سلطان علاؤالدین خلجی بمقابلہ پدما وتی

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

سلطان علاؤالدین خلجی بمقابلہ پدما وتی

از، حسین جاوید افروز

’’میں ہمیشہ سے ’’رانی پدما وتی‘‘ سے بہت ہی متاثر رہا ہوں۔ اس کی شجاعت آج اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ صیحح معنوں میں راجپوتوں کی آن بان اور شان تھی۔ میں یہ بھی واضح کردوں کہ میری فلم ’’پدما وت ‘‘ میں علاؤ الدین خلجی اور رانی پدما وتی کے درمیان ایسے کوئی مناظر ہرگز نہیں فلمائے گئے جس سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ یہ الفاظ تھے فلم پدما وت کے ڈائریکٹر، رائٹر ’’سنجے لیلا بھنسالی‘‘ کے جن کی اس فلم کو بھارت کے طول و عرض میں ریلیز سے پہلے ہی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔حتیٰ کہ بھارت میں ہندوتوا کے علمبرداروں نے تو اس فلم کی ریلیز روکنے کے لیے ایک ’’کرتی سینا ‘‘بھی کھڑی کردی ہے۔

سنجے لیلا بھنسالی ،رنویر سنگھ اور دپیکا پڈ کون کو انتہاپسند ہندؤوں کی جانب سے سنگین تنائج کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ان حالات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آج کے بھارت میں زعفرانی سیاست کا اندھا جنون اپنی انتہا کو چھو رہا ہے اور رواداری کی فضا دن بدن چھٹتی جارہی ہے ۔تاہم تمام تر تنقید کے نشتر سہتے ہوئے بالا آخر فلم بھارت سمیت دنیا بھر میں کامیابیوں کی نئی تاریخ رقم کررہی ہے ۔اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ اس فلم کا مرکزی خیال 1540 میں ملک محمد جائیسی کی نظم سے لیا گیا جس میں ایک فرضی کردار رانی پدما وتی کا تذکرہ کیا گیا ہے جو کہ دلی کے سلطان علاؤالدین خلجی اور چتوڑ کے راجہ راول رتن کے درمیان وجہ نزاع بن جاتی ہے۔

گویا کہ پدماوتی ایک فکشنل کردار سے زیادہ کچھ نہیں ۔یہ محض ایک شاعر کی تخیلاتی دنیا کی تخلیق ہے جس سے متاثر ہوکر سنجے لیلا بھنسالی نے اس پر ایک تاریخی فلم بنانے کا بیڑہ اٹھایا ۔آئیے پہلے فلم پدما وت پر کچھ بات ہوجائے ۔جیسا کہ سنجے لیلا بھنسالی کا نام آتے ہی ہمارے اذہان میں بڑے قلعے ،حویلیاں اور زیورات گھومنے لگتے ہیں جس کا ثبوت ان کی پچھلی فلمیں دیوداس ،باجی راؤ مستانی اور ہم دل چکے صنم شامل ہیں ۔یہی سب کچھ ہمیں ان کی حالیہ تاریخی کاوش ’’پدما وت‘‘میں بھی بکثرت مل جاتا ہے ۔فلم کی کہانی سری لنکا کی ایک شہزادی پدما وتی کے گرد گھومتی ہے جو کہ جنگل میں شکار کرتے ہوئے اچانک چتوڑ کے راجہ راول رتن سے ملتی ہے جو کہ اس کی حسن کی تاب نہ لاکر بے دھیانی میں اسی کے تیر سے زخمی ہوجاتا ہے۔

پدما وتی اس کا دل و جان سے علاج کرتی ہے اور دھیرے دھیرے دونوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت آخر کار شادی پر منتج ہوجاتی ہے ۔اب پدما وتی چتوڑ کی رانی کے روپ میں راجپوتوں میں نہایت ہی عزت و احترام سے دیکھی جاتی ہے ۔لیکن راجہ رتن کے روحانی پنڈت کی جانب سے ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت راجہ رتن کو ناگوار گزرتی ہے اور پدما وتی کے مشورے پر اسے چتوڑ سے جلاوطن کردیا جاتا ہے ۔دوسری طرف ہندوستان کا تخت جلال الدین خلجی کے زیر نگین آ جاتا ہے۔ جس کا شاطر مگر جری بھتیجا اور داماد’’علاؤ الدین خلجی‘‘ شروع سے ہی دلی کے تخت پر نظریں جمائے رکھتاہے ۔جبکہ منگولوں کو شکست دے کر وہ پہلے ہی دلی دربار میں اونچا مقام پا لیتا ہے ۔لیکن جلال الدین اس کو بے عزت کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔

