تعلیمات: مذہبی اور دنیاوی نظام تعلیم کی بحث

تعلیمات: مذہبی اور دنیاوی نظام تعلیم کی بحث

از، ڈاکٹر فاروق خان

یہ مضمون ڈاکٹر فاروق خان کی کتاب ’’امتِ مسلمہ۔ کامیابی کا راستہ‘‘ کے ایک باب پر مشتمل ہے۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی نظامِ تعلیم پر سنجیدہ اور بے لاگ گفتگو دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مضمون کو ایک رائے کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کے مندرجات سے ادارہ ’’ایک روزن‘‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (مدیر)

————–

جمہوری کلچر کے بعد کسی بھی ملک کے حال، مستقبل اور ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہے۔ہمارے لیے دنیوی تعلیم ضروری ہے، اس لیے کہ اسی کے ذریعے ہم دوسری اقوام کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے لیے مذہبی تعلیم بھی ضروری ہے، اس لیے کہ یہ ہماری سوچ اور تہذیب کا مرکز ومحور ہے۔ قرآن مجید میں علم اور تعلیم کے الفاظ چار سو پچیس سے زیادہ مرتبہ آئے ہیں۔ چند ہی ایسے الفاظ ہوں گے جو اس سے زیادہ تعداد میں آئے ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دین تعلیم پر کتنا زیادہ زور دیتا ہے۔
اس وقت ترقی یافتہ صنعتی جمہوری ممالک میں تعلیم کی شرح سو فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سو فیصد لوگوں نے کم ازکم پہلے بارہ برس کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمان ممالک میں تعلیم کی شرح بلحاظ مجموعی چالیس فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان کے اندر بھی یہ شرح افسوس ناک حد تک کم ہے۔ واضح رہے کہ یہ جو چالیس فیصد کی شرح بتائی جاتی ہے، اس کا معیار یہ نہیں ہے کہ بارہ برس کی تعلیم مکمل کی جائے۔ بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ جو انسان بھی دستخط کرسکتا ہے اور اردو کے دوچار الفاظ پڑھ سکتا ہے، اسے تعلیم یافتہ مان لیا جاتا ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک کے معیار کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کے اندر تعلیم کی شرح دس فیصد سے زیادہ نہیں بنتی۔ اس صورت حال میں بھلا یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرسکیں گے۔
مغربی ممالک اور مسلمان ممالک کے درمیان تعلیم کا یہ فرق 1440ء میں شروع ہوا جب جرمنی میں گُٹن برگ نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا۔ اس ایجاد کے ساتھ ہی یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شائع ہونے لگیں اور اگلی دوتین صدیوں میں اسی فیصد(80%) سے زیادہ لوگ خواندہ ہوگئے۔ یہ چھاپہ خانہ ساڑھے تین سو برس کے بعد کہیں جاکر مسلمان دنیا میں اُس وقت پہنچا جب 1730ء میں ترکی میں پہلا پریس لگا۔ تاہم اُس وقت بھی پریس کو ایک شیطانی آلہ سمجھا جاتا تھا اور ترکی کے شیخ الاسلام نے یہ پابندی لگائی کہ پریس میں مذہبی کتابیں نہیں چھاپی جائیں گی۔

برصغیر ہندوپاک میں کسی مسلم حکمران نے تعلیم کو اپنی ترجیح نہیں بنایا۔ کچھ علماء نے اپنے بل بوتے پر مدارس قائم کیے، مگر ان کی تعداد اتنی کم تھی کہ اُن میں سے کسی کا ذکر نہیں کیا جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ مغل حکمرانوں کے دور میں محلات، مقبروں، یادگاروں، قلعوں اور باغات کی طرف تو بہت توجہ دی گئی اور یہ سب کارنامے تاریخی ریکارڈ میں محفوظ بھی ہیں، لیکن اس پورے دور میں کسی ایک تعلیمی ادارے کا نام بھی پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اُس زمانے کی تمام تر تعلیم افراد کی مرہونِ منت تھی۔ اُس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک عالم نجی طور پر کچھ شاگردوں کو پڑھاتا تھا اور پھر یہی شاگرد دوسرے لوگوں کو پڑھاتے تھے۔ اس طرح ہر مسجد ایک چھوٹے سے مدرسے کاکام بھی کرتی تھی۔ اس پورے زمانے میں صرف اورنگزیب عالمگیر کے وقت میں لکھنو میں’’فرنگی محل‘‘ نامی ایک مدرسے کا تذکرہ ملتا ہے جس کے ساتھ اورنگزیب نے اپنے عہدِ اقتدار کے اکتالیسویں برس میں کچھ مالی مدد کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ میں سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہزاروں کی تعداد میں بن رہی تھیں اور لاکھوں طلبہ اُس میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اسی تعلیم کی بدولت یورپ کو اُس زمانے میں پوری دنیا پر غلبہ ملا۔

