محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا عاشقانہ سیاسی کردار

بے نظیر بھٹو کی تصویر
محترمہ بے نظیر بھٹو

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا عاشقانہ سیاسی کردار

از، پروفیسر فتح محمد ملک

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو زندگی کے مختلف مراحل پر کبھی تو Daughter of the East کہا گیا تو کبھی Daughter of Destiny ۔ میں اُنہیں Daughter of Islam کہتا ہوں اور اکیسویں صدی میں آئیڈیل مسلمان عورت کی زریّں مثال سمجھتا ہوں۔ ظاہری اور

پروفیسر فتح محمد ملک

باطنی ، ہر دو اعتبار سے وہ عصرِ حاضر کی مثالی دخترِ اسلام۔۔۔قابلِ صد تحسین خاتونِ عرب و عجم ہیں۔ ظاہری نظر سے دیکھیں تو اُن کا سفید دوپٹہ جسے وہ سر سے نہ ڈھلکنے دینے کا خوب اہتمام کیا کرتی تھیں، اُن کا لباس ، اُن کی چال ڈھال اور اُن کی بات چیت دُنیا میں مسلمان شناخت کا معیار قرار پائی تھیں۔ پروٹوکول والوں کو اِس باب میں سخت ہدایات تھیں کہ وہ ہر مہمان کو وزیراعظم کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے پہلے یہ بتا دیا کریں کہ وزیراعظم مردوں سے ہاتھ نہیں ملایا کرتیں۔زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ جب بھی ٹیلیفون پر بات ختم ہونے لگتی تو وہ کہتیں ٹھہرومیں دُعا پڑھ لوں۔

اُن کی باطنی زندگی اُس روحانی اضطرابِ مسلسل سے عبارت تھی جسے مصائب و آلام نے جنم دیا تھا۔ اپنی آخری کتاب میں اُنہوں نے دُنیائے اسلام اور عالمِ مغرب کے درمیان تصادم کے تصور کو جس دینی احساس اور عصری شعور کے ساتھ رد کر کے اسلام اور مغرب کے درمیان مفاہمت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ اب تک عصرِ رواں کے کسی اور مسلمان سیاسی مدبر کو نہیں سوجھا۔بے نظیر شہید نے قرآن حکیم کی حکمت اور حکمتِ عملی سے اکتسابِ نور کر کے اسلام اور مغرب کے ساتھ ساتھ خود دُنیائے اسلام کے اندر اسلام کی حقیقی روح اور مُلائیت کے درمیان برپا مختلف اور متنوع نوعیت کے تصادم کو جس طرح بے نقاب کیا ہے وہ آج کی دُنیائے اسلام میں اپنی مثال آپ ہے۔ بے نظیر شہید کے اِسی فیضان کی نسبت سے میں نے اُنہیں دورِ حاضر میں اسلام کی مثالی بیٹی قرار دیا ہے۔انہوں نے اپنی اس کتاب میں دُنیائے اسلام اور دُنیائے مغرب، ہر دو کو مزاحمت کی بجائے مفاہمت کی راہ دکھا کرگویا اسلام کی حقیقی روح کی حقانیت کا اثبات کیا ہے۔

اُن کی سیاسی تربیت اُن کے عظیم باپ، شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے انتہائی توجہ اور بے حد انہماک کے ساتھ کی تھی۔ اُن کے پھوپھی زاد بھائی طارق اسلام اپنی یادوں کے گلشن کی سیر کے دوران ہمیں یہ منظر بھی دکھاتے ہیں:

“I recall how as kids we would be prancing around the lobby of 70 Clifton and her father would suddenly walk in. After greeting the other children, he would head to his library, which was always considered a sacred and out of bounds area. He would always pluck Pinkie, as we called here then, out of our small crowd and take her into his library. While other kids were still reading comic books, Pinkie was being tutored in the art of politics and world affairs.”(1)

