برصغیر والے انگریزی علوم کیوں پڑھیں بقول لارڈ میکالے

تین حصوں کا حصہ اول

برصغیر والے انگریزی علوم کیوں پڑھیں
لارڈ میکالے

برصغیر والے انگریزی علوم کیوں پڑھیں

(اکمل سومرو)

لارڈ میکالے چار سال تک ہندستان میں رہے اور اس دوران ان کی سالانہ تنخواہ آج سے 180 سال پہلے دس ہزار پاؤنڈز مقرر کی گئی تھی۔ انہیں ہندوستان کے عدالتی نظام میں پینل کوڈ کی تیاری اور تعلیمی نظام کے ڈھانچہ کو اُستوار کرنے کے لئے تعلیم عامہ کی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

اس کمیٹی نے 2فروری 1835ءکو اپنی تعلیمی سفارشات مرتب کیں،180سال بعد بھی میکالے کا یہ تاریخی تعلیمی مقالہ زیر بحث ہے جس نے ہندوستان پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اس یاداشت یا مقالے کو کمیٹی کی جانب سے لارڈ بینٹنک کو بھجوایا گیا جسے من وعن منظور کر لیا گیا۔ اس مقالے میں برطانیہ کے نوآبادیاتی مقاصد کو پورا کرنے کا مکمل خاکہ موجود ہے، اس کا اُردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ ہندستان میں برطانوی سامراج کی حکمت عملی کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکے۔

لارڈ میکالے کا مکمل تعلیمی مقالہ

تعلیمات عامہ کی کمیٹی میں شامل کُچھ حضرات کا خیال ہے کہ اب تک اشاعت تعلیم کے سلسلے میں اُنہوں نے جو راہ عمل اختیار کی ہے اس قطع تعلق برطانوی پارلیمان نے 1813ءکے چارٹر میں کر دیا تھا۔ اگر یہ رائے درست مان لی جائے تو اس کا مفاد یہ ہوگا کہ موجودہ طریق کار میں کوئی تبدیلی لانے کےلیے مجلس قانون ساز کو نیا ایکٹ وضع کرنا ضروری ہوگا۔ میں نے ان حالات میں یہی صحیح سمجھا ہے کہ درپیش مسئلے میں مختلف فیہ بیانات کی ترتیب میں حصہ لینے سے اجتناب کروں اور اپنی رائے کو اس وقت تک کے لیے محفوظ رکھوں جب کونسل آف انڈیا کے رکن کے طور پر یہ مسئلہ باضابطہ طور پر میرے سامنے پیش ہو۔

مجھے یہ باور نہیں آتا کہ پارلیمان کے اس ایکٹ کو لفظوں کے کسی بھی ردو بدل سے وہ معنی پہنائے جاسکتے ہیں جو اس سے مراد لئے جارہے ہیں۔ اس ایکٹ میں کوئی ایسی دفعہ نہیں ہے جس کی رُو سے ان خاص باتوں اور علوم کی وضاحت ہوتی ہو جن کا مطالعہ کیا جانا ہے۔ اس میں تو محض یہ ہے کہ ایک رقم اس مقصد کے لیے مخصوص کی گئی ہے کہ ادبی تخلیقات کا احیاءاور ارتقاءہو۔ ہندستان کے اہل علم کی حوصلہ افزائی کی جائے اورحکومت برطانیہ کے زیر نگرانی علاقوں کے باشندوں میں سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت ہو۔ ایک مخصوص طبقہ کی جانب سے دلائل پیش کیے جارہے ہیں بلکہ ایک حد تک باور کرایا جارہا ہے کہ ادبیات سے برطانوی پارلیمنٹ کی مُراد صرف عربی اور سنسکرت کی ادبیات ہوسکتی ہیں اور یہ کہ پارلیمان اہل علم یا فاضل باشندوں کا معزز لقب ایسے باشندوں کو نہیں دے سکتی جو ملٹن کی شاعری، لاک کے فلسفہ مابعد الطبیعات اور نیوٹن کی طبیعات سے واقف ہو۔ بلکہ یہ کہ اس لقب سے وہ افراد مقصود ہیں جہنوں نے ہندؤوں کی مقدس کتاب کُسا گھاس کے استعمال کے تمام طریقوں اور دیوتائی گیان دھیان میں مراقبے کے مخفی اسرار کا مطالعہ کر لیا ہے۔

