جنگ کیوں؟ سیگمنڈ فرائیڈ کا آئن سٹائن کو جواب

ادارتی نوٹ: آئن سٹائن کا خط پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔ وہ خط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

—————————————————————

(ترجمہ: قاضی احسان)

—————————————————————
ویانا، ستمبر 1932ء

ڈیئر پروفیسر آئن سٹائن

جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ ایک ایسے مسئلے پر مجھ سے تبادلہ خیالات کرنا چاہتے ہیں جس میں نہ صرف آپ خود گہری دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ جو دوسروں سے بھی اسی قدر توجہ کا متقاضی ہے تومیں فوراً رضامند ہوگیا۔ مجھے امید تھی کہ آپ یقیناً کسی ایسے مسئلے کا انتخاب کریں گے جس پر خواہ آپ ماہرطبیعیات کی حیثیت سے روشنی ڈالیں اور میں ماہر نفسیات کی حیثیت سے ہم مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ایک ہی منزل اور نتیجے پر پہنچیں گے۔ بہر حال جب آپ نے اس مسئلے کا انتخاب کیا کہ انسانیت کو جنگ کی لعنت سے بچانے کے لیے کیا کیا جاسکتاہے تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ پہلے تو میں اپنے ہی خیالات کا اظہار دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ”ہم” (دانشوراور مفکرین) جنگ کے مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ایک عملی مسئلہ ہے جس کا حل صرف سیاستدانوں اور حکمرانوں کے پاس ہے۔ لیکن جب میں نے آپ کا نکتہ نظر پڑھا تو مجھے احساس ہواکہ آپ اس مسئلے کو ایک طبعی سائنس داں کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک انسانیت پرست اور مخیر کے زاویے سے دیکھ رہے ہیں مزید برآں مجھے احساس ہوا کہ مجھ سے اس مسئلے کا عملی حل طلب نہیں کیا جارہا، اس کے برعکس مجھ سے صرف یہ پوچھا جارہا ہے کہ نفسیات دان کی حیثیت سے میں جنگ و جدل کو کم کرنے کے لیے کیا تجاویز پیش کرسکتاہوں۔ یہاں پھر میں اعتراف کروں گا کہ آپ نے میرے کہنے کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی اور وہ سب کچھ کہہ ڈالا ہے جو درحقیقت مجھے کہنا تھا تاہم میں وہی سب کچھ دہرانے پر اکتفا کروں گا جو آپ کہہ چکے ہیں۔

آپ نے حق اور طاقت کے باہمی رشتے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ ابتداء کرنے کے لیے بہت اچھا نکتہ ہے۔ یہاں پر میں طاقت کی جگہ مزید سخت لفظ تشدد استعمال کروں گا۔ آج ہمیں حق اور تشدد ایک دوسرے سے متضاد نظر آتے ہیں لیکن یہ بآسانی جانچا جا سکتاہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے اندر سے تخلیق ہوئے اور اگر ہم ان کی ابتدائے آفرینش پر غور کریں تو مسئلہ مزید سہولت سے حل ہو سکتاہے۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دو افراد کے مابین مفادات کا ٹکراؤ تشدد یا طاقت کے ذریعے طے کیا جاتاہے۔ یہ امر جنگل اور جانوروں میں آج بھی مروج ہے جن سے خود کو جدا سمجھنے کا انسان کو کوئی حق نہیں۔ تاہم انسانوں میں مفادات کے علاوہ آراء کا تصادم بھی بسا اوقات ایسی نہج پر پہنچ جاتاہے جو اپنے حل کے لیے مختلف قسم کی تکنیک چاہتاہے۔ لیکن یہ بعد کے مرحلے پر پیدا ہونے والی پیچیدگی ہے۔ ابتداء ایک مختصر انسانی جتھے یا گروہ میں صرف جسمانی طاقت ہی اس کا امر کا فیصلہ کرتی تھی کہ اشیاء کا مالک کون ہوگا اور حکومت کون کرے گا۔ جسمانی طاقت میں اضافے کے لیے جلد ہی ہتھیار بنالیے گئے جنہوں نے ملکیت کے تنازع کا حل مزید آسان بنا دیا۔ حکم اس کا نافذ ہوگا جس کے پاس زیادہ اور بہتر ہتھیار ہوں گے اور جو انہیں مہارت سے استعمال کرنے کا فن جانتا ہوگا۔ ہتھیاروں کی ایجاد کے ساتھ ہی ذہنی برتری نے جسمانی طاقت پر غالب آنا شروع کر دیا لیکن جنگ کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہا کہ کوئی ایک فریق اپنے مطالبے (یا حق) سے دستبردار ہوجائے۔ یہ مقصد پور ی طرح سے اس وقت پورا ہوتاہے جب ایک فریق دوسرے کو مکمل طورپر مٹا ڈالے یعنی ہلاک کردے۔ اس سے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں، اولاً وہ دوبارہ مخالفت کے قابل نہیں رہتا اور دوم اس کا انجام دیکھ کر دوسرے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دشمن کو ہلاک کرنے سے ایک جبلی تسکین حاصل ہوتی ہے جس کا تذکرہ میں آگے چل کرکروں گا۔ دشمن کو ہلاک کرنے کی خواہش پر اس خیال سے قابو پا یا جاسکتا ہے کہ دشمن کو زندہ چھوڑ کر اس سے مفید کام لئے جاسکتے ہیں۔ اس صورت میں فاتح، مفتوح کو ہلاک کرنے کی بجائے غلام بنانے پر بھی اکتفا کرتاہے۔ اس خیال کے تحت دشمن کی زندگی کو تحفظ تو دیا جاسکتاہے لیکن اس صورت میں فاتح کی اپنی زندگی کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہے گا کیونکہ غلام مفتوح کے دل میں انتقام لینے کے خیالات مستقل پرورش پاتے رہیں گے۔

