پاک ہندوستان تعلقات

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

پاک ہندوستان تعلقات

از، حسین جاوید افروز

پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات بن موسم برسات کی طرح ہیں کبھی تو یہاں امن کی آشا کی باز گشت سنائی دیتی ہے اور امیتابھ بچن بھی جھوم جھوم کر کہہ رہے ہوتے ہیں:

نظر میں رہتے ہو مگر نظر نہیں آتے

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے جس کو آج کل ہم کشمیر لاک ڈاؤن کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں پانچ اگست 2019 سے ہی کشمیر وادی میں انسانی تاریخ کا طویل ترین جبری لاک ڈاؤن جاری ہے۔

بد قسمتی سے امن کی فاختائیں جس مشکل سے دونوں ممالک کے درمیان خیر سگالی کی فضا تراشتی ہیں وہ فضا دہشت گردی کے محض ایک واقعے کی بنیاد پر تحلیل ہو جاتی ہے اور سرحدوں پر سپاہی آنکھوں میں آنکھ ڈالے انگلی ٹریگر پر دبائے کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بالا کوٹ سٹرائیک سے ابھی نندن کی گرفتاری تک ایک بار پھر دونوں ممالک جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے۔ یہ ہندوستانی فوجی اور سیاسی قیادت کے اپنے اغلاط ہیں جن سے کشمیر ایشو کو ایک بار پھر بھر پُور طریقے سے کوریج حاصل ہوئی۔

موجودہ تناظر میں بھی مودی سرکار پاکستان پر کبھی سرجیکل سٹرائک کے خواب دیکھتی ہے اور کبھی ہندوستانی فوج کے دماغ میں کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرِن کا سمایا خبط بیدار ہوتا رہا ہے۔ دوسری جانب اجیت ڈوول پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار اور بلوچستان کے ایشو کو مدعا بنا کر زچ کرنے کی کوشش میں مصروفِ عمل رہتے ہیں کیوں کہ ہندوستان سی پیک منصوبے سے سخت بے زار ہے اور اسے ساتھ ہی پاک روس بڑھتے دفاع تعاون پر بھی تشویش ہے۔

جب کہ لداخ محاذ پر گلوان ویلی تا پنگانگ جھیل تک کا حربی علاقہ بھی چین ہندوستان کڑی سرحدی کشیدگی کے باعث دہک رہا ہے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ دور میں افغانستان ایشو میں طالبان کی مستحکم حیثیت اور اسلام آباد کا بَہ طور ایک اہم سٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر ابھرتا کردار بھی نئی دلی سرکار کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ تازہ ترین ڈیڈ لاک کی وجہ ہمیشہ کی طرح کشمیر کا سلگتا مدعا ہے جو کہ پانچ اگست 2019 کے بعد سے اب تک سوہانِ روح بن چکا ہے۔

اس ایک برس کے عرصے میں لاک ڈاؤن کی بَہ وجوہ کشمیری معیشت کو 40 ہزار کروڑ کا جھٹکا لگ چکا ہے۔ جب کہ 700 سے زائد کشمیریوں کو غائب اور ایک ہزار سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ کشمیر میں ہندوستانی سرکار کے خلاف لاوا ابلتا جا رہا ہے اور یہ مہیب صورتِ حال مودی سرکار اور انڈین انٹیلی جنس اور آرمی کے اعصاب شل کیے ہوئے ہے۔

یہاں تک کہ ہندوستان نواز کشمیری سیاست دان محبوبہ مفتی، اور فاروق عبداللہ بھی کھل کر کہہ رہے ہیں کہ کشمیریوں کو اب شدت سے اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ مسٹر جناح کا دو قومی نظریہ ایک حقیقت تھا۔ اب مودی کے ہندوستان میں ان کی حیثیت آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد محض بھیڑ بکریوں کی سی رہ گئی ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ کب تک اسلام آباد اور نئی دلی ایک دوسرے کے لیے دردِ سر بنے رہیں گے؟ کب تک کشمیری عوام دونوں کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہیں گے؟

یاد رہے یہ معاملہ تبھی حل ہو سکے گا جب نئی دلی اور اسلام آباد کشمیریوں کے مفاد کو اوّلیت اور ان کی رائے کو احترام دیں گے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو کشمیریوں کے ساتھ اعتماد سازی کی کوششوں کو تیز کرنا ہو گا۔

