آدھا دن (نجیب محفوظ)

(ترجمہ:منیر فیاض)

نجیب محفوظ کی ایک شاہکار کہانی جس کا ترجمہ منیر فیاض نے کیا۔ نجیب محفوظ کو 1988میں نوبل پرائز دیا گیا جن کا تعلق مصر سے ہے۔منیر اس سے پہلے اُن کی مختصر کہانیاں بھی ترجمہ کر چکے ہیں۔ یہ اُن کا ایک غیر مطبوعہ ترجمہ ہے جسے’’ ایک روزن‘‘ پہ شائع کیا جا رہا ہے۔

 

 

میں اپنے باپ کا دایاں ہاتھ مضبوطی سے تھامے اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ میرا سارا لباس نیا تھا: کالے جوتے، سکول کی سبز وردی، اور سرخ ٹوپی۔ مگر مجھے اس کی خوشی نہیں تھی کیونکہ آج وہ دن تھا جب مجھے پہلی مرتبہ سکول میں پھینکا جا رہا تھا۔
d6cd13a2bc1d064c23ca13a857f19dedمیری ماں دروازے میں کھڑی ہماری پیش قدمی کو دیکھ رہی تھی اور میں گاہے گاہے مدد کی امید پر مڑ کے اسے دیکھتا تھا۔ہم ایک ایسی گلی میں چل رہے تھے جس کے دائیں بائیں فصلیں تھیں اور کناروں پرکھجور اور ناشپاتی کے درختوں کی قطاریں تھیں۔
’’سکول کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا،’’میں نے کیا کِیا ہے؟‘‘۔
’’میں تمہیں کسی بات کی سزا نہیں دے رہا‘‘اس نے ہنستے ہوئے کہا،’’سکول کوئی سزا نہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لڑکوں کو کار آمد افراد بنایا جاتا ہے۔ کیا تم اپنے بھائیوں کی طرح کار آمد نہیں بننا چاہتے؟‘‘۔
میں اس بات سے قائل نہیں ہوا۔ مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ گھر سے اٹھا کر مجھے اس اونچی دیواروں والی بڑی عمارت میں پھینکنے کا واقعی کوئی فائدہ تھا۔
جب ہم دروازے پر پنہچے تو لڑکوں اور لڑکیوں سے بھرا سکول کا وسیع صحن نظر آنے لگا۔
’’خود اندر جاؤ اور ان سے ملو‘‘، میرے باپ نے کہا’’چہرے پر مسکراہٹ سجاؤ اور دوسروں کے لئے اچھی مثال بنو‘‘۔
میں ہچکچایا او ر اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا مگر اس نے مجھے نرمی کے ساتھ خود سے جُدا کیا۔ ’’مرد بنو‘‘ ، اس نے کہا۔’’آج تم صحیح معنوں میں اپنی زندگی آغاز کرنے جا رہے ہو۔ چھٹی کے وقت تم مجھے یہاں اپنا منتظر پاؤ گے۔‘‘
میں چند قدم آگے بڑھا۔پھر مجھے لڑکوں اور لڑکیوں کے چہرے نظر آنے لگے۔میں ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جانتا تھا اور نہ ان میں سے کوئی مجھے جانتا تھا۔ مجھے لگا جیسے میں اجنبی ہوں اور راستہ بھٹک کر یہاں آ گیا ہوں۔مگر پھر کچھ لڑکوں نے مجھے تجسس سے دیکھنا شروع کر دیا اور ان میں سے ایک نے میرے قریب آ کر پوچھا،’’تمہیں کون لایا‘‘
’’میرا باپ‘‘، میں نے سرگوشی کی۔
’’میرا باپ مر گیا‘‘ اس نے بس یہی کہا۔
مجھے علم نہیں تھا کہ اب کیا کہنا ہے۔ دروازہ بند ہو چکا تھا۔ کچھ بچے رونے لگے۔گھنٹی بجی۔ ایک عورت آئی جس کے پیچھے کچھ مرد تھے۔مردوں نے ہماری درجہ بندی شروع کر دی۔ہمیں طویل عمارتوں کے درمیان پھیلے اس وسیع صحن میں پیچیدگی سے مرتب کر دیا گیا۔ہر منزل پر موجود لکڑی کی چھت والے چھجوں سے ہمیں دیکھا جا رہا تھا۔
’’یہ تمہارا نیا گھر ہے‘‘،عورت نے کہا۔’’یہاں تمہاری مائیں اور باپ بھی ہیں۔ ہر وہ چیز یہاں موجود ہے جو تمہارے لئے فائدہ مند اور لطف اندوز ہے ۔اپنے آنسو پونچھو اور بخوشی زندگی کا سامنا کرو‘‘۔
ایسا لگتا تھا کہ میری بد گمانیاں بے بنیاد تھیں۔اولین لمحات سے ہی میں نے بہت سے دوست بنا ئے اور بہت سی لڑکیوں کی محبت میں گرفتار ہوا۔ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ سکول اتنے سارے خوش کن تجربات سے بھر پور ہو گا۔
ہم نے بہت سے کھیل کھیلے۔موسیقی کے کمرے میں ہم نے اپنا پہلا گانا گایا۔زبان سے بھی ہمارا پہلا تعارف ہُوا۔ہم نے زمین کا گلوب دیکھا جو گھومتا تھا اور اس پر بہت سے ممالک اور براعظم نظر آتے تھے۔ہم نے گنتی سیکھی اور ہمیں خدا اور کائنات کی تخلیق کی کہانی سنائی گئی۔
ہم نے مزیدار کھانا کھایا، قیلولہ کیا اور بیدار ہوکے اپنی دوستی اور محبت، کھیلنے اور سیکھنے کو جاری رکھا۔
ہمارا راستہ مکمل طور پر لطف آگیں اور آسان نہیں تھا۔ہمیں صبر کے ساتھ بہت کچھ دیکھنا پڑتا تھا۔یہ محض کھیلنے کودنے اور مستیاں کرنے کا معاملہ نہیں تھا۔یہاں دشمنیوں سے نفرت پیدا ہو سکتی تھی جس سے لڑائی ہونے کا بھی خدشہ تھا۔اور وہ عورت جہاں کبھی کبھی مسکراتی تھی تو اکثر ڈانٹتی اور چلاتی بھی تھی۔بلکہ اکثر اوقات وہ جسمانی سزا بھی دیتی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ اب ارادہ بدلنے کا وقت ختم ہو چکا تھا اور گھر کی جنت کو کبھی بھی پلٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ہمارے سامنے اب محنت، کوشش اور ثابت قدمی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔جو قابل تھے انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا او ر کامیابی حاصل کی۔
گھنٹی کی آواز نے دن اور کام کے اختتام کا اعلان کیا۔بچے بھاگتے ہوئے دروازے کی طرف دوڑے جو دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔میں نے دوستوں اور محبوباؤں کو خدا حافظ کہا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔میں نے ارد گرد دیکھا مگر اپنے باپ کا، جس نے مجھ سے وہاں موجود ہونے کا وعدہ کیا تھا، کہیں نشان نہ پایا ۔میں ایک طرف کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا۔طویل اور رائیگاں انتظار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود گھر چلا جاؤں۔میں چند قدم