آخر کار ایک مناسب وقت پر علاؤ الدین اپنے چچا کو قتل کر کے ہندوستان کا سلطان بن جاتا ہے۔ ادھر جلاوطن پنڈت دلی پہنچ کر سلطان علاؤ الدین خلجی کو اپنی مستقبل کی پیش بینی کی صلاحتیوں کی بدولت اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے اور اسے صلاح دیتا ہے کہ اگر اسے دنیا پر حکمرانی کرنی ہے تو اس کے لیے اسے چتوڑ کی رانی پدما وتی کو حاصل کرنا ہوگا ۔یوں علاؤ الدین ،پنڈت کی باتوں میں آکر پدما وتی کے حصول کے لیے اپنا دن رات ایک کرکے چتوڑ کا محاصرہ کرلیتا ہے ۔مگر راجپوتوں کے مضبوط دفاع کے سبب خلجی ایک اور چال چلتا ہے۔ وہ راجہ رتن کو دوستی کا پیغام بھیج کر اس کا مہمان بن جاتا ہے۔

خلجی کے اصرار پر نہ چاہنے کے باوجود بھی راجہ رتن شیشے سے خلجی کو پدما وتی کا دیدار کراتا ہے ۔بعد ازاں علاؤ الدین خلجی بھی راجہ کو دعوت کے بہانے بلا کر قید کر کے د ہلی لے جاتا ہے اور رانی پدما وت کے سامنے شرط رکھتا ہے کہ اگر چتوڑ اپنے راجہ کی واپسی چاہتا ہے تو رانی کو خود کو خلجی کے حوالے کرنا ہوگا ۔یوں اب رانی پدما وتی اپنے خاوند کی رہائی کی خاطر دہلی روانہ ہوجاتی ہے ۔کیا رانی، راجہ رتن کو واپس چتوڑ لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے؟ کیا علاؤ الدین خلجی ، رانی پدما وتی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے؟ کیا چتوڑ خلجیوں کے قہر سے بچ سکے گا؟ ان سوالوں کا جواب آپ کو’’پدما وت‘‘ میں ہی ملے گا۔

بلاشبہ تاریخی کاسٹیومزسے لے کرچتوڑ کے شان و شوکت سے بھرپور قلعے کے مناظر ہوں یا دربار د ہلی کے جاہ جلال کی چمک ہو یہ سب کچھ سنجے لیلا بھنسالی نے کامل مہارت سے فلمایا ہے۔ خصوصا منگولوں سے خلجی کی جنگ سے چتوڑ کے میدان جنگ کے مناظر کو جدید گرافکس کے استعمال کی مدد سے لازوال انداز سے دکھایا گیا ہے۔ خاص بھاری بھرکم منجنیقوں کو پردۂِ سکرین سے اسی رعب سے دکھایا گیا جوکہ اس اپنے دور کی بے مثال آرٹلری کا ہی خاصہ تھا۔ اس فلم میں سنجے بھنسالی نے اپنا اب تک کا بہترین کام فلم بینوں کے سامنے رکھا ہے جو کہ ایک طویل عرصے تک اپنا سحر قائم رکھے گا۔ تھری ڈ ی جدید تکنیک کو ایک مضبوط اسکرپٹ اور جاندار سکرین پلے کے ساتھ کس طرح متوازن انداز سے پیش کرنا ہے یہ سنجے کا ہی کمال رہا ہے۔ لہٰذا ایسے عمدہ سکرین پلے کے لیے سنجے اور پرکاش کپاڈیہ داد کے مستحق ہیں۔ جبکہ فلم کے زوردار مکالمے، خصوصا ایک تاریخی فلم کو مد نظر رکھتے ہوئے عمدگی سے پرکاش کپاڈیہ نے تحریر کیے ہیں۔

راجپوتوں کی عظمت کے حامل چتوڑ اور د ہلی میں خلجیوں کا شاہی جاہ و جلال یقینا سنجے کی عمیق تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اداکاری کے شعبے کی بات کی جائے تو بلاشبہ یہ دپیکا کی یادگار پرفارمنس ہی ہے جس نے رانی پدما وتی کے کردار کو امر کردیا ۔اس نے ثابت کردیا کہ تاریخی نوعیت کے پیچیدہ کرداروں کو نبھانے میں اس کاکوئی ثانی نہیں۔ اگرچہ فلم باجی راؤ مستانی میں بھی دپیکا نے لا مثال پرفارمنس دی مگر گویا پدما وت شائد اب تک اس کا بہترین کردار رہا جس میں گھومر رقص نے جیسا سماں باندھ دیا ہو۔

