یونانی سیاست دان پیریکلیز، عوامی و شہری حقوق اور طاقت کی لا مرکزیت

Naseer Ahmed
نصیر احمد

یونانی سیاست دان پیریکلیز

از، نصیر احمد

‘کیا کبھی بن باتی دیپک جلتا ہے’

ایک ہندی گیت سے

پلوٹارک، پیرِیکلِیز،Pericles، کا احوال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

“اینیکسا غورث جو کہ اب بوڑھے ہو چکے تھے اور انھیں سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا، بستر پر لیٹ گئے اور اور اپنا چہرہ اپنی خلعت سے ڈھانپ لیا تا کہ وہ خود کو بھوکا مار دیں۔

Anaxagoras فلسفی اور یونانی سیاست دان
Anaxagoras base image credits, Biography

“پیریکلیز نے یہ حال سنا تو بری طرح گھبرا گئے اور غریب سے زندہ رہنے کی التجائیں کرنے لگے۔ انھوں نے اینیکسا غورث کی بہت منتیں کی اور بہت دلائل دیے کہ اگر ابھی وہ حکومتی اُمور میں انیکسا غورث جیسے قابل اعتماد مشیر کھو دیتے ہیں تو وہ خود بھی اینیکسا غورث جیسے حالات میں مبتلا ہو جائیں گے۔”

قصے کے مطابق اس موقع پر اینیکسا غورث نے چہرے سے خلعت ہٹائی اور کہا پیریکلیز جنھیں چراغ کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس میں تیل بھی ڈالتے ہیں۔

پیریکلیز ایتھنز کی جمہوری ریاست کے ایک مدبر سیاست دان تھے جنھیں فلسفے کی کچھ اہمیت کا احساس تھا۔ اور اینیکسا غورث قدیم یونان کے ابتدائی فلسفیوں میں ایک فلسفی تھے جنھوں نے پہلی بار ایک کائناتی ذہن کا تصور دیا تھا۔ ان کے خیال میں اس ذہن کی فعّال موجودگی سے کائناتی معاملات چل رہے تھے۔

فلسفے اور سیاست کی اس دوستی کے ایتھنز کی جمہوریت کے لیے بہت اچھے نتائج بر آمد ہوئے۔

پیریکلیز خود تو رئیسوں کے طبقے میں سے تھے، لیکن رئیسوں اور عوام کی کش مکش میں انھوں نے زیادہ تر عوام کا ساتھ دیا؛ انھیں عام ایتھنز والوں کی صلاحیتوں پر بہت اعتماد تھا۔

انھوں نے رئیسوں کی کونسل سے طاقت کی مرکزیت واگزار کرانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ کافی سارے تاریخ دان انھیں ایتھنز کی جمہوریت کی شروعات کا سزوار و اجر دار سمجھتے ہیں۔

Pericles یونانی سیاست دان
پیریکلیز Pericles (495-429 BC) base image credits, Biography

پیریکلیز نے حکومتی عہدوں کے لیے تنخواہیں رائج کیں؛ جس کی وجہ سے عوام کی کاروبارِ حکومت میں شرکت بڑھ گئی، ورنہ صرف رئیسوں کے پاس ہی اتنی دولت ہوتی تھی کہ کوئی کام کاج کیے بَہ غیر حکومتیں چلا سکیں۔ عوام کو تو اپنی زندگی کے سامان مہیا کرنے سے ہی فرصت نہ ملتی تھی۔

پیریکلیز کی بَہ دولت متوسط اور غریب لوگوں کو پہلی دفعہ یہ مواقِع ملے کہ وہ حکومتی معاملات میں اہم عہدوں تک پہنچ سکیں۔

پیریکلیز شہریت، شرکت اور شمولیت کے بہت حامی تھے۔ اپنی جنازے والی مشہور تقریر میں انھوں نے کچھ یوں کہا تھا کہ جو شخص عوامی معاملات میں حصہ نہیں لیتا وہ بے ضرر نہیں بَل کہ بے کار ہے۔ اور اس شرکت کو سہل بنانے کے لیے انھوں نے کافی ساری اصلاحات کی تھیں۔

سرکاری امداد دینے، ایتھنز والوں کو مفتوحہ علاقوں میں آباد کرنے، فتوحات میں بہتر حصے دینے، عمارات بنانے اور تھیئٹر میں غریبوں کے داخلے کے مفت اجازت نامے جاری کرنے جیسی اصلاحات میں پیریکلیز کا بہت اہم کردار ہے۔