چنانچہ ابتدائی ادوار میں انسانی معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہی کا قانون نافذ العمل رہا جو آہستہ آہستہ (بظاہر) تبدیل ہوکر قانون کی حاکمیت یا حق کی عملداری کی صورت اختیار کر گیا۔ یہ تبدیلی کیونکر ممکن ہوئی اور یہ راستہ کس طرح ہموار ہوا؟ میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ راستہ صرف ایک ہی تھا یعنی کہ ایک طاقتور شخصیت کا مقابلہ بہت سے کمزور افراد مل کر کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں حق، متحد معاشرے کی طاقت کا نام ہے۔ یہ اب بھی تشدد ہی ہے جو کسی تنہا طاقتور کو اپنا ہدف بنا سکتاہے یا بناتا ہے اگر وہ اس کی خواہشوں کے راستے میں مزاحم ہو۔ یہ بھی وہی راستے اپناتا ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہی طریقے اختیار کرتاہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حق یا قانون فرد کا تشدد نہیں ہے بلکہ معاشرے یا اکثریت کا تشدد ہے۔ اس تمام مرحلے کی تکمیل میں ایک نفسیاتی شرط کی تکمیل نہایت اہم ہے۔ اکثریت کا اتحاد مستقل اور دائمی ہوتا ہے کیونکہ اگر یہ صرف ایک مقصد حل کرنے کے بعد ختم ہوجاتا تو اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوتا۔ کوئی دوسرا طاقتور، پہلے طاقتور کی جگہ لے لیتا، بزور شمشیر کمزوروں سے اپنی بات منواتا، کمزور جتھہ بناتے اور اسے ختم کرتے ، الغرض یہ سلسلہ لگاتارختم ہوئے بغیر چلتاہی رہتاہے۔ چنانچہ معاشرے کی تنظیم مستقل بنیادوں پر ہونی چاہئے۔ اس متوقع بغاوت کو کچلنے کے لیے قوانین وضع کرنے چاہئیں اور ان قوانین پر عمل درآمد کروانا چاہیے ۔ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کوقرار واقعی سزا دلوانی چاہئے۔ باہمی مفادات کا یہ احساس ایک ہی معاشرے کے افراد میں جذباتی روابط کو فروغ دیتاہے۔ یہ گروہی جذبات جو باہمی محبت پر مشتمل ہوتے ہیں، معاشرے یا گروہ کی اصل طاقت کا سرچشمہ کہلاتے ہیں۔

