قائد اعظم یا مسٹر جناح؟

پروفیسر فتح محمد ملک

قائد اعظم یا مسٹر جناح؟

از، پروفیسر فتح محمد ملک

گذشتہ چند برس سے قائداعظم کو پھر سے مسٹر جناح بنانے کی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ بانئ پاکستان، قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی ایک مسلسل ارتقاء سے عبارت ہے اور وہ عمربھر اپنے علم و عمل اور اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں فکری و نظریاتی ارتقاء کی راہوں پہ گامزن رہے ہیں۔ اُن کے نظریاتی ارتقاء کی تکمیلی شان اقبال کے تصوّرِ پاکستان کو تحریکِ پاکستان میں ڈھال کر اپنی قیادت میں اِس عوامی جمہوری تحریک کو قیامِ پاکستان کی منزل سے ہمکنار کرنے میں جلوہ گر ہے۔ مملکتِ پاکستان کودُشمن کی نگاہ سے دیکھنے والی قوتیں قائداعظم کے شخصی اورنظریاتی ارتقاء سے پھوٹنے والی ذہنی پختگی اور دانشمندانہ سیاسی حکمتِ عملی کی تحسین کی بجائے تردید کی خوگر ہیں۔ وہ بانئ پاکستان کی ترقی پسند حکمت اور کرشمہ ساز حکمتِ عملی کو اُن کی رجعت پسندی سے تعبیر کرتی ہیں۔ پیشتر ازیں مغربی اور بھارتی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور محقق قیامِ پاکستان کو نہرو یا پٹیل یا پھر خود قائداعظم کی غلطی سے تعبیر کرنے کی خاطر دُور کی کوڑیاں لانے میں مصروف رہا کرتے تھے۔

اب اِس گروہ میں بھارتی سیاستدان بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اِس کی تازہ ترین مثال بھارت کے سابق وزیرِ دفاع اور سابق وزیرِ خارجہ جناب جسونت سنگھ کی کتاب “JINNAH: India-Partition-Independence” ہے۔ پاکستان میں اِس کتاب کی زبردست پذیرائی کا مسلسل اور متواتر اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مترجمین کے ایک بورڈ نے اِس کتاب کو حیرت انگیز تیزی کے ساتھ اُردو میں بھی منتقل کر دیا ہے۔صداقت یہ ہے کہ یہ کتاب بانئِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی سیرت و کردار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بہانے قیامِ پاکستان کی مذمت میں لکھی گئی ہے۔ جسونت جی کا کہنا ہے کہ قائداعظم تو آخر دم تک اکھنڈ بھارت (متحدہ ہندوستانی فیڈریشن) کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں سرگرمِ عمل رہے تھے مگرانڈین نیشنل کانگرس کی قیادت اوربالخصوص پنڈت نہرو نے اُن کی ایک نہ چلنے دی اور یوں پنڈت نہرو کی غلطی سے پاکستان قائم ہو گیا۔اُن کے خیال میں پاکستان کا قیام اجتماعی انسانی حماقت (Collective Human Folly-p6) کا نتیجہ ہے۔ دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر اجیت جاوید تو اپنی حالیہ کتاب “Secular and Nationalist Jinnah” میں جسونت سنگھ پر بھی بازی لے گئیں۔انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قائداعظم کو اپنی سیاسی زندگی کاسب سے بڑا صدمہ قیامِ پاکستان سے پہنچا تھا اور بالآخر یہی جان لیوا صدمہ اُن کی وفات کا باعث بن گیا تھا۔

اِس استدلال کے بین السطور لکھنے والوں کی یہ تمنّا پوشیدہ ہے کہ قیامِ پاکستان کی غلطی کو’’درست‘‘کیے بغیر برصغیر میں حقیقی معنوں میں امن ، آزادی اور خوشحالی کا سورج طلوع نہیں ہو سکتا۔اپنی اِس تمنّا کو پورا کرنے کی خاطر ایسے تمام دانشور اور سیاستدان تاریخی حقائق کو مسخ کرنے اور اہم ترین سیاسی تصوّرات اور واقعات کو تاریخ سے حذف کر دینے پر مجبور ہیں۔ میں اپنے اِس سلسلۂ مضامین میں اُن عہد آفریں تصوّرات اور واقعات کے تناظر میں جناب جسونت سنگھ کی کتاب کو زیرِ بحث لا یا ہوں۔

