سیاسی الف لیلہٰ

Masoom Rizvi
معصوم رضوی

سیاسی الف لیلہٰ

از، معصوم رضوی

داستان الف لیلہٰ اگر نہ بھی پڑھی ہو گی تو سرزمین عرب کے اس ادبی شہ پارے کا نام تو ضرور سن رکھا ہو گا۔ شاید شام میں لکھی گئی تھی آٹھویں صدی کے دوران مگر آج بھی دنیا کی عظیم داستانوں میں شامل اور متعدد زبانوں میں ترجمہ موجود ہے۔

داستان کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ایک بادشاہ شہریار، ملکہ کی بے وفائی کے باعث عورت ذات سے ایسا بیزار ہوا کہ ہر رات شادی کرتا اور صبح ہوتے ہی دلہن کو موت کے گھاٹ اتار دیتا۔ وزیر با تدبیر جو شادیوں کو اہتمام کیا کرتا تھا سخت پریشان کیونکہ سلطنت میں عورتوں کی کمی ہو گئی، ذمہ داری نہ نبھائے تو خود جان سے جائے۔

ایسے میں وزیر کی دختر نیک اختر شہرزاد نے شادی کے لیے خود کو پیش کیا اور ضد کر کے باپ کو منا لیا۔ شہرزاد کو پتہ تھا کہ بادشاہ داستان سننے کا عاشق ہے، لہذا پہلی رات اس نے کہانی شروع کی اور صبح ایسے پُرپیچ اور دلچسپ موڑ پر چھوڑا کہ شہریار کو دلہن کشی کی روایت اگلی رات تک موقوف کرنی پڑی۔ وزیر زادی ایسی چالاک کہ ہر صبح کہانی کو ایسے مقام پر چھوڑتی کہ بادشاہ تجسس سے مجبور ہو جاتا، تو جناب یوں ہزار راتیں گزر گئیں اور شہریار عورت دشمنی بھول بھال ملکہ شہرزاد اور اپنی بیٹوں میں مگن ہو گیا۔
جناب یقین جانیے کہ الف لیلہٰ یعنی ہزار راتوں کی داستان تو کچھ بھی نہیں، ہماری سیاسی الف لیلہٰ تو ستر سال سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ بچپن سے پاکستان کی سالمیت، مذہب، جمہوریت ادارے سب کچھ ہمیشہ خطرے میں رہے سو آج بھی ہیں اور عوام کے سروں پر خوف کی تلوار ہمیشہ کی طرح لٹکی ہوئی ہے۔

ہر ادارہ ایسی اچھوتی کہانیاں سنا رہا ہے جو انجام کو نہیں پہنچ پاتیں۔ لوگ بلاوجہ دلی کے میر باقر علی کو آخری داستان گو قرار دیتے ہیں، بھلا میر باقر علی میں ایسی صفات کہاں جو ہمارے اداروں کا ملکہ ہیں۔ میر باقر علی کی محافل میں درجنوں یا سینکڑوں افراد اور ان کی داستان گوئی چند گھنٹوں یا دنوں تک محدود رہتی ہو گی۔

پاکستان کے ادارے ستر سالوں سے ایسی نادر و نایاب سیاسی الف لیلہ سنا رہے ہیں کہ آج بھی تجسس اور خوف کے سحر میں جکڑے بائیس کروڑ  ہمہ تن گوش ہیں۔ اداروں کا تصادم، تحفظ اور اور حدود کی گردان سبق سنتے سنتے بال سفید ہو گئے مگر نہ ادارے باز آئے نہ اختیارات طے ہو سکے۔

مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ حکومت کے ستون ہوتے ہیں اور چوتھا اور اعزازی ستون صحافت کو کہا جاتا ہے۔ صورت حال کچھ یوں ہے کہ پارلیمنٹ اور سیاستدان خود کو بالاتر سمجھتے ہیں مگر رویے سے ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، جب موقعہ ملتا ہے تو جوتوں میں دال بٹتی ہے۔

عدلیہ جب چاہے نظریہ ضرورت کا گھونگھٹ اوڑھ کر پی سی او کا راگ درباری سنتی نظر آتی ہے۔ انتظامیہ کا ایک بڑا حصہ فوج ہے جو تین طویل حکومتیں چلانے کا تجربہ رکھتی ہے۔ اب رہی بات اعزازی ستون میڈیا کو تو پہلے پہل تو دبا، سہما رہا کرتا تھا اب تو ماشااللہ بادشاہ گر کے فرائض انجام دینا چاہتا ہے۔ معذرت کے ساتھ  کیا کسی بھی ادارے کی ساکھ ایسی ہے کہ اعتبار کیا جائے؟