شہید قائد اِس ضمن میں جس طرح چھوٹی سے چھوٹی جزئیات کا خیال رکھتے تھے اُس کا اندازہ اِس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ اُنہیں اپنے ساتھ شملہ لے جا رہے تھے تو اُنہوں نے کہا تھا کہ میں تمہیں اپنے ساتھ اِس شرط پر لے جا رہا ہوں کہ ہندوستان میں قیام کے دوران تمہارے ہونٹوں پر مسکراہٹ کبھی نہ کھیلے گی۔ اِس لیے کہ ہم ایک ہاری ہوئی جنگ کے بعد دشمن کے ساتھ مذاکرات کے محاذ پر دادِ شجاعت دینے جا رہے ہیں۔قومی غیرت و حمیّت کا یہی احساس عمر بھر بے نظیر کی رگوں میں خون بن کر گردش کرتا رہا۔ پھر بہت جلد وہ وقت آ گیا جب اُن کے عظیم باپ کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر ملک پر آمریت مسلط کر دی گئی، قائدِ عوام کی قیدو بند سے لے کر شہادت تک کا یہ عرصہ بے نظیر کی زندگی میں مصائب و آلام کا انتہائی تاریک دور تھا۔ اپنی کتاب Daughter of the East میں انھوں نے پہلے پہل اپنے داخلِ زنداں ہونے کا منظر یوں پیش کیا ہے:

“A remote jail in the desert of Sindh. It is cold. I hear the prison clock strike one then two. I can’t sleep. The chill desert wind sweeps through the open bars of my cell, four walls of open bars. The cell is more like a huge cage, an enormous space with only a rope cot in it. I twist and turn on the cot, my teeth chattering. I have no sweater, no blanket, nothing. Only the shalwar khameez I had been wearing when I was arrested in Karachi five days ago. One of the jailers had felt sorry for me and quietly passed me a pair of socks. But she was so frightened of being caught for her charity that this morning she had asked for them back. My bones ache. If only I could see, I could at least walk around. But the electricity is turned off in my cell at night. From seven onwards, there is nothing but the cold darkness.”

سکھر جیل میں بے در و دیوار سی اس کال کوٹھڑی میں قید و بند کی اِس واردات سے بے نظیر کی زندگی میں مصائب و آلام کے جو دروازے کُھلے وہ عمر بھر کُھلے ہی رہے۔ ہر بہادر انسان کی طرح مشکلات و مصائب کی یورش سے اُن کا دِل گھبراتا ضرور تھا مگر اُن کی سرشت میں شجاعت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ نتیجہ یہ کہ ساری زندگی وہ مشکلات سے فرار کی بجائے پیکار کا شیوہ اپنائے رہیں۔ شہید محترمہ نے مصائب کے گہوارے میں ذہنی تربیت اور شخصی ارتقاء کے مختلف مراحل طے کیے۔ زندگی اور کتاب ہر دو سے جو کچھ سیکھا جا سکتا تھا ، سیکھا ۔ جناب طارق اسلام نے لکھا ہے کہ سن دو ہزار سات کے موسمِ گرما میں کھانے کی میز پر بیٹھے اپنی گفتگو کے دوران بے نظیر نے سیاست کے ساتھ ساتھ شاعری کی کتابوں کا تذکرہ بھی شروع کر دیا۔ ایسے میں انھوں نے اچانک پوچھا: کیا تم نے روسی شاعرہ اینااخمدوا کو پڑھا ہے ؟ جاننا چاہیے کہ اینااخماتووا(۱۹۶۶۔۱۸۸۸ء) سوویٹ روس کی وہ بدنصیب شاعرہ تھی جسے جوزف سٹالن کے اشتراکی روس میں اپنے شوہر اور بیٹے کے ہمراہ قید و بند اور خوف و دہشت کی طویل زندگی گزارنا پڑی تھی۔دُنیا کی تاریخ میں اپنے ہم نصیب شاعروں ادیبوں ، فنکاروں اور سیاستدانوں کے فکر و عمل سے روشنی اور طاقت حاصل کرتے رہنے کی بدولت شہید محترمہ پاکستان کی تاریخ میں ایک نادر ونایاب ہستی بن گئی تھیں۔ یہی آلام و مصائب اُن کی روحانی زندگی کی ثروت مندی کا سرچشمہ ثابت ہوئے۔ منصور حلّاج نے اپنی’’ کتاب الطواسین ‘‘میں ایک عجب جملہ لکھا ہے:

Happiness is from Allah, but suffering is Allah Himself.

