سیاسی روحانیت کا سفر

Masoom Rizvi
معصوم رضوی

سیاسی روحانیت کا سفر

از، معصوم رضوی

روحانیات کا سلسلہ قدیم مگر سیاست کی تاریخ بھی کچھ کم پرانی نہیں، بڑے بڑے جلیل القدر بادشاہ آستانوں کے فقیر بنتے رہے۔ قسطنطنیہ کو استنبول میں تبدیل کرنے والا سلطان محمد فاتح بھی لشکر جنگ میں پیر کامل کو ساتھ لے کر گیا تھا اور ہدایت کے موجب تہجد پڑھ کر حملہ آور ہوا۔ عظیم المرتبت عباسی خلفا شیخ عبدالقادر الجیلانی کی درگاہ پر حاضر ہوا کرتے تھے۔

تاریخ کے جھروکوں میں کبھی ظل الہٰی شہنشاہ جلال الدین اکبر فتح پور سیکری میں برہنہ سر، ننگے پاؤں سلیم الدین چشتی سے وارث کے لیے دعا کرواتا نظر آتا ہے تو کہیں محمود غزنوی شیخ ابوالحسن خرقانی کی چوکھٹ پر حاضری دیتا ہے تو کبھی شہاب الدین غوری حضرت معین الدین چشتی کی ہدایت پر ہندوستان فتح کرتا ہے۔ اب نہ وہ بادشاہ رہے نہ آستانے مگر روحانیات اور سیاست کہاں ایک دوسرے سے ملے تاریخ خاموش ہے ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں آج بھی یہ جڑواں بہنیں ہم سفر ہیں۔

یہ مرید بادشاہ اور شہنشاہ جاہ و حشم، عزم و طاقت اور جبروت کی علامت تھے تو مرشد فقر و خدمت، قناعت و عبادت اور اقتدار سے پرہیز کی تصویر نظر آتے ہیں۔ تاریخ اپنا سفر طے کرتی رہی، بادشاہت کے خواہاں سیاستداں کے روپ میں ڈھل گئے، روحانیت کے مخدوم اور گدی نشین طاقت کے کاسہ لیس بنے، وہ خانقاہیں، درگاہیں، آستانے جہاں کبھی عوام الناس کے لیے فیض کے چشمے جاری رہا کرتے تھے سیاست کی بھینٹ چڑھ گئیں، ہوشیار پیر، مرشد اور گدی نشین عملی طور پر سیاست کا حصہ بن گئے اور آستانے روحانی معشیت کے مراکز میں تبدیل ہو گئے۔

آپ سوچتے ہوں گے یہ بے وقت کی راگنی کیوں شروع کر دی، ایسا ہرگز نہیں، ہوا یوں کہ چند روز پہلے میاں نواز شریف نے پیر پگارا سے ملنے کی خواہش کی تو جواب ملا کہ پیر صاحب روحانی سفر کے باعث ملاقات سے قاصر ہیں۔ میں سوچنے لگا کیا زمانہ آ گیا ہے ایک وقت تھا بڑے بڑے پیر، مخدوم اور سیاسی گدی نشین، میاں صاحب کے در پر حاضری کے لیے منتیں مرادیں مانا کرتے تھے مگر آج ملک کے سب سے بڑے سیاسی پیر کے لیے کسی کے پاس وقت بھی نہیں ہے۔

خیر تاریخ بتائی ہے کہ وقت بدلتا ہے تو ایسا بہت کچھ ہوتا ہے مگر وہ بھی ایک وقت تھا جب ایبٹ آباد کے قریب پیر دھنکہ شاہ کی معرفت کا ڈنکا بجتا تھا، سابق وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی ان کے مرید بنے۔ پیر دھنکہ شاہ سے کمر پر لاٹھیاں کھانا خوش بختی تصور کی جاتی تھی، سو بے نظیر بھٹو بھی ان کی چوکھٹ پر حاضر ہوتی تھیں اور یہیں نواز شریف کی پیٹھ بھی خوش بختی سے معمور ہوئی۔ آپس کی بات ہے ویسے تو شریف خاندان کے پہلے مرشد طاہر القادری ہوا کرتے سو ایک دوسرے کی ریاضت و سیاست کی گہرائی و گیرائی کو بخوبی جانتے ہیں۔

آپ کو بھی یاد ہو گا بی بی کی ایک تصویر تو خاصی مشہور ہوئی جس میں سندھ کے ایک پیر حسین شاہ کرسی پر براجمان اور بی بی ان کے قدموں میں جلوہ افروز ہیں۔ بھلا آصف زرداری کے پیر اعجاز شاہ کو کون نہیں جانتا، مارگلہ کے ایوان صدر سے لے کر ساحلی بلاول ہاؤس تک ان کی روحانیات کا سلسلہ دراز تھا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری مرشد کی اطاعت میں کبھی پہاڑوں پر قیام کرتے تھے تو کبھی سمندری ہواؤں کا لطف اٹھاتے تھے۔

حضور، معرفت کے تو اپنے کپتان بھی خوب معتقد ہیں۔ عمران خان بھی کبھی کبھار نتھیا گلی میں ڈیرا ڈالتے ہیں، اس حوالے سے پہلے پہل تو پیر کا ذکر آتا رہا مگر اب جا کے عقدہ کشا ہوا کہ مرشد پیر نہیں بلکہ پیرنی ہیں جس سے عمران ابن عربی اور مولانا روم کا درس لیتے ہیں اور شاید اب یہ سلسلہ تصوف سے نکل کر تصرف تک پہچنا چاہتا ہے۔

