رانجھے کا جوگ بیراگ اور شہری اخلاقیات قسطِ دوم

Naseer Ahmed
نصیر احمد

رانجھے کا جوگ بیراگ اور شہری اخلاقیات قسطِ دوم

از، نصیر احمد 

اس لنک پر قسط اول کے بعد … پھر جوگی جی ہیر کے حصول کے لیے جوگ کی مہارتوں سے مالا مال رنگ پور کھیڑیاں آ دھمکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے اعمال میں ایک اچھے انسان، ایک اچھے فرد اور ایک اچھے شہری کے لیے اِنسپَریشن، inspiration، ڈھونڈنی مشکل ہو جاتی ہے۔

ان مہارتوں کے نتیجے میں رُو نما ہونے والی کرامات بھی وارث شاہ کے زمانے میں رائج قوانین اور اخلاقیات کے حق میں کام نہیں کرتِیں۔ شاید کسی زمانے کی اخلاقیات کی یہ کرامات حامی نہیں ہیں کیوں کہ جوگی جی صرف مفادات کے تعاقب میں ہیں اور ان کے لیے کسی قسم کے اصول اہم نہیں ہیں۔

گھر مہراں دے اساں کاسنوں جانا، سر مہریاں دے اسی موتنے آں

وارث شاہ میاں ہیٹھ بال بھانبھڑ الٹے ہوئی کے اساں رات نوں جھوٹنے آں

 کہ ہمیں نہ کھیڑوں سے کچھ مطلب ہے اور نہ ان کی بہو بیٹیوں سے کوئی غرض۔ ہم تو بس آرزو پر فتح پا کر اپنے آپ کو تکلیفیں دیتے رہتے ہیں۔

لیکن جوگی جی دھوکا دے رہے ہیں۔ انھوں نے اسی دھوکے کے ذریعے کھیڑوں کے گھر جانا ہے اور ان کی خواتین کو اپنے ساتھ بھگا کر لے جانا ہے۔ اور اس سازش کی تفصیلات وہ طے کر چکے ہیں۔

ہیر کے شوہر سیدے کھیڑے کی بہن سہتی ایک پُر اعتماد اور طرح دار خاتون ہے۔ جوگی جی کو اس کے انداز نہیں بھاتے تو اس کو انتہائی توہین آمیز گالیاں دینے لگتے ہیں۔

ایک دھواں دار مکالمے کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ اس مکالمے میں صِنفی بحثیں بھی چھڑتی ہیں۔ یہ بحثیں سہتی نہیں ہارتی مگر مفادات کے لالچ اور کراماتی مداخلت کی وجہ سے سہتی جوگی جی کا ساتھ دینے لگتی ہے۔ وہی بات تپسیا اور چمت کار صداقت کی بَہ جائے مفادات کا پالن کرتے رہتے ہیں۔

جوگی جی ایک اور خاتون کے گھر میں بھیک مانگنے پہنچ جاتے ہیں، لیکن وہاں راکھشس سے بن جاتے ہیں اور اس گھر میں توڑ پھوڑ کرنے لگتے ہیں۔ وہ خاتون یہ اطوار دیکھ کر انھیں گالیاں دینے لگتی ہے۔

جوگی روہ دے نال کھڑلت گھتی، دھول مار کے دند سبھ جھاڑ سُٹّے۔

وارث شاہ میاں جویں مار تیسے فرہاد نے چیر پہاڑ سُٹّے

کہ غصے میں لات ماری اور تھپڑ رسید کر کے اس خاتون کے دانت توڑ دیے جیسے فرہاد نے تیشہ زنی کرتے ہوئے پہاڑ چیر دیے تھے۔

ایک اکیلی خاتون سے تشدد کی کتنی عظمت سازی ہو رہی ہے۔ اس طرح کی گری پڑی گئی گزری حرکت سے ایک اچھے شہری اور ایک اچھے ہمسائے کا تو کوئی ناتا نہیں بنتا۔

ہیر کے گھر میں پہنچتے ہیں تو سہتی کو یقین سا ہو جاتا ہے کہ جوگ کا ڈھونگ ہو رہا ہے؛ بنیادی ہدف کچھ اور ہے۔ جوگ بیراگ کی وہ کچھ زیادہ قائل نہیں ہوتی، لیکن جوگی جی نے اس کی مراد بلوچ سے محبت کا پتا لگا رکھا ہوتا ہے۔