محولہ بالا قانون کی یہ تعبیر کچھ زیادہ تسلی بخش معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے متوازی اسی قسم کا مسئلہ لیجئے۔ فرض کیجئے کہ بادشاہ مصر (ایک ملک جو کبھی یورپ بھر کی قوموں سے علمی عظمت میں گویا سبقت لے گیا تھا اور اب مرور زمانہ سے ان کے مقابلے میں پسماندہ ہے)ایک رقم اس مقصد کے لیے مخصوص کردیں کہ اس ادبیات کے احیاء و ترقی میں خرچ کیا جائے اور مصر کے اہل علم کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کیا اسی بات سے کوئی شخص یہ نتیجہ نکالے گا کہ بادشاہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی مملکت کے نوجوان سالہا سال قدیم مصری خط تصویری کی مطالعہ کرتے رہیں اور اویسی رس کی حکایت بے سروپا کے پس منظر میں گم نظریات کی چھان پھٹک میں لگے رہیں اور امکانی صحت کے ساتھ ان آداب و احترام رسومات کی تحقیق کریں جو ازمنہءقدیم میں بلیوں اور پیازوں کے لیے ملحوظ رکھے جاتے تھے؟ کیا ان پر ازروئے انصاف یہ الزام آئے گا کہ اُنہوں نے روایات کے تسلسل کو منقطع کیا ہے۔ اگر بادشاہ اپنی نوجوان رعیت کو اس تحقیق میں لگانے کی بجائے کہ وہ مخروطی پتھر کے میناروں کی حنوطی تحریر پڑھیں وہ انہیں یہ حکم دیں کہ وہ انگریزی اور فرانسیسی زبانیں سیکھیں اور اس طرح سائنسی علوم میں دسترس حاصل کریں جن کے حصول کے لیے یہ زبانیں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔

جن الفاظ پر پرانے نظام برقرار رکھنے کے حامی زیادہ اعتماد کر رہے ہیں وہ الفاظ اُن کے نقطءنظر کی صحیح ترجمانی نہیں کر رہے اور الفاظ مابعد برخلاف ازیں قطعی طور پر فیصلہ کُن معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ایک لاکھ روپے صرف ہندوستان میں ادب کے احیاء( یہ وہ جزو جملہ ہے جس پر ان کی تشریحات کا دارومدار ہے)کے لیے مخصوص نہیں گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ حکومت برطانیہ کے زیر نگرانی علاقوں کے باشندوں میں سائنسی علوم کے تعارف اور ترقی کے لیے بھی رقم صرف کی جانا ہے۔ یہی الفاظ اس امر کے لیے کفایت کرتے ہیں کہ ہم وہ تمام تبدیلیاں برپا کرنے کے مجاز ہیں جن کےلئے میں جدوجہد کر رہاہوں۔

اگر کونسل کے اراکین میرے نقطءنظر سے متفق ہیں تو اس خصوص میں کوئی نیا ایکٹ وضع نہیں کرنا پڑے گا اگر اُنہیں اختلاف ہے تو پھر میں تجویز کر دوں گا کہ ایک مختصر سے ایکٹ کے ذریعے 1813ءکے چارٹر کی اس دفعہ کو منسوخ کر دیا جائے جس یہ اُلجھن پیدا ہوئی ہے۔

وہ دلیل جو میرے ذہن میں ہے صرف کارروائی کی ہیئت پر اثر انداز ہوگی۔ لیکن مشرقی طریق تعلیم کے مداحین نے ایک اور دلیل پیش کی ہے جسے ہم صحیح تسلیم کر لیں تو وہ کسی بھی تبدیلی کی متحمل نہیں ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ موجودہ طریقہ تعلیم سے لوگوں کو اعتقادی وابستگی ہے اور یہ کہ اس رقم کے کسی بھی حصے کو (جو عربی اور سنسکرت کی حوصلہ افزائی کے لیے استعمال ہورہا ہے) کسی اور مصرف میں لانا اس رقم کا کھلا استحصال بالجبر ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اُنہوں نے یہ نتیجہ کس منطقی طریق سے اخذ کیا ہے ۔ درآں حالاں کہ وہ گرانٹ جو خزانہءعامرہ سے ادبیات کی حوصلہ افزائی کے لیے دی جاتی ہے اس گرانٹ سے جو رفاہ عامہ کے لیے خزانہ سے دی جاتی ہے کسی طرح بھی مختلف نہیں ہے۔ فرض کیجئے ہم نے ایک دارالصحت کی بنیاد ایسے مقام پر رکھی ہے جسے ہم نے صحت بخش سمجھا تھا لیکن وہاں نتائج ہماری توقع کے مطابق برآمد نہیں ہوئے تو کیا اس صورت حالات میں ہم پاپند ہیں کہ اس کی عدم افادیت کے باوجود اس صحت گاہ کو وہیں برقرار رکھیں؟ یا ہم ایک ستون نصب کرنے کا آغاز کرتے ہیں اور تعمیر کے دوران میں کسی مرحلے پر اگر یہ یقین کرنے کی وجوہ موجود ہوں کہ یہ تعمیر بے فائدہ ہے تو کیا اس تعمیر کو روک دینا ، اعتماد عامہ کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہوگا؟

