاقوں میں چراغاں کرکے رونااور ہنسنا زخموں کے پھولوں سے لدے لوگوں کا آسمانوں کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ایک تہذیبی زندگی کا استعارہ بن جاتا ہے ۔ ان میں زندگی کی حرارت بھی اور زندگی کی وحدت بھی ۔ آخر شب ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا بھی ایک استعاراتی جہت رکھتا ہے ۔ شہریار نے بڑی خاموشی کے کے ساتھ۔ کیسی افتاد پڑی ،آخر شب دیکھتے دیکھتے چپ ہو گئے سب ۔ آخری مصرعے کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ۔ متکلم کو بھی کسی افتاد کا سبب نہیں معلوم ، افتاد کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے چپ ہوگئے سب یہ مصرع ان تمام ویرانیوں اور اداسیوں کو سمیٹ لیتا ہے جو نئی نظم میں ایک اہم حوالے کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ فیض نے آخری شب کی ترکیب کو ایک خاص سیاق میں استعمال کیا ہے۔ اسے نظریانے کا عمل بھی کہا جا سکتا ہے ۔ ’’آخرشب کے ہمسفر فیض نہ جانے کیا ہوئے ‘‘ لیکن فیض کا یہ مصرع شہریار کی نظم کی فضا سے رشتہ قائم کر لیتا ہے ۔ ’’حمد باری کو اٹھا دست دعا آخر شب‘‘شہریار نے نظم افتاد کو نظریانے کی کوشش نہیں کی۔ صورت حال سب سے بڑی سچائی اور سب سے بڑا نظریہ ہے ۔ ایک ہوش مند قاری نظم کے آخری مصرعہ کی قرأت کے بعد ایک معنی میں قرأت کا دوبارہ آغاز کرتا ہے ۔ محمد حسن نے شہریار کی نظم کے بارے میں سوجھ سمجھ کر یہ راے دی تھی کہ شہریار کی نظم آخری مصرعے سے شروع ہوتی ہے ۔ شہریار کی شاعری میں رات کا عمل خاص تخلیقی سطح حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔ یہ عمل ان کی غزل میں بھی ہے اور انکی نظم میں بھی ۔ نئی شاعری کو رات اور اس کا سناٹا زیادہ راس آیا۔ اس لیے بھی کے داخل کا سناٹا رات کی خاموشی سے الگ نہیں تھا ۔ شہریار کی شاعری میں رات ، نیند،اور بیداری کی تثلیث فکری سطح پر دھند پیدا کرتی ہے ۔ یہ ایک ایسی انفرادیت ہے جو شہریار کو معاصرین سے ممتاز کرتی ہے ۔ وحید اختر نے ناصر کاظمی کو’’ شب بیدار‘‘ شاعر کہا تھا۔ شہریار کو شب بیدار اس معنی میں نہیں کہا جا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ شہریار کی بیداری رات کے دھندلکے میں زیادہ پُر اسرار بن جاتی ہے ۔ اور ایک المیہ کردار کو ابھارتی ہے ۔ رات شہریار کے یہاں ظلمت کا استعارہ بھی ہے ۔مگر اس نظم میں وہ اسرار نہیں ہے۔ نظم ’’رات‘‘ کو دیکھیے :
تمام سورجوں کو دفن کرکے اپنے ہاتھ سے
ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکے آن بان سے
وہ آرہی ہے آسماں سے اپنا جھنڈا پھلانگ کے
کہانیوں کے دیوتا بھی نہ رات کو ڈرا سکے
ایک نظم ’’رات، دن اور پھر رات‘‘ ہے جس میں رات کی طاقت کے سامنے ساری میں اشیا بے بس نظر آتی ہیں اس طرح دن رات کے مقابلے میں ہار جاتا ہے ۔
پھر کسی سخت شے سے ٹکرایا
اور پھررات ہر طرف ہی رات
شہریار کی ایک نظم ’’آخر شب‘‘ بھی ہے ۔ ’’اسم اعظم‘‘سے ’’شام ہونے والی ہے‘‘ تک شہریار کی شاعری میں رات نیند اور بیداری دیکھی جا سکتی ہے ۔ اسم اعظم کی ایک نظم ’’التجا‘‘ ہے ۔
کہاں ہو !کہاں ہو!
