ششی تھرور صاحب، لا الہ اللہ کہنا کیا انتہا پسندی ہے؟ 

Yasser Chattha

ششی تھرور صاحب، لا الہ اللہ کہنا کیا انتہا پسندی ہے؟ 

از، یاسر چٹھہ 

بھارتی کانگریس پارٹی کے رہ نُماء ششی تھرُور اپنی ٹویٹ میں کہتے ہیں:

ہندُوتوا انتہا پسندی کے خلاف ہماری جِد و جُہد کو اسلامی  پسندانہ انتہا پسندی کو اپنے لیے راحت نہیں سمجھنا چاہیے۔

ہم جو سی اے اے_ این آر سی کے خلاف احتجاج میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں وہ شمولیت پسند و تکثیریت نواز بھارت کے دفاع کے لیے جد و جہد ہے۔

ہم کسی بھی طرح کی مذہبی بنیاد پرستی کے ذریعے تکثیریت اور تنوع کی ہار نہیں ہونے دیں گے۔

Shashi Throor tweet
via Twitter

“Our fight against Hindutva extremism should give no comfort to Islamist extremism either. We who’re raising our voice in the #CAA_NRCProtests are fighting to defend an #InclusiveIndia. We will not allow pluralism & diversity to be supplanted by any kind of religious fundamentalism.”

ایسا انہوں نے کیرالہ کے ایک شہری اناز محمد کی اس ٹویٹ پر کہا، (زیرِ نظر رہے کہ اناز محمد کے اس رپورٹ کے بناتے وقت تک 561 فالوورز تھے):

ہر بیریکیڈ پر کہہ دو

 لا الہ الا اللہ

 آنسو گیس میں کہہ دو

 لا الہ الا اللہ

 تیرا میرا رشتا کیا؟

 لا الہ الا اللہ

Say it on the barricade

La ilaha illallah

Say it in the tear gas

La ilaha illallah

Tera mera rishta kya?

La ilaha illalla

#CAA_NRC_Protests

#IndiansAgainstCAA

پاکستان کی سماجی علوم کی ماہر لکھاری عائشہ صدیقہ اپنی جوابی ٹویٹ میں ششی تھرُور کو کہتی ہیں:

کون کہتا ہے کہ لا الہ الا اللہ انتہا پسندی ہے؟  کم از کم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ عام مسلمان کیا کہتے ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اللہ بہت بڑا ہے؛ انتہا پسندی یا انتہا پسندی کی اقدار سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔

“Who says that la illaha ilallah is extremism? At least try to find out what ordinary Muslims say. It just means God is great, nothing to do with extremism or extremist values.”

ٹویٹر صارف، دِیپِکا، نے ششی تھرور اور عائشہ صدیقہ دونوں کو ٹیگ کر کے عائشہ صدیقہ کو جواب دیا ہے:

اگر چِہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے۔ ایک یَک ساں مذہبی مقامیت، space، میں الفاظ بے ضرر ہو سکتے ہیں۔ لیکن کسی مذہبی طور پر متنوع مقامیت، space، میں جہاں دوسرے معبودوں کی عبادت و پوجا کرنے والی کی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہو، یہ دوسروں کے دیوتاؤں، خداؤں، معبودوں کی ایک صریح اور واضح انداز میں نفی ہے۔

It doesn’t mean that though. It means there is no other god than Allah. In a religiously homogeneous space the words are harmless. But in a religiously diverse space where other gods are actively worshiped, it’s an active negation of the gods of others.

اس مکالمے کے بیچ میں جس می ششی تھرور بعد میں جواب نہیں دیتے، ایک پاکستانی نو جوان شعیب قریشی، بَہ ظاہر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی ٹویٹ کی بات کے زاویۂِ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتے کہتے ہیں:

اس کا مطلب قطعاً دوسرے مذاہب کی بے توقیری نہیں ہو سکتا؛ یہ کلمہ اور یہ نعرہ تو صرف اللہ پر ہمارے اعتقاد کی تصدیق و اعادہ کرتا ہے۔

It does not mean to disrespect other religions, it just reaffirms our belief in  Allah.

دِیپِکا، جن کو ٹویٹر پر اس وقت چھ ہزار سے زائد افراد فالو کرتے ہیں، انہوں نے اگلی ٹویٹ میں اپنی بات کو ان الفاظ میں مزید واضح کیا:

ہاں، یہ بات ‘میرے اپنے آپ پر’ لاگو کرنے سے بات زیادہ واضح ہو سکتی ہے، خاص طور پر اُن کئی ایسے نو جوانوں کے لیے جن کا غلط طور پر  یہ عقیدہ بنا سکتے ہیں کہ ان کا معبود دوسروں سے معروضی انداز سے بہتر ہے، یا پھر، دوسروں کے دینی و اِلٰہیاتی نظام ان کے اپنے دینی و اِلٰہیاتی نظام سے کم تر درجے کے ہیں۔

Yes, the implied “to me” could be more explicit, especially for young people who may incorrectly believe that their god is objectively better than others’ or that the theologies of others are inferior.

