دور جدید کے چار پاؤں والے سیاسی پسو

دور جدید کے چار پاؤں والے سیاسی پسو

 سیاسی پسو کی نئی اشکال

(ملک تنویر احمد)

ہندوؤں کی مذہبی کتاب رگ وید میں متعد د بار دو پاؤں اور چار پاؤں والے پسوؤں کا ذکر کیا گیا ہے (پسو سنسکرت میں اس جانور کو کہتے ہیں جس کو رسی سے باندھا جاتا ہے)۔ چار پاؤں والے پسوؤں سے مراد وہ مقامی لوگ تھے جنہیں قبل از مسیح میں آریوں نے بر صغیر پر حملہ آور ہو کر اپنا غلا م (داس ) بنایا تھا۔ آریوں کے حملہ آور ہونے کے بعد اس خطے میں ایک نئے سماجی نظام کی بنیاد پڑی جس میں ذات پات اور چھوت چھات کے کلچر کو رواج دیا گیا تھا۔

رگ وید کے بقول یہ چار پاؤں والے پسو اپنے مالکوں کی مذہبی رسومات میں شرکت کر سکتے تھے اور نہ ہی انہیں ہتھیار لگانے کی اجازت تھی۔ آریہ قبیلے ہر قسم کا نیچ کام ان داسوں سے لیتے تھے۔ اس تفریق کے باوجود بھی یہ غلام الگ تھلگ نہیں رہتے تھے بلکہ اپنے مالکوں کی خدمت کے لئے ہمہ وقت مستعد اور چوکس رہتے تھے۔

قبل از مسیح کے ان داسوں کی نسل کیا معدوم ہو گئی؟ تو اس کا جواب یقینی طور پر یہی ہوگا کہ جسمانی طور پر یہ نسل تاریخ کے کوڑے دان میں جا کر معدوم ہو چکی ہے لیکن ان کی ارواح پاکستانی سیاست میں ان داسوں کے اندر حلول ہو چکی ہے جو اپنے مالکوں کی خدمت بجا لاتے ہوئے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔اس داس نسل کا تازہ ترین نمونہ نہال ہاشمی کی صورت میں جلوہ گر ہو کر اپنے سیاسی آقا کے لئے قربان ہو چکا ہے۔

رگ وید میں جن داسوں کو چار پاؤں والوں پسوؤں سے تشبیہ دی گئی ہے وہ آج پاکستان کے سیاسی کلچر میں درجنوں کے حساب سے اپنی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔ یہ چار پاؤں والے پسو ہر سیاسی جماعت کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں۔ نہال ہاشمی تو فقط تازہ ترین واردات ہے جس میں وہ اپنے سیاسی آقا کی سیاسی بقا کے لئے قربانی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

عدالت عظمیٰ نے بجا طور پر استفسا رکیا کہ نہال ہاشمی کے پس پردہ کون بول رہا ہے؟ یہ یقینی طور پر ان کے وہی سیاسی آقا ہیں جن کی گردن پانامہ لیکس کے کیس میں جکڑی گئی تو وہ طعن و تشنیع اور دھونس و دھمکی کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ اگر ہماری قومی یاداشت مضحمل نہ ہو چکی ہو تو ہمیں یاد ہونا چاہئے کہ مشاہد اللہ خان کا ایک داس ایسی قربانی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے جہاں ان کے آقاؤں کے د ماغ میں ایک مقتدر ادارے کے خلاف ’’گل فشانی‘ ‘ کا جنوں سمایا تو جھٹ سے مشاہد اللہ نامی داس کو اس حکم کی بجا آور ی لانے کی ہدایت دی گئی تھی۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ، دو پاؤں والے گدھوں کی بڑھتی تعداد

مشاہد اللہ نامی یہ داس اپنی ساری فہم و فراست کو یکسر بھلا کر اس داس کی طرح بن گیا جس کے دل و دماغ میں فقط اپنے آقا پر قربان ہونے جذبات بھرے ہوئے تھے۔ ڈان لیکس کا قضیہ پرانا نہیں ہے۔ یہ ماضی قریب کا حادثہ ہے جب پرویز رشید نامی داس اپنے سیاسی آقا کی خوشنودی کی خاطر قربانی کی بھنیٹ چڑھ گیا۔