اب ہم معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں، انسان نے تشدد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے طاقت کو ایک بڑی اکثریت کی طرف منتقل کر دیا اور اکثریت نے آپس میں جذباتی روابط پیدا کرلیے تاکہ خود کو مضبوط اور مستحکم بنا سکے۔ جب تک معاشرہ ایک ہی جیسے افراد پر مشتمل رہے(یعنی سب کی طاقت یکساں ہو) کوئی بڑا مسئلہ در پیش نہیں آتا کیونکہ ہر فرد اپنی طاقت کے ایک حصے سے معاشرتی بقاء کی خاطر دستبردار ہوجاتاہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ نقشہ صرف نظریاتی ہے جبکہ نظریے اور عمل میں بڑا فرق ہوتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نوع انسانی کے آغاز ہی سے معاشرہ ایسے ارکان پر مشتمل رہا جو غیر مساوی طاقت اور اختیارات کے مالک تھے، مثلاً مرد اور عورت، والدین اور بچے ۔ اس کے نتیجے میں جلد ہی جنگ و جدل اور فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا جس نے فاتح اور مفتوح یا بالفاظ دیگر آقا اور غلام کے ادارے پیدا کیے۔ جلد ہی معاشرے کا انصاف طاقت کی غیر مساوی تقسیم کی شکل اختیار کر گیا اور وضع کروہ قوانین در حقیقت حکمران طبقات کے مفادات کی حفاظت کے لیے کام کرنے لگے جن میں محکوموں کے حقوق کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔

اسی دور سے معاشرے میں ایسے رجحانات کا آغازہوا جو قانون کے خلاف بے چینی کا منبع تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ قوانین میں مزید سختی اور اضافے کا باعث بھی بنے۔ مثلاً حکمران طبقات کی طرف سے کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے خود کو بالا تر ثابت کریں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ قانون کے دائرے سے نکل کر تشدد کے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ کچلے ہوئے طبقات بھی خاموش رہنا پسند نہیں کرتے ان کا بھی یہی مطمح نظر رہتاہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کریں اور قانون کے ڈھانچے میں تبدیلی کروائیں۔ ان کا مقصد امتیازی انصاف کی جگہ سب کے لیے مساوی انصاف کا حصول ہوتاہے۔ جب کبھی بھی کسی معاشرے میں طاقت کے توازن میں فرق آتاہے اس کے پس پردہ دوسرا محرک بھی کار فرما ہوتاہے۔ جو بہت سے تاریخی عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس کے زیر اثر حق خود کو طاقت کی نئی تقسیم کے تحت ڈھال لیتا ہے اور جیسا کہ ہمارا عام مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ حکمران طبقہ اس تبدیلی کو اپنانے سے حتی الوسع گریز کرتاہے تاوقتیکہ کھلی بغاوت اور خانہ جنگی کا آغاز نہ ہوجائے۔ اس سے قانون میں عارضی طورپر رخنہ پڑتا ہے اور اسے تشدد کے نئے ہتھکنڈوں سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں تازہ قوانین وجود میں آتے ہیں۔ قانون میں ترمیم کا ایک اور طریقہ بھی ہے جو یقیناً پر امن ہے، یہ افراد اور معاشرہ کی ذہنی اور تہذیبی سطح میں ترقی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کا تفصیلی تذکرہ میں کچھ دیر ٹھہر کر کروں گا۔

مفادات کا یہ ٹکراؤ محض ایک معاشرے کے اندر ہی نہیں ہوتا بلکہ بڑے اور چھوٹے معاشرے، شہر، صوبے، ریاستیں، قومیں اور نسلیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہتی ہیں ان کے تنازعات کا حل بیشتر اوقات مسلح تصادم کے ذریعے ہی ہوتاہے۔ بعض جنگوں میں ایک فریق مکمل طورپر فاتح بھی قرار پاتاہے لیکن ایسی جنگوں نے بھی انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ مثلاً منگولوں اور ترکوں کی جنگوں کا نتیجہ سوائے تباہی، بربادی اور خونریزی کے اور کچھ نہیں تھا۔ اس کے برعکس کچھ جنگوں نے پائیدار امن کے قیام کو بھی ممکن بنایا مثلاً رومنوں کی فتح نے بحیرۂ روم کے ناآسودہ خطے کو امن کی نعمت سے نوازا، اسی طرح فرانسیسی بادشاہوں کی حرص و ہوس کے نتیجے میں ایک وسیع الرقبہ، خوشحال اور متحد فرانس وجود میں آیا۔ یہ باتیں بظاہر بڑی عجیب اور غیر منطقی سی معلوم ہوتی ہیں لیکن بعض جنگیں فی الواقع پائیدار امن کو ممکن بناتی ہیں مثلاً اگر کسی طاقتور مرکزی حکومت کے ٹکڑے ہوجائیں اور بڑی بڑی آزاد اکائیاں وجود میں آئیں تو ان سے مزید جنگوں کا راستہ یقیناً رک جائے گا مگر ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔

اکثر اوقات فتوحات کے ثمرات عارضی ہوتے ہیں۔ جنگوں کے نتیجے میں بننے والے اتحاد باہمی یگانگت اور اخوت کی کمی کے باعث جلد اختلافات کا شکار ہو کر ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان کے درمیان جلد ہی شدید آویزش شروع ہوجاتی ہے جو مزید جنگ و جدل کا پیش خیمہ بنتی ہے ۔ وقت کی گردش کے ساتھ ساتھ انسان نے چھوٹی چھوٹی لا تعداد جنگیں ترک کرکے وسیع اور عالمی جنگوں کا راستہ اپنا لیاہے جو پہلے سے بھی کہیں زیادہ خونریز اور تباہ کن ہے۔

اگر ہم اپنے دور کا حوالہ دیں تو میں بھی اسی رائے کا اثبات کروں گا جو آپ نے حال ہی میں پیش کی ہے۔ جنگیں صرف اس صورت میں رک سکتی ہیں اگر انسانیت باہم متحد ہو کر ایک مرکزی ادارے کا وجود عمل میں لائے جسے ان تمام تنازعات پر فیصلہ دینے کا اختیار ہو جو اس کے دائرہ سماعت میں لائے جائیں۔ اس کے لیے دو عوامل ناگزیر ہیں، نمبر ایک، ایک سپریم ایجنسی یا ادارے کا قیام اور دوسرے اسے ضروری اختیار ات اور طاقت کی تفویض کیونکہ ایک کے بغیر دوسرا بے کار ہے۔ لیگ آف نیشنز یقیناً اسی نوعیت کا ادارہ ہے لیکن یہ ضروری اور لازمی طاقت سے محروم ہے۔

ہم اس سے پہلے کہیں کہ چکے ہیں کہ معاشرہ دو عناصر پر قائم رہتاہے، پہلی تشدد کے خلاف دفاع اور دوسری آپس کے جذباتی روابط جن کا تکنیکی نام عینیت(Identification) ہے۔ اگران میں سے ایک عنصر کام کرنا چھوڑ دے تو دوسرا تو شاید دوسری اس کو سہار ا دینے میں کامیاب ہوجائے، مثلاً باہمی جذباتی روابط کا انحصار بھی کچھ نظریات یا عقائد پر ہوتاہے اگر وہ مضبوط ہو ں اور معاشرے کے تمام ارکان میں یکساں طورپر پائے جائیں تو معاشرہ بے حد مضبوط ہوسکتا ہے۔ مثلاً قدیم سلطنت یونان میں دیگر وحشی اقوام سے برتر ہونے کا تصور معاشرتی بقاء کا بہت بڑا راز تھا۔ اس تصور کا اظہار ان کے ادب میں کثرت سے ملتاہے۔ تاہم یہ نظریہ بھی ان کے باہمی تنازعات کو پور ی طرح نہیں دبا سکا۔ یونانی ریاستیں ایک دوسرے پر غالب آنے کے لیے یا ادنیٰ مفادات کے لیے ریاست فارس(Persia) سے اتحاد کرنے سے بھی نہیں چوکتی تھیں۔ نشاۃ ثانیہ کے وقت عیسائیت کا بندھن بھی ان ریاستوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہونے میں سلطان(سلطنتِ عثمانیہ کی طرف اشارہ ہے)  کی مددلینے سے نہ روک سکا۔ آج بھی ایسا کوئی نظریہ نہیں پایا جاتا جو کسی مضبوط بندھن کا کردار ادا کرسکے۔ تاہم بعض اصحاب کا خیا ل ہے کہ کمیونسٹ نظریات جنگ و جدل کو ختم کر سکتے ہیں تاہم کے مستقبل بعید میں بھی امکانات نظر نہیں آتے۔  یوں بھی عملی تشدد کو محض خیالات کی طاقت سے نہیں روکا جاسکتا۔ ہم اس وقت تک خام خیالی اور غلط فہمی کا شکار رہیں گے جب تک یہ نہ جان لیں کہ ایک دور میں قانون محض بدترین تشدد ہی تھا اور آج بھی یہ تشدد کے سہارے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔

آپ نے ایک اور خیال کا اظہار  بھی کیا ہے کہ انسان کے اندر تخریب اور نفرت کی جبلت موجود ہے جو جنگ و جدل کے حامیوں کو بہت سازگار آتی ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ سے کلی اتفاق کا اظہار کروں گا۔ ہم (ماہرین تحلیل نفسی) اس نوعیت کی جبلت کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور گزشتہ کئی برس تک اس کے مطالعے میں مصروف رہے ہیں۔ میں آپ کی اجازت سے اس ضمن میں اپنے نظریات پیش کرنا چاہوں گا جو جبلت تخریب کے مظاہر پر روشنی ڈالتے ہیں۔

