مکتوب از میرزا غالب بنام جناب جسٹس جیکسن صاحب بہادر

مکتوب از میرزا غالب

مکتوب از میرزا غالب بنام جناب جسٹس جیکسن صاحب بہادر

نصیر احمد

میں میرزا اسداللہ خان المتخلص غالب سکنہ دلی افغانستان کے باشندے ملا محمد عمر مقام نامعلوم کے انسانیت کے خلاف جرائم کے سلسلے میں انصاف کا طالب ہوں کیونکہ جناب والا تبار جرائم کی اس سب سے قبیح شکل کے مجرموں کو سزا دلوانے میں بڑا درجہ رکھتے ہیں۔

صاحب بہادر

پہلے تو میرا جی چاہا کہ میرزا رفیع سودا سے ملا عمر کی وہ ہجو لکھواؤں کہ رہتی دنیا تک قلاوزیوں کی حکمرانی کی خواہش ہی مر جائے اور تا ابد خلق سے منہ چھپاتے پھریں۔پھر خیال آیا کیوں نہ میر انیس سے پاکستان اور افغانستان کے بے گناہوں کا وہ مرثیہ کہلواؤں کہ ملا پریشانی و پشیمانی کے سمندر میں غرق ہو جائے نہ جنازہ اٹھے نہ کہیں مزار بنے مگر پھر کنار فرات پیاسوں کی یاد آئی، دل غم میں گھر گیا اور آنکھیں آنسووؤں سے بھر گئیں۔

انسانی ذہن کی کائنات کی دنیا عجیب ہے کہ جیسے ہی غم کی گھٹا گہری ہوتی ہے ٹھیک اسی وقت سچ کا سورج روشن ہو جاتا ہے اور جب میرے ذہن کی کائنات میں سچ کا یہ سورج چمکتے دمکتے یہ سیدھی اور سچی بات مجھے سمجھانے لگا کہ جہاں تنگ نظری، تنگ دلی اور کوتاہ ہمت کے بے کراں صحرا ہوں، وہاں پچھتاوے کی آتش سوزاں نہیں جلتی۔امید اور سچ کی کوئی کرن بھی ایسے دلوں سے نہیں گزرتی۔

یہاں سے مایوس ہوا تو سوچا میر درد سے کوئی ایسی مناجات لکھواؤں جسے سن کر قدسی بھی گریہ کرنے لگیں لیکن مجھ قرض کی مے پینے والے بوڑھے سے درد کہاں کلام کرتے ہیں۔ پھر دل نے کہا کہ خواجہ شیراز سے کہوں کہ وہ پھر سے پیران جاہل اور شیخان گمراہ کی بابت کچھ ایسا کہیں کہ یہ قاتل ملا اور اس کے چیلے چانٹے شرمندگی کی دلدلوں میں دھنس جائیں لیکن اگر شرمندگی ہوتی تو یہ انسانیت کے خلاف جرائم کی دلدلوں میں دھنستے ہی کیو ں۔ یا پھر بے دل سے کہوں کہ اس نئے زمانے کے شاعر ذال سعدی سے کہوں کہ وہ تیرگی کی اس گھناونی شکل کے خلاف کسی سنگلاخ زمین سے کوئی ایسا مضمون نکالے کہ انسانیت کی تشنگی مٹ جائے؎ کہ اس دکھ درد کی ماری اینا سے کہوں کہ چند لفظوں میں ہی ظلم کے اس دوزخ کی ساری حقیقت عیاں کر دے۔

اپنے لاٹ صاحب اوڈن کا بھی سوچا کہ وہ گہری باتیں کرتے ہیں لیکن کٹھ ملاؤں کا گہری باتوں سے کوئی ناتے داری ہی نہیں ہوتی۔ ذوق کا بھی دھیان آیا مگر ہم اور ذوق بزدل ہیں، ہمارا کیا پتا خلعتوں اور پارچوں کے چکر میں کہیں ملاصاحب کے قصیدے نہ لکھنے بیٹھ جائیں۔

یہ سچ بھی سامنے آ گیا کہ شعرو نغمہ انصاف کی تربیت کر سکتے ہیں مگر انصاف کے لیے منصف درکار ہوتے ہیں۔ ادھر ادھر دیکھا تو منصف دستیاب نہ تھے تو سالوں کی مسافتیں طے کر کے، برسوں کی ہجرتیں سہہ کر جناب کی عدالت میں کاغذوں کے اس گٹھے کا بار اپنے بوڑھے کندھوں پر اٹھائے داد رسی کی خواہش دل میں جگائے حضور کی عدالت میں حاضر ہوں۔

حضور میں جوئے باز ، عیاش ، بدقماش، نازک خیال،آشفتہ حال بوڑھا اس طرز، اس رنگ اور اس پیرائے میں بات کرنے کا عادی نہیں مگر کیا کروں یہ واقعہ سخت ہے اور معاملہ گھمبیر۔انسانیت کے خلاف اندوہناک جرائم سے دل اس قدر آزردہ ہے کہ گلہائے ناز کو شگفتہ کرنے سے پہلے ہی اپنی خاموش بے حسی دل کو مردہ کر دیتی ہے۔

یہ نہیں کہ برے وقت نہیں دیکھے۔ بہت کچھ ہنستے مسکراتے سہہ گئے ہیں۔ شہزادوں کے سر کٹتے دیکھے، حضور عالی مقام کو دلی سے رخصت بھی کیا، اس ستم پیشہ کا ہجر بھی برداشت کیا، میرزا یوسف کی بیماری بھی کاٹی، ناقدری کا درد بھی جھیلا، دلی اجڑتے دیکھی، اپنی ہر محفل بکھرتے دیکھی اور دلی کا ذرہ ذرہ خاک بھی خون مسلمان سے تشنہ بھی دیکھا۔