مغلوں کے زمانے میں برصغیر کے اندر ساری تعلیم پرائیویٹ تھی اور عام طو رپر فارسی میں دی جاتی تھی۔ جب انگریز یہاں آئے تو ان کے لیے یہ ترجیح بن گئی کہ انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنادیا جائے، کیونکہ فارسی ان کی کچھ کام کی نہ تھی۔ اُس وقت مسلمانوں کے ہاں دومتوازی رویوں نے جنم دیا۔ ایک روئے کے بانی سرسید احمد خان تھے جنہوں نے یہ سوچا کہ مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ دوسرے روئے کے بانی مولانا محمد قاسم ناتوتوی تھے جنہوں نے یہ سوچا کہ مسلمانوں کے دین وایمان کو بچانے کے لیے مذہبی تعلیم انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1857ء میں جنگ آزادی کی ناکامی کے تقریباً بیس برس بعد ان دونوں بزرگوں نے اپنے اپنے خیال کو عملی جامہ پہنایا۔ سرسید نے علی گڑھ میں کالج قائم کیا اور مولانا محمد قاسم نے دیوبند میں دارالعلوم قائم کیا۔ ان دونوں اداروں کی دیکھا دیکھی مزید بہت سے ادارے وجود میں آگئے۔ آج کے سارے عام تعلیمی ادارے دراصل سرسید ہی کے نقش قدم کی پیروی میں بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح آج پاکستان میں موجود اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ دینی ادارے دیوبند تحریک ہی کے زیراثر وجود میں آئے ہیں۔ چنانچہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم تعلیم کے ان دونوں نظاموں کا تنقیدی جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ ان دونوں کے مثبت اور منفی نکات کیا ہیں۔

پاکستان کے اندر موجود تعلیمی ادارے تین واضح گروپوں میں تقسیم ہیں۔ پہلے گروپ میں سرکاری انتظام کے تحت چلنے والے سکول اور کالج شامل ہیں جن میں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ دوسرے گروپ میں کم فیسوں والے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے لیکن اساتذہ کی قابلیت محض واجبی ہے۔ تیسرے گروپ میں زیادہ فیسوں والے تعلیمی ادارے آجاتے ہیں جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے اور جہاں پڑھائی کا معیار اچھا ہے۔ یہ تینوں گروپ پاکستان کی سوسائٹی کو تین معاشرتی اور کلچرل رویوں میں تقسیم کررہے ہیں۔ یہ تقسیم تقریباً ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ تقسیم طبقاتی بنیادوں پر بھی اور تہذیبی بنیادوں پر بھی ہے۔ کسی بھی قوم کے یک جان اور یک رنگ ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا ایک ہی نظام تعلیم ہو، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے، چنانچہ یہ خلیج روزبروز گہری ہوتی چلی جارہی ہے اور بسا اوقات یہ ایک طرف احساسِ محرومی اور نفرت میں ڈھل جاتی ہے اور دوسری طرف اس کا ظہور احساسِ برتری اور غرور کی شکل نکلتا ہے۔ اس نظامِ تعلیم کی دوسری خامی یہ ہے کہ اس میں سارا زور رٹّے (cramming)پر دیا جاتا ہے اور طالب علم کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس سے طلبہ کی تخلیقی صلاحتیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں شاذونادر ہی ہی کوئی اعلیٰ پائے کا سائنس دان وجودمیں آیا ہے۔ اس نظامِ تعلیم کی تیسری خامی یہ ہے کہ اس میں ایک طالب علم کی بحیثیت مسلمان دینی ضروریات کی فراہمی کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔ پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک گھسے پھٹے انداز میں اسلامیات کا مضمون اس طریقے سے پڑھایا جاتا ہے کہ بس ایک رسم پوری ہوجائے۔ اس سے ایک طالب علم کو نہ تو قرآن و سنت سے صحیح واقفیت حاصل ہوتی ہے اور نہ اس کو ان سوالات کا جواب ملتا ہے جو اس کے گردوپیش میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ درج بالا تینوں خامیوں کی وجہ سے ہمارا دنیوی نظامِ تعلیم طلبہ اور طالبات کو اعلیٰ پائے کے انسان اور مسلمان نہیں بنا سکا۔