ہمارے مفروضے کے مطابق انسانی جبلتیں صرف دو قسم کی ہیں۔ پہلی وہ جو اس کے وجود کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے ضروری ہیں جنہیں ہم”ایروٹک”(Erotic) کہتے ہیں۔ اس کا مفہوم بالکل وہی ہے جو افلاطون نے اپنے مکالمے سمپوزیم میں لفظ ایروز(Eros) کو عطا کیا ہے۔ جنس اور اس کے متعلقات بھی ایروز میں شامل ہیں ۔ دوسری طرف وہ جبلت ہے جو تخریب اور قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ کہہ کر ہم نے کوئی نئی بات نہیں کی یہ دونوں جبلتیں محبت اور نفرت کے جذبات ہی کا دوسرا نام ہیں جن سے کشش اور مدافعت کے رد عمل پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں فوراً ہی یہاں خیر و شر یا نیک اور بد کا محاکمہ جاری نہیں کرنا چاہئے۔ یہ دونوں جبلتیں زندگی اور نظام کائنات کو جاری وساری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک جبلت دوسری کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اور یہ دونوں ہمیشہ اکٹھی پائی جاتی ہیں۔ البتہ ان کی مقدار میں فرق ہوسکتاہے، بلکہ ہوتاہے کبھی ایک جبلت کا پلہ بھاری ہوجاتاہے کبھی دوسری کا۔

جس جبلت کی مقدار زیادہ ہو وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایروز کا مقصد زندگی اور وجود کو قائم رکھنا ہے جس کے لئے اس کے پاس تشدد اور طاقت کا کوٹہ بھی ہوتاہے۔ ساتھ ہی ساتھ محبت کی جبلت کو بھی قوت اور ملکیت کے لیے طاقت درکار ہوتی ہے تاکہ یہ اپنے محبوب کو حاصل کر سکے اور اس پر غلبہ پاسکے۔ ان دونوں جبلتوں کو جدا کرنے کی ناکام کوششیں ہی ہمارے لئے کئی مشکلات کا سبب بنی اور یہی وجہ ہے کہ غالباً ہم اتنی دیر تک انہیں پہچان نہ سکے۔

میں یہاں ایک اور بات کہنا چاہتاہوں جو ایک اور طرح کی پیچیدگی کا باعث بنتی ہے وہ یہ کہ ہمارا کوئی بھی عمل شاذ و نادر ہی کسی ایک جبلت کا نتیجہ ہوتاہے۔ زیادہ تر یہ ایروز اور جبلت تخریب کی آمیزش سے وجود میں آتاہے۔ یقیناً کسی عمل کے وقوع پذیر ہونے میں دونوں جبلتوں کی آمیزش کا کوئی نہ کوئی فارمولا ضرور ہوتا ہوگا۔ اس کا اندازہ سب سے پہلے آپ کے مضمون کے ایک ماہر نے لگایا تھا۔ یہ پروفیسر جی سی لچن برگ تھے جو گوٹنجن میں فزکس کے پروفیسر تھے لیکن ماہر طبیعیات سے بڑھ کر ماہر نفسیات تھے ۔ انہوں نے محرکات کا ایک دائرہ بنایا تھا اور وہ کہا کرتے تھے کہ مختلف محرکات عمل کو 32مختلف طریقوں سے ترتیب دیا جا سکتاہے۔
چنانچہ جب انسان کچھ بھی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں مختلف منفی اور مثبت محرکات ان کے پیچھے سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ یہی حال بعینہ جنگ کا ہے۔ جب انسان جنگیں لڑتے ہیں تو مختلف قسم کے نیک اور بد مقاصد ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ انہیں یہاں گننے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن ہوس تخریب و تشددان میں سے اولین ہوتی ہے۔ ظلم و تعدی کی لاتعداد مثالیں اس کا اثبات کرتی ہیں۔ بعض نظریاتی محرکات کے پس پردہ بھی درحقیقت تشدد اور تخریب ہی کی جبلت کا ر فرما ہوتی ہے اور پر تشدد نظریاتی تحریکیں درحقیقت نظریے کے فروغ کی بجائے جبلت تشدد کو تسکین فراہم کرتی ہیں۔ جب ہم قرون وسطیٰ کے مذہبی تشدد کو یاد کرتے ہیں تو ہمارے اس نظریے کو اثبات فراہم ہوتاہے۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ نظریاتی محرکات شعور میں کار فرما ہوتے ہیں اور پس پردہ تشدد کی جبلت لاشعور میں سرگرم عمل ہوتی ہے۔