اِس دور کی دُکھ بھری زندگی کی یاد نے بے نظیر کو زندگی کے ہر اگلے مرحلے پر گہرے اور سچے روحانی احساس کی دولتِ نایاب سے مالا مال رکھا۔اِسی روحانی احساس کی بدولت اُن کا سیاسی عمل عاشقانہ چلن سے آشنا ہوا۔ اِس عاشقانہ سیاسی چلن کے خدوخال پر روشنی ڈالنے کی خاطر میں بے نظیر کے دو انتہائی اہم فیصلوں کی جانب اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔اوّل وہ وقت یاد کیجیے جب بے نظیر شہید بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں وطن واپسی کا اعلان کرتی ہیں:

“I am thinking of going home’. They looked at me expectantly, not sure what I had in mind. I will probably land in Lahore or Peshawar, I continued. Their faces lit up. ‘Home’ did not mean 70-Clifton. Home meant the length and breadth of Pakistan”.(2)
اب کی طرح تب بھی ناصحینِ مشفق کی کوئی کمی نہ تھی۔چنانچہ:

“Some people advised me to leave politics. They warned me that I could meet the fate of my father and brothers. Some said the Pakistani political arena was not for woman. My answer to all of them was that I have willingly taken the path of thorns and stepped into the valley of death”.(3)

اِسے نصیحت کہیں یا دھمکی قرار دیں بے نظیر آئیں اور پاکستان کے غریب عوام نے اُمڈتے ہوئے منہ زور سیلاب کی مانند اُن کا استقبال کیا۔ ایسے میں شاید اُنہیں وہی ناصحینِ مشفق یاد آئے جو اُنہیں جسم و جاں کو بچا کر عیش و راحت کی زندگی بسر کرنے کی تلقین فرما یا کرتے تھے۔ شاید ان ہی کے لیے اُنہوں نے یہ یادگار جملہ کہا تھا کہ غریب عوام کی آنکھوں میں میرے لیے عقیدت و احترام کی یہ چمک دُنیا کے سارے عیش و نعمت سے زیادہ قیمتی ہے۔ خیر، وہ آئیں ، جو ہوا سو ہوا ۔ ایک مرتبہ پھر جلاوطنی اور ایک مرتبہ پھر واپسی کا ارادہ ۔اب کے بھی اُن کے چاہنے والوں نے بھی اور مارشل لاء کے چاہنے والوں نے بھی اُنہیں بار بار متنبہ کیا کہ اُن کی جان کو خطرہ ہے اِس لیے وہ پاکستان نہ جائیں مگر اُنہوں نے اپنے مخلصین اور اپنے مخلص منافقین ، ہر دو میں سے کسی ایک کی بھی نہ مانی۔ یہاں میں صرف اُن کی ایک سہیلی Tina Brown سے اُن کی گفتگو کا ایک اقتباس پیش کر دینا کافی سمجھتا ہوں:

“She could not stay in Dubai any longer. It was as if she felt stifled. As if she was dying to breathe the air of the country. Others asked her the same question-about her safety. But she was firm. “I want to go back to Pakistan…whatever my destiny is. I have to go…”(4)

جب اُنہیں اپنے باپ اور بھائیوں کے مقدر سے سبق اندوز ہونے کی تلقین کی گئی تب بھی انہوں نے پورے عز م و استقلال کے ساتھ اپنا آخری فیصلہ سُنا دیا:

“I have to confront my destiny”.(5)

چنانچہ اُنہوں نے اپنے خاندان اور اپنے دوستوں سے الوداعی ملاقاتیں کیں، اپنی وصیت لکھ کر زرداری صاحب کے حوالے کی اور کراچی کے ایئرپورٹ پرپاکستان کے طول و عرض سے ، جسے اُنہوں نے ایک زمانے میں اپنا گھر قرار دیا تھا انسانوں کے ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو اپنا منتظر پایا۔ دیکھیے وہ کس دھج سے کراچی ایئرپورٹ پراُتریں۔سر پرقرآن حکیم کا سایہ ، ایک بازو پر امام ضامن اور دوسرے بازو پر یاعلیؓ آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور دستِ دُعا آسمان کی جانب بلند۔ یااللہ ! اسلام کی یہ بیٹی خاکِ وطن پر قدم رکھ رہی ہے یا میدانِ جنگ میں اُتر رہی ہے۔ علامہ اقبال پکار اُٹھتے ہیں: عشق جنگاہ میں بے سازو یراق آتا ہے ۔ عشق آیا اور فیض احمد فیض کی زبانی اِس اعلان کے ساتھ آیا کہ:

راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں، چلو!
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے؟
رختِ دل باندھ لو، دل فِگارو چلو!
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو!