آج ستر سال بعد بھی یہ طے نہیں ہو سکا کہ کس ادارے کی حدود کیا ہیں فرائض کا تو خیر ذکر ہی چھوٹریں، یہ طے ہونا بھی باقی ہے کہ کون حاکم ہے کون محکوم، مگر یہ حقیقت ضرور ہے کہ ہر ادارہ اپنے فرائض منصبی چھوڑ کر دوسروں کے فریضے زیادہ بہتر انجام دینے کی خواہش کا اسیر ہے۔ ستر سال بعد بھی نظریات، تصوف اور ڈاکٹرائن جیسی داستانیں جاری ہیں جبکہ اقتدار کی چوکھٹ بائیس کروڑ عوام ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ نظریات، تصوف اور ڈاکٹرائن اختیارات و اقتدار کی محتاج نہیں ہوتے، دوئم یہ اوصاف صدیوں میں کسی کو عطا ہوتے ہیں، لیکن یہ ماننا پڑیگا کہ بھاری بھرکم اصطلاحات استعمال کرنے سے داستان میں ضرور جان پڑ جاتی ہے۔

سیاستدان عدالتیں نہیں چلا سکتے، منصف سپہ سالاری کے اہل نہیں ہوتے تو عسکری قوتیں سیاسی میدان کی شہ سوار نہیں بن سکتیں۔ یہ صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے کہ تینوں ادارے بیک وقت سب کچھ کرنا چاہتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ملک عزیز ہر پل سیاسی کشیدگی، اداروں کے محاذ آرائی، مقتدر قوتوں کی ریشہ دوانیوں کو جھیلتا چلا آیا ہے۔

عوام بنیادی سہولیات سے محروم تو اشرافیہ قارون کی جانشین بن چکی ہے۔ ریاست اور عوام دن بدن غریبی و لاچاری کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں تو با اثر طبقات دولت کے پہاڑوں پر گوشہ نشین ہیں۔ یہ کون سا نظریہ ہے، کیسا تصوف اور ڈاکٹرائن ہے جس میں نہ عوام کی فلاح ہے نہ ریاست کی بھلائی، تو پھر یہ سب کس لیے؟ حضور والا! سیاسی مناقشوں نے ہرے بھرے شاداب ملک کو صحرا میں تبدیل کر دیا، دریا خشک، فصلیں برباد اور نسلیں تاراج ہوتی گئیں مگر طلسم ہوشربا ختم نہ ہوئی۔

کبھی ون یونٹ، کبھی صوبائی خود مختاری، تو کبھی خوشحالی کے کشکول سے چھلکتی ترقی کے سراب، کبھی جہاد تو کبھی روشن خیالی کے سرسبز باغات، جمہوری داستان کے شاہانہ اطوار تو آمریت کی داستان کی ہولناک پراسراریت بھی کم نہ رہی۔ کبھی سرے محل سے لیکر پاناما اور اقامہ تک جمہوری حسن کے لشکارے، کبھی مجلس شوریٰ کی برگزیدگی اور کبھی “سب سے پہلے پاکستان” کی ماڈرن ڈاکٹرائن، اس دوران حسب نیت و استطاعت نظریہ ضرورت کے صوفیانہ مجاہدے اور پی سی او کی چلہ کشی، اب آپ ہی بتائیے کیا داستان الف لیلہ اس کے سامنے کوئی حیثیت رکھتی ہے؟

صورت حال یہ ہے کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، تینوں آئینی ادارے عزت و احترام کا مطالبہ دہراتے نہیں تھکتے، لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ عزت مانگی نہیں بلکہ کمائی جاتی ہے۔ سچ ہے ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں مگر کیا اب بھی وہی غلطیاں بار بار دہرائی نہیں جا رہیں؟  حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں سول و ملٹری تعلقات اس قدر خوش گوار رہے ہیں کہ جیسے ہی کوئی بیان آتا ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے، عوام اختلافات کی وجہ کھوجنا شروع کر دیتے ہیں۔ میڈیا امکانات اور قیاسات کے دھند ڈوب جاتا ہے اور برگزیدہ سیاستدان میرے ہم وطنوں اور بوٹوں کی چاپ سننے کی نوید دیتے ہیں۔

معزز سیاستدان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جمہوریت کا استحکام بیانات سے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں میں جمہوری اقدار سے مستحکم ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کو آپ خود عزت نہیں دیتے تو کوئی اور کیوں دیگا؟ انتظامیہ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ ستر سال میں آدھا وقت بلا شرکت غیرے راج سنگھاسن پر براجمان رہے تو کیا تیر مار لیا؟ عدلیہ اگر خود سے انصاف کر لے تو شاید یہ دونوں ادارے سدھر سکتے ہیں اور میڈیا کو بھی یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حکومتیں بنانا اور گرانا اس کا کام نہیں، اس کار عظیم کے لیے یہ تینوں ادارے ہی کافی ہیں۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

سب اسی زلف کے اسیر ہوئے

سب پر قومی خدمت کا جنون طاری ہے، قومی سلامتی، اداروں کا تحفظ، ملکی بقا، مذھب و ملت، نظریات و اختیارات کے نام پر مفادات کی ایسی جنگ جاری ہے جس میں ریاست اور عوام کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایک ایسی سیاسی الف لیلہٰ جس کا آغاز کسی کو یاد نہیں، اختتام کا دور دور تک پتہ نہیں اور ستر سالوں بعد بھی بائیس کروڑ عوام کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