تحریکِ پاکستان کے تین اہم ترین سنگ ہائے میل ہیں۔اوّل:۱۹۳۰ء میں اقبال کا تصورِ پاکستان ۔ دوم:۱۹۴۰ء میں قراردادِ پاکستان ۔ سوم: ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان۔ اپنے ہمنوا سیاسی دانشوروں یا دانشور سیاستدانوں کی مانند جسونت سنگھ جی اپنی کتاب میں تصورِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کو سرے سے زیرِ بحث ہی نہیں لاتے۔ وہ فقط مذاکرات کی اُس میز کے گرد گھومتے رہتے ہیں جو انگریز سرکار نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ہندوستان کو متحد رکھنے کی خاطر بچھا رکھی تھی۔ اِس گول میز کے اِرد گرد اُٹھنے بیٹھنے اور بولنے چالنے کی مختلف روئیدادوں کو وہ اپنے مخصوص نقطۂ نظر سے کاٹ پیٹ کر پیش کرنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اُن کمروں سے باہر نکل کر جہاں کبھی گول میز کبھی میز سے ذرا سا ہٹ کر بچھے ہوئے صوفوں پر یہ سیاسی مذاکرات ہوتے رہے برطانوی ہند کے زمین و آسمان کو بھی دیکھتے تو وہ اُس عوامی جمہوری تحریکِ پاکستان کو بھی دیکھ پاتے جو شاعرِ مشرق اور مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان سے پھوٹی تھی۔ تب یہ حقیقت اُن پر روشن ہو جاتی کہ پاکستان نہ کسی ایک ہندو یا مسلمان لیڈر کی غلطی سے وجود میں آیا ہے اور نہ قیامِ پاکستان ’’اجتماعی انسانی حماقت ‘‘کا ثبوت ہے۔ اِس کے برعکس پاکستان کا قیام ایک ایسی جمہوری تحریک کا نتیجہ ہے جس کی جڑیں برصغیر کے مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ سے ہوتی ہوئی تیرہ سو سال پہلے کے مدینۃ النبی ؐ تک پھیلی ہوئی ہیں۔آئیے قیامِ پاکستان تک اپنے تاریخی سفر کے اُن تین سنگ ہائے میل کو پہچاننے کی کوشش کریں جن سے جسونت سنگھ جی نے کنی کاٹ کر گُزر جانے ہی میں عافیت سمجھی ہے۔

اوّل: خطبۂ الہ آباد ۔ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں عین اُس وقت پاکستان کا تصور پیش کیا تھا جب لندن کی پہلی گول میز کانفرنس ایک فاتحانہ شان کے ساتھ مسلمانوں سے جداگانہ انتخاب کا حق بھی چھین کرمتحدہ ہندوستانی فیڈریشن کے آئینی خاکے پر متفق ہو چکی تھی۔ ایسے میں الہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اقبال نے یہ کہہ کر کہ برصغیر کے مسلمان ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں۔ ایک جداگانہ اور منفرد قوم ۔ چونکہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اِس لیے انہیں اپنی اکثریت کے علاقوں میں اپنی آزاد اور خود مختار مسلمان مملکتیں قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ ایک محکم فلسفیانہ استدلال کے ساتھ انھوں نے اکثریتی اقلیتی سیاست کا رُخ بدل کر رکھ دیا تھا۔ اب مسلمان ایک ایسی بے بس اقلیت نہ رہی تھی جو ہندو اکثریت سے حقوق اور تحفظات کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو۔اب اِس اقلیتی سیاست پر خطِ تنسیخ کھینچ کر رکھ دیا گیا تھا۔ اب اُن کے ہاں جداگانہ مسلم قومیت کی بنیاد پر جداگانہ مسلم مملکتوں کے قیام کی سیاسی جدوجہد کا آغاز ہو گیا تھا۔ یہ نیا سیاسی نصب العین نہ انگریز سرکار کو پسند آیا تھا اور نہ ہندو اکثریت کو۔ برطانیہ کے وزیراعظم نے اقبال کے اِس تصورِ پاکستان کو ایک ایسی شرارت قرار دیا تھا جس نے اُن کے’’ سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا تھا۔‘‘اِس پر علامہ اقبال نے برطانوی وزیرِاعظم کو یوں للکارا تھا:

“The Prime Minister of England apparently refuses to see that the problem of India is international and not national. Obviously he does not see that the model of British democracy cannot be of any use in a land of many nations.” (Thoughts & Reflections of Iqbal, P-188)