حقوق ملکیت بلاشہ قابل احترام ہیں لیکن ان حقوق کو کوئی امر اس سے زیادہ خطرے میں نہیں ڈال سکتا جس قدر یہ عام خوش گوار روش کہ انہیں اس شخص سے منسوب کر دیا جائے جس کی وہ ملکیت ہی نہیں ہے۔ وہ لوگ جو اس غلط استعمال میں شامل تمام خرابیوں کو ملکیت کے تقدس کی آڑ میں صحیح تصور کرتے ہیں دراصل اپنے اس طرز عمل سے ملکیت کے دستور اساسی ہی کو عدم قبولیت اور عدم استحکام کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اگر حکومت نے کسی شخص کو اس امر کی باضابطہ یقین دہانی کرائی ہے ۔ نہیں اگر یوں کہیں کہ حکومت نے کسی شخص کے ذہن میں یہ توقع یا شوق اُبھار دیا ہے کہ بطور سنسکرت یاعربی معلم یا متعلم کے اُسے خاص مشاہرہ حاصل ہوگا تو میں اس شخص کے اقتصادی مفاد کا احترام کروں گا اور حکومت پر عوام کے اعتماد کو کسی مسئولیت میں مبتلا کرنے کی بجائے میں اس خصوص میں غلط طور پر فیاضی کو ترجیح دوں گا۔ البتہ یہ کہنا کہ کسی حکومت نے اس امر کی ضمانت دے دی ہے کہ وہ بعض ایسی زبانوں میں علوم کی تدرس کا انتظام کرے گی جو بے فائدہ ہیں اور جن کی بے حقیقتی کی قلعی کھل گئی ہے میرے نزدیک ایک بالکل بے معنی سی بات ہے۔ حکومت کی کسی بھی دستاویز میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ حکومت ہند نے اس موضوع پر کبھی کوئی حتمی وعدہ کیا ہوا ہے یا یہ کہ اس رقم کے خرچ کے مقاصد متعین اور ناقابل تبدیل ہیں۔ اور اگر برعکس ازاں کوئی وعدہ ہوتا بھی تو میں اپنے پیشروؤں کے اس استحقاق پیمان بندی سے ہی انکار کر دیتا۔

فرض کیجئے کسی حکومت نے گذشتہ صدی میں یہ قانون بنایا تھا کہ اس کی عام رعایا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی طریق سے ہی چیچک کا ٹیکہ لگایا جائے جو طریق ان دنوں رائج تھا تو کیا جے نر کے انکشافات طبی کے بعد بھی حکومت انہی پرانے طریقوں کو برقرار رکھے گی؟یہ مواعید جن کا کوئی ایفاءکنندہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی ذمہ داری ہے کسی کو کوئی سبکدوش کرنے والا ہے۔ یہ ملکیت جس کے حقوق ملکیت کسی کو حاصل نہیں ہیں۔ یہ جائیداد جس کا کوئی مالک نہیں ہے۔ یہ رہزنی جس نے کسی کا کچھ چھینا نہیں ہے اس کا ادراک تو مجھ سے بہتر ذہنی صلاحیتوں کے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ میرے نزدیک تو یہ محض الفاظ آرائی ہے جسے برطانیہ اور ہندستان دونوں ملکوں میں کسی بھی غلط کارروائی کے دفاع و تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جہاں کوئی بہانہ کارگر ہوتا نظر نہ آئے۔