خیر یہ تو ذاتی مسئلہ ہے مگر عمران خان کرکٹ کے دنوں میں پیر جھلا شاہ کے معتقد بھی رہے، پروفیسر رفیق اختر اور جاوید غامدی صاحب سے بھی قربت رہی مگر ان دنوں ابن عربی کا فلسفہ وحدت الوجود غالب ہے۔

بجلی اسکینڈل سے شہرت یافتہ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی روحانی ڈور تربیلا کے پیر عبدالمجید کے ہاتھ رہی سو وہ سوئس اسکینڈل سے بچ نکلے، یوسف گیلانی ماشااللہ خود عارف اور مخدوم ہیں مگر وزارت عظمیٰ بھی ہاتھ سے گئی اور نااہلی بھی مقدر بنی۔ ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی کو کون بھول سکتا ہے، ان کے مرید پنجاب سے سندھ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہالہ کے مخدوم، سانگھڑ کے پیروں کے علاوہ متعدد روحانی خانوادے کارزار سیاست میں معرفت کے گل کھلا رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان اگرچہ خود معرفت کے شہسوار ہیں مگر ان کے روحانی مرشد پیر مولانا حسن جان رہے۔ صرف اتنا ہی ہیں امیرالمومنین جنرل ضیاالحق اگرچہ مرشد تو جنرل فیض علی چشتی کو پکارا کرتے تھے مگر ان کے اصل روحانی مرشد دھمیال شاہ کے بابا مستان شاہ تھے، جنہوں نے جونیجو حکومت کی برطرفی کو منحوس شگون قرار دیا تھا اور ضیاالحق کو بہاولپور نہ جانے کا مشورہ بھی دیا تھا مگر آموں کی کشش ایسی غالب آئی کہ جاں سے گزر گئے۔

پرانی بات ہے ہمارے ایک گورنر جنرل غلام محمد صاحب بھی گزرے ہیں، جن کی گفتگو صرف ان کی سوئس سیکرٹری رتھ بورل سمجھا کرتی تھی یا دیوا شریف کے پیر حاجی وارث شاہ، گورنر جنرل ہاؤس میں لگی مرشد کی بڑی تصویر پر وزرا بقدر استطاعت پھول چڑھایا اور مقدر چمکایا کرتے تھے۔

جنرل ایوب خان کا خانوادہ بھی پیر دیول شاہ کا مرید رہا اور گولڑہ شریف سے قربت کا حامل، ایوب خان پیری مریدی کے نشیب و فراز کو بخوبی جانتے تھے اسی باعث محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخابات میں اس مقدس ہتھیار کا ایسا بھیانک استعمال کیا کہ پوری قوم ششدر رہ گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو لعل شہباز قلندر کو مرشد مانتے تھے، والدہ خورشید بیگم نے پیدائش کے وقت ممبئی کے ایک پنڈت سے زائچہ بنوایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بچہ اعلیٰ ترین منصب پائے گا مگر موت دردناک ہو گی، بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر قریبی ساتھی جے اے الانہ کو پنڈت سے ملنے ممبئی بھیجا مگر زائچہ تاریخ کا حصہ بن کر رہا۔

تو سرکار ذرا آپ بھی غور فرمائیے آج بھی ہماری سیاست روحانی معجزات سے بھری پڑی ہے، علامہ طاہر القادری کبھی ہوائی جہاز کا مقدس ٹکٹ کٹاتے ہیں تو کبھی عالم رویاء میں امام اعظم سے درس لیتے ہیں، ایسے میں بھلا مولانا فضل الرحمان کیوں پیچھے رہتے انہوں نے بھی عالم خواب میں باوا آدم سے ٹیلی فونک تبادلہ خیال کر ڈالا، یہ واضح نہیں کہ کال وٹس ایپ تھی یا موبائل سے کی تھی۔ سرکار، مزے کی بات یہ ہے کہ آپ جس راہبر کی انگلی تھام کر چل رہے ہیں اس نے تو خود کسی کی انگلی تھامی ہوئی ہے، ایسے میں روحانیات پر کالم تو بنتا ہے ناں!

چلتے چلتے یہ بھی عرض کر دوں کہ دنیا میں تصوف کے چار بڑے سلسلے میں مگر وطن عزیر میں پانچواں بھی ہے جسے سلسلہ عسکریہ کہا جاتا ہے۔ سیاست کے میدان میں کامیابی و کامرانی معرفت کے اس در سے گزرے بغیر مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اگرچہ سلسلہ عسکریہ میں پیر کامل عمومی طور پر تین سال بعد تبدیل ہو جاتا ہے مگر تجلی و انوار کا سلسلہ بدستور جاری و ساری رہتا ہے۔

خاصان مقتدریہ کے سائلین ریاضت، مجاہدے، تزکیہ نفس اور مراقبوں میں مشغول رہتے ہیں، پیر کامل کی اک نگاہ معرفت کے منتظر، جس پر پڑی کوئی قطب بنا تو کوئی ابدال ٹھہرا۔ حضور یہ بھی جان لیں کہ سلسلہ عسکریہ صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ اعلیٰ حکام، تاجر، روحانی و سیاسی قائدین، جاگیردار، دانشور، صحافی، وکلاء سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد حلقہ ارادت میں شامل ہیں، کشف و کرامات ایسی کے آنکھیں خیرہ اور عقل دنگ رہ جائے، ہاں مگر مرشد سے انکار کی سزا وہی ہے جو منصور کو ملی تھی۔