زینب ہم شرمندہ ہیں

Masoom Rizvi
معصوم رضوی

زینب ہم شرمندہ ہیں

از، معصوم رضوی

ننھی پری میرے پاس لفظ نہیں کہ تجھ سے شرمندگی کا اٖظہار کر سکوں، تجھے تو شاید یہ بھی نہ پتہ ہو کہ شرمندگی ہوتی کیا ہے؟ میری سوچ، خیالات اور پورا وجود سب لڑکھڑا رہا ہے، زبان گنگ اور ذھن پر سکتہ طاری ہے مگر یہ سب تجھے سمجھ نہیں آئے گا، اچھا ہے سمجھ نہ آئے کیونکہ میں تیری معصوم نگاہوں کا سامنا نہیں کر سکتا، تیرے تتلاتے سوالوں کو کوئی جواب میرے پاس نہیں، ہاں مگر یہ احساس ضرور ہے کہ ظلم تجھ پر ہوا مگر میرا پورا وجود زخمی ہے، آنکھیں شرم سے جھکی ہوئی ہیں۔ نجانے کیوں ایسے ظلم پر نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا، میں شرمندہ ہوں کیونکہ میں اس سفاک معاشرے کا ایک فرد ہوں جس میں کلیوں کو بربریت کے ساتھ کچلا جاتا ہے، جہاں ایسے حاکم بستے ہیں جو درندوں کو پکڑنے کے بجائے سیاست کرتے ہیں، روم میں تو صرف ایک نیرو تھا یہاں تو ہر شاخ پر نیرو بانسری بجا رہے ہیں۔ جہاں شہروں کے جنگل میں ایسے بے حس لوگ بستے ہیں جو دو دن بعد تیرے ساتھ ہونیوالے ظلم کو بھول کر کھیل تماشوں میں مگن ہو جائینگے اور پھر خون آشام بھیڑیا کسی اور زینب کو اٹھا لے جائیگا۔

ہاں میری بچی زینب، میں تجھ سے شرمندہ ہوں کیونکہ میں اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہوں۔ ایک انسان ہونے کے ناطے اس انسانیت سوز سلوک پر، ایک مسلمان اور پاکستانی ہونیکے ناطے کیونکہ ایسی درندگی تو جنگل میں بھی نہیں ہوتی۔ ایک صحافی ہونیکے حوالے سے بھی شرمندہ ہوں کیونکہ مجھے تو تیرے قتل کے بعد پتہ چلا کہ تو پہلی بچی نہیں تھی جس کے ساتھ یہ بربریت ہوئی، ایک سال میں مزید گیارہ بچیاں اس درندے کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں اور میں سوتا رہا، شرمندہ ہوں اپنی بے خبری پر کہ میں ان بچیوں کے نام بھی نہیں جانتا، شرمندہ ہوں ایسی حکومت پر، ایسی پولیس اور انتظامیہ پر، ایسے میڈیا پر جو تیرے شہر میں گیارہ بچیوں کے ساتھ ہونیوالے ظلم پر خاموش رہے۔ تیرا بابا ٹھیک ہی تو کہتا ہے ہم سب تو کیڑے مکوڑے ہیں، زمین پر چلتے پھرے حشرات الارض جب جس کا دل چاہے کچل ڈالے، مجھے نہیں پتہ ان مظلوم گیارہ بچیوں پر آواز نہ اٹھانے والے میرے جیسے کیڑے مکوڑے، نام نہاد رہنما اور ادارے تیرے قتل پر کیسے اور کیوں جاگ اٹھے۔ لیکن کل پھر کوئی اور زینب ہو گی، پھر شور مچے گا، غلغلہ اٹھے گا، عدالتیں از خود نوٹس لیں گی، وزیر اعلیٰ تعزیتی بیان دیں گے، اسمبلیوں میں بحث ہو گی، پولیس افسران کو او ایس ڈی بنایا جائیگا، تحقیقاتی کمیٹی بھی بنے گی، سیاستدان اور مذھبی رہنما رلا دینے والے بیانات دیں گے، میڈیا چیخے گا، علما اور سول سوسائٹی معاشرتی خامیوں پر بھاشن دیں گے، پھر جب دو دن بعد جب ہم سب اپنی اپنی دنیا میں گرفتار اور بھیڑیے آزاد ہوں گے۔

