میں بہادر نہیں ڈھیٹ ہوں

Munazza

میں بہادر نہیں ڈھیٹ ہوں

از، منزہ احتشام گوندل

ایک نعرہ میرا بھی تھا۔جو کہ مشتہر نہ ہوسکا لیکن خیر مشتہر تو اب بھی ہوجائے گا۔اس دفعہ خواتین کے عالمی دن پر آبنائے آ دم کی طرف سے بڑی کڑی تنقید سننے اور پڑھنے میں آ ئی۔بہت سے نعروں پہ اعتراض کیے گئے۔کچھ نعرے تو واقعی ایسے تھے جو مجھے بھی اچھے نہیں لگے۔وہ مجھے کیوں اچھے نہیں لگے اس کی وجہ میرا ماحول یا میرے سوچ ہوسکتی ہے۔اور جن خواتین نے وہ نعرے لکھے تھے اس کی وجہ ان خواتین کا اپنا تجربہ ہوسکتا ہے۔ہم میں سے ہر فرد کا اپنا الگ تجربہ ہے۔سارے مرد ظالم ہوتے ہیں نہ ساری عورتیں مظلوم۔میں اپنے کئی جاننے والے مردوں کو دیکھتی ہوں کہ عورت ان کا بہت استحصال کررہی ہے۔اور کتنی عورتوں کی گواہ ہوں مرد جن کے ایک ایک سانس پر قابض ہیں۔بات فقط اتنی سی ہے کہ جو پہل کرجائے اور حاوی ہوجائے وہ لازمی استحصال کرتا ہے۔ہم جس برابری کی بات کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ انسانی تعلقات میں توازن رکھا جائے۔شروع میں جیسا کہ میں نے کہا کہ میں بہادر نہیں ڈھیٹ ہوں۔میری جدوجہد اور طرح کی ہے۔تنگ یا مختصر لباس پہننے کی آ زادی مانگنا، اور اس طرح کی اور چیزیں کم سے کم میری جدوجہد آ زادی کے منطقے میں داخل نہیں کیونکہ یہ سوفیصد میری اپنی چوائس ہے۔میری جنگ ہمیشہ نظریات کے ساتھ رہی ہے۔اور اس جنگ کا جو ماحصل ہے میں وہ یہاں کچھ نکات کی صورت بیان کروں گی۔
مرد محبت کا کیک اٹھائے ہماری زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ایسی محبت جس کے ساتھ کوئی زمہ داری نہ ہو۔اگر وہ دولت مند ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوچ پختہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ناممکن کام وہ اپنے پیسے سے کرسکتا ہے۔یہ سمجھے اور جانے بغیر کہ جس عورت کی زندگی میں وہ داخل ہوا ہے وہ بھی محبت یا تعلق کے حوالے سے اپنی کوئی رائے رکھتی ہوگی،ہوسکتا ہے وہ پیسے کو،عالی شان گھر یا کپڑے اور زیورات، ہوٹلنگ یا شاپنگ سے زیادہ آ پ کی توجہ یا آ پ کی طرف سے بہت معیاری وقت کو زیادہ اہم گردانتی ہو۔ایسا مرد عورت کے جذبات اور اس کی جذباتی ضروریات کو ایک فیصد بھی اہمیت نہیں دیتا۔وہ اہمیت دیتا ہے تو صرف اس بات کو کہ وہ اپنے کریڈٹ کارڈ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عورتوں کو فریفتہ کرکے اپنے ساتھ چپکائے رکھے۔
ایسے دولت مند لوگ اپنے کام کا آ غاز عورت کی شخصیت پر تنقید سے کرتے ہیں۔پہلے مرحلے پہ اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ موٹی،بھدی ہے۔یا اس کا رنگ کالا ہے۔یا اس کی ناک موٹی ہے۔جب عورت احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اسے مدد کی پیشکش کی جاتی ہے کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں وہ خود کو ان کے حوالے کرے تاکہ وہ تھری ڈی اور ایسے ہی مختلف طریقوں اور سرجریوں سے ان کے رنگ،وزن اور ناک نقشے کا مسئلہ حل کردیں گے۔ پیسہ زندہ باد
دوسرے مرحلے پر عورت کی جہالت اس کے لباس اور حلیے سے ثابت کی جاتی ہے۔اتنا فضول اور بیک ورڈ پہناوا ہے تمہارا۔تم برانڈڈ کپڑے بھی نہیں پہنتی۔بی بی جب بتاتی ہے کہ اس کی برانڈڈ کپڑوں والی اوقات نہیں تو فوراً اپنے کریڈٹ کارڈ اور اپنے ذاتی انتخاب کی خدمات پیش کردی جاتی ہیں۔پیسہ ایک بار پھر زندہ باد
یہ کہانی چلتی چلتی وہاں پہنچتی ہے جہاں فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ پہنچی تھی۔خاتون سرتاپا کسی بڑے شاپنگ مال میں رکھی کسی ڈمی میں ڈھل جاتی ہے اور صاحب محفل محفل اور جگہ جگہ اپنی اس صناعی کا تعارف کراتے نہیں تھکتے۔اس سے ان مالدار اصحاب کی خدائی حس تسکین پاتی ہے کہ دیکھیے صاحب ہم نے ایک عورت کو نئے سرے سے تراشا خراشا ہے۔بیچاری کو لپ اسٹک لگانا نہیں آ تی تھی آ ج ہمارے طفیل سونم کپور اور پریتی زنتا بن گئی ہے۔
دوسری طرف عورت جب مرد کے طفیل اپنے اوریجنل فریم سے نکل جاتی ہے تو مرد اس کی بہت بڑی مجبوری بن جاتا ہے۔وہ اس کی طفیلیہ بن جاتی ہے۔نہ صرف ان سب اخراجات کے اسراف کے لیے بلکہ اسے کوئی سٹالر یا پرفیوم ہی خریدنا ہو تو وہ صاحب کی طرف دیکھتی ہے کہ وہی اس کے لیے منتخب کریں گے۔خدا بننا اور خدا کی مخلوق بن جانا اور کسے کہتے ہیں؟سو ایک خاص مدت کے بعد جب مالدار اپنی اس صنعت کو چھوڑ کے کسی نئے خام مال کی طرف بڑھتا ہے تو پچھلی صنعت کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔اس غریب کے پاس اپنا کچھ نہیں بچتا اس لیے اپنی بقا کے لیے یا تو کسی نئے خدا کی طرف دوڑتی ہے یا پھر کسی گلتے ہوئے آ وارہ اشیا کے ڈھیر کا حصہ بن جاتی ہے۔دوسری سوچ اور دوسری قسم کا مرد وہ ہے جس کے پاس جنسی طاقت ہے۔ایسے مرد کا دولت مند مرد سے بھی زیادہ پختہ خیال ہے کہ عورت مرد کی جنسی طاقت کی بے دام غلام ہے۔وہ خواہ کسی بھی عمر،رنگ،نسل،خطے یا سوچ کی مالک ہو مرد کے زیر ناف حصے کی مطیع اور رسیا ہے۔وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ ہوسکتا ہے عورت جنسی معاملات کو گہری نفسیاتی یا روحانی ہم آ ہنگی کے ساتھ دیکھتی ہو۔ان کے نزدیک بگ بینگ کی وجہ بھی سائز، طاقت اور دورانیہ تھا۔یہ اصحاب بھی پہلے ذہن سازی کرتے ہیں یہاں تک عورت اس سانس لیتی دنیا میں اپنی پہلی اور آ خری ضرورت اور ترجیح جنسی انگیخت اور آویزش کو سمجھنے لگتی ہے۔ اس موقع پر بھی وہی ہوتا ہے۔احباب کی محافل میں فخریہ اپنی فتوحات کی داستانیں سنائی جاتی ہیں۔ اور جب بی بی کو چھوڑ کے نئے مال کی طرف بڑھتے ہیں تو پچھلی کے پاس وہی دو آ پشن رہ جاتے ہیں جو میں نے اوپر بیان کیے۔تیسرے اصحاب محبت کی وادی میں اپنے اقتدار اور عہدے کی طاقت لے کر اترتے ہیں۔انہیں معروف طریقوں سے اپنا ٹارگٹ پورا کرتے ہیں۔ پہلے عدم تحفظ کا احساس دلا کر پھر تحفظ کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔اور پھر متروکہ املاک وقف برائے اصحاب دیگر علیہ ما علیہ
تو میری جنگیں ایسے ہی نظریات کے ساتھ رہیں۔ میں جہاں بھی تھی میں نے اپنا پن نہیں چھوڑا اور نہ ہی اپنی شخصیت کسی کے حوالے کی کہ لو اسے تراشو خراشو اور کسی مورتی کی طرح زمانے کے آ گے رکھ دو۔ جو بھی کیا اپنی من مرضی سے کیا اور اپنی رضا سے کیا۔