Cairo, EGYPT: Egyptian novelist and 1988 Nobel prize winner in Literature, Naguib Mahfouz, celebrates his 94th birthday at a hotel in Cairo late 14 December 2005. This year's Nobel Prize for Peace won by International Atomic Energy Agency (IAEA) Director General Mohamed ElBaradei, an Egyptian, brought to four the number of Egyptians who won this world prestigious prize, after late President Anwar Sadat, Mahfouz and physicist Ahmed Zeweil. AFP PHOTO/STR (Photo credit should read -/AFP/Getty Images)

چلا اور پھر حیرت زدہ ہو کر رک گیا۔او خدایا!وہ گلی کہاں گئی جس کے دونوں طرف باغات تھے؟ وہ کہاں غائب ہو گئی؟یہ سب گاڑیاں یہاں کب داخل ہوئیں؟اور یہ سب لوگ کب زمین پر آ گئے؟یہ کُوڑے کے ڈھیر کی پہاڑیاں کناروں پر کیسے آگئیں؟وہ فصلیں کہاں گئیں جو دونوں کناروں پر موجود تھیں؟ہر طرف بلند عمارتیں تھیں، گلیاں بچوں سے بھری ہوئی تھیں اور ہوا میں پریشان کُن شور کی آوازیں تھیں۔ادھر اُدھر مداری کھڑے تھے جو اپنی ٹوکریوں سے سانپ نکالنے اور غائب کرنے کے کرتب دکھا رہے تھے۔پھر ایک بینڈ تھا جو سرکس کے افتتاح کا اعلا ن کر رہا تھا جس کے آگے آگے مسخرے اور پہلوان چل رہے تھے۔
او خدایا! میں ہکا بکا رہ گیا۔میرا دماغ گھوم رہا تھا۔صرف آدھے دن میں، صبح اور شام کے درمیان، یہ سب کیسے ہو سکتا ہے۔گھر پہنچ کر مجھے اپنے باپ سے اس کاجواب مل جائے گا۔مگر میرا گھر تھا کہاں؟میں چوراہے کی طرف بھاگا کیونکہ مجھے یاد تھا کہ گھر پہنچنے کے لئے مجھے سڑک پار کرنا ہو گی۔مگر گاڑیوں کے دھوئیں نے مجھے پار نہیں ہونے دیا۔انتہائی جھنجلاہٹ کے عالم میں میں نے سوچا کہ پتہ نہیں کب میں سڑک پا ر کرنے کے قابل ہوں گا۔
میں بہت دیر تک وہاں کھڑا رہا اور تب کونے پر واقع دھوبی کی دکان سے کپڑے استری کرنے والا ملازم لڑکا میرے پاس آیا۔
اس نے اپنا بازو میری طرف بڑھایا اور کہا،’’بابا جی، آئیں میں آپ کو سڑک پار کروا دوں۔‘‘