معصوم بّچے بھی جنسی تشدد کے شکار

عطش بلال ترالی
عطش بلال ترالی

معصوم بّچے بھی جنسی تشدد کے شکار

از، عطش بلال ترالیؔ

ریسرچ اسکالر، ( یو نیورسٹی آف حیدر آباد) حیدر آباد (دکن) انڈیا

اس رائے سے کوئی متفق ہو یا نہ ہو مگر عورت ہمیشہ دانستہ یا نادانستہ طور پر مرد کی بالا دستی کا شکار رہی ہے۔ یہ سوال ہر ذی حس انسان کو جھنجھوڑتا ہے کہ کیا ریاست بھی عورت کے ساتھ کچھ انصاف کا سلوک کرتی ہے؟ جو کسی ایک ایسے قانون کو آج تک جنم نہ د ے سکی جس سے عورت جنسی تشدد اور عصمت دری کی شکار ہونے سے بچ جائے او ر کھلے فضا میں گھوم سکے۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ابھی ریاست کے پاس وہ قلم اور سیاہی نہیں ہے جس سے ایسا قانون لکھا جائے جس سے عورت بنا خوف مردوں کے بیچ کھلے فضا میں سانس لے سکے۔

مابعد جدیدیت دور میں ایک طرف انسان چاند سے آگے دوسرے سیاروں پر گھوم گھام کر اور دوسری طرف سمندروں کی تاریکیوں میں غوطہ لگا کر تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ بن تو ضرور ہو گیا مگر دوسری طرف جنسی درندگی کی بری خصلت کی پرورش میں روز نئے طریقے اختیار کرتا رہا اور چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کی عفت و عِصمت کے تار تار کر کے تہذیب یافتہ ہونے کا دعوٰی کرتا ہے ۔ ہر روز اس جنسی درندگی کا بیج دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں بو یا  جاتا ہے ۔ جس کا ثمرہر روز جنسی تشدد کے روپ میں سماج کو ملتا ہے۔

ہندوستان میں national crime bureau records کے مطابق 2012 میں 24,923 کے عورتوں کے ساتھ عصمت دری ہو ئی ہیں۔ جس کی رفتار ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ رفتار اس لیے ہر سمت اور ہر وقت بڑھتی ہے کیوں کہ ابھی بھی اس کے لیے کوئی سخت سزا لاگو نہیں کیا جاتا ہے۔ جس سے کچھ حد تک مرتکب ان کاموں سے باز رہنے کی زحمت کرتے۔ مگر اس کے باوجود ہر روز ہندوستان و پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں، بازاروں اور سنسانوں، کھیت اور کھلیانوں، مکانوں اور دکانوں، میں کسی نہ کسی عورت کے ساتھ ریپ ہوتا ہے۔ اب عورت اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے پاتال جائے یا عرش پر بیٹھ جائے جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ کرپائیں گی۔

اگر ایسا ہوتا تو وہ ضرور کرتی مگر اللہ تعالی نے ان کو اس دنیا کی رونق بر قرار رکھنے کے لیے ایک اہم ذمہ داری سونپ دی ہیں۔ جس سے وہ بہادری اور ہمت کے ساتھ نبھاتی رہتی ہیں۔ اور یہ کام عورت کے بغیرممکن نہیں ہے۔ جس سے وہ ابھی بھی نبھاتی ہیں۔ جس کے دم سے دنیا کی رنگا رنگی قائم ہے ورنہ یہ دنیا کب کی منجمد ہوئی ہوتی۔ اس لیے علامہ اقبالؔ نے بھی عورت کے لیے کہا تھا۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے زندگی کا سوز دروں

جنسی درندگی ہمیشہ سے معاشرے کی ز ہنی قوت کو بہت حد تک مفلوج کرتی ہے۔  آئے دن جنسی تشدد کا رواج سماج میں ایسا پنپ گیا ہے کہ جنسی تشدد اور خبر کے درمیان امتیاز ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اب جنسی تشدد کی خبریں بھی باقاعدہ اخباروں میں ہر روز آتی رہتی ہیں جو کسی بھی معاشرے اور سماج کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہوتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک کلک کرنے سے بھی ایسی ہزاروں خبریں آنکھوں کے سامنے رواں رہتی ہے۔ جن کو پڑھنے سے دماغ مفلوج ہوتا ہے۔ سٹیٹ (ریاست) ایسی واقعات کے لیے ذمہ داری ہوتی ہیں کیوں کہ ابھی تک پاکستان اورہندوستان کے ایوانوں میں ایسی بل کھبی نہیں بنائی گئی جس سے عورت کے لیے ایسا قانون بنایا گیا ہو جس سے وہ بھی ایک انسان ہو کر اس کھلی فضا میں گھوم سکے مگر دونوں ریاستیں آزاد ہونے کے باوجود بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دے پائیں جس کی وہ مستحق تھیں۔