یہی حال ہمارے مذہبی نظامِ تعلیم کا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ نظام فرقہ بندی اور مسلکی بنیاد پر قائم ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور اہلِ تشیع کے سارے ادارے خالصتاً مسلکی بنیادوں پر قائم ہیں۔ ان میں سے ہر مسلک کے علیحدہ امتیازی نشانات، لباس، نماز پڑھنے کا طریقہ اور معاشرتی روئے ہیں۔ کسی بھی دینی طالب علم یا اساتذہ کے لباس کو دیکھ کر باآسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا تعلق کس فرقے سے ہے۔ ہر ادارے کے اندر سارے اساتذہ کا تعلق اسی خاص مسلک سے ہوتا ہے۔ چنانچہ جب ایک طالب علم آٹھ برس کسی ایک دینی درس گاہ میں گزار دیتا ہے تو مسلک پرستی پر مبنی سوچ اور روئے اس کے ذہن میں پوری طرح راسخ ہوچکے ہوتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مسلک والوں کو ایک عینک سے دیکھتا ہے اور دوسرے مسالک کو کسی اور عینک سے دیکھتا ہے۔ گویا یہ مدارس ہمارے ملک کے دینی طلبہ کو پانچ ناقابلِ عبور حصوں میں تقسیم کررہے ہیں۔ ان مدارس کی دوسری خامی یہ ہے کہ ان میں داخل ہونے والے طالب علم کو عام طور پر اپنے پورے ماحول سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ کئی مدارس میں بچوں کو بالکل ابتدائی عمر سے ہی لے لیا جاتا ہے۔ ایسے اداروں میں عام دنیوی تعلیم یا تو سرے سے دے ہی نہیں جاتی۔ اور اگر دی بھی جاتی ہے تو طالب علم کو اپنے پورے ماحول میں کاٹ دیا جاتا ہے۔ بعض اداروں میں آٹھویں جماعت یا میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو لے لیا جاتا ہے، چونکہ وہاں بھی ان کو اپنے ماحول سے مکمل طور پر کاٹ دیا جاتا ہے، اس لیے یہ لوگ سوسائٹی کے اندر ایک بالکل علیحدہ طبقہ بن جاتے ہیں۔ اس نظام تعلیم کی تیسری خامی یہ ہے کہ اس میں حقیقی دینی تعلیم بہت کم دی جاتی ہے۔ آٹھ برس کے پورے دور میں قرآن مجید کی تعلیم کو پانچ فیصد وقت بھی نہیں دیا جاتا۔ اِس وقت مدارس میں قرآن مجید کی دینی تفاسیر میں صرف ایک تفسیر ’’جلالین‘‘ پڑھائی جاتی ہے جو انتہائی مختصر تفسیر ہے۔ اس کے تفسیری فقرے خود قرآن کریم کے فقروں سے بھی کم ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اداروں میں بیضاوی کاپہلا پارہ بھی پڑھا یا جاتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دینی مدرسے کی ابتدا بھی قرآن مجید سے ہوتی۔ اس کے سارے نصاب کو قرآن مجید کے گرد گھومنا چاہیے تھا۔

کسی دینی مدرسے میں آٹھ برس تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کو قرآن مجید کے چند فقہی احکام کی تفصیل کے علاوہ مزید کسی مضمون سے کوئی آگہی نہیں ہوتی۔ نہ اُسے تقابلِ ادیان پڑھایا جاتا ہے، نہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا فکرو فلسفہ کیا ہے، اسلامی دعوت کیا ہے، اس دعوت کے پھیلانے کے اصول کیا ہیں۔ اسی طرح اس میں غیر مسلموں سے تعلق اور قتال وغیرہ کے قوانین بھی کبھی زیر بحث نہیں آتے۔ قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ اہمیت حدیث کو ملنی چاہیے، تاکہ طالب علم میں یہ صلاحیت بیدار ہوجائے کہ وہ حدیث کے سارے ذخیرے کو قرآن کی روشنی میں تحقیقی نظر کے ساتھ دیکھ سکے۔ لیکن اس کے برعکس دینی مدارس میں صرف ان احادیث پر زیادہ وقت صرف کیا جاتا ہے جن کا تعلق اختلافات سے ہوتا ہے اور اس ساری بحث میں مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنے مسلک کو برحق ثابت کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح حدیث کی تعلیم قطعاً تسلی بخش نہیں ہوسکتی۔ دینی اداروں کے طلبہ کا آدھے سے زیادہ وقت ان مضامین کے مطالعے میں صرف ہوتا ہے جن کا دین سے کوئی کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے اور جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ بھی آج سے کئی سو برس پہلے کی تحریر کردہ ہیں، جن میں دی گئی مثالوں کا آج کے دور سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔ مثلاً فقہ کی اکثر کتابوں میں ہر دوسری مثال غلاموں اور لونڈیوں سے متعلق ہے، کیونکہ یہ کتابیں ایسے دور میں لکھی گئی تھی جس دور میں سب سے بڑی تجارت غلاموں اور لونڈیوں کی ہوتی تھی۔ درج بالا تین بڑی خامیوں کی وجہ سے پاکستان کے مذہبی اداروں کو درحقیقت مسلکی ادارے کہنا چاہیے جن کا سارا زور دراصل اپنے مسلک کو برحق ثابت کرنے پر ہوتا ہے۔