جب شان دار قسم کی سرکاری عمارات بنانے کے لیے رقومات مہیا کرنے پر اعتراضات ہوئے تو پیریکلیز نے کہا کہ وہ اپنی جیب سے یہ تعمیرات کرا دیں گے لیکن ان پر پھر نام بھی اپنا ہی لکھیں گے۔ ایتھنز جمہوریت ہی تھی اور جمہوریت میں مقابلے کی ایک فضا تو ہوتی ہے، اس لیے ایتھنز کے شہریوں نے سرکاری خرچے کے حق میں ووٹ دے دیا کہ صرف پیریکلیز کا نام ہی کیوں نمایاں رہے۔ ان تعمیرات سے روزگار میں بہت اضافہ ہوا۔

ہمارے ہاں بھی آج کل تعمیراتی صنعت کو بہت سہولتیں دی جا رہی ہیں اور نام بھی عوام کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایتھنز کے پیریکلیز کے بعد کے سیاست دان بھی شہرت پرست تھے، پر اتنے نا لائق وہ بھی نہیں تھے جتنے اپنے اَبلہ ہیں۔

خارجہ پالیسی میں پیریکلِیز کا مشن ایتھنز کی دیگر یونانی ریاستوں میں برتری کو قائم رکھنا اور فارسیوں کو سرحدوں تک روکے رکھنا اور ایتھنز کی مخالف ریاست سپارٹا کی روک تھام کیے رکھنا تھا۔ جب تک وہ ایتھنز کے اہم ترین سیاست دان رہے وہ ان سب اُمور میں کام یاب رہے۔

فلسفی وولٹئیر، پیریکلیز کے دور کو انسانی دماغ کی کامرانیوں کے چار اہم ترین عہدوں میں سے ایک گنتے ہیں۔ اس دور میں ایکروپولِس جیسی شان دار عمارات تعمیر ہوئیں۔ شان دار قسم کے ڈرامے لکھے گئے: زیادہ تر پیریکلیز کی مخالفت میں۔ شاعری کو عُروج حاصل ہوا اور اس شاعری میں پیریکلیز پر بہت طنز بھی کیا گیا۔

ڈراما نگار سَوفَوکلِیز کے موضوعات میں ایڈیپس کی دین سے دوری کافی اہم ہے۔ اور پیریکلیز فلسفیوں کی حمایت کے معاملے میں کافی بد نام ہیں۔ وہ فطری عوامل کی عقلی توجیہات پر بہت اصرار کرتے تھے۔

فلسفی انیکسا غورث تو گرہنوں کی پیش گوئی کے لیے مشہور بھی تھے۔ کسی جنگ کے دوران سورج گرہن واقع ہوا تو لوگ ڈر گئے اور دیوتاؤں کی نا راضی کے خوف میں مبتلا ہو گئے۔

پلوٹارک کے مطابق پیریکلیز نے اپنے کسی قریبی ساتھی کا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ دیا اور اسے ہٹانے کے بعد اس سے خوف کے بارے میں استفسار کیا۔ اس شخص نے نفی میں جواب دیا تو پیریکلیز نے کہا کہ بس یوں سمجھیے اس کپڑے سے کہیں بڑی طاقت نے سورج کو ڈھانپ لیا ہے۔ اس میں ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔

سوفوکلیز کا دوسرا اہم موضوع مُحرمات سے جنسی تعلقات، incest، کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں تو پیریکلیز کے اپنے بیٹے نے ان پر الزامات لگائے ہیں۔ لیکن ان میں مؤرخین کے مطابق کوئی اتنی سچائی نہیں ہے کیوں کہ یہ الزامات پیریکلیز کی گھریلو اُمور میں کفایت شعاری کا نتیجہ لگتے ہیں۔ اس کفایت شعاری سے ان کا بیٹا نالاں رہتا تھا اور ان کی نا راضی کچرے میں گھس گئی تھی۔

Sophocles
سوفوکلیز Sophocles (496-406 BC) base image credits, IMDB

سوفوکلیز کا تیسرا موضوع وبا ہے۔ اس سلسلے میں بھی پیریکلیز پر الزامات لگتے رہے ہیں۔ انھوں نے سپارٹا والوں کی فوج کَشی سے ایتھنز کو بچانے کے لیے سرحدی لوگ ایتھنز میں جمع کر لیے تھے اور ان کا اتنا خیال نہیں رکھا۔ کچھ مؤرخین کے مطابق وبا نِگہ داشت میں غفلت کا نتیجہ تھی۔