راجپوتی آن بان کی جیتی جاگتی تصویر، قیمتی زیورات سے لدی دپیکا نے یقیناٰ ان مٹ نقوش چھوڑے۔جہاں بھنسالی نے اس مشکل کردار کے لیے دپیکا پر بھروسہ کیا وہاں دپیکا نے بھی اپنے ڈائریکٹر کی امیدوں سے بڑھ کر اپنا کردار نبھایا ہے۔ خصوصاٰ د ہلی اور چتوڑ کے درمیان بڑھتی کشمکش میں دپیکا نے اپنی آنکھوں سے محبت اور جرات کے جذبات کا اظہار جس انداز سے کیا وہ یقیناٰ مثالی رہا ہے۔ مہاراجہ رتن سنگھ کے کردار میں شاہد کپور نے بھی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ۔ خصوصا دپیکا کے ساتھ ان کی کیمسٹری لاجواب رہی۔

بلاشبہ راجہ راول رتن سنگھ کے کردار میں وہ ایک مثالی راجپوتی سردار دکھائی دیے جس نے راجپوتانہ وقار اور تمکنت کا شاندار مظاہرہ کیا ۔جبکہ جلال الدین خلجی کے مختصر کردار میں ہمیشہ کی طرح رضا مراد نے بھی اپنی بھاری بھرکم آواز کا کمال مہارت سے استعمال کیا۔

اب باری ہے رنویر سنگھ کی جنہوں نے علاؤ الدین خلجی کے کردار میں اپنے گیٹ اپ اور جوشیلی ، تفاخر سے بھری اداکاری سے فلم بینوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی آنکھوں میں وحشت ،کچھ حاصل کرنے کی شدت اور لازوال خود اعتمادی نے خلجی کے کردار کو چار چاند لگا دیے۔ رنویر کا ہوم ورک اتنا مکمل تھا کہ کہیں کہیں شاہد کپور بھی ان کے سامنے خاصے ہلکے دکھائی دیے۔رنویر کی کارکردگی اتنی حیران کن رہی کہ گویا انہوں نے باجی راؤ مستانی کے نبھائے گئے اپنے ہی کردار کو ہی پچھاڑ دیا ہے۔ جن تاثرات کے ساتھ انہوں نے جلال الدین خلجی کا قتل کیا ، اورمایوسی میں گھری اپنی افواج کا مورال بڑھایا ،راجہ رتن کو پدما وتی کے نام لے کر اشتعال دلا کر اسے شطرنج میں مات دینے پر تاثرات دیے،یہ رنویر کا ہی خاصہ تھا ۔

یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس فلم کے بعد رنویر بولی وڈ کے تمام سپر اسٹارز کے لیے ایک خطرہ بن چکے ہیں۔ جبکہ آدیتی راؤ حیدری نے بھی ملکہ ہندوستان کے کردار میں گہری چھاپ چھوڑی۔فلم کے بعد اب بات ہوجائے کہ پدما وتی کے متعلق تاریخ کیا کہتی ہے ؟ بنیادی طور پر پدما وتی ایک فرضی کردار ہے جو کہ جوملک محمد جائیسی نے شیر شاہ سوری کے دور میں ایک نظم کی شکل میں پیش کیا ۔ اگر ہم علاؤ الدین خلجی کے دور سے رجوع کریں تو یہ درست ہے کہ خلجی نے چتوڑ پر 1303 میں چڑھائی کی جب راجہ راول رتن کو محض تخت نشین ہوئے ایک سال ہی گزرا تھا ۔ یہ محاصرہ جنوری تا اگست 1303 تک جاری رہا۔

