بھٹو صاحب : یہی بہار کے دن تھے کہ سرخ رُو ہوئے ہم

Dr Shahid Siddiqui
ڈاکٹر شاہد صدیقی

بھٹو صاحب : یہی بہار کے دن تھے کہ سرخ رُو ہوئے ہم

از، ڈاکٹر شاہد صدیقی

یہ گڑھی خدا بخش ہے، سندھ کے شہر لاڑکانہ سے 23 کلو میٹر دور ایک خاموش قصبہ۔ یہیں بھٹو خاندان کا آبائی قبرستان ہے۔ یہ 1969 کے جون کا گرم خُو مہینہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی بیٹی بے نظیر کے ہمراہ اپنے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کر رہے ہیں۔ دہکتے ہوئے سورج کے نیچے قبروں کا سکوت ہے۔ اچانک باپ نے بیٹی کی طرف دیکھا اور کہا “تم بہت دور امریکہ جا رہی ہو۔ تم بہت سی ایس چیزوں کو دیکھو گی جو تمہیں حیران کریں گی۔ تم بہت سی ایسی جگہوں کا سفر کرو گی جن کا کبھی نام بھی نہیں سنا ہو گا لیکن یاد رکھو آخر کار تمہیں یہیں لوٹنا ہو گا۔”

آج ایک مدت بعد میں گڑھی خدابخش آیاہوں۔ آج بھی آسمان پر سورج دہک رہا ہے لیکن اب بھٹو خاندان کی قبروں پر ایک خوب صورت مزار تعمیر ہو چکا ہے یہ سائبان قبروں کو موسموں کی شدت سے بچاتا ہے۔ اس سائبان کی بھی ایک کہانی ہے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا حتمی فیصلہ ہو چکا تھا، نصرت بھٹو اور بے نظیر کو آخری ملاقات کے لیے بلایا گیا تھا۔

یہ ایک عجیب ملاقات تھی جہاں کال کوٹھڑی کا دروازہ بند رہا، صرف سلاخوں کے آر پار باتیں ہوئیں، بھٹو صاحب نے اپنی بیٹی کو حوصلہ دیا اور کہا ”آج رات پھانسی کے بعد میں آزاد ہو جاؤں گا میں اپنے پُرکھوں کی سر زمین لاڑکانہ چلا جاؤں گا اور وہاں کی دھرتی، خوشبوؤں اور ہواؤں کا حصہ بن جاؤں گا اور وہاں کی دیو مالائی داستانوں کے کرداروں میں شامل ہو جاؤں گا.‘‘ یہ کہہ کر بھٹو صاحب رُکے اور کہنے لگے “لاڑکانہ میں تو آج کل بہت گرمی ہو گی۔” بے نظیر کو آنے والی خوفناک حقیقت کا ادراک ہو گیا تھا، انہوں نے آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز میں وعدہ کیا ”پاپا میں آپ کی قبر پر سائے کے لیے سائبان بناؤں گی۔‘‘ بیٹی نے والد سے کیا ہوا وعدہ خوب نبھایا۔

اس مزار کے قریب ایک سکول ہے۔ یہ چھٹی کادن ہے۔ سکول کے لان میں دو چارپائیاں اورکچھ کرسیاں رکھی ہیں۔ میں بھی ایک کرسی پربیٹھ جاتا ہوں۔ میں یہاں پہلی بار آیاہوں میرے علاوہ اس گاؤں کے کچھ لوگ اور کچھ اہل سخن بیٹھے ہیں۔ انہی لوگوں میں موجودگڑھی خدابخش کے شاعر منظور علی منگی نے بتایا بھٹو صاحب کی شہادت کے وقت اس کی عمر سترہ سال تھی۔ اسے بھٹو صاحب کی شہادت کا دن اچھی طرح یاد ہے۔