اسی طرح وزیر اعظم عمران خان اور نَوجوت سدھو کی کوششوں سے شروع ہونے والے کرتار پور راہ داری پراجیکٹ سے امید اٹھی تھی کہ یہ بڑا قدم شاید امن کے بند راستوں کو کھولنے کے لیے اہم کام کرے گا مگر افسوس (مبینہ طور پر) دلّی کے سرد رویے کے باعث تا حال اس کے ثمرات مل نہ سکے ہیں۔

خود ہندوستان کے اندر سے بھی ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ہندوستان کے اندر زعفرانی اور بجرنگی شدت پسندی ہندوستانی سالمیت کے لیے مسلسل خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ آج مودی کے ہندوستان میں گاندھی کے نظریات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ہندو مسلم تفریق، فرقہ ورانہ اختلافات اور سیکولر طبقے کو دبانے کی کوششوں کو جس طرح سرکاری اور ریاستی سرپرستی مل رہی ہے اس سے ہندوستانی متنوع جمہوریت کے دل فریب تصور کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح پاک ہندوستان کرکٹ رشتوں کی بَہ حالی بھی ہنوز ایک خواب بنی ہوئی ہے۔

یاد رہے دونوں ممالک کے درمیان آخری ٹیسٹ سیریز 2007 میں کھیلی گئی تھی جب کہ آخری ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز 2013 میں منعقد کی گئی۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ایک پوری برِّ صغیر کی جنریشن ویرات کوہلی اور محمد عامر کا ٹیسٹ میچز میں ٹاکرا دیکھنے سے ہی محروم رہی ہے۔

ذرا تصور کیجیے اگر پاکستان سپر لیگ میں روہت شرما پشاور زلمی اور انڈین پریمئر لیگ میں شاہین شاہ آفریدی چنائی سپر کنگ سے کھیل رہے ہوں یا ویرات کوہلی اور بابر اعظم ایک طویل بیٹنگ پارٹنر شپ کو جنم دیں؟ کیا اس سے دل کش کھیل کا منظر کوئی ہو سکتا ہے؟

پاکستانی فلم بین آزادی سے امرَتسر جا کر شاہ رخ خان کی فلم فرسٹ شو پر دیکھ سکیں اور دلی کی یوتھ جوش سے لب ریز اندرونِ لاہور کی گلیوں میں گھوم سکیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے دونوں ممالک کے سیاست دانوں اور ڈیپ سٹیٹس سے کچھ خاص امید نہیں کہ یہ عناصر دلی اور اسلام آباد کے درمیان حقیقی اعتماد سازی کے ماحول کو تراش سکیں گے؟ مگر مجھے دونوں ممالک کی نئی نسل سے امید ہے کہ وہ ضرور ان جعلی پیروں کا استاد بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ شاید جان چکی ہے کہ واہگہ اور اٹاری بارڈر ایک حقیقت ہے۔

اسی طرح کشمیری بھی ایک حقیقت ہیں۔ اس سے دونوں کو بات کرنا ہو گی۔ بندوقوں کی سنگینوں کو ہٹا کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک مشترکہ حل کی جانب جانا ہو گا۔ پاک ہندوستان تعلقات کے پرانے بوسیدہ اور فرسودہ بیانیوں اور بے بنیاد مغلالطوں سے جان چھڑانا ہو گی۔ آئیے کارگل سکردو، مظفر آباد سری نگر، پونچھ راولا کوٹ، جموں سیال کوٹ روٹ کے تاریخی راستے کھولیے۔ دونوں اطراف کے زائرین کو اجمیر، دلی، کٹاس راج، کرتار پور آنے جانے کی آزادی دیں۔ آئیے 65،71، 99 کی جنگوں کے قیدی رہا کریں۔

کتنا ہی اچھا ہو اگر مودی جی، اجیت ڈوول کی خرافات پر دھیان دینے کے بَہ جائے اپنے مدبر رہنماء اٹل بہاری واجپائی کے اس تاریخی بیان کو ہی یاد کر لیں: دوست بدلے جا سکتے ہیں مگر ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے۔

وقت آ گیا ہے کہ اب مودی جی 56 انچ کی چھاتی کو اور عمران خان اپنے تبدیلی کے نعرے کو بر صغیر کے امن اور عام آدمی کی فلاح کے لیے استعمال کریں؛ کیوں کہ وقت بدل چکا ہے اور سوچ بھی بدل رہی ہے۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