زینب تو کوئی شہزادی نہ تھی، شہزادی ہوتی تو جاتی امرا کے محلات میں رہتی، بلاول ہاؤس میں پیدا ہوئی ہوتی، تجھے تو یہ بھی پتہ نہ ہو گا کہ بنی گالہ کیا ہے، مگر دیکھ تو سہی سیاستداں پاناما چھوڑ کر تیری تعزیت کو پہنچے، میڈیا عمران کی شادی بھول بھال کر تیری آواز بنا،علما نے مذمتی بیانات دہرائے، روشن خیالوں نے یادگاری شمعیں روشن کیں، شاعروں نے نظمیں کہیں، سوشل میڈیا پر تیرا نام گونج رہا ہے، خیر تو ابھی بہت چھوٹی ہے شہرت، ریٹنگ، عوامی دباؤ، جذبات تجھے اس بارے میں کیا پتہ، لیکن تو ہے بڑی خوش قسمت، کیونکہ تیرے شہر میں پہلے گیارہ ننھی کلیاں اس بھیڑیے کا نشانہ بن چکیں مگر ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا، وہ بھی تیری طرح معصوم تھیں، خوشبو بکھیرتی کلیاں اپنی اپنی ننھی دنیا میں مگن، ماں، باپ، بہن، بھائیوں کی لاڈلی، مگر ان کی تعزیت کو کوئی نہ پہنچا، میڈیا، دانشور، سوشل میڈیا، رہنما سب بے خبر رہے مگر دیکھ تیرا نام پورے ملک میں گونج رہا ہے۔ ہم تو تیرے غم میں ایسے نڈھال ہیں کہ تیری جیسی معصوم سائرہ کے باپ کی فریاد بھی نہیں سن رہے ، جسے امید ہے کہ اس کی گمشدہ بیٹی ابھی زندہ ہے۔ میں اس لیے بھی تجھ سے شرمندہ ہوں کہ تیری خاطر احتجاج کرتے تین کیڑے مکوڑے پولیس فائرنگ کا نشانہ بن گئے، یہ وہی پولیس ہے جو فیض آباد دھرنے پر ہاتھ باندھے خاموش کھڑی رہی، یہ وہی پولیس ہے کہ جب اسلام آباد پی ٹی وی ہیڈکوارٹر پر حملہ ہوا تو سکتے میں تھی۔ مگر تیرے لیے احتجاج کرنے والے تو کیڑے مکوڑے تھے، ان کے پیچھے کوئی سیاسی قوت بھی نہ تھی۔ وزیر قانون، خادم اعلیٰ ڈھٹائی سے دکھ کا اظہار کرتے رہے، فوری ایکشن مگر سب چھوٹ جائینگے، بھلا کیڑے مکوڑے مارنے کی بھی کوئی سزا ہوتی ہے۔ دنیا میں کیڑے مکوڑوں کو انصاف دینے والی کوئی عدالت نہیں، مگر زینب تو یہ نہ سمجھے گی تو ابھی بہت چھوٹی ہے۔

میں تجھ سے اس لیے بھی شرمندہ ہوں کہ میرے جیسے کیڑے مکوڑوں نے تجھے بھیڑیے کے ساتھ جاتے دیکھا مگر روکا نہیں، مجھے یہ بھی یقین ہے کہ تو سب کی اجازت سے اکیلے جنگل میں گئی ہو گی مگر تجھے کیا پتہ کہ جنگل میں کیسے کیسے درندے گھومتے پھرتے ہیں۔ بیٹی تجھے اسکول میں پڑھایا گیا ہو گا کہ تو پاکستان کے صوبے پنجاب میں رہتی ہے مگر یہ نہیں بتایا ہو گا کہ تیرے صوبہ بچوں پر ظلم میں سب سے اوپر ہے، ظالموں سے کیسے بچا جائے یہ بھی تجھے کسی ٹیچر نے نہیں سمجھایا ہو گا۔ میری گڑیا تجھے یہ بھی نہیں پتہ ہو گا کہ صرف گزشتہ چھ ماہ میں تیرے صوبے میں بچوں سے زیادتی اور تشدد کے 768 واقعات ہوئے جس میں سے 68 صرف تیرے شہر میں ہوئے ہیں۔ دو سال پہلے تو صرف پانچ سال کی ہو گی بھلا کیسے جانتی کہ تیرے شہر میں وڈیو اسکینڈل ہوا تھا، پورا ملک چیخا، خادم اعلیٰ کی حکومت بھی دانت پیس پیس کر چنگھاڑتی رہی، وزیر قانون کچھ دیر سے سہی مگر خاصا اچھلے کودے، ملزمان کٹہروں میں لائے گئے پھر پتہ ہے میری بچی کیا معجزہ ہوا، سب چھوٹ گئے اور سب بھول گئے، یاد رہا تو صرف متاثرہ خاندانوں کو جو نفرتوں کا ہدف بنے، عزت بچانے کے لیے آبائی گھر بار چھوڑ کر گمنامی کی تلاش میں دربدر پھرتے ہوئے یہ دکھی خاندان آج بھی معاشرے سے انصاف مانگ رہے ہیں اور ملزمان عزت آبرو کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں۔ کاش میرے ملک میں بھی ایران کیطرح درندوں کا چوک پر پھانسی دینے کا قانون ہوتا۔

میں اس  لیے بھی شرمندہ ہوں کہ محبت بانٹنے والے بابا بلھے شاہ کے شہر قصور میں ایسی ظلمت اور اندھیر کہ بابے کی روح تڑپ اٹھی ہو گی، نہ ہوئی کوئی امرتا پریتم جو وارث شاہ کی طرح بلھے شاہ کو جنجھوڑتی، ہاں مگر ناصرہ زبیری نے امرتا کی پکار کو دھرایا تو سہی

اج اکھاں “بلھے شاہ” نوں کھتوں قبراں وچوں بول

تے اج یزیدی ظلم دا ایہہ خونی ورقہ کھول

اٹھ دردمنداں دیا دردیا کج پا اس غم دا مول

اس شہر تے تیری بلھیا اک دتی زینب رول