کیا پارٹیشن کی دلخراش یادیں محض پنجابی المیہ ہے؟

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

کیا پارٹیشن کی دلخراش یادیں محض پنجابی المیہ ہے؟

یاسر چٹھہ

صبح نیند سے بیدار ہوئے تھی برادر علی ارقم نے اپنی اس مضمون پر ٹیگ کیا ہوا تھا، پڑھا تو وہاں تبصرہ کرنا بوجہ طوالت مناسب نا جانا۔ آپ جو اس مضمون کو دیکھنے لگے ہیں اس اقتباس پر ایک نظر کر لیجیے، پھر اس پر راقمِ مضمون کا تبصرہ ملاحظہ کیجیے۔

[su_quote]کچھ لوگوں کا پارٹیشن نیوروسس تین جنریشن کھاگیا، اور اب بھی ساری بحث، سارا ڈسکورس پارٹیشن کے گرد ہی مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پارٹیشن اہم نہیں، ایسا نہیں کہ اس حادثہ عظیم ، اس سے جُڑی المیہ کہانیوں کی اہمیت کم ہے، لیکن پارٹیشن کو ایک پراجیکٹ بنا کر چند ناموں، چند شاعروں، چند افسانہ نگاروں، چند سیاست دانوں وغیرہ کی جُگالی کرتے رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ ایک خاص اسٹیٹ آف مائنڈ سے نکل آنے کو تیار نہیں ہیں۔ پارٹیشن بڑی حد تک پنجاب کا معاملہ ہے، کیوں کہ سب سے زیادہ انسانی المیئے وہی پیش آئے، ریڈکلف لائن پنجاب کے سینے پر ہی کھینچی گئی ہے، پھر دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جن کو ہندوستان کے دیگر علاقوں سے پاکستان ہجرت کرنی پڑی، لیکن ہجرت کرنے والوں کے لئے اکہتر بھی ویسا ہی جاں گسل ہے، جب انہیں دوہری ہجرت کرنی پڑی۔ ان کی کہانیاں ابھی بھی بڑی حد تک ان کہی ہیں۔ جتنا لٹریچر پارٹیشن پہ تخلیق کیا ہے، اُس کا تیس فیصد اکہتّر کے ایک اور پارٹیشن پر ہوتا تو شاید آج یوں ٹامک ٹوئیاں نہ مار رہے ہوتے۔ پارٹیشن کے المیئےگنوانے، اس ریاست کے جواز و عدم جواز کی بحث سے بڑھ کر یہ زیادہ اہم ہے کہ نئی ریاست کے کارپردازوں نے کیاکیا، بنگال، پختونخوا ، داخلی طور پر خود مختار بلوچ ریاستوں، اور سندھ میں مسلم لیگی اشرافیہ یعنی جاگیرداروں کے ہاتھوں سندھی ہندوؤں کو بھگتنا پڑا، اکیاون فیصد ہندو آبادی والے کراچی میں جو کچھ ہوا، اس مُلک کی موجودہ حالت میں یہ بحث زیادہ اہم ہے۔ لیکن چلیں آپ پارٹیشن کی قباحتوں یا فیوض و برکات سے فرصت پائیں تو بات کرلیں۔[/su_quote]

 

تقسیم کے سانحے اور اس سانحے کے نتیجے میں برپا ہونے والے المیہ کو صرف پنجابی المیہ تک کی تخفیفی  (reduce)  نظروں تک کہنا لکھنا ایک کافی طویل وقفے کا شعوری blink of eye ہوگا۔ اوپری مُقتبِس بیان میں تنقیدی میرٹ میری سوچ سے بھی شاید کم ہوگا۔ اس عظیم انسانی سانحے کا محل وقوع locale پنجاب ہی تھا، پر پنجابی زبان بولنے والے انسان ہونے کے ناطے اسے انسانی المیہ ماننے کی درخواست کرنے میں حق بہ جانب قرار دیے جا سکتے ہیں۔