میرا موقف ہے کہ اس ایک لاکھ روپے کی رقم کا استعمال گورنر جنرل یا اجلاس کونسل کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ ہندستانی ذخائر علمی میں ترقی کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق مناسب طور پر خرچ کریں۔ میرا موقف یہ بھی ہے کہ امارت مآب بالکل اسی طرح یہ حکم دینے کے مجاز ہیں کہ آئندہ کوئی رقم عربی و سنسکرت کے علوم کی حوصلہ افزائی کے لیے صرف نہ کی جائے۔ یہ بعینہ اسی طرح ہے کہ جس طرح وہ حکم نافذ کر دیں کہ میسور میں چیتے مارنے کا معاوضہ کم کر دیا گیا ہے یا ایک کیتھیڈرل میں مذہبی نغمہ سرائی پر آئندہ سرکاری طور پر کوئی رقم خرچ نہیں کی جائے گی۔

اب اس مسئلے کے لب لباب کی طرف آئیں۔ ہمارے پاس ایک ایسی رقم ہے جسے حکومت کے حسب ہدایت اسی ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم و تربیت پر صرف کیا جانا ہے یہ ایک بڑا سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟

یوں لگتا ہے کہ تمام مختلف الخیال لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ہندوستان میں اس علاقے کے باشندے عام طور پر وہ مقامی زبانیں استعمال کرتے ہیں جو ادبی اور سائنسی معلومات سے تہی دست ہیں۔ علاوہ ازیں ذخیرہ الفاظ و اصطلاحات کے لحاظ سے اس قدر کم مایہ اور قوت اظہار کے اعتبار سے اس درجہ ناتراشیدہ ہیں کہ جب تک انہیں کسی ترقی یافتہ زبان سے تو نگر نہیں بنا دیا جاتا ان زبانوں سے کسی قابل قدر علمی شاہکار کا ترجمہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ لوگ اس حقیقت کے بھی معترف معلوم ہوتے ہیں کہ اس ملک کے اس طبقے کے لوگوں کی ذہنی تربیت کا انتظام جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ان کی مروجہ مقامی بولیوں کی بجائے کسی باضابطہ زبان کو تعلیم و تعلم کا ذریعہ بنائے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی زبان؟ کمیٹی کے پچاس فیصد اراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے باقی نصف اراکین اس مقصد کے لیے عربی اور سنسکرت زبان کے حامی ہیں۔ بہرحال یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کون سی زبان کی اہمیت زیادہ ہے؟

مجھے عربی اور سنسکرت زبان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان زبانوں کی اہمیت کیا ہے؟میں عربی اور سنسکرت زبانوں کے تراجم پڑھ چکا ہوں ۔ کمیٹی میں ایسے اراکین بھی شامل ہیں جو اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے کہ یورپ کی کسی بھی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی سرمایہ علمی پر بھاری ہیں۔ مغربی تخلیقات ادب کی منفرد عظمت کے طرفدار کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گرفتار ہیں۔

میرا خیال ہے کہ اس حقیقت کو ماننے میں کوئی تامل نہیں ہوگا کہ شاعری ادب کی وہ صنف ہے جس میں مشرقی قلم کاروں کو اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے لیکن یقین مانئے مجھے کوئی بھی ایسا مستشرق نہیں ملا جس یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کی ہو کہ عربی اور سنسکرت کے شعری مجموعے کا سرمائے عظیم کا یورپین اقوام کی تخلیقات شعری سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ جب ہم مشرقی شعری ادبیات کے دائرہ تخیلات سے باہر ان فن پاروں پر نظر ڈالتے ہیں جن کی اساس زندگی کے ٹھوس حقائق ہیں اور جن میں تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں عام اصولوں کی چھان پھٹک ہوتی ہے تو یورپ کی تخلیقات علمی کی فضیلت بے پایاں کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ تاریخی معلومات کا وہ ذخیرہ جو سنسکرت میں لکھی ہوئی تمام کتابوں میں موجود ہے۔ برطانیہ کی ابتدائی درس گاہوں میں زیر استعمال تشنہ صلاحیتوں میں شامل علمی مواد سے بھی قدر و قیمت کے لحاظ سے فروتر ہے۔ فلسفہ، طبیعات یا اخلاقیات کو کوئی شعبہ لیجئے، دونوں قوموں کی متناسب تقابلی علمی کیفیت کم و بیش یہی ہو گی۔