گویا پاکستان کے اندر تعلیم کے ضمن میں دو بڑی تقسیمیں تو ایسی ہیں جو سوسائٹی کے اندر ناقابلِ عبور فاصلے پیدا کررہی ہیں اور سوسائٹی کو Water tight Compartments میں تقسیم کررہی ہیں۔ اور اگر ساری تقسیموں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی سوسائٹی اپنے نظام ہائے تعلیم کی وجہ سے کم ازکم آٹھ طبقات میں تقسیم ہورہی ہے۔ ایسے طبقات جن کے ہاں ایک دوسرے کے لیے محبت واتفاق کم ہے اور نفرت وتفریق زیادہ۔ اس نظامِ تعلیم کی وجہ سے نہ تو ہم ترقی یافتہ دنیا کے ہم پلہ بن سکتے ہیں اور نہ ہم اچھے انسان اور اچھے مسلمان بن سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر ایک ہی نظامِ تعلیم ہو جو طلبہ وطالبات کی صلاحیت کو بیدار کرے اوروہ اپنے اپنے شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کے علاوہ اچھے انسان اور مسلمان بھی بن سکیں۔

چنانچہ اس تجزئے کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم کی بہتری کے لیے کون سے بنیادی نکات ہونے چاہئیں۔ اس راقم کے نزدیک سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ دینی ودنیوی نظام ہائے تعلیم کی تفریق اور اسی طرح دنیوی تعلیمی اداروں کے اندر تعلیمی نصابِ کے فرق کو ختم کردیا جائے۔ پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک کی تعلیم کا نصابِ سب کے لیے یکساں ہوں۔ یہ تعلیم مفت اور لازمی ہو۔ اگر کوئی ادارہ اس نصابِ تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی پڑھانا چاہے تو اس پرکوئی پابندی نہ ہو، تاہم یکساں نصابِ تعلیم سب کے لیے لازم ہونا چاہیے۔ اگرچہ یہ بہت بڑا قدم ہے، لیکن صرف اسی طریقے سے ہم اپنے ملک کے باشندوں کو مختلف طبقات اور گروہوں میں تقسیم ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بارہویں جماعت کے بعد جس طرح ایک طالب علم میڈیکل یا انجنےئرنگ کی تعلیم کے لیے کسی درس گاہ میں جاتا ہے، بالکل اسی طرح ایک طالب علم دینی علوم کی درس گاہ میں جائے۔ وہاں چاربرس کی تعلیم کے بعد اسے بیچلرز کی ڈگری دی جائے، اور پھر اگر وہ چاہے تو کسی بھی دینی شعبے میں تخصیص حاصل کرنے کے لیے ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی میں داخلہ لے سکتا ہے۔ اس طرح ہمارے ملک میں دین کے ایسے جید علماء پیدا ہوں گے جو دین ودنیا دونوں پر عبور رکھتے ہوں گے اور یوں عوام وخواص کی بہتر رہنمائی کرسکیں گے۔ اس راقم کی یہ بھی تجویز ہے کہ باقی سب مضامین مثلاً اردو، تاریخ اور کیمسٹری وغیرہ کے لیے بھی ایف۔اے، ایف۔ایس۔سی کے فوراً بعد اختصاصی تعلیم شروع کردی جائے تاکہ ایک طالب علم اپنے میدان میں چار برس گزارنے کے بعد اس کاحقیقی عالم بن سکے۔ اس طرح موجودہ بی۔اے اور بی۔ ایس۔سی لیول کا خاتمہ ہوجائے گا۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بالکل ابتداہی سے سب معاشرتی مضامین کی تعلیم اردو میں ہو، سائنسی مضامین کی تعلیم انگریزی میں ہو اور پہلے دن سے ہی قرآن مجید کے عربی الفاظ طالب علم کو ذہن نشین کروانے شروع کردیے جائیں۔ اس طرح ایک طالب علم پہلے دن سے ہی اردو، انگریزی اور قرآنی عربی کو ایک ساتھ پڑھ سکے گا۔ جو صوبے ضرورت محسوس کریں وہ اپنے حالات کے مطابق پہلی چھ جماعتوں تک صوبائی یا کسی مقامی زبان کی تدریس بھی لازمی قرار دے سکتے ہیں۔

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ سائنسی تعلیم کا نصاب بالکل وہی ہونا چاہیے جو اس وقت سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے، لیکن صرف اسی طریقے سے ہم ترقی یافتہ اقوام کے ہم پلہ بن سکتے ہیں۔

پانچوں نکتہ یہ ہے کہ صرف ایف اے اور ایف ایس سی کے لیول پر وفاقی امتحان لیا جائے۔ یہ امتحان ترقی یافتہ ملکوں کے امتحان کی طرز پر ہو اور اس کے لیے پرائیویٹ اداروں کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ بدعنوانی کم سے کم ہوسکے۔

چھٹا نکتہ یہ ہے کہ ہماری پوری تعلیم کی۷۸ اسلامی تشکیل ہونی چاہیے۔ یہ نکتہ تفصیل طلب ہے۔ اس ضمن میں اس راقم نے 1998ء میں ایک مضمون لکھا تھا۔ یہاں وہی مضمون نقل کیا جارہا ہے۔

