نوازشریف کا ٹھنڈ پروگرام، ایٹم بم کا دم خم اور ستر سالہ سنیاسی باوا

(فاروق احمد)

نواز شریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر مایوس کیا۔ نہ کوئی کاغذ پھاڑا، نہ تقریر کے بعد واک آوٹ کیا، نہ ہی آواز و لہجے کی گھن گرج سے ہی محفل لوٹی۔ اقوام متحدہ میں جو تقریر کی اس میں نہ بڑھک تھی نہ دھمکی، بس منمناہٹ سی تھی۔ نہ ہندوستان کو للکارا نہ مودی کو ہنکارا۔ یہ بھی نہ کہا کہ ذرا لانا میری قرولی اور یہ بھی نہیں کہا طوطے اڑا دوں گا چھکے چھڑا دوں گا۔ لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کی دھمکی بھی نہیں دی اور نہ ہی غزوۂ ہند کا نقارہ بجایا۔ دہلی، ممبئی، کلکتہ پر ایٹم بم گرانے کا تو ذکر تک نہ کیا۔ اوووووووئے مودی بھی نہ کہا۔ بزدل ہندو بنیئے کی زبان گدی سے کھینچ ڈالنے کی گھرکی بھی نہ سنائی۔ یہ کیا طریقہ ہے بھائی۔ کیا پاکستان اسی لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں کا وزیراعظم اقوام متحدہ جیسے دو ٹکے کے فورم پر کھڑے ہو کر بھی ہندوستان کو گالی بھی نہیں دے سکے۔ کیا اقبال نے اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا جہاں ہم چہرہ لال بھبھوکا کر کے، منہ سے کف اڑا کر، آنکھیں نکال کر، مکے لہرا کر، دانت کٹکٹا کر کٹکھنے پطرسی کتے کی طرح ہندوستان کی ماں بہن بھی ایک نہ کر سکیں۔ کیا یہی جناح کی تمنا رہی ہوگی کہ پاکستان میں سنجیدہ مزاج بزدل ڈرپوک ٹھہرے ٹھنڈے لہجے میں ہندوستانیوں کے سامنے اپنا مافی الضمیر نرم گفتاری سے بیان کر سکیں۔ ارے جناح تو وہ تھے کہ ہندو دشمن غازی علم دین شہید کا مقدمہ لڑا۔ مہلت ملی ہوتی تو غازی ممتاز قادری شہید کا کیس بھی خود ہی لڑتے ۔۔۔ کیا اسی دن کیلئے نسیم حجازی نے یہ ڈھیر سارے روح پرور اور لہو گرم کرنے والے جہادی ناول لکھ رکھے تھے کہ ہمارے لیڈر گفتار کے غازی بھی نہ بن پائیں۔ ارے مانا لڑ نہیں سکتےتھے پر لڑنے جیسی بات تو کر سکتے تھے۔ کیا جاتا اگر مودی کو دو چار گالیوں سے نواز دیتے۔ ہندوؤں کی مکار، لومڑ جیسی خصلت پر ایک شعر ہی پڑھ ڈالتے۔ لیکن کسی نے صحیح کہا ہے کہ لاکھ ایٹم بم بنا لو، ایٹم بم پھینکنے والا جگرا کہاں سے لاؤ گے میاں۔ بس بھائی آج پتا لگ گیا کہ ان جمہوری ووٹ والے سیاست دان حکمرانوں میں دم خم نہیں ہوتا۔ اپنے تو اپنے، بھارتی میڈیا نے بھی خوب خوب بھڑکایا، فیس بکی جہادیوں اور چڑھ جا سولی مارکہ سچے پاکستانیوں نے بھی کس کس طرح خون گرمایا مگر اس ٹھنڈ پروگرام نواز شریف کے تاروں میں کرنٹ ہی نہیں دوڑا۔ ارے کسی ستر سالہ سنیاسی باوا کے پاس لے جاؤ اس کو۔ آج اس نے اپنی نرم گفتاری اور میٹھے لہجے سے دو قومی نظریئے کو بحر الکاہل میں ڈبو دیا، قیامِ پاکستان کے جواز کو مٹا دیا۔ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو پاکستان بنایا ہی کیوں تھا۔ کیا فائدہ ہوا ایک آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت کے شہری ہونے کا جب ہم ہندو کافروں کو حلق پھاڑ پھاڑ کر گالی بھی نہ دے سکیں۔ ویسے ایک تقریر اس ناچیز نے بھی تیار کر رکھی ہے۔ یہ ایک ماڈل تقریر ہے جو نواز شریف سمیت ہر آنے والے سربراہِ حکومت کو کسی بھی بین القوامی فورم پر بلا کم و کاست پڑھنی چاہیئے۔ پیشِ خدمت ہے:

