اوندھے عقیدے اور ادھورے عمل کی کہانی، قصہ گو بچے کردار جبران کی زبانی

Allah Mian Ka Karkhana Urdu Novel
اللہ میاں کا کارخانہ کی تصویر کریڈٹس بہ حق محسن خان

اوندھے عقیدے اور ادھورے عمل کی کہانی، قصہ گو بچے کردار جبران کی زبانی

تبصرۂِ کتاب از، تفسیر حسین، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، نئی دلی، ہندوستان

نام میں کیا رکھا ہے؟ قدرت کا کارخانہ بھی تو کہتے ہیں۔ قدرت کا کارخانہ کسی قدر نیوٹرل لفظ ہے۔ طاقت کی جدلیات سے اسے مربُوط کر کے دیکھیں تو اس لفظ کو کسی قدر اشتراکیوں، یا ترقی پسندوں کا دل پسند لفظ بھی کہہ سکتے ہیں۔ البتہ ایک بات بالکل صاف ہے کہ یہ لفظ با لآخر انسان کی بے بسی اور نا رسائی کا ہی غماز بنتا ہے۔

قدرت و فطرت کے الفاظ اس کائنات میں توازن کے قائم رہنے اور رکھنے کی ایک اَن دیکھی طاقت کا اقرار ہیں۔ نا رسائیوں کا اقرار اور کچھ راز رہنے والی کائنات اور تکوین سے متعلق ہو جانے والی دنیا، اسے ہم قدرت، یا فطرت کے کھیل سے تعبیر کر لیتے ہیں۔

اللہ کہہ کر ہم انسانی نا رسائی تک قدرت و فطرت کے عمل کو محدود نہیں رکھتے۔ زندگی اور کائنات کی تمام اشکال کو اس سے مربوط کر دیتے ہیں۔ اب قصہ گو کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اللہ میاں سے ہی واسطہ ہے اور ساری فضا کو اللہ کے نام سے اور ایک حصے کو اللہ کے گھر سے ہی بیان کرنا ہے تو اللہ میاں کا نام ہی خوب اور مناسب ہے۔

اللہ میاں کا کارخانہ محسن خان کا ناول ہے۔ محسن خان اردو کے سینئر لکھنے والوں میں سے ہیں۔ ان کے لکھنے کا عرصہ ہماری نسل کے اردو قارئین کی عمروں سے زیادہ ہے۔ انھوں نے کئی مؤثر کہانیاں لکھی ہیں اور بچوں کے لیے فکشن میں انھوں نے اپنا خاص مقام پیدا کیا ہے۔

نیر مسعود مرحوم نے محسن خان کے بارے میں ایک عرصہ قبل لکھا تھا:

اردو ادب کو جن نو جوان لکھنے والوں سے آئندہ کے لیے خوش گوار توقعات ہیں، ان میں محسن خان کا نام بہت نمایاں ہے۔ محسن خان کے جو افسانے میری نظر سے گزرے ہیں، ان میں وہ سنجیدگی اور پختگی نظر آتی ہے جس سے ہمارے بہت سے کُہنہ مشق افسانہ نگار بھی محروم ہیں۔ 

انسان کے داخلی کرب اور باطنی الجھاووں تک محسن کی نظر آسانی سے پہنچ جاتی ہے۔ وہ بڑی سہولت سے ان پیچیدہ کیفیتوں کا اظہار کر دیتے ہیں۔ ان کے بعض افسانوں کو پڑھ کر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کا لکھنے والا ایک نو عمر فن کار ہے۔ 

محسن خان کے لیے یہ اعتراف ہمارے  اردو فکشن، تحقیق و تنقید کی روایت کے ایک مسلَّم الثّبُوت جینئس کی طرف سے جنوری سنہ ۱۹۸۵ کو کاغذ پر اترا، یعنی محسن خان کی ادبی شناخت آج سے پینتیس سال پہلے ہی مستحکم ہو چکی تھی۔ ان کی کام یاب تخلیقی کار گزاری کا عرصہ ایک نسل کے پیدا ہو کر شعوری طور پر پختہ ہونے کے عرصہ کو محیط ہے۔