اور یہی میرا مطالبہ ہے اور ہمیشہ رہا ہے کہ عورت کسی مرد کی مصنوعہ چیز نہیں ہے۔ اس کی جو سوچ ہے وہی اس کی اصل ہے۔ آپ اس کی سوچ کو تسلیم کریں۔وہ جو چاہتی ہے آ پ اگر اسے نہیں دے سکتے تو معذرت کرلیں اس کے پیچھے نہ پڑجائیں کہ آپ اسے اپنے ڈھب پہ لا کر چھوڑیں گے۔ یہ سب سے بڑی اور بنیادی خرابی ہے جو ایک نفسیاتی تشدد کی وجہ بنتی ہے۔میں نے اس لیے نعرہ لگایا کہ میں بہادر نہیں ڈھیٹ ہوں کہ ہم نے ہر بہادر عورت کو بے حس اور جذبات سے عاری سمجھ لیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو درد ہی نہیں ہوتا۔وہ کچھ محسوس ہی نہیں کرتی۔وہ چیخ چلا نہیں رہی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے درد نہیں ہوا۔اسے محبت یا سہارے کی ضرورت نہیں۔ہوسکتا ہے اس میں صبر اتنا زیادہ ہو۔ ہو سکتا ہے اس نے لمبی چپ سادھ لی ہو۔
میری فقط اتنی خواہش ہے۔