وہ بھٹو صاحب کے جنازے میں بھی شریک ہوا تھا۔ اس نے دوسرے لوگوں کے ہمراہ بھٹو صاحب کا چہرہ دیکھا تھا۔ اسے اب تک یاد ہے ان کے چہرے پر زردی تھی اور اسے یوں لگا تھا جیسے ان کا جسم سکڑ گیا ہو، بھٹو صاحب نے پھانسی سے دس روز پہلے احتجاجاً کھانا پینا چھوڑ دیا تھا، جسم کی لاغری کا یہ عالم تھا کہ کال کوٹھری سے پھانسی گھاٹ تک چل کر جانا محال ہو گیا۔ اس لئے انہیں سٹریچر پر ڈال کر پھانسی گھاٹ لے جایا گیا۔ ایک کال کوٹھڑی جس کا سائز 7×10 فٹ تھا بھٹو کی کل کائنات تھی آخری دس روز کال کوٹھڑی میں چارپائی بھی نہیں تھی، فرش پر گدا ہی ان کابچھونا تھا، زندگی میں بھی کیسے اتار چڑھاؤ آتے ہیں، اس تنگ و تاریک کوٹھڑی کا مکین وہی شخص تھا جس کے خاندان کی وسیع جاگیریں تھیں۔

کہتے ہیں چارلس نیپئرجس نے 1843 میں سندھ کو فتح کیا تھا، سندھ کے دورے پر تھا اور وقفے وقفے سے اپنے ہمراہیوں سے پوچھتا تھا یہ زمینیں کس کی ہیں؟ ہر بار اسے جواب ملتا تھا بھٹو خاندان کی۔ تنگ آ کر اس نے کہا میں سونے لگا ہوں، جب بھٹو خاندان کی زمینیں ختم ہوں مجھے جگا دینا کچھ دیر سونے کے بعد وہ جاگا اور پوچھا کہ یہ زمینیں کس کی ہیں تو اسے جواب ملا، بھٹو خاندان کی۔ اور اب دنیا کی وسعتیں سمٹ کر 7×10 فٹ کی کال کوٹھڑی تک محدود ہوگئی تھیں۔

ہم سکول کے لان سے اٹھ کر پیدل مزار کی طرف چل د یتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ درد کے رشتے سے بندھے مزار کی طرف آرہے ہیں۔ ہم صدر دروازے میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارتے ہیں اور مزار کی وسیع عمارت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مزار کے اندر گلاب کے پھولوں کی مہک بسی ہے۔ بھٹوصاحب کی لحد پر گلاب کے پھولوں کی سرخ پتیاں نچھاور کی جارہی ہیں۔ مجھے بھٹو صاحب کا آبائی گھر المرتضیٰ یاد آگیا جس کے وسیع لان میں تا حد نظر گلاب کے پھولوں کے تختے تھے۔

گلاب کی بے شمار اقسام یہاں موجود تھیں، بھٹو صاحب جب کسی دورے پرجاتے واپسی پرگلاب کی ایک نئی قسم لے کر آتے۔ ان کا پسندیدہ پھول نیلے رنگ کا گلاب تھا۔ بہار کے موسم میں المرتضیٰ بہار کے رنگوں اور خوشبوؤں سے بھرجاتا۔ خوشبوؤں میں انہیں شالیمار کلون پسند تھا۔ پھانسی سے ایک روز پہلے اپنی آخری ملاقات میں بھٹو صاحب نے ساری کتابیں، رسالے اور سگار کا پیکٹ بینظیر کے حوالے کر دیے صرف ایک سگار اور شالیمار کلون اپنے پاس رکھ لیا۔ صبح ہونے میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھے۔