اللہ میاں کا کارخانہ کے مصنف محسن خان کی ایک روزن پر موجود فکشنی پیش کشوں کا ایک نمونہ اس لنک اور برقی صفحہ پر کلک کرنے سے دست یاب ہو سکتا ہے۔


پیشِ نظر ناول اللہ میاں کارخانہ کا متن ۱۹۷ صٖفحات پر مشتمل ہے۔ اسے ایم آر بپلی کیشن، دلی نے چھاپا ہے۔ ٹائٹل خوش نظر ہی نہیں اندر کے متن کا نمائندہ نشان ہے۔ کاغذ اچھا استعمال ہوا ہے۔ پروف کی غلطیاں صرف بَہ راہِ نام کی ہیں۔

یہ ناول نیر مسعود مرحوم کی توقعات کی تعبیر ہے۔ ناول میں جبران نامی کردار کو ایک ہمہ بِین راوی، omniscient narrator کے طور پر ناول نگار سے استعمال کیا ہے۔ ناول کو شروع کرنے بعد ہی ایک قول میں ناول نگار نے متن کی داخلی روح کا عندیہ دیا ہے:

’’بچپن کی باتیں ساری زندگی انسان کے ذہن میں پاگُر ہوتی رہتی ہیں۔‘‘

یہ پورا ناول تین خاندانوں سے مَس کرتا ہوا، اپنے آخری صفحات میں مسجد (گو کہ شروع سے ہی یہ مسجد سے اپنا رشتہ استوار رکھتا ہے) میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ ناول میں سب سے زیادہ بولنے والے کردار تین ہیں۔ جبران، نصرت اور حافی جی۔ دوسرے کردار بھی بولتے ہیں، لیکن حسب ضرورت۔ غربت  اور یَک رُخی مذہبیت کے آمیزہ سے اساس پاتا یہ ناول بچوں کی نفسیات پر مصنف کی غیر معمولی قدرت کا غماز ہے۔

جبران جس کا کردار اس ناول میں سب سے زیادہ فعال ہے وہ شروع سے آخر تک قصہ گو کی طرح قاری کے سامنے حاضر رہتا ہے۔ اس پورے عرصے میں ناول نگار کا جبران کی ذہنی سطح کو مکالمات، توصیفی بیانیے، روداد، مواجہے اور اشیاء  اور اشخاص سے معاملت کی تمام سطحوں پر باقی رکھنا اپنے آپ میں ایک بڑی ذمے داری کو نبھانے کے مماثل ہے۔

بچوں کے فکشن میں طویل مزاولت اور مداومت نے ناول نگار کو اس ذمے داری کو پوری خوش اُسلُوبی اور کام یابی سے نبھانے پر اس طرح قادر کیا ہے کہ گویا یہ اس کے لیے چٹکی کا کام ہو۔ ہم ناول کو پڑھتے وقت کسی مقام پر یہ محسوس نہیں کرتے کہ یہ ناول کے اندر کے ہمہ بیں راوی کی سطح سے اوپر کی بات ہے۔

اسی طرح بچوں سے جو کردار رُو بَہ رُو ہوتے ہیں، انھیں سمجھاتے یا تعلیم دیتے ہیں، وہ بھی اس شرط کو بَہ خوبی نبھاتے ہیں۔ ان کی باتوں میں غیر منطقیت، سطحیت یا یَک رخا پن ہو سکتا ہے (یہ اوصاف نا گزیر بھی ہیں کہ اِنھِیں کے نتائج اس المیے کو جنم دیتے ہیں جو ناول کو ایک سنگین اور shocking سوال کی صورت ہمارے سامنے رکھتے ہیں) لیکن زبان اور بیان میں بچوں کی سطح سے صرفِ نظر کہیں نظر نہیں آتا۔