ایک تو یہ کہ اس میں ہلاکتوں اور جائیدادوں کی لوٹ مار کا سکیل بہت ہی بڑا تھا، اور دوسرا یہ کہ ہجوم کو ہجوم کی جبلتوں کے زیر تسلط آگیا تھا۔ اس میں زیادہ قصور انگریزوں کا بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ان پر امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری تھی جس سے وہ عہدہ برآء ہونے میں ناکام رہے۔ اور قابضین بھاگتے لمحوں اکثر اسی طرح کرتے ہیں۔

پارٹیشن کے ضمنی اثرات پنجاب اور سندھ نے زیادہ محسوس کیے۔ سندھ نے کیسے ردعمل دیا اور کیسے اپنی سر زمین پر بانہیں کھولیں، دونوں انداز واطوار سے صورتحال سامنے ہے؟ پنجاب نے شاید انہیں زیادہ تر پنجابی ہونے کے ناتے بہت زیادہ آؤٹ سائیڈر یا غیر کی نفسیات والا ردعمل نہیں دیا۔

مزید یہ کہ یہ کس سطح کا المیہ تھا اسے صرف ایسے سماج سمجھ سکتے ہیں جو زمین اور اجدادی ملکیت کے احساس سے زیادہ مضبوطی سے جڑے ہوں۔ اسے قبائلی سماج، اور اس سانحے کے دور کے سماج، فاصلاتی دُوری کی جذباتی رکاوٹوں کی وجہ سے عین اسی انداز سے محسوس نہیں کر سکتے جس طرح آج کا اوسط پنجابی ذہن قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کے انسانی المیہ کو نہیں سمجھ پا رہا۔ جن کی ایک مثال پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی پشتون عدم حساس مزاحیہ نظم تھی۔

پارٹیشن کے نتیجے میں لوگوں کو اپنی اجدادی زمین چھوڑنا پڑی، اپنے گھر اور مال مویشی چھوڑنا پڑے اور ادلے بدلے میں بلا لحاظِ ہندو، سکھ اور مسلمان پنجابی ایک دوسرا کو کاٹنا پڑا۔ گھر جلے، جسم جلے،جسم اور احساسِ خودی تار تار ہوئیں، اپنی قیمتینسل در نسل کی یادیں جلیں۔ (اس سانحے کی حالیہ مثال کسی حد تک بھارتی ریاست گجرات میں مل سکتی ہے، لیکن انتہائی مائیکرو سطح پ، افغانستان کے شہری علاقے کسی حد تک وہ empathy دکھا سکتے ہیں۔)

باقی یہ سوال پاکستانی اور بھارتی ریاستوں پر موقوف ہے کہ انہیں کیا کیا ریاستی پروپیگینڈے کے لیے بھلا لگتا ہے اور مہا قومی بیانیے کے سانچے میں درست بیٹھتا ہے، وہ کس مذہبی denomination کو زیادہ اور اولیں گنہگار سمجھتے ہیں۔ اس سانحے کو ادب نے البتہ حساس انسان کے طور پر زیادہ پڑھا اور زیادہ لکھا، باقیوں نے اسے اپنے دھرم و کلمہ اور سیاست کی عینک سے دیکھا۔ شاید آپ ادب والوں کو بھی پنجابی کہہ کر ان کی تحریروں کو محض قرب کا جذباتی اُبال کہہ سکتے ہیں۔ میرے اپنے خیال میں کچھ واقعتا بھی ایسا ہو سکتا ہے۔

اور ہاں یہ کہنا کہ یہ over rated تھیم ہے وہ اس تناظر میں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے عسکری اداروں نے اپنے ادارہ جاتی مفادات اور دشمنی کی صنعت کو زندہ رکھنے اور دوام دیے رکھنے کے لیے اس کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ اس میں پنجابی قومیت کے جذبات کی بجائے ادارہ جاتی مفادات کا تسلسل اور تواتر زیادہ اہم رہا ہے۔ بھارت سے دشمنی کی صنعت اس کے بغیر کشمیر کے ذریعے بھی زندہ رکھی گئی ہے، لیکن وہ اس قدر زیادہ قابلِ فروخت منڈی کا مال نہیں، بالکل انہیں وجوہات کی بناء پر جن وجوہات کی بناء پر آج پنجاب کی دھرتی سے دور بیٹھے کسی شعور کو یہ خالصتا پنجابی مظہر زیادہ لگتا ہے۔