ان حقائق کی روسے اصل صورت حالات کیا ہوئی؟ ہمیں ایک ایسی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال اپنی مادری زبان میں تعلیم نہیں جاسکتی۔ ہمیں انہیں لازما کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگی۔ اس خصوص میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے۔ ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ یہ زبان قوت متخیلہ کے گراں بہار خزانوں کی امین ہے جن کا پایہ یونان کے مہتمم بالشان علمی کارناموں سے جو ہمیں ورثہ میں ملے ہیں کسی طرح بھی پست نہیں ہے۔ اس زبان میں متنوع انداز طاقت لسانی و خطابت کی مثالیں مہیا ہیں۔ تاریخی تصانیت جہنیں محض افسانہ سرائی اورداستان گوئی پر محمول کیاجاتا تھا۔ اس زبان کے قالب میں ڈھل ڈھل کر زندہ حقائق کے بے مثال نمونے بن گئے۔ ان سے تاریخ کا دامن مالا مال ہوگیا اور تاریخ اخلاقیات و سیاسیات کے بے نظیر ذریعہ اظہار بن گئی ہے۔

اس زبان نے فطرت انسانی اور حیات انسانی کی متوازن اور شگفتہ ترجمانی کی ہے۔ اس میں مابعد الطبیعات، اخلاقیات، امورسلطنت، فلسفہ قانون اور کاروبار تجارت میں بے حد عمیق غوروفکر کر سرمایہ موجود ہے۔ اس زبان میں ہر تجرباتی علم کے بارے میں ایسی مکمل اور صحیح معلومات فراہم ہیں جن کی مدد سے صحت عامہ کا تحفظ ہوسکتا ہے۔ راحت و آسائش میں اضافہ ہوسکتا ہے اور فراست انسانی کو نئی نئی وسعتیں مل سکتی ہیں۔ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثہ تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل جُل کر تخلیق کیا ہے اور گزشتہ نوے نسلوں نے جسے بہ کمال خوبی محفوظ کیا ہے۔

سرمایہ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سو سال پہلے دُنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پرمہیا تھیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ہندوستان میں تو انگریزی زبان کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہ حکمران طبقے کی زبان ہے۔ ملکی باشندوں سے اونچے طبقے کے لوگ جو صدر مقامات پر رہتے ہیں وہ بھی انگریزی زبان میں بات چیت کرتے ہیں یہ امکان بھی ہے کہ یہ زبان سارے مشرقی سمندروں میں تجارتی زبان بن جائے۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہ ان دونوں خیر عظیم قوموں کی زبان ہے جن میں سے ایک جنوبی افریقہ میں ہے اور دوسری آسٹریلیا میں ان دونوں قوموں کی اہمیت میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اور ان دونوں کا رابطہ ہماری ہندستانی سلطنت سے مضبوط تر ہورہا ہے۔ اب خواہ ہم اپنی زبان کی صحیح قدر وقیمت کا لحاظ رکھیں یا ہندوستان کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھیں۔ ہماری ٹھوس فکری دلیل یہ ہوگی کہ تمام غیر ملکی زبانوں میں صرف انگریزی ہی وہ زبان ہوسکتی ہے جو ہماری رعایا کے لیے سود مند ہوگی۔

اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سا سوال رہ جاتا ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھانے کا اختیار ہے تو کیا پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہے کہ اُس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیا جاسکے؟آیا جب ہم یوروپین سائنس کی تدریس کا انتظام کرسکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں گے جن کے بارے میں عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے ؟ پھر یہ بھی کہ آیا ہم جب پختہ فکر و فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے؟ ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اُڑائیں؟ ایسی تاریخ پڑھائیں جس میں تیس تیس فٹ قد آور بادشاہوں کے من گھڑت قصے ہوں اور جو تیس تیس ہزار سال تک حکمرانی کرتے رہے ہوں؟ اور ایسے جغرافیہ کی تدریس کریں جس میں پودوں اور درختوں کی راب اور رس اور مکھن کے سمندروں کی بے سروپا حکایتیں ہوں۔