ایک بے نام سے ٹویٹر اکاؤنٹ جو  اسی برس، یعنی 2019 کے ماہِ دسمبر میں ہی قائم کیا گیا ہے، وہاں سے بڑا اہم زاویہ سامنے آتا ہے:

اسی طرح کے اظہارات توحیدی عقائد میں پائے جاتے ہیں؛ اور اکثر ایسا ہوتے دیکھا جا سکتا ہے کہ نظریاتی مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس اظہار کے لفظی مطلب کو ذہن و نظر میں سما لیا جاتا ہے؛ تاہم، یہاں سیاق و سباق کو بھی مدّ نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان سیاق و سباق میں عمومی طور پر نیت ذاتی نوعیت اور درجے تک کی ہی ہوتی ہے، سیاسی سطح و درجے کی نہیں ہوتی۔ اور اس ذاتی نوعیت، سطح اور درجے کے معاملے کو کسی بھی طرف سے جب سیاسی رنگ میں رنگ کر دیکھا جاتا ہے تو یہ بھی دیکھنے والے کے تعصب کو آشکار کر دینے کا باعث بن جاتا ہے۔

Similar expressions occur in monotheistic faiths & I see the ideological problem posed when taken literally, but context needs to be taken into account here – the intent is usually personal not political, and to project political character onto it when not relevant is prejudiced.

اب ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، ششی تھرور اور دِیپِکا کو متوَجُّہ کر کے دو بارہ ٹویٹ کرتی ہیں:

شاید جب آپ ہندوستان میں نئے دیوتاؤں، مودی، امیت شاہ، اور دیگر لوگوں کے تناظر میں اس، لا الہ اللہ والے نعرے کو دیکھیں گے تو یہ اور زیادہ واضح طور پر معنی خیز ہو گا۔

Perhaps it will make more sense when you see the chant in the context of the new gods in India – Modi, Amit Shah, and the ilk.

اب سوشل میڈیا، چُوں کہ، کھلے دروازوں کا میڈیا ہے، اس لیے ایک صاحب اشوک ٹیواری اس مکالمے میں آتے ہیں۔ وہ، بَہ ظاہر، عائشہ صدیقہ کی ٹویٹ پر دائیں بازو کا ہندو بیانیہ پیش کرتے ہیں؛ پہلے ملاحظہ کیجیے:

مجھے نہیں لگتا کہ ان الفاظ کا مطلب بہت سے ہندوؤں کے لیے کسی قسم کے دیگر معانی رکھتا ہو؛ سوائے اس کے کہ یہ انہیں یاد کراتے ہیں کہ یہ وہی الفاظ تھے جو،  جے کے ایل ایف JKLF کے غُنڈے کشمیر کے متعدد پنڈتوں کو جان سے مار ڈالنے، ان کی بیٹیوں سے زَبر جنسی، rape، کرنے، اور انہیں کشمیر سے تا عمر جلا وطن کرنے سے پہلے بول رہے تھے۔ تو ہمیں یہ مت بتائیے کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے، ہم ان الفاظ کا مطلب جانتے ہیں۔

I don’t think those words mean anything to many Hindus, except that they remember these were the exact words spoken by JKLF goons before they killed scores of Kashmiri pandits, raped their daughters and exiled them from Kashmir for life. So don’t tell us what it means, we know it.

اب ارادہ تو یہ تھا کہ اس مضمون کو خبریہ رکھوں، گو کہ میری تدوین و انتخاب بھی میرے روَیّے و عمل کا فعل ہے؛ اور یہ کار و فعل بہت سطحوں پر شعوری طور پر بھی ہے؛ اور کچھ غیر شعوری نشانات ڈھونڈنا، یا انہیں ایسا ویسا جیسا، تیسا رنگ دینا، کسی بھی قاری و ناظر کا وہ حق ہے، جس پر کون اور کیسے کوئی قَدغن لگا سکتا ہے۔

اس سب کے با وُجُود، اس آخری ٹویٹ جو اشوک ٹیواری نام کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے شیئر ہوتی ہے، آخر اس پر ہی کیوں ختم کر رہا ہوں۔ اس کی بابت مجھے واضح کرنا چاہیے کہ دیکھیے دایاں بازو کیسے اپنے نتائج و خبریات میں محکم یقین رکھتا ہے۔ اسے اپنے معانی پر حرفِ آخر کا سا گُمان ہوتا ہے، ہمیشہ مظلومیت کا پکا یقین ہوتا ہے، اور مظلومیت پر اجارہ داری کا واہمہ، اور اس اجارہ داری کے بعد تاریخ و جبر کو ہموار کرنے کی ہَمہ دَم سر درد؛ اور ساری زندگی اور جِہد اسی مظلومیت کا بدلہ برابر کرنے میں لگی رہتی ہے۔

اشوک ٹیواری جیسے افراد کی جانب سے معاملات واقعات کو واضح شبیہوں،clear images، میں دیکھنے کے ایسے ایسے مضر اثرات ہوتے ہیں، جو دنیا کے کسی بھی گوشے میں دھرتی، اور دھرتی واسوں کو کھاتے جا رہے ہیں۔

اپنے اندر کے اشوک ٹیواریوں کو کھنگالنا اور اپنا اندر اور مَن دھونے سے بھلا کام کوئی اور بھی ہو سکتا ہے؟

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