بطور پنجابی قوم پرست کے اپنے شعوری احساسِ خودی کے میں کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب نے تقسیم کی چھری اپنے سینے اور جگر پر چلتی دیکھی ہے۔( بنگال نے بھی کسی حد تک، لیکن بہت تھوڑی سماجی ٹوٹ بوٹ دیکھی جب اس کے کچھ اہم اضلاع سرحد کے دوسری طرف چلے گئے۔) پاکستان کے بننے سے پنجاب کے کچھ طبقات کو بتدریج زیادہ طاقت و مرتبہ ملا ہے۔ اس میں ایک تو وقت اہم رہا ہے کہ جب اردو اسپیکنگ اشرافیہ کی تعداد و نفوذ کو بھٹو صاحب کے کوٹہ سسٹم نے کچھ منقسم اور دیگر کے لیے  وسیع البنیاد کیا۔

باقی فوج میں پنجاب کا شمالی علاقہ جو بارانی زمینوں پر مشتمل تھا، اب یہاں کے افرد کو ترقی کے زیادہ مواقع میسر آنے لگے تھے۔ آخرالذکر incentive structure تو تقسیم کے بعد فوری طور پر پھل دینا شروع ہو گئی تھی۔ پنجاب کے آب پاش علاقوں کے لوگ تو زمین و زراعت سے جڑے کافی حد تک تاریخی طور پر مغرب کی جانب سے خشک پہاڑی علاقوں سے آنے والوں کے لیے چارہ تھے، لیکن وہ مطمئن اور زمین سے زیادہ جڑے تھے۔ ان کو زمین ڈاکہ زنی کی معیشت کے مقابلے میں زندگی کا پراجیکٹ چلانے میں مدد دے رہی تھی۔

ہاں کسی کی یہ بات کہ پارٹیشن یا تقسیم پنجابی مظہر ہے اس تناظر میں کافی میرٹ رکھتی ہے کہ پنجابیوں کی برصغیر میں ٹوٹ پھوٹ (جس کی حالیہ تاریخ میں پہلی مثال مشرق اور مغرب میں تقسیم اور بعد ازاں بھارت میں خالصتان کے مسئلہ کے سلسلے میں مزید کاٹ)  سے اس کی زبان و ثقافت غیر محفوظ ہوگئی ہے۔ پاکستان میں پنجابی زبان فارسی رسم الخط سے آزاد ہونے کی اب کوئی کوشش نہیں کرسکتی، اردو پنجابی زبان کو کھائے جا رہی ہے، ہر چند کہ اس میں پنجابی اشرافیہ کا ہی کردار ہے، لیکن اس کی بنیادیں تقسیم کے فورا بعد کی اردو اسپیکنگ افسر شاہی نے ڈال دی تھیں، یا انہیں ڈالنا پڑی تھیں۔

مختصر طور پر کہنا چاہوں گا کہ پارٹیشن یا اس سے جُڑے المیہ کو پاک بھارت دشمنی کی  مرکزی حکومتوں کی صنعت خوب بروئے کار لائی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ صرف پنجابی قومیت کا المیہ ہے۔ یہ انسانی المیہ ہے۔ پنجاب کی سر زمین سے دُور اس کا دُکھ فاصلوں کی اکائیوں کے اصول سے متناسبِ معکوس ہو سکتا ہے۔ اس المیے کا باہری ذمے دار ،انگریز حکمران، اس وقت کی حکومت تھی جس نے فائدے تو  متحدہ ہندوستان سے خوب اٹھائے لیکن جاتے وقت محکوم انسانوں کو ہجوم کی نفسیات اور حیوانی جبلتوں کے حوالے کر کے اپنے وجود کی مابعد جنگ عظیم دوئم کی کرچیاں سنبھالنے بھاگ نکلا۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