مگر پاکستان اور افغانستان میں مسلمان کا، ہر انسان کا خون اس قدر ارزاں دیکھا کہ بوکھلا سا گیا ہوں۔خواب بھی جو دیکھے، خوب دیکھے، مقتول دیکھے یا پھر مضروب دیکھے۔گلہ کرنے کو جو نگاہ اٹھاوں، تو سب نگاہیں پھیر لیتے ہیں۔ شکوے کے لیے جو لب کھولوں تو وہ شور برپا ہوتا ہے کہ سماعت ضعیف ہو جاتی ہے، صدا نحیف ہو جاتی ہے۔

حضور، یہ پوتھیاں اور پشتکیں دیکھیں، لاکھوں مر گئے، لاکھوں بے گھر ہوئے۔لڑکیاں پڑھ لکھ نہیں سکتیں۔ کام کاج نہیں کر سکتیں، مردوں نے داڑھیاں اگانی ہیں، کاروبار نہیں، روزگار نہیں۔کچھ بھی تو نہیں۔ عزت کی کیا کہوں ،حیات ہی میسر نہیں۔مر جائیں تو تربت کی مرتبت نہیں۔ دشمنی کا اک فسوں ہے، قتل کا جنوں ہے، ہر جرم روا ہے ،جس کے نتیجے میں جینا سزا ہے۔ بیعت کریں تو بھی موت، بیعت نہ کریں تو بھی موت۔ ادھر ہزارہ شیعہ جلائے جا رہے ہیں، ادھر مسیحی تڑپائے جا رہے ہیں۔ادھر سنی جانوروں کی طرح ہنکائے جا رہے ہیں۔ بھوکوں تک کھانا نہیں پہنچنے دیا جاتا۔

کوئی ہے جو ملائیت کے اس جبر سے محفوظ ہے؟ کوئی بھی تو نہیں۔قاتل کو دکھ نہیں اور مقتول آتش انتقام میں سکگتا رہتا ہے۔ مظلوم کو بھی موقع ملے تو ظلم کرنے سے ہچکچاتا نہیں۔نحن و نحن کی آڑ میں نفسی نفسی کی پرستش کی جاتی ہے۔ کیا پر آشوب زمانہ ہے کہ لوگوں سے شہر آشوب لکھنے کی صلاحیت چھین لی گئی ہے۔ غزل میں حسن یار کی بات نہیں بلکہ رجز پڑھے جاتے ہیں۔ رجزوں کی بھرمار ہے ، لیکن دلاور کوئی نہیں۔

وہ میرزا صاحب جو ہماری غزلوں پر ٹھٹھا کرتے ہیں، وہ اتنے کم ہمت ہیں کہ کسی گوشے میں دبک گئے ہیں، لاکھ باہر نکالو، کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر پھر کسی حجرے میں گھس جاتے ہیں لیکن ہمیں مسلسل کوستے رہتے ہیں کہ ہماری غزلیں ادھاری ہیں، کنواری نہیں۔خود سے ایک مصرعہ موزوں نہیں ہوتا اور دوسروں سے باکرہ غزلوں کی توقع کرتے ہیں۔ لیکن ہم ان جیسے نادانوں کو معاف کر دیتے ہیں کہ خیر سے ہماری طرح تیموری ترک ہیں اور پھر گنواروں سے جھگڑنے میں اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔

حضور، اس گریز کے لیے معذرت۔ ان مختصر کتابوں میں ملا عمر کے خلاف سارے ثبوت موجود ہیں۔ لیکن حضور یہ ثبوت وہ سب نہیں بتاتے جو زندگی کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔یزداں کہ ثنا خوان محمد ہیں، مسیح کے دوست ہیں، کنہیا کے سنگی ہیں، نانک کے ساتھی ہیں، ان کے حضور جب لوگ امید مانگنے کسی مسجد، کسی مندر، کسی معبد، کسی گردوارے میں جاتے ہیں، تو بہت ہی بے معنی اور بے مقصد موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو خود کو مسلمان کہے اسے زبردستی کافر بنا دیتے ہیں۔

شاکیہ منی کے مقدس تبسم پر سنگ باری کرنے والے شقی بازیچہ اطفال اجاڑ کر قہقہے لگاتے ہیں۔انسان، جانور، پھل، پودے، چرند پرند، درندے جنگل، ان ملاؤں کی ملامتیں اور شقاوتیں سہتے ہیں۔

دنیا میں بہت ظالم ہو گزرے ہیں، مجھے چلی میں وہ لوگ بھی ملے جو خیمہ موت کے باہر اپنی باری آ نے کے منتظر ہمہ شب اختر شماری کرتے تھے کہ ان کا زندگی سے رشتہ جڑا رہتا تھا۔ ان ملاؤں نے انسانیت کے خلاف وہ سنگین جرائم کیے ہیں کہ لوگوں کے پاس زندگی سے رشتہ جوڑنے کے لیے ہر قسم کی موت کے سامنے سر جھکا دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا۔

حضور، انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب اس مجرم ملا عمر کو سزا دیں اور کچھ ایسا کریں کہ لوگوں کا زندگی سے رشتہ جڑ جائے۔

انصاف کا طلب گار

غالب