جوگی جی اسے مراد بلوچ سے کام یاب محبت کا لالچ دے کر ہیر سے وصال کے لیے سہتی کو سیڑھی بنانے لگتے ہیں۔ اس سارے عمل میں کبھی سہتی جوگ کی قائل ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ سہتی کو تسلی دینے کے لیے کبھی جوگی جی کی پارسائی فزُوں تر ہو جاتی ہے۔

نقش لکھ کے پھوک یٰسین دیئیے، سائے سول دی ذات گواؤنے ہاں

سنے تسمیاں پڑھاں اخلاص سورہ، جڑھاں ویر دیاں پٹّ وگاہونے ہاں

کہ ہم تو کلامِ مجید کی آیات پڑھ کر درد کا درماں کرتے ہیں اور دشمنی ختم کرتے ہیں۔

لیکن جوگی جی پارسائی کی بناوٹ ہی تو کر رہے ہیں۔ دشمنی کی بناء ڈال رہے ہیں اور لوگوں کے گھر اجاڑ رہے ہیں۔ لیکن کرامات کی مہارتیں پھر بھی انھیں حاصل ہیں۔

جوگی جی کی بد کرداری تو واضح ہے کہ نہ دین داری ہے نہ آئین داری ہے، لیکن اس سب کے با وُجود روحانی طاقت ان کے پاس موجود ہے۔ ابھی تک ایسے ہی ہے کہ حقائق کے با وُجود فسانے بھی موجود ہیں اور حقائق کی تلخی کے با وُجود وہ سب روحانی، معاشرتی اور سیاسی طاقتیں بھی رانجھے جیسے ڈھونگیوں کے پاس موجود رہتی ہیں۔ طاقت کا اخلاقیات سے رشتہ بنانے کے لیے دنیا کے بارے میں یہ نقطۂِ نظر مسترد کرنا پڑے گا۔

جوگی جی سہتی کو بلیک میل کرنے کے لیے صداقت کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس پر منافقت کے الزامات بھی دھرتے ہیں۔

جے تیں پول کڈھاؤنا نہ آہا، ٹھوٹھا فقر دا چا بھنائیے کیوں

جے تیں کواریاں یار ہنڈھاؤنے سَن، تاں پھر مانؤں دے کولوں چھپائیے کیوں

خیر منگیئے تاں بھنّ دئیں کاسہ اسیں آکھدے مُونھوں شرمائیے کیوں

بھرجائی نوں مہنا چاک دا سی، یاری نال بلوچ دے لائیے کیوں

بوتی ہو بلوچ دے ہتھ آئییں، جڑھ کوار دی چا بھنائیے کیوں 

وارث شاہ جاں عاقبت خاک ہونا، ایتھے اپنی شان ودھائیے کیوں

کہ اگر مراد بلوچ سے عشق اگر راز میں رکھنا تھا تو فقیروں کو تنگ نہیں کرنا تھا۔ لیکن فقیر خود اپنا عشق چھپائے ہوئے ہیں۔

اسی طرح کنوارے رہتے ہوئے یاریوں جو طعنے سہتی کو دے رہے ہیں ایسی یاری جوگی جی نے خود بھی لگائی ہوئی ہے۔

اور شادی سے پہلے جنس کاری کے جو الزام دے رہے ہیں، وہ جنس بازی جوگی جی نے خود بھی کرنا ہے۔ جو منافقت سہتی میں خامی ہے، وہ جوگی جی میں خامی ہونی چاہیے، لیکن جوگی جی یہ اصول نہیں بنا پاتے۔

رانجھا جوگی تصوف کی بھی علامت ہے۔ روحانی پاکیزگی کے ساتھ ایسی منافقت کا کچھ تال میل نہیں ہوتا۔ لیکن معاملات بہت خراب ہیں۔ روحانی پاکیزگی کا کھیل بدی کا ایک روپ ہی ہے جس کے لیے اخلاقیات اسی وقت ہی اہم ہیں جب وہ کسی بنیادی غیر اخلاقی مفاد کے سلسلے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔

سہتی بھی جوگی جی سے مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی جوگی جی کی منافقت دیکھ لیتی ہے، لیکن اپنا احتساب نہیں کر پاتی۔ جب منافقوں کا ایک گروہ بنتا ہے تو ایک معاشرتی بحران رُو نما ہو جاتا ہے۔

لیکن اس سے پہلے جوگی جی سہتی اور اس کی باندی کو پیٹتے ہیں۔ محلے کی عورتوں سے پٹتے ہیں۔

آخر کار جوگی جی چمت کار دکھاتے ہیں اور سہتی ان کی نیاز مند ہو جاتی ہے۔

ہتھ بَنھ کے بینتی کرے سہتی، دل جان تھیں چیلڑی تیریاں میں

کرامات تیری اتے صدق کیتا، تیرے کشف دے حکم نے گھیریاں میں

اب سہتی ہیر اور جوگی جی کا ایک اتحاد بن جاتا ہے اور عشق میں کام یاب ہونے کی سازش کے لیے زمین تیار ہو جاتی ہے۔

ہیر کی رانجھے سے ملاقات ہوتی ہے۔ وصال کا مرحلہ طے ہو جاتا ہے۔ ترکِ لذّات کے سب دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

سہتی کو ایک دفعہ پھر کنبے کٹم سے وفا داری تنگ کرتی ہے۔ وارث شاہ جنس کاری کے حوالے سے گھٹیا اور سُوقیانہ طعنوں کی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں۔ جنس کاری کے بارے میں ان کی تفہیم کو بھی ترک کرنے کی ضرورت ہے اگر ہمیں اچھے شہری درکار ہیں۔

سہتی کی یہ مدافعت نا تواں سی ہی رہتی ہے اور منصوبہ تیار ہو جاتا ہے۔ ہیر کھیت میں سانپ کے ڈسنے کا ناٹک کرتی ہے۔ جوگی جی سانپ کے زہر کے تِریاق کے بہانے کھیڑوں کے گھر آتے ہیں۔

ظاہر ہے جوگی جی کو حلفِ بُقراط، Hippocratic Oath کی پاس داری کا کچھ احساس نہیں ہے۔ پھر حلفِ بقراط کون سا جوگ میں تعلیم کرتے ہیں۔ جوگ تو بس کچھ روحانی مہارتیں ہیں جن کو اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ روحانیات کا اخلاقیات سے کچھ واسطہ نہیں ہے۔

جوگی جی لڑکیاں بھگا لے جاتے ہیں۔ کھیڑے دونوں جوڑوں کا پیچھا کرتے ہیں۔ بلوچ انھیں پسپا کرتے ہیں۔ لیکن رانجھے اور ہیر کو لے کر وہ راجا عدلی کے دربار میں لے جاتے ہیں۔ اس دربار کے قاضی ہیر کھیڑوں کو لوٹا دیتے ہیں۔

اب جوگ کی مہارتیں شہر اجاڑنے کے درپے ہو جاتی ہیں۔ اور شہر جلنے لگتا ہے۔

اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقیات سے بے نیاز مہارتیں شہر کے لیے نقصان دہ ہی ہوتی ہیں، چاہے وہ روحانی ہی کیوں نہ ہوں۔

ایک حسینہ کے لیے جلتا شہر عُشّاقِ کرام کو شاید رومانوی لگے، مگر ایسی حقیقت بہت ہی اذیت دہ ہوتی ہے۔ نَخوَت، شہوَت اور خود غرضی کے لیے شہر کی بربادی کو روحانیات سے جواز نہیں دیے جا سکتے۔

یہ تو ایک قصہ ہے۔ ایک عادل خدا منافقت، دروغ گوئی، سازش، تشدد، بے رحمی، بد کرداری اور نخوَت کو اتنی فضیلت نہیں دیتا۔

ایک شہر جس میں با شعور، تعلیم یافتہ اور اخلاقیات سے وابستہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہو وہ بھی منافقت، خود غرضی، دروغ گوئی، سازش، بے رحمی اور بد کرداری جیسی بدی کو شہر اجاڑنے نہیں دیتے۔

ہمیں جنوبی ایشیاء میں ایسے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں یہ جوگ بیراگ جیسی تفہیم کو مسترد کرنا پڑے گا۔

…جاری ہے…