ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ: دو پاؤں والے گدھوں کی بڑھتی تعداد

دو پاؤں والے گدھوں کی بڑھتی تعداد

دو پاؤں والے گدھوں کی بڑھتی تعداد

(تقی سید)

امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وہ نعرہ ہے جو ہماری سیاسی و سماجی زندگی میں سال ہا سال تک گونجتا رہا ہے اور آج بھی اسکی صدائے  باز گشت سنائی پڑتی ہیں۔ بات ہی کچھ ایسی ہے۔ وہ لوگ جو کبھی سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے، چھوٹے موٹے کاروبار کرتے پھرتے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے امیر کبیر اور لاکھوں اور کروڑوں میں کھیلنے گے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے دفاتر فلک بوس عمارتوں میں تبدیل ہو گئے۔ تنگ و تاریک گھر خوبصورت کوٹھیاں اور بنگلے بن گئے۔ نت نئی ماڈل کی جھلکتی کاریں رکاب میں آئیں۔ عشرت کدے ان کے دم سے آباد ہوئے۔ دن عید اور رات شب برات ہوئی ہے
دوسری طرف عوام غربت اور افلاس کے دلدل میں دھنستے گئے۔ مہنگائی کے بوجھ سے دبتے گئے۔ آمدنی کم اخراجات بڑھتے گئے۔ گھروں کا اجالا دھندلاتا گیا۔ دکھ اور بیماریوں کے سائے پھیلتے گئے۔ زندگی عذاب اور مستقبل تاریک سے تاریک ہوتا گیا۔ چھیننے والوں نے ان سے زندگی کا ہر سکھ چین چھین لیا۔ انھیں زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا۔

جن محنت کشوں نے فیکٹریوں اور کارخانوں میں اطلس و کمخواب تیار کیا وہ ستر پوشی کو ترستے رہے۔ جنہوں نے فلک بوس عمارتیں تیار کیں ان کی راتیں بارش اور سردی میں فٹ پاتھوں پر بسر ہوئیں۔ جنہوں نے بنگلوں اور کوٹھیوں میں چراغاں کیا وہ اندھیری کوٹھریوں اور کھولیوں میں دم تو ڑہے ہیں۔ یہی وہ معاشی ناہمواریاں اور تضاد ہے جس کی بدولت انسانی حقوق کو غصب کیا جا رہا ہے۔

صاحب مضمون: تقی سید
صاحب مضمون: تقی سید

اسی تناظر میں پاکستانی سماج پر نظر دوڑائی جائے تو یہی تلخ حقیقتیں آشکار ہوتی ہیں۔ مگر سیاسی رہنماؤں کے بیانات میں اکثر سننے کو ملتا ہے کے پاکستان ہر پہلو سے مستحکم و خوشحال ہوتا جا رہا ہے۔ خاکی آقاؤں کے محلات سے آواز آتی ہے کہ پاکستان اب ناقابل تسخیر ریاست ہے۔ کوئی پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر باننے کا خواب دیکھ رہا ہے تو کوئی اس گھسے پٹے پاکستان کی مرمت کر کے نیا پاکستان بنانے کا راگ الاپ رہا ہے۔ ہر طرف ترقی و خوشحالی کے گیت گئے جا رہے ہیں۔

اسے بھی ملاحظہ کیجئے: دور جدید کے چار پاؤں والے سیاسی پسو

لیکن دوسرے تناظر میں نظر دوڑائیے تو عجیب متضاد دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ کے سماج اپنی حیثیت میں بکھرتا جا رہا ہے، ریاست کمزور اور مختلف مسلح گروہ مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ذاتی مفادات کے حصول کےلیے جائز و ناجائز ذرائع سے دوسروں کے حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ سٹریٹ کرائمز نے قانون، ریاست اور سماج کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ دفاعی اداروں سے تحفظ کے بجائے خوف آتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن ہی نہیں نا اہلی کا راج قائم ہو چکا ہے۔ معاشرے میں اعتماد کے فقدان سے لے کر رویوں میں متشدد انداز اپنا رنگ جما رہے ہیں۔ معاشرہ اجتماعی جدوجہد اور اجتماعی مفادات کے حصول کے بجائے اپنی ذات میں گم ہونے کے رجحان میں دھنسا جا رہا ہے۔ دوسرے کو قائل کرنے یا مکالمے کی بجائے دوسرے کو زیر کرنا بڑھتا جا رہا ہے۔ سیاسی و سماجی دونوں حوالوں سے لوگ اکٹھے ہونے کی بجائے بکھرتے جا رہے ہیں۔ مظاہر تو ہر روز برپا ہو رہے ہیں لیکن سماج میں منظم سیاسی تحریک کا تصور ماند پڑ گیا ہے- قانون کے احترام کو اپنی توہین تصور کیا جانے لگا ہے۔

مگر اس حقیقت سے بھی آگاہ ہو جانا چاہئے سماج کے بکھرنے کا عمل بھی ریاست کے بکھرنے سے جڑا ہوا ہے اور پاکستانی سماج کے بکھرنے کا عمل ریاست کے بکھرنے سے کہیں تیز رفتار ہے۔ ریاستیں بکھرتی ہیں تو دوبارہ بن جاتی ہیں لیکن اگر سماج بکھر جائیں تو ان کا دوبارہ بننا ایک مشکل اور طویل المدت عمل ہے۔

آج خود کو بہترین قوم اور اُمت مسلمہ کی قیادت کا نعرہ لگانے والی قوم سیاسی و سماجی اور اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہے۔ بڑی قومیں اپنے عالمی کرداروں سے نہیں بلکہ اپنے قومی کرداروں سے بنتی ہیں۔ ہماری بقاء اور ترقی میں امریکہ، چین، ترکی، سعودی عرب یا کوئی بھی دوسرا ملک کوئی کردار ادا نہیں کرے گا۔ ایک طرف دوسرں پر انحصار اور پھر دوسروں کی قیادت کے دعوے کتنا کھلا تضاد ہے۔ آجکل واویلا ہو رہا ہے کے لوگوں کو حرام گوشت فراہم کیا جاتا ہے۔

مجھے تعجب ہوتا ہے ایسے لوگوں پر جو دوسروں کی جائز ضروریات پر قابض ہو کر انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہیں۔ آج رشوت اور حرام کمائی سے حلال گوشت کا متلاشی معاشرہ، شراب اور خنزیر کا گوشت کھانے سے اجتناب کرنے والا معاشرہ، لوگوں کے حقوق سلب کر کے، بیواؤں کے مکانوں اور دوسروں کی جائیدادوں پر قبضہ کر کے عمرے کرنے اور قربانیاں کرنے والا سماج حلال گوشت کا متلاشی ہے۔

ایسے معاشرے کے لوگ بینکوں میں زکوٰۃ کی کٹوتی پر اپنا مسلک بدل لیتے ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں حقوق العباد ثانوی حثیت رکھتے ہوں۔ جہاں قربانی کے جانور غریب کی کنواری بیٹی سے زیادہ اہمیت رکھتا ہوں تو ایسی قربانی بھی الله کی راہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔

:ابن انشاء درست نشاندہی کرتے ہیں کہ

گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ چار پاؤں والے، دو پاؤں والے۔سینگ ان میں سے کسی کے سر پر نہیں ہوتے۔ آج کل چار پاؤں والے گدھوں کی نسل گھٹ رہی ہے۔ دو پاؤں والوں کی بڑھ رہی ہے۔