نجات کا دارومدار

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

نجات کا دارومدار

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

ہم نجات کا دارومدار کے عنوان پر اپنی مختصر معروضات چند نکات کی صورت میں پیش کرتے ہیں:

  •        قرآن کے مطابق لوگوں سے مواخذہ ان کی عقل و فطرت اور میسر علم کی بنا ہر ہوگا۔ اقرار خداوندی لازمہ فطرت ہے۔ اس کا سوال بلا امتیاز سب صحیح العقل انسانوں سے ہوگا:

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (سورہ اعراف، 7:172-173)

جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھہرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں،( آپ ہی ہمارے رب ہیں)، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے۔ یا اپنا یہ عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر کیا آپ اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟

  •        اہل کتاب، جن میں مسلم بھی شامل ہیں ان کے لیے آخرت پر ایمان لانا بھی از روئے قرآن لازم ہے:

انَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورہ بقرہ، 265)

وہ لوگ جو (نبی امی پر)ایمان لائے ہیں اور جو (اِن سے پہلے) یہودی ہوئے اور جو نصاریٰ اور صابی کہلاتے ہیں، اُن میں سے جن لوگوں نے بھی اللہ کو مانا ہے اور قیامت کے دن کو مانا ہے اور نیک عمل کیے ہیں ، اُن کے لیے اُن کا صلہ اُن کے پروردگار کے پاس ہے اور (اُس کے حضور میں )اُن کے لیے نہ کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے۔

  •        وہ لوگ جن تک کسی رسول کا پیغام پہنچا ان کو اس پر توجہ دینا لازم ہے۔ جس نے جان بوجھ کر انکار کیا وہ نجات کا مستحق نہیں۔ قران میں ایسے ہی لوگوں کو کافر کہا گیا ہے، کیونکہ انھوں نے جان بوجھ کر ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ تمام وعیدوں کے مورد یہی صنف ہے۔
  •        جو لوگ عقیدے کے معاملے میں کسی غلط فہمی کا شکار ہوئے ان کی دیانت داری دیکھ کر ان کی نجات کا فیصلہ ہوگا:

وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ قَالَ اللَّـهُ هَـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورہ مائدہ، 5:116-119)

اور یاد کرو، جب (یہ باتیں یاد دلا کر) اللہ پوچھے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ، کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا تم مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو۔ وہ عرض کرے گا: سبحان اللہ، یہ کس طرح روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی، (اِس لیے کہ) آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور آپ کے دل کی باتیں میں نہیں جانتا۔ تمام چھپی ہوئی باتوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ میں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔ میں اُن پر نگران رہا، جب تک میں اُن کے درمیان تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے وفات دی تو اُس کے بعد آپ ہی اُن کے نگران رہے ہیں اور آپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔ اب اگر آپ اُنھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ ہی زبردست ہیں، بڑی حکمت والے ہیں۔ اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کی سچائی اُن کے کام آئے گی۔ اُن کے لیے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔

  •        جن لوگوں نے بلا سوچے سمجھے کوئی بھی عقیدہ مانا وہ مسلم ہیں یا غیر مسلم خدا کی نظر میں برابر ہیں۔ ان کا فیصلہ جو بھی ہوگا ایک ہی کسوٹی پر ہوگا۔ مسئلہ محض یہ نہیں کہ خدا پر ایمان لانا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ سوچ سمجھ کر لانا۔ اسی کی دعوت پورے قران میں دی گئی ہے۔ چنانچہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جو بلا سوچے سمجھے ایک خدا پر ایمان لاتے ہیں انھیں اس کے ساتھ اور بھی جو عقیدے سکھا دیے جائیں ان کو بھی اسی لیے مان لیتے ہیں کہ ان کے بڑوں نے انھیں سکھائے ہیں۔ غلط یا درست عقیدے کا تقلیدی طور پر مان لینا ایک برابر ہے۔
  •        نجات کے لیے کبیرہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔ مثلا جان بوجھ کر ناحق قتل جیسا جرم ابدی جھنم کا مستحق بنا دیتا ہے:

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (سورہ نساء، 4:93)

اس شخص کی سزا، البتہ جہنم ہے جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا، اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اُس کے لیے اُس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

  •        خدا کو اپنی سوچ کے مطابق ماننا اور خدا کے قواعد و ضوابط کو اپنی مرضی کے تحت رکھنا دراصل خدا کی بجائے اپنی عبادت کرنا ہے۔ خدا کے ہاں یہ طرز عمل قابل قبول نہیں:

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّـهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (سورہ جاثیہ، 45:23)

پھرکیا اُن لوگوں کو دیکھا بھی ہے جنھوں نے اپنی خواہش کو معبود بنا لیا اور اللہ نے (اِسی بنا پر) جن کو گمراہ کر دیا، اِس کے باوجود کہ (خدا کے دین کا) علم رکھتے تھے اور اُن کے دل پر اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُن کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے؟  تو اِس طرح کے لوگوں کو اب کون ہدایت دے سکتا ہے، اِس کے بعد کہ اللہ نے اُنھیں گمراہ کر دیا ہے! (ایمان والو)، پھر کیا تم دھیان نہیں کرتے ہو!

واللہ اعلم۔