’’تعلیم کی اسلامی تشکیل          ابتدائی سے اعلیٰ ثانوی تک‘‘
تعلیمی حکمت عملی                 پرائمری، ثانوی اور اعلیٰ سطح پر۔

تعلیم کی اسلامائزیشن میں ہمارا بنیادی مطمح نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ ایک طالب علم باعمل اور باکردار مسلمان بن جائے۔ وہ دین کی بنیادی باتوں سے واقف ہو۔ وہ حقوق اللہ اورحقوق العباد کی بجاآوری کو اپنا فرض اولین سمجھے اور یہ سب سبق اسے ساری زندگی یاد ہو۔

اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا اب تک کا نصابِ تعلیم اور طریقہ تعلیم اس ضمن میں ناکام رہا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ آج ایک عام تعلیم یافتہ انسان اسلامی علم اور عمل دونوں میں کسی مثالی کاکردگی کا حامل نہیں۔ وہ کسی کے سامنے دین کی دعوت پیش نہیں کرسکتا۔ آج کے سلگتے مسائل میں وہ دین کا نقطہ نظر دلیل کے ساتھ پیش نہیں کرسکتا۔ حقوق العباد اس کی نظر میں چنداں اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ ایک ہوش مند اور باشعور شہری کا کردار ادا نہیں کررہا۔ یہی وجہ ہے کہ اجتماعی اخلاقیات کے ضمن میں آج ہمارا معاشرہ نہ صرف معیارِ مطلوب سے نیچے ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا کے کمزور ترین معاشروں میں شامل ہے تو یہ بھی غلط نہ ہوگا۔

میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے نصابِ تعلیم میں قرآن مجید کو بنیادی حیثیت نہیں دی۔ حالانکہ یہی کتاب معیارِ حق وباطل ہے۔ یہی کتابِ ہدایت ہے۔ یہ فرقان، میزان اور مہیمن ہے۔ یہی ہمارے عقیدہ اور عمل کا محافظ ہے۔ یہی راہ راست کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ یہ احسن الحدیث یعنی بہترین کلام اور عمدہ ترین بات ہے۔ یہ امرو حکم ہے۔ یہ بصائر ہے، یہ بلاغ ہے، یہ بیان ہے، یہ بینہ ہے، یہ حکمت ہے، صدق ہے، مبارک ہے اور مبین ہے۔ اسی کتاب میں ہمیں تفکر، تدبر اور تعقل سے کام لینا ہے۔ ہمیں اسی کتاب کی پیروی کرنی ہے۔ اسی کتاب کے ذریعے ہمیں سب لوگوں تک دین کی دعوت پہنچانی ہے اور اسی کتاب کے ذریعے ایک دوسرے کو یاد دہانی کرانی ہے۔

آج کے حالات کے حوالے سے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اسی کتاب کا فہم وسیع النظری پیدا کرتا ہے، اتحاد و اتفاق پیدا کرتا ہے، فرقہ بندی سے بچاتا ہے، اچھائیوں کو ابھارتا ہے، برائیوں کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے، ہر میدان میں آگے بڑھنے پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور جذباتیت کی راہ پر چلنے کے بجائے عقل وحکمت اور گفتگو ومباحثہ کی ذہنیت کو ابھارتا ہے۔ اسی کتاب کا صحیح شعور ہمیں اعلیٰ ترین انسانی قدریں سکھاتا ہے۔ لاریب یہی آج کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اور اسی پر ہمارے قومی کردار کے ارتقاء کا دارومدار ہے۔