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحب مضمون

شگفتہ کلامی، ذہانت اور فہم و فراست کے وہ سارے سوتے اس وقت پرویز رشید نامی داس کے جسم میں خشک ہو گئے جب اسے قربانی ہوجانے کا حکم ملا۔ پرویز رشید نامی یہ داس بغیر کسی لیت و لیل کے اپنے سیاسی آقا کے اشارہ ابرو پر اپنے سیاسی کیر ئیر کو نچھاور کر بیٹھا۔اس ڈان لیکس میں فقط پرویز رشید کی قربانی سے ان کے سیاسی آقاؤں کی پیاس نہ بجھی بلکہ طارق فاطمی نام کا ایک مرنجاں مرنج بھی اپنے سر کو تیغ کے نیچے دے کر اپنے سیاسی آقا کی جانب داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا کہ ’’حضور میری قربانی قبول فرمائیے‘‘۔ اور اب نہال ہاشمی اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے اپنے آپ کو قربانی کی بھینٹ چڑھا کر سرشار ہو چکا ہے۔

یہ سیاسی داس فقط نواز لیگ تک ہی محدو د نہیں ہیں۔ پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی عقل و فراست سے نابلد ایسے داس درجنوں کے حساب سے موجود ہیں۔ پی پی پی کا گزشتہ دور حکومت ہی لیجیے جب یوسف رضا گیلانی نامی ایک سیاسی داس اپنے سیاسی آقا کی حکم کی بجا آوری لاتے ہوئے وزار ت عظمیٰ جیسے منصب جلیلہ سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو سیاسی طور پر نا اہل کروا بیٹھا۔ تحریک انصاف کو بھی اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ اپنے سیاسی آقا نے جو حکم دیا اس کی بجا آور ی کے لئے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر قربان ہونے کے لئے تیار ہے۔

جب تحریک انصاف کے سربراہ عجب نوعیت کے فیصلے صادر کرتے ہیں تو کسی سیاسی داس کو جرات نہیں ہوتی کہ وہ ان کے اختلاف کی جرات کر سکے۔پاکستان کا سیاسی کلچر اس وقت ان سیاسی داسوں کی بھرمار کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس سیاسی کلچر میں یہ سیاسی داس اپنے آقا کے منظور نظر بننے کے لئے ہر نوع کی خدمت بجا لانے کے لئے آمادہ بہ ہوتے ہیں۔

رگ وید کے چار پاؤں والے پسوؤں کی طرح ان کے سیاسی آقا ان کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اور ان کی پیٹھ بھی ٹھونکتے رہتے ہیں تاکہ قربانی کے وقت یہ بلا چون و چراں اس پر قربان ہو جائے لیکن ان میں سے کسی کی قسمت میں یہ نہیں لکھا کہ وہ کبھی ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت کے سب سے عہدے پر فائز ہو جائے۔سیاسی جماعتوں کی سربراہی فقط اس آقا اور اس کے خانوادے تک ہی محدود رکھی جاتی ہے۔

کسی سیاسی داس کی یہ جرات نہیں کہ وہ کبھی ان نام نہاد انتخابات میں سربراہ کے عہدے کے لئے کاغذات نامزدگی تک جمع کر ا سکے ۔ ایک ڈھونگ رچایا جاتا ہے جس میں نام نہاداتفاق رائے سے سیاسی آقا کے سر پر سربراہی کا تاج سجا دیا جاتا ہے اور یہ سیاسی داس اسے اپنی جماعت میں جمہوریت کے لئے ایک اہم سنگ میل سمجھ کا تالیاں پیٹتے ہیں۔

رگ وید میں مذکور آریہ آقا ہر نوع کا نیچ کام ان داسوں سے لیتے ہیں۔ آج کے سیاسی آقا بھی اس نوع کے کام ان سیاسی داسوں سے لیتے ہیں جس میں اپنے خاندان کی پھنسی ہوئی گردن کی جان خلاصی کے لئے کبھی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے اراکین کے خلاف بیان دلوائے جائیں یا پھر ان عدالتوں کو دھونس دھمکیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جائے۔

ان کاموں کے لئے سیاسی داس ہمہ وقت مستعد و تیار ہیں فقط آقا کے اشارہ ابرو کا انتظار ہے کہ کشتوں کے پشتے لگا دیں۔اب ایسے چار پاؤں والے پسوؤں کی موجودگی میں جمہوریت بلوغت کی منزلیں پھلانگنے کی بجائے بانجھ پن کا شکار ہو کر ہرجانب سے طنز کی نشتر کھانے پر ہی مجبور ہو گی