‘میرا جسم میری مرضی’ آپ کیا کہتے ہیں؟

Naseer Ahmed, the writer

‘میرا جسم میری مرضی’ آپ کیا کہتے ہیں؟

از، نصیر احمد 

بنیادی طور پر یہ ٹھیک بات ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک مختصر سا نعرہ ہے اور بہت ساری صورتوں کا احاطہ نہیں کرتا ہے، جب فرد کی اپنے جسم کے حوالے سے مرضی ماند ہو جاتی ہے یا ختم ہو جاتی ہے۔ ان امراض کی صورت میں جن میں دماغ اور جسم کام نہیں کرتے، بے ہوشی میں، حادثے کی صورت میں، قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں۔

لیکن ان صورتوں میں بھی معاشرے انسانی وقار کا خیال رکھنا چاہیے اور مرضی کا بھی جتنا ممکن ہو سکے احترام کرنا چاہیے۔ پھر یہ اختیار بھی فرد کے معاشرے یا حکومت سے ایک معاہدے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور حکومت اور معاشرے کا یہ فرض ہوتا ہے کہ جسم کے حوالے سے ان لوگوں کے حقوق کا احترام کریں جو اپننے جسم پر اختیار نہیں رکھتے۔ اور جسم کے ایسے استعمال  کے خلاف بھی قوانین اور اقدار بھی رائج ہو تے ہیں جس استعمال سے دوسروں کے انفرادی، آئینی، اخلاقی، معاشی، نجی، سیاسی، نفسیاتی اور معاشرتی حقوق کو گزند پہنچتا ہو۔

جمہوری فکر کے مطابق انسان کے حقوق اور فرائض اس کی رضا کے احترام پر مبنی ہوتی ہیں۔ جب اپنے جسم پر ہی رضا اور اختیار کے حقوق نہیں ہیں تو اقوامِ متحدہ کے دیے گئے ہوئے سارے حقوق بے معنی ہو جاتے ہیں، جیسے جائیداد کے حقوق، آزادی کے حقوق، سیکس کے حقوق، شادی کے حقوق، معاشی حقوق، سیاسی حقوق، تعلیم کے حقوق، نوکری کے حقوق، خرید و فروخت کے حقوق، سہولیات کے حقوق۔

اور جن معاشروں میں انفرادی حقوق کی اہمیت نہیں ہوتی، وہاں پر دیگر حقوق کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا جس کے نتیجے میں افراد جمہوری قوانین کے تحت اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے سے محروم رہ جاتے ہیں جس سے انسانیت کا اجتماعی نقصان ہوتا ہے۔

اگر کوئی خاتون یا مرد کسی جلسے میں شریک نہیں کرنا چاہتا تو اسے وہاں گھسیٹ کر لے جانا غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر جمہوری ہو گا۔ اس فکر کا جسم کے حوالے سے دیگر حقوق پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔

جہاں فرد کے حقوق کے خاتمے پر اصرار ہے وہاں زندگی کا مِعیار بھی تو بہتر نہیں ہے۔ کرونا وائرس کو ہی لے لیں۔ وہاں کچھ اچھے ڈاکٹر اپنے حقوق و فرائض پر اصرار کر رہے تھے لیکن حکومت ان حقوق اور فرائض کا انکار کر رہی تھی جس کے نتیجے میں وبا عالم گیر ہو گئی۔

اور پھر حقوق اور فرائض کے حوالے سے آپ صنفی یا گروہی تعصبات سے کام نہیں لے سکتے۔ بنیادی تفہیم یہی ہے کہ بَہ طورِ انسان قانون کی نظر میں سارے انسان برابر ہوتے ہیں۔ اور جہاں اس برابری کو تسلیم نہیں کیا جاتا وہاں جمہوری اصولوں اور جمہوری قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہوتی ہے اور اس خلاف ورزی کے نتیجے میں انسانی وقار اور انسانی ترقی کا مِعیار پست ہو تا ہے۔ اور پست معیار پر اصرار کوئی دانائی کی بات نہیں ہوتی۔

پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک میں بہت سارے غیر جمہوری ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی اثرات کے نتیجے گروہ کے لیے فرد کی رضا، فرد کے حقوق اور فرد کے اختیارات کے خاتمے پر اصرار ہے۔ اور اس طرزِ عمل کے نتائج فاش، ظاہر اور بر ملا ہیں۔ خطے میں امن نہیں ہے، قانون کی بالا دستی نہیں ہے، غربت بہت زیادہ ہے، امتیازات بہت زیادہ ہیں، مہارت اور فطانت کے حوالے سے ترقی یافتہ دنیا سے خطہ بہت پیچھے ہے۔

صنفی امتیازات کے نتیجے میں خواتین کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ اور یہ صورت افراد اور معاشروں کے لیے ایک بہتر صورت حال نہیں ہے۔

جمہوری اصولوں اور جمہوری قوانین کی پاس داری کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ معاشرتی مکالمے گئے گزرے گرے پڑے ہو جاتے ہیں۔

ہر طرح کی بد حالی اور پستی سے لطف اٹھانے کی بَہ جائے ہمیں انسانی برابری تسلیم کرتے ہوئے خطے میں زندگی کا معیار بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہییں، اور جمہوریت اور معیار زندگی کی بہتری کا گہرا رشتہ ہے جس کی بہت ساری مثالیں دنیا میں موجود ہیں۔ اور جمہوریت کی بنیاد ہی فرد کی رضا ہے اور خواتین افراد ہیں اور بَہ طور افراد، انسان اور شہری مردوں کے برابر ہیں۔ اس تفہیم کے خلاف جانا آمریت اور حماقت ہے۔