سیاسی دائی mid wife کے گناہ اور سیاست دان

Yasser Chttha

سیاسی دائی mid wife کے گناہ اور سیاست دان

از، یاسر چٹھہ

جو سیاست دان فوج کے سہارے آتے ہیں، ہمیں ان کی بابت تھوڑی نرمی برتنے کی ضرورت ہے۔ جب ملک میں مِڈ وائف ہی ایک ہے تو اصِیل کہاں سے آئیں، کیا آسمان سے گریں؟

آسمان والوں کو فیض آباد میں ہزار ہزار روپیہ ٹے اے travelling allowance ہاتھ تھما، دائی نے اور پاکستانی عوام نے چھوٹی انگلی دکھا کر رب راکھا کہہ بھیجا۔ اب ان کی ہانڈی تب چڑھائی جائے گی، جب عمران خان کہیں گے:

My name is Khan, and I’m not a traitor and corrupt

پرانے پیپلیئوں کی طرح صرف جنرل ضیاء کی باقیات کو ہی مطعون نہیں جاننا چاہیے۔ اسی طرح اب عمران خان کے بارے میں بھی ہاتھ ہولا کر لینا چاہیے۔

مسلم لیگ ن، مشرف کے خالص اور باجوہ کے دو نمبر دو عدد مارشل لاؤں کو بھگت چکی ہے؛ باجوہ کو بھگت بھی رہی ہے۔

پیپلز پارٹی ایوب و یحییٰ سے ٹُکڑا لے چکی ہے، ضیاء سے قتل ہو چکی ہے، مشرف کو پیٹریاٹ ہِبہ کر چکی ہے۔ باجوہ کے سامنے “چپ ہی بھلی سائیں” کہہ کر گزارا چلا رہی ہے۔

پی ٹی آئی کی احتشام ضمیر صاحب سے ڈِیل اور دال نہیں گلی تھی۔ عہدِ باجوہ میں “ادارے” کے پاس آپشن ہی کوئی نہیں تھا۔ عادت اور خارش تو تھی ہے، کوئی اتحادی چاہیے تھا۔


مزید دیکھیے: سیاسی روحانیت کا سفر

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا عاشقانہ سیاسی کردار


عمران خان نے مسلسل محنت سے معتقدین followers کی مقدور بھر تعداد جمع کر لی تھی۔ فضا پیدا ہو چکی تھی، فرشتے گردُوں سے کیوں نا اترتے؟ بہ ہر حال خان آزاد ہوں گے؛ آخر وہ ووٹ لے کر آئے ہیں۔ دیر ہو سکتی ہے، اندھیر نہیں۔

ہم بھی اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش کریں۔

ہمارے حقِ انتخاب اور اظہار رائے کے دشمن سیاسی انجینئرز ہیں، کوئی بھی سیاست دان نہیں۔

پس تحریر: میرے خیال اور لِکھتیں سب کے لیے نہیں ہوتیں، لہٰذا نا تو کسی کو ٹیگ کرتا ہوں اور نا ہی وٹس ایپ کرتا ہوں۔ تبصرہ کرتے وقت آپے سے باہر ہونے کا تکلف مت کیجیے گا۔

اور ہاں مجھے کبھی معتدل یا نیوٹرل نا سمجھیے، شدید بُرا لگتا ہے۔ اپنی توقعات کو سدھارنا آپ کی اپنی ذمے داری ہے!

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