’’ دنیا کی ملحد، کافر، اسلام دشمن، پاکستان دشمن قوموں کے نمائندو! تم سب کی ایسی کی تیسی ۔۔۔ تم سب سالے کیا سمجھتے ہو ہم کو ۔۔۔ ہم بھارت ہی پر نہیں تم سب کے ملکوں پر ایٹم بم گرائیں گے ۔۔۔ ابے حد ہوتی ہے کسی بات کی ۔۔۔ جس کو دیکھو لتاڑے جا رہا ہے ہم کو ۔۔۔ دیکھو میاں ننھو اب زیادہ  تاوٗ نہ دلانا ۔۔۔ ہم سے پنگا مت لینا بھیڑو ۔۔۔ تم لوگ تو ایک چپراس کی مار ہے ۔۔۔ اچھا چلو مانے لیتے ہیں کہ ہم نے اوڑی میں بندے بھیجے حالانکہ اب ہم میں اتنا تپڑ کہاں ۔۔۔ لیکن پھر بھی مانے لیتے ہیں ۔۔۔ ہاں تو کیا اکھاڑ لو گے ہمارا ۔۔۔ ابے تم سب کافروں کے چٹے بٹے ۔۔۔ ہمارے پاس جذبے کے گولے ارادوں کے بم ہیں ۔۔۔ میاں ہم مسلمان ہیں مسلمان ۔۔۔ خاکی اور سبز پوش فرشتے ہماری مدد کرتے ہیں ۔۔۔ تم ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے ۔۔۔ دفاع پاکستان کونسل کے فرزندانِ توحید ہمارے ساتھ ہیں ۔۔۔ یہ سب غزوۂ ہند کے لئے سر بکف ہیں ۔۔۔ ایک ایک چپراس ہی مار دیں تو دس دس ایٹم بم کے برابر ہے ۔۔۔ اور یہ تو سوچنا بھی مت کہ تم ہم پر غالب آ جاوٗ گے ۔۔۔ ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ آخر میں ہم ہی غالب آئیں گے ۔۔۔ آخری فتح ہماری ہی ہوگی ۔۔۔ میرے اور میرے گھرانے کے علاوہ اس قوم کا بچہ بچہ کٹ مرنے کیلئے تیار ہے ۔۔۔ کئی تو اسی آس میں بغیر پھاٹک کی کراسنگ پر ریل کے آگے کٹ جاتے ہیں ۔۔۔ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، ہمارے ایک کروڑ نوجوان (میرے بیٹوں کے علاوہ) تمہارے شہروں میں خود کش جیکٹیں پہن کر گھس جائیں تو تمہارا پتا نشان بھی نہ ملے کسی کو ۔۔۔ اور ہاں یہ بھی سن لو کہ چنگیز خان، ہلاکو خان، حسن بن صباح، ایسٹ انڈیا کمپنی، برطانوی فوج، امریکی فوج، بھارتی فوج وغیرہ وغیرہ کے علاوہ روئے زمین پر آج تک کوئی پیدا نہیں ہوا جو ہمیں شکست دے سکے، ہماری پھینٹی لگا سکے ۔۔۔ آج یہ بھی جان لو کہ پوری دنیا پر غالب آنا وہ فریضہ ہے جو ہمیں آسمانوں سے ودیعت ہوا ہے ۔۔۔ ہم کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں ۔۔۔ ہم لال قلعے پر بھی سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے ۔۔۔ ہم بھارت کو فتح کریں گے ۔۔۔ کیا یہ ہمارے ایمان کا تقاضا نہیں ہے کہ ہم کسی سے نہیں ڈریں اور وہ وہ کھل کر کہیں جو ہمارے دلوں میں ہے ۔۔۔ ‘‘

یہ ۔۔۔ بالکل یہی ۔۔۔ عین بعین یہ ہونا چاہیئے تھا ہمارے وزیراعظم کے خطاب کا متن ۔۔۔ ایک ایسا خطاب جس کو سن کر بھارتی گیدڑوں کے دل دہل جائیں، آتش فشانی لاوا اپنا راستہ بدل لے ۔۔۔ صحرا و دریا دو نیم ہو جائیں ۔۔۔ پہاڑ سمٹ کر ہیبت سے رائی ہوجائیں ۔۔۔ بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑ جائیں ۔۔۔ یہی فرق ہے سچ اور ڈپلومیسی کی منافقت میں جس کا مظاہرہ ہمارے گونگلو وزیرِ اعظم سے سرزد ہوا ۔۔۔ ایک بار اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے یہ خطاب کر کے دیکھو ۔۔۔ پھر دیکھو فتح ، نصرت، کامیابی کیسے ہمارے قدم چومتی ہے، بھارت کیسے ہمارے قدموں پر لوٹتا ہے ۔۔۔ خواہش دل کی دل میں ہی رہ گئی کہ ایک ایٹم بم تو پھینک ہی مارتے ہندوستان پر ۔۔۔ کیا ہوتا اگر وہ ہمارے کسی شہر پر جوابی ایٹم بم مار دیتا ۔۔۔ بہت سے بہت دونوں طرف کے بیس پچیس لاکھ ہی مارے جاتے ۔۔۔ تو کیا ہوا ، راہِ خدا میں یہ کوئی بڑی قربانی تو نہیں، ٹی وی پر اگر کچھ قابلِ اعتراض اشتہار روک دیئے جائیں تو یہ کمی چند ماہ میں ہی پوری ہو جائے گی ۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ آئندہ اس قسم کے ٹھنڈ پروگراموں سے بچنے کیلئے لازم ہے کہ تعلیم پر پابندی لگائی جائے تاکہ نواز شریف جیسا کوئی طالع آزما جنرل اسمبلی جا کر اس طرح پڑھے لکھے ہونے کے زعم کا شکار ہو کر مہذب، نپی تلی جچی، دھیمے لہجے کی مدبرانہ تقریر کر سکے ۔۔۔ پڑھا لکھا تو یہ کم بخت بھی کچھ زیادہ نہیں تھا ۔۔۔ پتا نہیں کہاں ماں باپ سے چوک ہوگئی کہ پڑھے لکھوں جیسی باتیں کرنے لگا ۔۔۔ خیر آئندہ احتیاط کریں گے ۔۔۔ اب اپنا کپتان بھی تو ہے، ولایت وہ کر بھی اپنا اصیل نہیں بھولا ۔۔۔ آج بھی اوئے کرتا ہے تو مٹی کی خوشبو آتی ہے، ایوبی کی تلوار کی مترنم جھنجھناہٹ کانوں میں رس گھول جاتی ہے ۔۔۔ ابے کیا لوگوں کو پڑھانے لکھانے کے لیئے پاکستان بنایا تھا بدبختو۔