ایک ایسا ناول جس کے کردار اور فضا کا غالب حصہ بچے ہوں لیکن مُسکِت انداز میں مناسب نِگہِ داشت اور وسائلِ پرورش کے فقدان کو بیانیہ کا جُزؤ بنانا اور ناول کے بالغ نظر قارئین کو پیشِ نظر رکھنا اپنے آپ میں غیر معمولی ہے۔ ان ذہین و فطین بچوں کے زرخیز ذہن اور پُر امنگ سوچ کو جس انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اس انجام کی تفہیم بالغ ذہن ہی کر سکتا ہے۔

ناول کے معنی نئے کے آتے ہیں۔ اس لحاظ سے ناول میں نئے پن کا ہونا نا گزیر قرار پاتا ہے۔ ناول میں ایسی بات جو بارِ دگر کہی گئی ہو، اس میں بھی ایک نوع کی تازہ کاری ضروری ہے۔ اس ناحیے یہ ناول اسم با مسمّٰی ہے۔ اس میں قصہ تو پرانا ہے۔ آج کے عہد کا نہیں۔ موبائل کے عہد کا نہیں کہ موبائل عام ہو گیا ہے۔ 

یہ قصہ اس زمانے کا ہے جب گاؤں اور قصبوں میں ٹیلی ویژن کسی کسی کے یہاں ہوتا تھا اور ریڈیو مدرسے کے حافظ جی کو بھی میسر تھا۔ دیکھیے ہم صنعتی نظام سے، اس کی ترقیات سے کتنے ہم آہنگ ہو گئے ہیں؛ زمانوں کو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور موبائل میں تقسیم کر رہے ہیں۔

یہ اشیاء بَہ طورِ اشیاء غیر معمولی قدر نہیں رکھتیں اور جب یہی زمانے کی تقسیم اور عہد بندی کی علامت بننے لگتی ہیں تب ہم چونکتے ہیں۔ ارے ہم طبیعی ماحول سے کتنے دور ہیں۔ طبیعی دنیا میں رہتے ہوئے بھی مصنوعی دنیا پر کتنے منحصر ہیں کہ مصنوعات مختلف عہدوں کا شناس نامہ بنتی جاتی ہیں۔

تو عرض کر رہا تھا کہ ناول کا زمانی عرصہ اس معنیٰ میں ہم عصر نہیں ہے کہ اسے ہم زمانۂ حال موجود کہہ سکیں۔ قصہ گوئی کا تانا بانا ذرا پیچھے کا ہے لیکن اس کی پیش کش، بُنت اور بناوٹ میں تازہ کاری ہے۔ ایک قرأت میں تو یہ کھلتا ہی نہیں کہ قصہ کے ساتھ ساتھ دبے پاؤں ایک المیہ چلا آتا ہے۔

ناول نگار اپنے کرداروں کی جس ماحول میں پرورش کرتا، انھیں ایسے غیر محسوس طریقے سے پروان چڑھاتا اور معمولی لگنے والی میسر اشیاء میں انھیں اس قدر مگن دکھاتا ہے کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی باریک کام میں مصروف ہے۔ اصل کردار کون ہے؟… وہ جبران ہے۔

لیکن اس پورے بیانیے میں المیے کو راہ دینے والی چیز کیا ہے؟ وہ شخص کون ہے؟ (وہ جبران کا باپ، یا اس کا زاویۂ زندگی) جبران کی ماں جو امید سے ہوتے ہوئے، ایک عام سی صابر و شاکر بیوی__ فرض کو ڈھوتے ہوئے، اپنے بچوں کی معقول عصری تعلیم کی حسرت دل میں لیے اس دنیا سے ایسے وقت میں چلی گئی جب اس کا شوہر تبلیغی چِلّہ کھینچتے کھینچتے جیل کی قیدِ نا موعُود کاٹنے لگا۔