چنانچہ میری بنیادی تجویز یہ ہے کہ پرائمری سے لے کر ثانوی اور اعلیٰ ترین سطح تک، گویا ہر لیول پر اسی کتاب کے سیکھنے اور سمجھنے کو تعلیم کا مرکز ومحور بنایا جائے۔ ہمارے نظام کا اصل الاصول یہی ہونا چاہیے۔’’العلم‘‘ تو قرآن مجید ہی ہے۔ باقی سب علوم ’’القوۃ‘‘ ہیں، جن کا سیکھنا بھی قرآن مجید ہی کی رو سے لازم ہے۔ اسلامی علوم کا نصاب قرآن مجید سے شروع ہو اور اسی پر اس کا اختتام ہو۔ رسول اللہؐ کے جو فرامین، اسی قرآن مجید کے اتباع میں صحیح احادیث کی شکل میں موجود ہیں، انہیں بھی اس نصاب میں اس طرح سمویا جائے جس طرح ہار میں نگینے جڑے ہوتے ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم اس طریقہ پر دی جائے جس سے طالب علم بوجھ محسوس نہ کرے۔ وہ کنفیوز نہ ہو۔ بلکہ یہ اس کے لیے نہایت آسان اور خوشگوار ہو۔ یہ تعلیم اس کے لیے خوشی کا باعث ہو اور یہ اسے ہمیشہ یاد رہے۔ چنانچہ اس ضمن میں دو اُمور نہایت اہم ہیں۔ ایک یہ کہ اصل زور قرآن مجید کے لفظی ترجمے اور رواں ترجمے پر دیا جائے۔ ہمارا مطمح نظریہ ہونا چاہیے کہ ایف۔ اے (F.A) تک پہنچتے پہنچتے ایک طالب علم کو قرآن کے تمام دوہزار الفاظ کا لفظی اور رواں ترجمہ آنا چاہیے۔ اوراعلیٰ ثانوی سطح کے اختتام تک اسے اس قابل ہونا چاہیے کہ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کرے تو وہ اس کے لفظی ورواں ترجمے کو بخوبی جانتا ہو۔ ہر موضوع کی ابتدا وانتہا قرآن مجید کی آیاتِ بینات ہی کے ذریعے ہو۔ دوسرا یہ کہ ایف۔اے کی سطح تک طالب علم کو عربی زبان اور عربی گرائمر پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید کے لفظی اور رواں ترجمے کے دوران میں ہی طالب علم خود بخود قرآنی فقروں کی ساخت اور اس کی گرائمر سے واقف ہوجاتا ہے۔ قرآنی عربی نہایت آسان اور قرآنی عربی کا گرائمر نہایت مختصر ہے۔ جب کہ عربی بحیثیتِ زبان بہرحال ایک مشکل اور اس کا گرائمر کافی پیچیدہ ہے۔ عربی زبان کا علیحدہ مضمون اور اس کے گرائمر کو ذہن نشین کراتے کراتے توجہ قرآن مجید سے ہٹ کر اُن فنی امور کی طرف ہوجاتی ہے۔ جب کہ ہمارا مقصد تو یہ ہے کہ طالب علم کی توجہ قرآن مجید سے ہٹنے نہ پائے۔

درج بالا امور کو مدنظر رکھتے ہوئے عملی نصاب کا خاکہ کچھ اس طرح بنے گا۔
پہلی جماعت: قرآن مجید کی دس منتخب آسان ترین آیات یا ان کے ٹکڑے اور ان کا لفظی ورواں ترجمہ مثلاً