مجھے احساس ہے کہ میں غیر ضروری تفصیلات میں جارہا ہوں کیونکہ یہاں ہمارا مقصد جنگ کا انسداد کرنا اور اس کے لیے عملی حل تجویز کرنا ہے نہ کہ نظریہ سازی کرنا۔ لیکن اس کے باوجود میں تخریبی جبلت کے متعلق کچھ مزید کلمات ضرور کہنا چاہوں گا۔ معمولی غور و فکر سے ظاہر ہوگاکہ یہ جبلت صرف انسان ہی میں نہیں بلکہ ہر زندہ مخلوق میں موجود ہے اور اس کا مقصد زندگی کو ختم کرکے مادے کو دوبارہ سے مردہ اور غیر نامیاتی حالت میں لے جانا ہے۔ چنانچہ اسے محض تخریب کا نام دینے کی بجائے جبلت موت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کے برعکس جبلت حیات زندہ رہنے کے لیے سرگرم رہتی ہے۔ جبلت موت خصوصی ہتھکنڈوں سے لیس ہو کر کسی عضویے (جاندار) پر حملہ کر تی ہے۔ عضو یہ جو اپنی زندگی برقرار رکھنا چاہتا ہے اس کا مقابلہ کرتاہے اور اسے ہلاک کر دیتاہے یعنی زندگی کو اپنی بقاء کے لیے بھی دوسرے کی موت درکار ہے لیکن جبلت مرگ کا کچھ حصہ عضو یے کے اندر بھی سرایت کرجاتا ہے اور اس میں کارفرما رہتا ہے۔ بہت سے نارمل اور متعدد مریضانہ رویے جبلت مرگ کی داخلیت کا مظہر ہیں۔ مثلاً ضمیر ہی کو لیجئے یہ کیا چیز ہے، یہ محض خارجی تشدد کو داخلی تشدد میں بدلنے کا نام ہے۔ اگر جبلت مرگ خود عضو یے ہی کو ہدف بنائے تو یہ یقیناً اس کے لیے بے حد نقصان دہ ہوگا۔ اس کے برعکس اگر وہ اس تشدد کو کسی بیرونی شے پر مرتکز کردے تو نتائج بے حد بہتر ہوں گے ۔ یہ جنگ و جدل ، قتل و غارت اور خونریزی کے حق میں ایک حیاتیاتی دلیل ہے۔

اب تک کی میری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے پاس اپنی پر تشدد جبلت سے چھٹکارہ پانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ ہمیں بتایا جاتاہے کہ زمین کے کچھ ایسے ٹکڑے بھی ہیں جنہیں جنت بر روئے ارض کہا جا سکتاہے جہاں دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور انسانوں کے پاس ہر شے اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے چنانچہ وہ تشدد، ظلم ، تعدی اور مار پیٹ کے نام سے بھی ناواقف ہیں۔ شاید میں اس کہانی پر ایمان نہ لاسکوں پھر بھی میں ان خوش نصیب انسانوں کے متعلق مزید جان کر بہت خوش ہوں گا۔ روس کے کمیونسٹوں کا بھی یہی خیال ہے کہ انسان کی تمام مادی ضرورتوں اور احتیاجوں کی تشفی کرکے وہ تشدد اور تخریب کا مکمل خاتمہ کردیں گے۔ وہ ایسا معاشرہ قائم کریں گے جو مکمل مساوات پر مبنی ہو گااور مفادا ت کا تصادم نہ ہونے سے باہمی جھگڑوں کا قلع قمع ہوجائے گا۔ میرے خیال میں یہ محض خام خیالی اور غلط فہمی ہے۔کمیونسٹوں کا یہ گروہ خود بھی جدید ترین اسلحے سے لیس ہے اور اپنے گروہ کو متحد رکھنے کے لیے ان کے پاس سب سے کار آمد ہتھیار نفرت ہے جو وہ دوسرے افراد اور گرہوں کے لیے رکھتے ہیں یا پیدا کرتے ہیں۔