وہ کس حالت میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جاتا ہے اور کس دل، جگر، گردے کو کام میں لگا کر یہ حوصلہ جٹاتا ہے، کیسی کیمیائی روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں کہ نت نئے مذاق اور ڈھب کے انسانوں کو للّٰہی فغانِ مسلسل کا پابند کرنے میں کام یاب ہو جائے۔

وہ تبلیغی والد، اپنے بچے جو کہانیاں پڑھنے کی عمر کے ہیں، انھیں پڑھنے کو کیا دیتا ہے؟ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ بچوں پر ابھی مرنا نہیں صرف اُگنا، بڑھنا اور شعور کو پہنچنا فرض ہے۔ وہ اس کی شرعی رُو سے بھی اس حالت میں مرتے تو محسوب نہ ہوتے۔ ماں فوت ہو گئی، باپ قید ہو گیا۔ گھر سے چچا کے گھر منتقل ہوئے۔

اپنے گھر سے بہتر زندگی میسر آئی۔ چچا کی عنایت میسر آئی۔ چچا کی فکر سے اسکول جانے کی امید کی سُن گُن ملی، اور یہ سُن گُن ملتے ہی اس امید نے دم توڑ دیا۔ یہ لو چچا بھی اچانک جُل دے کر راہئِ ملک عدم ہوئے۔ اب چچی جان کا آسرا۔

جبران جو ناول میں اخیر تک بولتا رہتا ہے، اس کی بہن کا کردار، نصرت، اس طرح استوار کیا گیا کہ وہ بھائی سے زیادہ زیرک اور ذی فہم ہے۔ اس کی زندگی کا روکھا پن اور حالات سے مصالحت اور خاموشی۔ پھر ایک بَرہنہ تصویر دیکھنے کے جرم میں جبران کی گھر بدری اور حافی جی کی پناہ میں آمد۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ناول نگار، حافی جی کی بشر دوست، رحم دل، انسان پرور شبیہ کو ان کے رویے، عمل اور اس سلوک سے استوار کرتا ہے جو وہ جبران سے روا رکھتے ہیں۔ اس پوری کار گزاری کے درمیان بچوں کی دل چسپی کا سامان کیا ہے؟

مرغیاں، مرغیوں کے چوزے، بکری۔ موت کا سلسلہ دیکھیے۔ باپ کی موجودگی میں غائبُ الدَّماغ، مفکر اور صلح جُو طبیعت کی حامل مرغی کی شہادت در جبڑۂِ بلی، باپ مقید غیبوبت، ماں کی طبعی بیماری، نقاہت، انڈوں کی خرید، مرغی ہوشیار، چتکبری جان کی ایامِ کڑک میں انڈوں کو حرارت دہی، چوزوں کی آمد، بچوں کی خوشی اور ان چوزوں سے شغل، چوزوں کی یکے بعد دیگرے اپنے اللہ میاں کے یہاں واپسی، گھر کی قلاشی، چتکبری جان کا بیچا جانا، اور ذبح ہونا، بچوں کا مَغموم ہونا۔ چچا جان کے گھر فریاد رسی، پھر ان کی طرف سے داد رسی۔ ماں کی موت، چچا کے گھر آمد۔ یہاں چچا نرم خُو ہے، ایک طرح کا آسرا ہے۔ یہ امید کی رمق کو باقی رکھنے والا کردار ہے، وہ بھی اللہ میاں کو پیارا ہو جاتا ہے۔ اداکارہ کا قدرے کھلا سینہ اخبار کے پرزے میں دیکھنے کا جرم ایسا ہے کہ جبران گھر بدر ہو رہا ہے۔ اس گھر سے جہاں کتا مالک کے غم میں مر گیا اور افرادِ خانہ کی زندگی معمول پر سلامت ہے۔