’’رب زدنی علما‘‘

O۔دوسر ی جماعت: قرآن مجید کی پندرہ آسان آیات یا ٹکڑے اور ان کا لفظی ورواں ترجمہ
O۔تیسری جماعت: قرآن مجید کی منتخب بیس آیات یا ٹکڑے اور ان کا لفظی ورواں ترجمہ
O۔چوتھی جماعت سے ساتویں جماعت تک: قرآن مجید کی منتخب بیس آیات یا ٹکڑے اور ان کا لفظی ورواں ترجمہ
O۔آٹھویں جماعت: پچاس آیات اور ان کا لفظی ترجمہ
O۔نویں جماعت سے بارہویں جماعت تک: قرآن مجید کی منتخب سوآیات یا ٹکڑے اور ان کا لفظی ورواں ترجمہ
ہر کلاس میں پچھلی تمام کلاسوں کی آیات دہرائی جائیں۔ امتحان میں موجودہ کلاس اور پچھلی کلاسوں کا لفظی ترجمہ اور رواں ترجمہ پوچھا جائے۔ ان تمام آیات کو موضوعات کے تحت رکھا جائے اور موضوع کے تحت کوئی مضمون نگاری نہ ہو بلکہ صرف آیاتِ قرآنی ہوں۔ مثلاً جھوٹ کے موضوع پر کوئی مضمون نہ ہو بلکہ اس موضوع کے تحت صرف متعلقہ آیاتِ قرآنی درج ہوں۔ امتحان میں بھی کوئی مضمون لکھنے کو نہ کہا جائے۔
اس طرح ایف۔اے، ایف۔ایس۔سی کے لیول تک پہنچتے پہنچتے ایک طالب علم کم ازکم سو آیات کا لفظی ورواں ترجمہ سیکھ چکا ہوگا۔
آٹھویں جماعت اور اس کے بعد ہر کلاس میں دس صحیح احادیث بھی نصاب میں شامل کی جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں بجا طور پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ ایک طالب علم کو تو اس کے علاوہ بھی دین کی بہت سی باتیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً وضو اور نماز کا طریقہ، مختلف آداب اور حضورؐ کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات۔ یہ بات صحیح ہے۔ جہاں تک عملی امور کا تعلق ہے۔ ان کو تحریری کورس میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔ وضو اور نماز کا طریقہ ایک طالب علم گھر میں سیکھتا ہے۔ اور استاد بھی اس کی یاددہانی کراسکتا ہے۔ یہی صورت مختلف آداب وشعائر کی ہے۔ البتہ سیرت النبیؐ کے عنوان کے تحت ہر کلاس میں منتخب اور ایک دوسرے سے مربوط مواد کا رکھا جانا لازم ہے۔ میری ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اسلامیات کے پیریڈ میں ایک حصہ زبانی بھی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ استاد کلاس کے اندر انبیاء وصلحاء کے قصے، صحابہ کرامؓ کے واقعات، امت مسلمہ کے پچھلے چودہ سو برس کی تاریخ کے منتخب حصے، امت کے اہم ترین علماء، فقہاء،محدثین، فلسفیوں، سائنس دانوں، جرنیلوں اور حکماء کے حالاتِ زندگی طلبہ کو سنائے۔ طلبہ کے لیے اس کی کتاب بھی موجود ہو۔ مگر اس کا کوئی امتحان نہ لیا جائے تاکہ یہ طلبہ پر بوجھ نہ بنے۔ البتہ ان کی یاد دہانی کے لیے کوئز کمپی ٹیشن کلاس کے اندر بکثرت کروائے جائیں، اور کامیاب طلبہ کو انعامات دیے جائیں۔ اس طرح کی چیزوں میں طلبہ زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور یہ بچوں کو اپنے کورس کی چیزوں سے زیادہ اچھی طرح یاد رہتی ہیں۔ اس زبانی نصاب کے نتیجے میں ایف۔ اے، ایف، ایس۔ سی تک پہنچتے پہنچتے ایک طالب علم اسلامی تہذیب وتاریخ کے بہت سے عملی ونظریاتی پہلوؤں سے واقفیت حاصل کرچکا ہوگا۔
مختصراً یہ بتاتا بھی مناسب ہے کہ موجودہ اسلامیات وعربی کے نصاب میں کیا کمزوری ہے۔ اس کی بنیادی کمزوری تو یہ ہے کہ اس میں ابتدا سے مرکزومحور قرآن مجید کو نہیں بنایا گیا۔ اس کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ نیا نصاب طلبہ کی استعداد سے بہت اونچا ہے۔ اس میں طلبہ کو وہ عربی سکھانے کی کوشش کی گئی ہے جو نہ تو قرآنی عربی کے سیکھنے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے نہ ہی وہ آئندہ کبھی طلبہ کے کام آنے کی توقع ہے۔ پھر اس میں جماعت ششم سے سورۃ بقرہ کا رواں ترجمہ رکھا گیا ہے اور جماعت ہفتم میں سورۃ آل عمران کا رواں ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔حالاں کہ یہ طلبہ کی عمر اور استعداد سے کہیں اونچا ہے۔ اس عمر میں تو طلبہ کو وہ منتخب آیات سکھانے کی ضرورت ہے جن کا تعلق عقیدہ وعمل کی سادہ شکل سے ہو۔ یہی صورتِ حال جماعت نہم ودہم کے نصاب کی ہے۔ جن میں سورۃ انفال، توبہ، احزاب اور ممتحنہ کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔یہ بھی قرآن کی مشکل ترین سورتیں ہیں۔ البتہ اس کتاب کا حصۂ حدیث وحصۂ موضوعاتی مطالعہ قابل تعریف ہے۔
چنانچہ راقم الحروف کی پیش کردہ تجویز سے ثانوی سطح تک اسلامیات وعربی کا نصاب مختصر مگر جامع ہوجائے گا اور طالب علم پر بوجھ بنے بغیر اس کی ذہنی وعملی تربیت میں ممدوثابت ہوگا۔ اس کو قرآن مجید کے وہ تمام حصے زبانی یاد ہوں گے اور لفظی ورواں ترجمے کے ساتھ یاد ہوں گے جن کا تعلق اس کی عملی زندگی سے ہے۔