امیر خسرو نے اپنی کتاب خزائن الفتح میں بیان کیا کہ چتوڑ پر چڑھائی کی مہم میں راجہ رتن گرفتار ہوا اور خلجی کے سامنے خوف سے کانپنے لگا ۔مگر خلجی نے اس کی جان بخش دی لیکن اس کے ساتھ تیس ہزار راجپوتوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔خزائن الفتح میں بھی کسی رانی پدما وتی کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔یہ جنگ چتوڑ کی حربی اہمیت کے سبب علاؤ الدین خلجی نے لڑی اور راجپوتوں کا ناقابل تسخیر قلعہ فتح کیا اورکسی عورت کے لیے خلجی نے چتوڑ کا رخ ہرگز نہیں کیا تھا۔جبکہ اس عہد کے دیگر مورخین جن میں مولانا صدر الدین ،خواجہ صدر نظامی ،منہاج سراج ،تاج الدین ، سیف الدین اور عبدالحکیم شامل ہیں پدما وتی کے متعلق خاموش ہی رہے۔

تاہم پندرہویں صدی میں نارائن داس نے اپنی نظم چتائی چرترا میں پدما وتی کا ذکر کیا ۔جس کے مطابق چتوڑ کی ہمسایہ ریاست کا راجہ دیوپال ضرور پدماوتی سے شادی کا ارادہ رکھتا تھا جس پر راجہ راول رتن سے اس کی جنگ ہوئی یوں اس کے نتیجے میں دونوں راجے مارے گئے ۔بعد میں پدما وتی بھی جوہر کی رسم میں جل کر مر گئی ۔۔1884 میں راجپوتوں کی تاریخ پر مبنی کتاب ’’میواڑ‘‘ میں بھی پدما وتی کا ذکر کہیں موجود نہیں ہے ۔البتہ کچھ انگریز لکھاریوں نے بھی ملک محمد جائیسی کی نظم سے متاثر ہوکر پدما وتی کا ذکر چھیڑااور اس کو آگے پھیلایا۔

آخر کار1906 میں ایک بنگالی کھیل میں پدما وتی کو تفصیل سے پیش کیا گیا جہاں سے بھنسالی کو اس خیالی موضوع پر فلم بنانے کا بھوت سوار ہوا۔ پدما وتی کے متعلق باتیں پھیلتی گئیں جیسے ایک روایت کے مطابق پدماتی کا تعلق پوگال بیکانیر سے تھا جبکہ دوسری روایت کے مطابق وہ سری لنکا سے تعلق رکھتی تھی ۔ جدیدمورخ چندرا شیکھرشرما کے مطابق پدما وتی ایک فرضی کردار سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن دوسری طرف علاؤ الدین خلجی ایک حقیقت ایک تاریخ رہا ہے۔ وہ بیس سال حکمران رہا۔ اس نے ہندوستان میں سختی سے پرائس کنٹرول سسٹم نافذ کیا جس سے گراں فروشوں کی کمر ٹوٹ گئی اور غریب عوام کو ریلیف ملا۔

خلجی کا ریونیو اور ٹیکس سٹم بھی آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ علاؤ الدین ایک سخت مزاج حکمران تھا لیکن نہایت ہی نفیس سلطان کے طور پر بھی جانا جاتا تھا جو کہ ایرانی آداب کا حامل ایک مہذب شخص تھا۔ وہ اتنا وحشی اور ہوس کا غلام ہرگز نہیں تھا جس طرح فلم پدما وت میں دکھایا گیا ہے۔ اس نے اپنی جرات اور شجاعت سے منگولوں کو شکست دی اور ہندوستان کو ان کے قہر سے محفوظ رکھا۔ اس کے دور میں دکن سے چتوڑ تک خلجیوں کا پرچم بلند رہا۔ البتہ اس کی اپنے غلام اور بعد میں وفادار جر نیل’’ ملک کافور‘‘سے بعض گمراہ کن باتیں منسوب کی جاتی ہیں۔

نامور مورخ ضیاء الدین برنی بھی ملک کافور کے خلاف اس  لیے لکھتا رہا کیونکہ وہ خلجی کی طرح ترکی النسل نہیں تھا۔ تاہم یہ درست ہے کہ ملک کافور، سلطان پر بہت حاوی تھا اور سلطان اس کے مشوروں کو بے پناہ اہمیت دیا کرتا تھا ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک کافور نے ہی علاؤ الدین خلجی کو قتل کیا تھا لیکن اس نقطے پر مورخین میں بھی گہرا اختلاف پایا جاتا ہے۔ بحیثیت مجموعی ہم سلطان علاؤالدین خلجی کی عظمت کو محض ایک مفروضاتی کردار پدما وتی کے حوالے سے بالکل نہیں پہچان سکتے۔ یہ اس عظیم سلطان کے ساتھ تاریخی نا انصافی روا رکھنے کے مساوی ہوگا۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