اس مسئلہ پر غورو فکر میں ہم نے حیات انسانی کے سابقہ تجربات سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ تاریخ میں اس سے ملتی جلتی مثالیں موجود ہیں اور ان سب سے یہی سبق ملتا ہے ہم ماضی کے دھند لکوں میں کیوں جائیں، دور حاضر میں ہی یونیورسٹیوں کی سطح پر بُجر اینگلو سیکسن کہانیوں اور افسانوں اور نارمن فرانسیسی رومانوی قصوں کے نہ تو کچھ پڑھاتے اور نہ شائع کرتے تو کیا ادبیات اس مقام پر فائز رہ سکتی تھی جس پر وہ آج فائز ہے؟

اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو جو حیثیت یونانی اور لاطینی زبانوں کی مور اور السیچم کے ہم عصروں کے سامنے تھی، عین وہی حیثیت آج ہماری زبان کی ہندوستان کے لوگوں کے سامنے ہے۔ دقیانوسی، قدیم اور کلاسیکی ادب کے مقابلے میں آج انگریزی ادب زیادہ گراں پایہ ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ سنسکرتی ادبی سرمایہ شاید ہی وہ قابل قدر درجہ حاصل کر سکا ہو جو سیکسن اور نارمن موروثی ادبیات نے ہمارے ہاں حاصل کر لیا تھا۔ بعض شعبوں میں مثلا تاریخ میں ، تو میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ سنسکرت کا معیار کم تر ہے۔ ایک اور مثال علی وجہ البصیرت ہمارے سامنے ہے۔ گذشتہ ایک سو بیس سالوں میں ایک ایسی قوم نے جہالت کی پستیوں سے اُبھر کر منزل بہ منزل تہذیب یافتہ اقوام کی صف اولین میں مقام حاصل کر لیا ہے۔ درآں حالیکہ اس سے قبل وہ بربریت اور وحشت کا اسی طرح صید زبوں تھی جس طرح ہمارے آبا و اجداد صلیبی لڑائیوں سے پہلے تھے۔ میرا روئے سخن روس کی طرف ہے۔ اس ملک میں فی الوقت وسیع تعلیم یافتہ طبقہ موجود ہے جس میں ایک کثیر تعداد ان افراد کی ہے جو مملکت کے اعلیٰ ترین اور اہم ترین امورکو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی استعداد سے مالا مال ہیں۔ اور وہ پیرس اور لندن کے اعلیٰ ترین حلقوں کی قد آور باکمال شخصیتوں سے کسی اعتبار سے بھی کم ترین نہیں ہیں۔

بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ وسیع مملکت جو ہمارے اسلاف کے زمانے میں غالبا پنجاب سے بھی گزری تھی ہمارے اخلاف کے دور میں مسابقت اور ترقی کی دوڑ میں فرانس اور برطانیہ کے اصلاح حال کے منصوبوں میں قدم بہ قدم ساتھ ہوگی۔ یہ تبدیلی کیسے عمل میں آئی؟ قومی عصبیتوں کے ساتھ کھیلا نہیں گیا، نہ ہی ماسکو کی نئی پود کو بڑی بوڑھیوں نے اُن کے جاہل آبا و اجداد کی توہم پرستانہ کہانیاں سنا سنا کر تبدیلی پیدا کی، اور نہ ہی اُن کے دماغ میں سینٹ نکولس کے دروغ آمیز قصے ٹھونسے گئے۔ نہ ہی اُن کے اس غیر معمولی مسئلے کے مطالعہ پر ہمت افزائی کی گئی کہ کیا کائنات 13ستمبر کو معرض وجود میں آئی تھی یا نہیں؟ اور نہ ہی انہیں ان امور علمی کا احاطہ کرنے پر ملکی فضلاءکے لقب سے نوازنے پر بلکہ اُنہیں غیر ملکی زبانوں کی تعلیم دیکر یہ انقلاب برپا ہوا جن میں گراں بہا ذخائر علمی محفوظ تھے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُنہیں ان علوم تک دسترس ہوگئی اور مغربی یورپ کی زبانوں نے روس کو زیور تہذیب و ثقافت سے آراستہ و پیراستہ کر دیا۔ مجھے اس بات میں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہے کہ ان زبانوں نے جس طرح تاتاریوں میں ذہنی تبدیلی پیدا کر دی تھی اسی طرح وہ ہندوؤں میں بھی ایک عظیم تبدیلی پیدا کر دیں گے۔

(جاری ہے)

بشکریہ: تعلیمی زاویہ اور مصنف