اب اس کے بعد اعلیٰ ثانوی سطح کی باری آجاتی ہے۔ یعنی ایم۔اے لیول اور پیشہ ورانہ کالج مثلاً میڈیکل، انجنےئرنگ اور کامرس کالج وغیرہ۔ راقم کے خیال میں یہی وہ سطح اور عمر ہے جس میں طالب علم کو چار سال کے اندر پورا قرآن مجید، لفظی اور رواں ترجمے کے ساتھ الحمدسے الناس تک پڑھایا چاہیے۔ اس کے لیے کسی خصوصی کتاب کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔(اس راقم نے اس مقصد کے لیے ’’آسان ترین ترجمہ وتفسیر قرآن‘‘ تحریر کی ہے)۔ پورے قرآن مجید کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ چار سالوں میں اس کا مطالعہ پاےۂ تکمیل کو پہنچ سکے۔ اعلیٰ ثانوی سطح پر قرآن مجید کا مکمل مطالعہ ہر کلاس میں اور ہر کالج میں لازم ہو۔ طالب علم کوئی بھی مضمون پڑھ رہا ہو مثلاً انگریزی، فلسفہ، تاریخ یاکیمسٹری خواہ وہ میڈیکل کا طالب علم ہو یا کامرس کالج کا، یہ مطالعہ اس کے لیے لازم ہے۔ اس کی کلاس میں حاضری دوسری کلاسوں جتنی لازم ہو اور پرچے میں پاس ہوناڈگری لینے کے لیے لازم ہو۔ راقم یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ یہ کام فوری طور پر شروع کیا جائے۔ اس کے لیے کسی خاص تیاری کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے اساتذہ کی بھی کوئی کمی نہیں۔ یوں تو عربی واسلامیات کے ماسٹر ڈگری رکھنے والے افراد بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ مگر ان کے علاوہ بھی ملک میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو قرآن کو لفظی ترجمہ کے ساتھ بخوبی پڑھا سکتے ہیں۔ اگر اساتذہ کی کمی ہو تو ایسے افراد کو ٹسٹ سے بھی گزارا جاسکتا ہے۔ ہر کالج میں ایسی لائبریری کا قیام عمل میں لانا چاہیے جہاں اسلامی موضوعات پر کتابیں اورقرآن مجید کی تفاسیر موجود ہوں تاکہ جس طالب علم کے ذہن میں مطالعہ قرآن کے وقت کوئی سوال آئے، وہ اپنے استاد کی رہنمائی میں اس لائبریری میں اپنے سوال کا جواب تلاش کر سکے۔ اس طرح طلبہ میں دین کے مطالعے کا رجحان پیدا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعلیٰ ثانوی سطح ہی کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس سطح پر عربی واسلامیات کی پروفیشنل تعلیم کیسے دی جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں موجودہ تعلیم غیر تسلی بخش ہے۔ ایم۔ اے اسلامیات کو اسلام پر کوئی عبور حاصل نہیں ہوتا اور ایم۔ اے عربی اس زبان میں نہ گفتگو کرسکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔ راقم کی تجویز یہ ہے کہ میڈیکل اور انجنےئرنگ کالج کی طرز پر خالص پروفیشنل انداز میں ایف۔اے، ایف ایس سی کے بعد ہر صوبہ میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سائنسز ہو۔ اس میں داخلہ مقابلہ کے امتحان کی بنیاد پر ہوں۔ اس انسٹی ٹیوٹ کا مطمح نظریہ ہو کہ اس میں چار سالہ تعلیم کے بعد جو فرد فارغ التحصیل ہو وہ اسلام پر پورا عبور رکھتا ہو۔ عربی اور انگریزی میں دین کو سمجھنے اور سمجھانے پر قادر ہو۔ اس میں اجتہادی بصیرت آجائے۔ مقابلہ کے اعلیٰ امتحان میں بیٹھ کر زندگی کے ہر شعبے میں جاسکے۔ وہ دین کے مختلف شعبوں میں تحقیق و مہارت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو۔ غرض یہ کہ یہی ڈگری سب سے بڑھ کر قابلِ عزت اور باعثِ فخر ہو۔ اس درس گاہ میں چالیس فیصد وقت براہ راست قرآن مجید کے گہرے مطالعے کو دیا جائے۔ تیس فیصد وقت حدیث، فقہ، صرف ونحو، عربی ادب اور اُن مروجہ علوم کو دیا جائے جو کہ آج کل دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان علوم کی تدریس بلواسطہ طور پر قرآن مجید کے تحقیقی مطالعہ کے دوران میں بھی ہوتی رہے گی۔ تیس فیصد وقت انگریزی اور دوسرے عصری علوم، جن سے دین کے ایک طالب علم کا آشنا ہونا ضروری ہے مثلاً معیشت، سیاست، جدید فلسفہ، نفسیات، تاریخ مسلمین، تاریخِ افکار وعلومِ اسلامی کو دیا جائے۔ یہی دینی علوم کی تحقیقی درس گاہ ہوگی۔اس درس گاہ سے جو لوگ تیار ہوکر نکلیں گے وہ معاشرے کے ہر فرد وہر ادارے کی دینی رہنمائی کاکام انجام دے سکیں گے۔ آج کی طرح نہیں کہ علماء کی دنیا الگ ہے اور عام انسان کی الگ۔ یہی ادارے فرقہ بندی کا خاتمہ کریں گے اور وسیع النظری پیدا کریں گے۔ ان اداروں کے قیام کے بعد موجودہ دینی مدارس خود بخود اُن کی تقلید کریں گے۔ اس طرح ایک حقیقی تبدیلی عمل میں آسکے گی۔
اعلیٰ ثانوی سطح پر راقم کی یہ بھی تجویز ہے کہ مقابلے کے تمام امتحانات میں ایک لازمی پرچے کا اضافہ کردیا جائے جو قرآن مجید کے لفظی اور رواں ترجمے پر مشتمل ہو۔ راقم الحروف توقع رکھتا ہے کہ ان تجاویز پر مشتمل نصاب اور طریقہ تعلیم ایک طالب علم کوباعمل وباکردار مسلمان بنانے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