پھر کشمیر کو شام بننے سے کوئی نہیں روک سکتا

پھر کشمیر کو شام بننے سے کوئی نہیں روک سکتا
پھر کشمیر کو شام بننے سے کوئی نہیں روک سکتا

(ریاض مسرور) بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر

گذشتہ برس آٹھ جولائی کی شام مقبول مسلح رہنما برہان وانی کی ہلاکت نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خوف اور خونریزی کی جو لہر برپا کردی وہ ایک برس گزر جانے کے باوجود جاری ہے۔

22 سالہ برہان وانی کی پہلی برسی پر علیحدگی پسندوں نے اُن کے آبائی قصبے ترال میں تعزیتی اجلاس کی کال دی تھی۔ لیکن ترال اور سرینگر کے علاوہ بیشتر اضلاع میں عوامی مارچ کو روکنے کے لیے جمعرات سے ہی سخت ترین سکیورٹی پابندیاں عائد کی گئیں ہیں۔ اندرونی ریل سروس معطل ہے اور انٹرنیٹ کو بھی محدود کردیا گیا ہے۔

برہان کو کوکر ناگ قصبے کے بم ڈورہ گاؤں میں ایک مختصر تصادم کے دوران دو ساتھیوں سمیت ہلاک کیا گیا تھا۔ ان کی ہلاکت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اردگرد کے علاقوں سے لاکھوں لوگ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے ترال کی طرف چل پڑے۔

لیکن پولیس، سی آر پی ایف اور فوج نے جنازے کے لیے جارہے ان جلوسوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں لوگ زیادہ مشتعل ہوگئے۔ پہلے پانچ روز کے دوران 38 افراد مارے گئے۔ بعد میں کئی ماہ تک ان ہی زیادتیوں کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا اور حکومت نے بھی فورسز کو بھرپور طاقت استعمال کرنے کی ہدایت کی۔

برہان وانی تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images

اس ایک سال میں 133 افراد ہلاک اور 20 ہزار زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں 1247 ایسے ہیں جن کی آنکھوں میں آہنی چھرے یعنی پیلیٹس لگی ہیں۔ پانچہزار افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 300 کو سنگین الزامات کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔

اس عرصے میں عوامی احتجاج کی شدت میں زبردست اضافہ ہوا۔ بھارتی فوج کے سربراہ کی طرف سے وارننگ کے باوجود لوگ تصادم کی جگہوں پر محصور شدت پسندوں کو بچانے کے لیے فورسز پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ اس دوران ان پر فائرنگ کی جاتی ہے۔ ایسے واقعات میں اب تک دو خواتین سمیت 20 افراد مارے گئے ہیں۔

دوسری طرف مسلح حملوں میں اضافہ ہوا اور فوج کی طرف سے کارروائیاں بھی جاری ہیں۔

احتجاجی لہر کے دوران کشمیر کے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات بھی سرگرم ہوگئے اور کئی ماہ سے وہ ہند مخالف احتجاج کررہے ہیں۔ حکومت اکثر اوقات سکولوں اور کالجوں میں تعطیل کا اعلان کرتی ہے۔

صحافی ریاض ملک کہتے ہیں: ’احتجاجی لہر نے کشمیر میں عسکری، نفسیاتی اور سیاسی تبدیلیاں رونما کردی ہیں۔ ایک یہ کہ کشمیر میں مسلح مزاحمت کو ایک بار پھر عوامی قبولیت حاصل ہوگئی ہے اور لوگ اسے مقدس سمجھتے ہیں۔ سیاسی سطح پر ہند نواز خیمے کی عوامی ساکھ تقریباً ختم ہوگئی ہے جس کا اندازہ پارلیمنٹ کے ضمنی انتخابات میں 93 فی صد بائیکاٹ سے ہوا، اور اب تک بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے علیحدگی پسند بھی ایک ہی چھتری کے نیچے جمع ہوگئے ہیں۔ تیسری تبدیلی نفسیاتی ہے۔ لوگوں کے دل سے موت کا خوف نکل گیا ہے اور وہ مسلح افواج کے سامنے حیران کن طریقے سے احتجاج کرتے ہیں، اور ہر ایسے واقعہ میں ہلاکتیں ہوتی ہیں اور اگلی بار پھر یہی ماحول ہوتا ہے۔‘

کشمیر، تشدد تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images

اب سوال یہ ہے کہ کیا احتجاجی لہر جاری رہے گی یا حالات میں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی؟

مبصرین کہتے ہیں کہ اس احتجاجی لہر کے دو پہلو ہیں، کشمیر اور نئی دلی۔ جہاں کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور مسلح قیادت کا موقف سخت ہوگیا ہے وہیں انڈین حکومت بھی کسی طرح کی رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ ایک ڈیڈ لاک ہے اور اس ڈیڈ لاک کو یوں ہی جاری رہنے دیا گیا تو علیحدگی پسند رہنما یٰسین ملک کے بقول پھر کشمیر کو شام بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