سانحۂ کارساز سے لے کر لیاقت باغ کے مقتل تک شہید محترمہ گویا پاکستان کے طول و عرض میں جسے اُنہوں نے ہمیشہ اپنا حقیقی گھر سمجھا اور جس میں بسنے والے غریب اور غیور عوام کے ساتھ گہری اور جبلی محبت کا رشتہ اُستوار رکھا۔قومی آزادی کے محاذ پر وہ ہر آن یوں دادِ شجاعت دیتی رہیں جیسے کوچۂ قاتل میں گھوم پھر رہی ہوں۔ انتہائی جرأت اور بے مثال استقامت کے ساتھ جس طرح انہوں نے اپنے عظیم باپ ، ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سیاسی میراث کی حفاظت کی وہ دُنیائے اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گی۔ شہید بے نظیر بھٹو نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی میراث کی صرف حفاظت ہی نہیں کی بلکہ اُسے سنوارا اورنکھارا بھی ہے اور ایک نئی عصری تعبیر بھی بخشی ہے۔یادش بخیر! اب سے چالیس برس پیشتر جب پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا تب ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی کے سیاسی مسلک کی وضاحت درج ذیل چار عنوانات کے تحت فرمائی تھی:
اوّل: اسلام ہمارا دین ہے۔
دوم: جمہوریت ہماری سیاست ہے۔
سوم: سوشلزم ہماری معیشت ہے۔
چہارم: طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے تیسرے عنوان کو یوں بدل ڈالا : مساواتِ محمدی ہماری معیشت ہے۔ اِس تبدیلی پہ مجھے پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ اوّل کی وہ بحث یاد آتی ہے جو مساواتِ محمدی کی اصطلاح پر برپا ہوئی تھی۔ یہ اصطلاح مرحوم محمد حنیف رامے نے وضع کی تھی۔ سائنسی سوشلسٹ گروپ اس اصطلاح کو ہضم کرنے سے انکاری تھا اور پارٹی کے اقتصادی مسلک کی وضاحت میں سائنٹیفک سوشلزم کی اصطلاح کے استعمال پر مُصر تھا۔ شہید محترمہ نے سوشلزم کی بجائے مساواتِ محمدی کی اصطلاح اپنا کر اسلام کی حقیقی روح کے عرفان کا ثبوت بھی پیش کر دیا ہے اور پارٹی کے معاشی انقلاب کے مسلک کی دینی اور روحانی بنیادوں کو بھی اُجاگرکر دیا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پارٹی کے سیاسی مسلک کو ایک پانچواں عنوان بھی عطا کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی مسلک میں اِس نئی اور معنی خیز توسیع پر مجھے ایک بار پھر جناب طارق اسلام یاد آتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:

“When she had arrived back from exile on Oct 18, I stood alngside her on the fatal truck journey; she turned to me while waving to the crowds and said, “Isn’t this great —- I can feel their love.” And after a pause, “I can never let them down” The change had already begun to manifest itself.”(6)

انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ عوام طاقت کا سرچشمہ تو ہیں ہی مگر اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عقل کا سرچشمہ بھی عوام ہیں۔انہوں ٍنے نہ تو امریکہ کی عقل سے کام لیا اور نہ ہی مشرف انتظامیہ کی عقل سے)تفصیلات کے لیے دیکھیے امریکی صحافی Ron Suskind کی کتاب بعنوان : (The Way of the World انہوں نے عوام کی آنکھوں کی چمک کے راستے عوام کے دلوں میں جھانک کرعقل سیکھی اور عوام کی اسی اجتماعی دانش کو اپنا رہبر و رہنما بنایا۔عقل کا سرچشمہ عوام ہیں۔ آج یہ حرفِ صداقت پاکستان کی سیاست کا جلی عنوان ہے۔اب اِس عنوان کونہ امریکہ مٹا سکتا ہے اور نہ کوئی طالع آزما آمر۔اِس لیے کہ یہ عنوان شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے خون کے ساتھ رقم کیا ہے۔

References

1. A Song half-sung, Dawn, Islamabad, December 27, 2008.
2. Benazir Bhutto, Daughter of the East, (London: Hamish Hamilton, 1988) p.271.
3. Benazir Bhutto, Daughter of the East, p.281.
4-5 Tina Brown, Tryst with destiny, The Nation, Lahore, 11.1.08.
6. A Song half-sung, Dawn, Islamabad, December 27, 2008.