یہ ہو سکتا ہے درست الزام ہو کہ حکومتیں عوامی صحت کے معاملے میں تو آج تک کافی غافل ثابت ہوئیں ہیں۔ اس وبا میں لیکن پیریکلیز کے بیٹے، رشتے دار اور ان کے قریبی رُفَقائے کار زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور پیریکلیز زندگی کے آخری ایام میں بہت تنہا ہو گئے تھا۔ جب موت آئی تو نزَع کے وقت پیریکلیز کا یہ بیان بہت مشہور ہے:

ایتھنز میں کسی نے بھی میری وجہ سے ماتمی لباس نہیں پہنا۔

شاعر بھی پیریکلیز پر کبھی تیر طعنہ اور کبھی سنگِ دُشنام برساتے رہتے تھے۔ ایک پڑھی لکھی خاتون سے ان کے کچھ عاشقی کے معاملات تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ یونانی خواتین کے اخلاق برباد کرتی تھیں۔ ان کا نام آسپاسیا تھا۔ ان پر کسی شاعر نے کچھ یوں طنز کیا ہے:

ہمارے زَیُوس، Zeus، (یونانیوں کے مرکزی دیوتا) کی دل داری کے لیے ہیرا (یونانیوں کی مرکزی دیوی) کھوجتے کھوجتے بدی کی دیوی، یہ بے حیا کتیا آسپاسیا لائی ہے۔

یوپولیس کے کھیل میں پیریکلیز کو یوں پوچھتے ہوئے دکھاتے ہیں:

میرا بیٹا کیا زندہ ہے؟

تو ہومری ہیرو اَیکِیلِیز، Achilles، کے ساتھی یوں جواب دیتے ہیں:

وہ تو کب کا شہری بن چکا ہوتا مگر اس کی فاحشہ ماں کی بے حیائی اسے شہری نہیں بننے دیتی۔

ایک دفعہ تو آسپاسیا کے خلاف بھی اسمبلی میں مقدمہ قائم ہو گیا۔ اس دن پیریکلیز بہت اداس اور پریشان رہے۔

ان سب باتوں کے با وُجود تقریباً تیس سال تک (460 قبلِ مسیح سے 430 قبلِ مسیح) تک پیریکلیز ایتھنز کے اہم ترین شہری رہے۔ یہ عوام میں ان کی مقبولیت کا ایک اہم ثبوت ہے۔

در اصل ایتھنز کی جمہوریت کی تشکیل، عُروج اور زوال تک رئیسوں اور عام شہریوں کے درمیان کش مکش چلتی رہی۔ پیریکلیز کے دور میں رئیسوں کے مشہور مدبر کیمون تھے جنھوں نے ایتھنز کے لیے فارسیوں اور یونان کی دیگر ریاستوں کے خلاف اہم کام یابیاں حاصل کی تھیں۔ اور ان کی ایتھنز کی مخالف ریاست سپارٹا سے ہم دردیاں تھیں۔

پَیرِیکلِیز نے عام شہریوں کا ساتھ دیا اور ان کی حمایت کو استعمال کرتے ہوئے کیمون کو شہر سے در بَہ در بھی کروایا۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ایتھنز کے ان مدبروں کے لیے ایتھنز نہ صرف باتوں میں، بَل کہ حقیقت میں دل و جان جیسا تھا۔ جب ایتھنز کو کیمون کی ایک دفعہ ضرورت پڑی تو پیریکلیز نے اس کے دَر بَہ دری کے احکامات کی تنسیخ بھی کروا دی۔

خیر رئیسوں اور عوام کی اس آویزش کی وجہ سے پیریکلیز کافی متنازع رہے۔ رئیسوں کے پاس پیسے ہوتے ہیں اور بہت ساری نظمیں اور ڈرامے عوام دوست رہ نماؤں کے خلاف لکھوا سکتے ہیں، تو وہ ایسی چیزیں پیریکلیز کے خلاف بھی لکھواتے رہے۔

رئیسوں کے الزامات میں ایک اہم الزام یہ بھی تھا کہ پیریکلیز نے عوام کے چھچھورے اور سِفلے پن کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کو وہ طاقتیں دلوا دیں جن کے استعمال سے وہ واقف نہیں تھے اور ان کو وہ سہولتیں مہیا کر دیں جن کے باعث وہ رذالت اور ضلالت میں پڑ گئے جس کی وجہ سے ایتھنز کا زوال ہوا۔

افلاطون جو کہ رئیسوں کا ہریالے سے ہراولے تھے، اُنھوں نے پیریکلیز کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے:

جہاں تک میرے علم میں ہے عوامی عہدوں کے لیے تنخواہوں کا یہ نظام شروع کر کے پیریکلیز نے ایتھنز والوں کو سست، یاوہ گو اور لالچی بنا دیا تھا، اور جب ان سست، بے ہودہ گفتار لالچیوں نے افلاطون کے استاد کے خلاف فیصلہ دیا ہو گا تب افلاطون نے تو پیریکلیز کے مجسمے پر پتھر ضرور برسائے ہوں گے۔