نئی صبح کی مہربان کرنو
مرا جسم مجھ سے بغاوت پر آمادہ ہے !
کانپتی ہے میری روح
آؤ بچاؤ
مجھے شب کے زنداں سے باہر نکالو
میں دن کے سمندر کی گہرائیاں ناپنا چاہتا ہوں
اسم اعظم کی کئی نظموں میں شاعر کا کردار کسی قافلہ کا حصہ بن کر ابھرتا ہے ۔اور اسے شب کی تاریکی کے بعد صبح کے اجالے کا انتظار ہے ۔ ان نظموں کو پڑھ کے فیض کے کچھ مصرعے یاد آتے ہیں ۔ شہریار نے ایسی نظموں میں بھی آواز کوپھٹنے نہیں دیا ہے۔ اس سلسلے کی ایک اہم نظم ’’ہم سفرو‘‘ ہے ۔ شہریار کی ان نظموں میں دو ایک مصرعے ایسے نکل آتے ہیں جو نظم کی ساخت کو حرکی بنانے کے ساتھ ساتھ اکہرے پن سے محفوظ رکھتے ہیں
پاؤں پڑتی ہیں جو صدائیں انہیں
سر پٹکتی ہیں جو ہوائیں انہیں
مڑ کے مت دیکھو ، مڑ کے مت دیکھو
دو قدم اور دور ہے کتنا
شب کے صحرا کسے صبح کادریا
شہریاراسم اعظم کی بعض نظموں کے زریعے شاعر نے قارئین کو یہ اطلاع فراہم کرادی تھی کہ وہ رات کو تحلیقی سطح پر وجودی تجربہ سے ہمکنار کرنے والا ہے ۔ اسم اعظم کا آہنگ ، وجودی فکر کو آفاقی آہنگ عطا کر دیتا ہے ۔ اسی آہنگ کو دیکھ کر شمس الرحمان فاروقی نے شہریار کے ایک مصرعے کو ان کی شاعری کا علامیہ بتایا تھا ۔ ’’یہ آنکھ کسی دور کے منظر کے لیے ہے ‘‘ اسم اعظم کی ایک نظم فریب در فریب اسی اطلاع کی مثال ہے جس طرف میں اشارہ کر چکا ہوں ۔
دن کے صحرا سے جب بنی جاں پر
ایک مبہم سا آسرا پاکر
ہم چلے آئے اس طرف
اور اب
رات کے ان اتھاہ دریا میں
خاک کی کشتیوں کو کھیتے ہیں
دن اور رات کے تھکا دینے والے تجربے کے بعد ان پانچ مصرعوں کی نظم کو پڑھیے تو ایک تازگی کا احساس ہوگا۔ یہاں نہ وصل کا دن ہے اور نہ ہجر کی طویل رات طویل ہوجا تی ہے ، دن پریشان کرتا ہے ۔ ایک مبہم سا آسراپاکرجیسا مصرع کہنے کے لیے شہریار بننا پڑے گا۔ جس نے اپنے تخلیقی تجربے کو کبھی خارجی جبر کا پابند نہیں بنایا۔ یہ مبہم آسرا کیا ہے ۔ ظاہر ہے دن کے بعد رات کو آنا ہے مگر شاعررات کے اس معمول کے عمل کو ایک نئی جہت سے ہمکنار کردیتا ہے ۔ ’’ہم چلے آئے اس طرف اور اب‘‘ سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے رات کوئی وقت نہیں بلکہ علاقہ ہو۔ آخری دو مصرعے محمد حسن کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں شہریار کی نظم آخری مصرعے سے شروع ہوتی ہے ۔ اس نظم کی رات کا سفر کہاں ختم ہوا ہے ۔ قاری جب بھی اسے پڑھے گا تورات کے اتھاہ دریا میں خوابوں کی کشتیوں کو دیکھے گا اور محسوس کرے گا ۔ ’’نظم خوابوں کا بھکاری‘‘میں بھی ذرا فرق کے ساتھ یہی تجربہ موجود ہے ۔ رات نیند اور بیداری کاجو سفر اسم اعظم سے شروع ہوا تھا وہ آگے چل کر زیادہ گھنااور گہراہوجاتا ہے ۔ اسم اعظم کی نیندبعض اوقات اتنی گہری ہوگئی ہے کہ متکلم اسے بھی خوف کی صورت میں دیکھتا ہے ۔ یہاں نیند کا سیلاب ہے جو داخلی سطح پر سب کچھ بہا لے جائے گا۔ اسم اعظم میں پلک جھپکنے کی کیفیت ابھرتی نہیں ہے یہ کیفیت بعد کے مجموعوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ اسم اعظم کی ایک اچھی نظم ’’لازوال سکوت‘‘جس پر شہری زندگی کا کلچر حاوی ہے اور ایک حساس شخص کا نا معلوم خوف بھی ۔
رات سب کے لیے یکساں نہیں ہوتی ۔ ہمارا سارامسئلہ محسوس کرنے کا ہے ۔ محسوسات کی سطح پر شہریار نے اس نظم کو جو اسلوب عطا کیا ہے وہ جدید نظم کانایک اہم حوالہ ہے ۔ بڑی بات یہ ہے کہ شہریار نے تجربہ کے اظہار میں غیر ضروری صناعی سے کام نہیں لیا اور نہ ہی اسے پیچیدہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ یہاں متکلم کا وجود اور فطرت ایک دوسرے سے الگ نہیں ۔ بلکہ فطرت متکلم کو اچانک خواب سے بیدار کردیتی ہے ۔ متکلم نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا وہ خواب کا حصہ تھا ۔
اور اس کے بعد آنکھ کھل گئی میں نے
سرہانے رکھے ہوئے تازہ روزنامہ کی
ہرایک سطر بڑی غور سے پڑھی لیکن
خبرکہیں بھی کسی ایسے حادثے کی نہ تھی
اور اس کے بعدمیں دیوانہ وار ہنسنے لگا
اور اس کے بعد ہر اک سمت لاز وال سکوت
اور اس کے بعد ہر اک سمت لاز وال سکوت
اختر الایمان نے ایک نظم ’’شیشے کا آدمی‘‘میں اخبار بینی کو جدید کلچر کا علامیہ بناکر اسے نام نہاددانش وری کا نام دیا۔ شہریار کی نظم اختر الایمان کے مقابلے میں اس لحاظ سے اہم ہے کہ روزنامہ جدید کلچر سے زیادہ متکلم کے داخلی تجربہ کا اظہار بن جاتاہے ۔ جدید حسیت کا ایک حوالہ روز نامے کی شکل میں اختر الایمان کے یہاں ہے اور دوسرا شہریار کے یہاں ۔ روزنامہ کی ہر سطر میں متکلم اپنے اس حادثے کی خبر دیکھنا چاہتا ہے جو خواب میں پیش آیا۔ روزنامہ تو خارجی دنیا کا ترجمان ہے ۔ متکلم کی اس متلاش نظرکوکئی معنی پہنائے جا سکتے ہیں۔ ’’اور اس کے بعد میں دیوانہ وار ہنسنے لگا ‘‘یہ مصرعہ نظم کو ایک اور جہت سے ہمکنار کر دیتا ہے ۔ شہریار نے نظم ’’پرچھائیاں ‘‘ میں بھی روزنامہ کو برتا ہے
رات کے بے کنار صحرا میں
اپنی تنہائیوں سے لڑتی ہوئی
زخمی روحوں کی پیاسے جسموں کی
ساری پرچھائیاں شہید ہوئیں
یہ خبر تازہ روزنامہ کے
کس ورق پر چھپی تھی یاد نہیں