درج بالا استدلال نے برطانوی ہند کی سیاست کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ اقبال نے برطانوی ہند کو ایک نہیں کئی قوموں کا مسکن قرار دیا ۔ نتیجہ یہ کہ برطانوی ہند کا سیاسی مسئلہ آن کی آن میں قومی کی بجائے بین الاقوامی بن گیا۔اقبال کے اِس موقف نے برطانوی سامراج کو ایک بہت بڑی مشکل میں ڈال دیا۔قوموں کی حقِ خود ارادیت کے بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصول کی رُو سے برطانوی ہند کی متعدد قوموں میں سے ہر قوم کو اپنا مستقبل خود اپنے ہاتھوں میں لینے اور اپنی قومی زندگی کی صورت گری خود کرنے کا حق زیرِ بحث آ گیا۔برصغیر کی دیگر اقوام کی بات فی الوقت ملتوی کرتے ہوئے ہم اپنی قومی تحریکِ آزادی کے اِس اہم ترین سنگِ میل کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ جاننا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ یہ وہ سنگِ میل ہے جہاں پہنچ کر برطانوی ہند کے مسلمانوں نے اقلیتی سیاست کی اندھی گلی سے نکل کر شاہراہِ پاکستان پر قدم رکھا تھا۔

دوم: ہماری تحریکِ آزادی کا دوسرا سنگِ میل ہے ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان۔ یہ وہ لمحہ ہے جب اسلامیانِ ہند نے اقبال کے تصورِ پاکستان کو قراردادِ پاکستان میں ڈھالتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ہم متحدہ ہندوستانی فیڈریشن کے ہر آئینی خاکے کو رد کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ہم برصغیر کے اُن علاقوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اپنی الگ آزاد اور خود مختار مملکتیں قائم کریں گے۔ یہ وہ سنگِ میل ہے جہاں سے تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوتا ہے۔ سن چالیس میں اقبال کے تصورِ پاکستان کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاسی منشور کی صورت بخشی گئی اور سن بیالیس میں قائداعظم نے اقبال کی اُس پرائیویٹ اور خفیہ خط و کتابت کوLetters of Iqbal to Jinnah کے عنوان سے قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ اِس کتاب کے ’’حرفِ اوّل‘‘ میں انہوں نے اِن خطوط کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے وقت اِس حقیقت کا اعتراف فرمایا تھا کہ اقبال کے نظریات کی روشنی میں انہوں نے بھی بالآخرمسلمان قومیت کی بنیاد پرآزاد اور خود مختار مسلمان مملکتوں کے قیام کو ہی راہِ نجات پایا ہے:

“Iqbal’s views had finally led me to the same conclusions as a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India, and found expression in due course in the united will of Muslim India as adumberated in the Lahore resolution of the All-India Muslim League, popularly known as the “Pakistan Resolution,” passed on 23rd March, 1940.” (Letters of Iqbal to Jinnah, P-6)

درج بالا سطروں میں خود قائداعظم نے ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کو اسلامیانِ ہند کی اجتماعی رائے کا سیاسی اظہار بھی قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بتانا بھی اشد ضروری سمجھا ہے کہ مسلمانوں کی یہ اجتماعی رائے علامہ اقبال کے افکار ہی کی دین ہے۔

سوم: قیامِ پاکستان ۔ جسونت سنگھ اور اُن کے ہمنوا قیامِ پاکستان کو غلطی اور حماقت ثابت کرتے وقت تصورِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کو اپنے مباحث کے دائرے سے خارج کر دیتے ہیں۔ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک فرد نے نہیں ایک قوم نے قائم کیا ہے۔ اِس قوم نے ٹینکوں پر بیٹھ کر ، جنگی طیاروں پر اُڑ کر ، اندھی قوت سے پاکستان کسی پر مسلط نہیں کیا ۔ پاکستان اُس عوامی جمہوری تحریک کی عطا ہے جس کی قیادت مسٹر جناح نے نہیں بلکہ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمائی تھی۔اِس تحریک کے خواب و خیال کو اپنے دل و دماغ میں بسا کر، اَن تھک محنت، بے پناہ ایثار اور ناقابلِ تسخیر عزم و استقلال کے ساتھ اِس تحریک کی قیادت کا حق ادا کر کے ہی مسٹر جناح مسلمانوں کے قائداعظم اور دُنیا کے بے مثال اور لافانی رہنما قرار پائے تھے۔ آج برصغیر میں ایک نئے برہمن سامراج کے خواب دیکھنے والے دانشور اور سیاستدان ہمارے قائداعظم کو پھر سے مسٹر جناح بنا کر اُن سے بانئ پاکستان کا اعزاز چھین لینا چاہتے ہیں اور ہم سے ہمارا پاکستان!