لیکن افلاطون کی بات بھی بالکل ہی غلط نہیں۔ فلاحی ریاست کے زوال کے دوران اس زمانے میں بھی بہت سارے عام شہری جوشیلے سے چھچھورے تو بنے ہیں، لیکن اس میں کسی سیاسی رہ نما سے زیادہ بڑی بڑی کارپوریشنوں کے رئیسوں کا حصہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

پیریکلیز ایک عہد ساز سیاست دان تھے۔ اس مختصر سے مضمون میں ہم تو بس ان کے بارے کچھ جھلکیاں ہی پیش کر سکے ہیں۔ لیکن وہ ایک شان دار شہری تھے جنھوں نے اپنے شہر و ریاست کو بہت ترقی دی، اور رئیسوں کی اجارہ داری ختم کرتے ہوئے عام شہریوں کو زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقِع دیے۔

ایتھنز کی جمہوریت موجودہ جمہوریتوں سے مختلف تھی۔ اب تو شاید اسے ہم جمہوریت کہہ بھی نہیں سکتے کہ اس میں خواتین، غلاموں اور پردیسیوں کے یا تو حقوق تھے ہی نہیں، یا شہریوں کے مقابلے میں بہت کم تھے۔

لیکن ایک اچھے خیال کا حسن ہی اس کی بہتری کے امکانات ہیں اور جمہوری تصورات تو بہتر سے بہتر ہوتے رہے ہیں۔ ان بہتریوں کے با وُجود بات جہاں سے شروع ہوتی ہے، اس کی اہمیت برقرار رہتی ہے۔

پیریکلیز نے بھی بہت سارے لوگوں کو حقوق کی دنیا میں شامل کیا، مگر کچھ کو حقوق کی دنیا سے بے دخل بھی کیا۔ ان کے ایک فرمان کے مطابق بہت سارے شہری اپنے حقوق سے محروم ہو گئے تھے۔

اس فرمان کے مطابق ایتھنز کا شہری وہی ہو سکتا تھا جس کے ماں باپ دونوں ایتھنز کے خاندانوں میں سے ہوں۔ اس فرمان نے بہت سارے لوگوں کے لیے مصیبتیں کھڑی کی۔ لیکن ایتھنز والوں نے اس وقت یہ فرمان منسوخ کر دیا جب پیرکلیز کے ایتھنز کے خاندانوں کی خواتین میں سے سب بیٹے مر گئے اور صرف ایک بیٹا زندہ رہا جس کی ماں ایتھنز کی شہری نہیں تھی۔

اس بیٹے کو وراثت اور شہریت کا حق دلانے کے لیے ایتھنز کے شہریوں نے اپنے شان دار ترین شہری کی خدمات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیرکلیز کا وہ نا انصافی پر مبنی فرمان منسوخ کر دیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آخر تک رئیس عام شہریوں کے دلوں سے پیریکلیز کی محبت اور عزت کم نہیں کر سکے تھے۔

بہ ہر حال ایتھنز کے عام شہریوں کے لیے ایک بہتر زندگی ترتیب دینے میں پیریکلیز کا ایک اہم کردار ہے۔ اور شہریوں کی شمولیت اور شرکت سے ایتھنز کی جمہوریت بھی بہتر ہوئی، شہریوں کی زندگیاں بھی بہتر ہوئی اور ایتھنز یونان کی کام یاب ترین شہری ریاست بھی رہی۔

جیسے ہندی گیت میں ہے اور جیسے فلسفی انیکسا غورث نے کہا ہے کہ چراغ روشن کرنے اور رکھنے کے لیے چراغ میں تیل تو ڈالنا پڑتا ہے۔

اور پاکستان کو زندگی کا معیار بہتر بنانے کے لیے شہریوں کے حق میں اصلاحات کرنی پڑیں گی۔ ابھی بد قسمتی سے شہری تو نمُو دار ہی نہیں ہوا۔ ابھی تو اَبلہ ہیں اور تقریریں کیے جاتے ہیں۔ کبھی شاید کوئی پیریکلیز جیسا بھی سامنے آ ہی جائے۔

حوالہ جات

پلوٹارک، رائز اینڈ فال آف ایتھنز، پنگوئین کلاسِکس، 1960

پیریکلیز آف ایتھنز اینڈ برتھ آف ڈیموکریسی، ڈونالڈ کیگن

ہُو واز پیریکلیز، بیئیرڈ ریٹینی، نیشنل جیوگرافک