جیسا کہ آپ خود کہہ چکے ہیں انسان کی تخریبی جبلت کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کیا جا سکتاہے کہ اس کا رخ کسی اور جانب اس طرح موڑ دیا جائے کہ یہ جنگوں کی صورت میں اظہار نہ کر پائے۔ تحلیل نفسی کا نظریہ جبلت جنگ سے بچاؤ کا ایک بالواسطہ طریقہ وضع کر سکتاہے اگر ہم جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں جنگ کے مخالف یعنی ایروز کو مستحکم کرنا ہوگا۔ ہر وہ چیز جو انسانوں کے درمیان جذباتی روابط کو فروغ دے ، تشدد کے امکانات کو کم کرتی ہے یہ روابط دو طرح کے ہوسکتے ہیں، پہلے جنسی اور دوسرے سماجی۔ مؤخرالذکر کی اہمیت یہاں زیادہ ہے ۔ سماجی نوعیت کے جذباتی روابط عینیت کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں جس میں افراد مشترکہ دلچسپی جواباً سماجی جذباتی روابط کو مضبوط کرتی ہے۔ انسانی معاشرہ بڑی حد تک سماجی جذباتی روابط ہی پر استوار ہوتاہے۔

جہاں تک اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق آپ کے خیالات کا تعلق ہے تو میں یہی کہوں گا کہ انسانوں میں قائدین اور مقتدیوں میں تقسیم ہونے کا رجحان پایا جا تا ہے۔ مؤخر الذکر یعنی عوام تعداد میں بہت زیادہ ہوتے ہیں انہیں کسی رہنما، قانون ساز اور حاکم کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے ایما پر فیصلے کر سکے۔ ان کا خاص الخاص وصف اطاعت اور تابع فرمانی ہوتاہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے کے بالا تر طبقات پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ ان لوگوں کو جو شعور سے بہرہ ور ہیں اور دوسروں کو قیادت فراہم کرسکتے ہیں تربیت دی جانی چاہئے کہ وہ کس طرح عوام پر اثر انداز ہوں۔ کیونکہ وہی لوگ ایسا کرسکتے ہیں جو کسی سے خوفزدہ اور ہراساں نہ ہوں اور بے سہارا عوام کی رہنمائی کرسکیں۔ لیکن بد نصیبی سے ریاستی پابندیوں اور مذہب کی چیرہ دستیوں نے ایسے دماغ پید ا ہی نہیں ہونے دیئے۔

انسانیت کے لیے مثالی صورت حال یہ ہوتی کہ تمام انسان اپنی جبلتوں پر فتح پاکر خود کو عقل کی حاکمیت میں دے دیتے۔ ان انسانوں میں کسی جذباتی رشتے یا ربط کے بغیر بھی گہرا ترین اتحاد اور اتفاق پایا جاتا۔ لیکن فی الوقت یہ سب کچھ خواب یا یو ٹوپیا سے بڑھ کر نہیں۔ بلاشبہ جنگ کےتدارک کے لیے بالواسطہ ذرائع موجود ہیں لیکن یہ فوری نتائج پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کی مثال میں ایک ایسی سست رفتار چکی کی مدد سے پیش کروں گا جو اتنی کم رفتار سے آٹا پیستی ہے کہ لوگ روٹی کے انتظار میں بھوکے مر جاتے ہیں۔ نظریہ سازوں سے عملی سوالوں کے جواب پوچھنے سے بھی بعینہ یہی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بحث و تمحیص کو چھوڑ کر خطرے سے بچنے کے لیے ہر ممکن عملی قدم اٹھایا جائے۔ اس کے باوجود میں اختتام سے پہلے ایک اور بات ضرور زیر بحث لانا چاہوں گا وہ یہ کہ میں، آپ اور ہمارے جیسے دیگر لا تعداد انسان آخر جنگ و جدل کے خلاف اتنا شدید ردعمل کیوں ظاہر کرتے ہیں؟ کیوں نہیں ہم اسے زندگی کی دیگر آفات کی طرح ایک مصیبت سمجھ کر قبول کرلیتے؟ حالانکہ جنگ کے متعدد حیاتیاتی اسباب ہیں جو یقیناًناگزیر بھی ہیں۔ میرے اس سوال پر حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ میرے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جنگ انسانوں کو زندگی سے محروم کرتی ہے۔ انہیں اپنی مرضی کے خلاف دوسروں کو قتل کرنے پر اکساتی ہے۔ یہ ان قیمتی املاک کو نیست و نابود کر دیتی ہے جو برس ہا برس کی انسانی محنت کے بعد وجود میں آئی تھیں۔ مزید برآں ازمنہ قدیم کی طرح جنگ اب شجاعت و جوانمردی کے اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ مستقبل کی جنگیں یقیناً لڑنے والے دونوں فریقوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیں گی۔ مجھے حیرت ہے کہ ان تمام حقائق کے باوجود انسانیت جنگ کو مستقل طور پر مسترد کیون نہیں کر دیتی ؟