دونوں ریاستوں کے ذہن میں ابھی بھی پدری سماج کی وہ غلاظت سمائی ہوئی ہے جس سے عورت اور معصوم بچیاں اس حیوانیت کا شکار ہو تی رہتی ہیں۔ جنسی تشدد سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ دونوں ریاستوں کا ذہن پدرسری کے نشے میں مخمور ہے۔ اسی وجہ سے جنسی درندگی کے مرتکب افراد سماج میں چپکے چپکے پرورش پانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اگر ریاست چاہے تو جنسی درندگی اور جنسی تشدد کو ہمیشہ کے لیے بند کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ عجیب ہوتا ہے یہاں ریاست جنسی جرم کا رتکاب کرنے والوں کی حمایت میں رہتی ہیں جس سے ان واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہتا ہیں۔

پاکستان میں زینب کے ساتھ جنسی تشدد نے پوری عالمی انسانیت پر سوالیہ نشان لگایا۔ اگرچہ دونوں ریاستوں کے میڈیا نے جنسی تشدد کے اس مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بہت سارے مباحث چلائے تو دوسری طرف لوگ بھی سراپا احتجاج ہوئے۔ مگر پھر بھی ان جنسی جرم کے مرتکب افراد پر کو کوئی فرق نہیں پڑا اور کچھ دنوں بعد ہی پہلے ہریانہ اور اس کے کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے کٹھوا علاقے میں ایک معصوم کو زینب کی طرح اغوا کر کے پہلے جنسی تشدد کیا گیا اور بعد موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

اتنا ہی نہیں بلکہ آصیفہ کے ساتھ عصمت دری کے ساتھ ساتھ اس کے بازوں بھی توڑ دیے گئے تھے۔ جس سے ہر ذی حس ذہن مفلوج ہو گیا۔ جب کچھ بہادر لوگوں نے آصیفہ کے لیے انصاف کے لیے مہم چلانا شروع کی تو ان کو بھی ریاست کی پولیس نے گرفتار کیا جس سے لگتا ہے ریاست بھی ان حیوانوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ اور یہ انصاف بھی زینب کی طرح ہوا میں ہی معلق ہے۔ اگر دیکھاجائے پچھلی کچھ دھائیوں میں ہندوستان اور پاکستان میں اتنے عصمت دری کے واقعات پیش آئے ہیں جن کو یاد رکھنا بہت مشکل ہے۔ اور شاید ہی کچھ لوگوں کو انصاف ملا ہو گا۔

ریاست کو کنٹرول کرنے والی نیم پولیس سی آر پی کے جوانوں نے بھی حال میں ہی اُڑیسہ کی ایک لڑکی کے ساتھ ریپ کیا۔ جہاں پولیس کی ہی وردی میں ایسے جنسی جرائم کے اتکاب ہو رہے ہوں تو وہاں انصاف فراہم کرنے کی نیت خود بخود غائب ہو جاتی ہے۔ جب تک ریاست عصمت دری کے واقعات کو روکنے کے لیے کڑے قانون نہ بنائے گی تب تک عوام کے احتجاج سے کچھ فرق پڑنے والانہیں ہے۔ لیکن عوام کے پاس خالی احتجاج کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور وہ ہمیشہ اپنی آواز کو ریاست کے کانوں تک پہنچاتے رہے گی۔ عصمت دری کے اس عمل کو صرف ایک قانون ہی روک سکتا ہے۔ لیکن یہ قانون عورت کے حق میں ہونا چاہیے۔ تبھی یہ سب ممکن ہیں۔ ریاست کو اب پدر سری امزاج ایک طرف رکھ کر عورت کے لیے کچھ کرنا چاہیے جس سے عِصمت دری کا یہ فعل زمین سے آسانی سے اکھاڑ پھینک دیا جائے۔