جیل کی کال کوٹھری میں تنہا بیٹھے بھٹو صاحب کی آنکھوں میں بیتے ہوئے دنوں کے عکس روشن ہونے لگے۔ المرتضیٰ کا وسیع و عریض گھر جہاں بھٹو 5 جنوری 1928 کو پیدا ہوئے 9 سال کی عمر تک انہیں کسی سکول نہ بھیجا گیا۔ سکول کاآغاز ممبئی میں کیتھڈرل سکول سے ہوا۔ بھٹو کو یاد آیا کیسے قائداعظم محمد علی جناح مسلم نوجوانوں کے ہیروبن گئے تھے۔ یہی اپریل کا مہینہ تھا اور 1943 کا سال جب نوجوان بھٹو نے اپنے قائد کو خط لکھا جس میں قائداعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد لکھا کہ میں سکول میں زیرتعلیم ہونے کی وجہ سے ارضِ پاک کے حصول کے لیے اتنا موثر کردار ادا نہیں کر سکتا لیکن ایک وقت آئے گا جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کردوں گا۔

نوجوان بھٹو کے لیے وہ دن حیرت اورفخر کاتھا جب اس کے محبوب قائدنے اس کے خط کاجواب دیاتھا۔ کال کوٹھڑی میں انہیں وہ دن بھی یاد آئے جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ کی برکلے یونیورسٹی اورپھر انگلستان کی آکسفورڈ یونیورسٹی گئے۔ انہیں 1951 کاسال یاد آیا جب ان کی شادی نصرت بھٹوسے ہوئی جو سیاسی سفرمیں ان کی رفیق رہیں۔ 1957 میں وہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ جانے والے وفد کے کم عمرترین ممبر تھے اور پھر 20 دسمبر 1971 کادن جب یحییٰ خان سے اقتدار بھٹوصاحب کو منتقل ہوا۔ بھٹو صاحب کووہ شاداب لمحے یاد آئے جب مشکل حالات میں انہیں کامیابیاں ملیں۔

ہندوستان سے90 ہزار قیدیوں کی پاکستان واپسی، 1973 کا متفقہ آئین، ایٹمی پروگرام کا آغاز، اسلامی سربراہی کانفرنس کاانعقاد۔ اور پھر قتل کا عدالتی مقدمہ اور فیصلہ۔ یہ فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک انتہائی غیرخوش کن باب کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔ پرانے دنوں کو یاد کرتے کرتے بھٹو صاحب کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں اور وہ پھر فرش پہ بچھے گدے پر دراز ہو گئے۔

اگلی صبح سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند بے نظیر بھٹو کے دروازے پردستک ہوئی دروازہ کھلا تو سامنے جیل کا ایک کارندہ کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بھٹو صاحب کے وہ کپڑے تھے جوانہوں نے آخری بار پہنے تھے۔ بیٹی کوصورتحال سمجھ آگئی اس نے اپنے والد کے کپڑوں کو سینے سے لگاکر بھینچ لیا کپڑوں سے شالیمار کلون کی وہی مانوس خوشبو آرہی تھی۔ جیل کے کارندے نے بتایا۔ تدفین گڑھی خدابخش کے قبرستان میں ہوگی جس میں آپ شرکت نہیں کرسکتیں۔

ملک بھر میں میں ایک سکتے کا عالم تھا۔ مصاجبین شاہ اس سکتے کو سکون سے تعبیرکررہے تھے۔ افتخار عارف نے اس سکون کی خبرلندن میں سنی اور اگلے روز بی بی سی اردو میں اپنی نظم سنائی:

“مصاجبینِ شاہ مطمئن ہوئے کہ سرفراز سربُریدہ بازوؤں سمیت شہرکی فصیل پرلٹک رہے ہیں اورہرطرف سکون ہے۔

سکون ہی سکون ہے
فغانِ خلق اہل طائفہ کی نذر ہوگئی
متاعِ صبر و حشتِ دعا کی نذر ہوگئی
امیدِ اجر بے یقینی جزا کی نذر ہوگئی
نہ اعتبارِ حرف ہے نہ آبروئے خون ہے
سکون ہی سکون ہے”

کسے معلوم تھا یہ سکون دراصل ایک گہرا سناٹا ہے جو حد سے بڑھتا ہے تو کہرام میں بدل جاتا ہے۔

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