دو نکات پر بحث یقیناً ممکن ہے وہ یہ کہ ہر جنگ مساوی طور پر قابل مذمت نہیں ہے کیونکہ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا معاشرے کے پاس افراد کی زندگی کو ختم کرنے کا حق ہونا چاہئے اور دوسرے یہ کہ جب تک کچھ ممالک اور کچھ اقوام اپنے جارحانہ عزائم کو ترک نہیں کرتے دوسروں کے پاس بھی ان کے شر سے بچنے اور اپنے دفاع کے لیے طاقت ہونی چاہیے۔ شاید ہم جنگ کے خلاف احتجاج اسی لیے کرتے ہیں کہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ ہم فطرتاً امن پسند ہیں اور اس کے لیے ہمارے پاس جواز موجود ہیں۔ اس کے لئے کچھ وضاحت درکار ہے۔ اس ضمن میں میرے نظریات یہ ہیں۔

صد ہا سال سے انسانیت تہذیبی ارتقا کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اس تہذیبی ارتقاء کے ہم پر بہت سے احسانات ہیں۔ ہم آج جو کچھ بھی ہیں اسی کی بدولت ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہی تہذیب ہمارے بہت سے مسائل کا سبب بھی ہے اور اس نے ہماری زندگی کو کرب و آزار سے بھر رکھا ہے۔ ہمیں تہذیب کی ابتدا کے متعلق وثوق سے کچھ معلوم نہیں اس کی انتہا کے متعلق بھی ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس کے کچھ پہلوؤں کے متعلق یقین سے رائے دی جا سکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ تہذیب کا مقصد شاید نسل انسانی کو ختم کرنا ہے کیونکہ یہ کئی طرح سے جنسی عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں پسماندہ نسلیں اور معاشرے کے ادنیٰ طبقات مراعات یافتہ اور مہذب افراد کے مقابلے میں کس قدر تیزی سے پھل پھول رہے ہیں۔ تہذیب کے نفسیاتی مظاہر جسمانی پہلوؤں سے بھی زیادہ واضح اور حیرت انگیز ہیں۔ اس نے انسان کی نفسیات پر بھی گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔ تہذیبی عمل کے دوارن جبلی عزائم آہستہ آہستہ پس پردہ جانے لگتے ہیں اور ایک موقع ایسا آتا ہے کہ جبلت پر مکمل پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ وہ محسوسات جو ہمارے آباؤ اجداد کے لیے نہایت خوش گوار اور نشاط خیز تھیں ہمارے لیے بے معنی یا غالباً شدید نا پسندیدہ اور ناقابل برداشت ہوں۔ ہمارے اخلاقی اور جمالیاتی ذوق کی ترویج و تشکیل کے پیچھے بھی عضویاتی اور نامیاتی وجوہ موجود ہیں۔ اس کے دو نفسیاتی خطوط خصوصاً قابل ذکر ہیں، اولاً وعقل و دانش کی بالا دستی جس نے جبلی زندگی کو زیر کر لیا اور ثانیاً تشدد کی داخلیت جس کے اچھے اور برے نتیجے ہمارے سامنے ہیں۔ جنگ دراصل ان نفسیاتی بندشوں کے خلاف شدید ترین رد عمل ہے جو تہذیب نے ہم پرعائد کی ہیں۔ چنانچہ ہم اس کے خلاف اجتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور اسے کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کرسکتے۔

عقلی اور جذباتی ردعمل کے علاوہ ہم امن پسند” مزاج” بھی جنگ کے خلاف ہیں۔ جنگ کے مظالم اور تباہ کاریاں ہماری برداشت سے باہر ہیں۔ ہم محض جمالیاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ اخلاقی بنیادوں پر بھی جنگ کی مخالفت کرتے ہیں۔دیگر اقوام اور عالم انسانیت کے مکمل طور پر امن پسند بننے تک ہمیں کتنا مزید انتظار کرنا ہوگا؟ اس کا قطعی جواب دینا ممکن نہیں۔ لیکن ایک مہذب طرز عمل اور مستقبل کی جنگ کے بدترین نتائج کا خوف یقیناًجنگ و جدل کے خطرے کو کم کر سکتاہے ۔ لیکن یہ کس طرح اور کب ممکن ہوگا اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ تاہم ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں وہ تمام عوامل جو تہذیب کو مضبوط بناتے ہیں، جنگ کا خطرہ یقیناًکم کر سکتے ہیں۔

ہر چند میں نے آپ کو مایوس کیا، پھر بھی مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے درگزر فرمائیں گے۔ آداب و تسلیمات کے ساتھ۔
آپ کا مخلص

سگمنڈ فرائیڈ