حافی جی اخیر میں مشکل کُشا بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ وہ جب تک ہوتے ہیں واقعی ایک انسان کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ذریعے جبران کو تسلی اور ہم کلامی کا سہارا__ یعنی جو بکری ملتی ہے، جسے وہ صبح وشام چرانے جاتا ہے__ اس کی بعد نمازِ عید الاضحیٰ کی قربانی کر کے حافی جی ضروری نصیحتیں کر کے ہمیشہ کے لیے اپنے وطن کو روانہ ہو جاتے ہیں۔

ایک ایسے ناول کے بارے میں جو ابھی ابھی چھپ کر آیا ہے، سب کچھ بتا دینا مناسب بات نہیں۔ ہم نے ما حَصل بتا ہی دیا تو پڑھنے کے لیے بچا ہی کیا؟ خیر اچھے ناول پر لاکھ باتیں کی جائیں، نہایت چابک دَستی اور جامعیت سے اس کی تلخیص کر دی جائے، اس کے با وُجود بھی اگر وہ ہاتھ آ جاتا ہے تو خود کو پڑھوا ہی لیتا ہے؛ اس کے اُسلُوب میں ایسی خوبیاں، بناوٹ میں ایسا کَساؤ، قصے میں ایسا رچاؤ، کردار میں ایسی کشش اور فضا میں ایسا سِحَر ہوتا ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کو ہر چہار طرف سے باندھ لیتا ہے۔

کبھی آنکھیں ذہن کو سناتی ہیں، کبھی عبارتیں ذہن کو نچوڑتی ہیں، کبھی آنکھیں لفظوں سے حاضر کی گئی دنیا میں گُم ہونے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ کبھی کردار کے تفاعلات تجسس کی ڈور کَس دیتے ہیں۔ تو اچھے ناول میں کئی گُن ہوتے ہیں۔

یہ نہیں کہتا کہ اس ناول میں یہ سارے گُن ہیں اور میری کہنے کی بساط ہی کیا، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس ناول  میں ایسے اوصاف ہیں کہ جامِع تلخیص پڑھنے کے بعد بھی اسے پڑھنے والا جی سے پڑھے گا۔ اب میں دو اقتباسات ناول کے اول و آخر سے درج کرتا ہوں:

“وہ جمعہ کی صبح تھی۔ میں خواب دیکھ رہا تھا کہ ایک خوب صورت پتنگ کی لمبی ڈور کا سرا میرے ہاتھ لگ گیا۔ میں اسے لے کر گھر کی طرف بے تحاشا بھاگا جا رہا ہوں اور میرے تیز دوڑنے سے پتنگ خوب اونچی ہوتی جا رہی ہے۔ خواب اتنا اجلا تھا کہ سرخ رنگ کی وہ پتنگ مجھے صاف دکھائی دے رہی تھی اور اس کے کاغذ سے نکلنے والی پھڑپھڑاہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔

“ابھی میں پتنگ کو لے کر گھر پہنچا بھی نہیں تھا کہ ابا کی آواز میرے کان میں آئی۔ وہ کہہ رہے تھے: ‘جبران، نصرت، اٹھو۔ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔’ ‘‘

“حافی جی نے کفن جیسے کپڑے پہن لیے۔ چھری اٹھائی جو سورج کی طرح چمک رہی تھی۔ باہر بکری سر جھکائے حافی جی کا انتظار کر رہی تھی۔

“حافی جی اچک کر بکری کی پیٹھ پر بیٹھ گئے اور انھوں نے چھری چابک کی طرح لہرائی تو بکری چل پڑی۔ پہلے تو دھیمے دھیمے چلی پھر تیز تیز دوڑ کر اُڑنے لگی اور اڑن کھٹولے کی طرح خوب اونچائی پر چلی گئی۔

“حافی جی چھری کو جلدی جلدی ہوا میں لہراتے رہے اور بکری اونچی ہوتی چلی گئی۔ بہت اونچائی پر پہنچ کر اس کی گردن دھڑ سے الگ ہو کر پتنگ کی طرح ڈولتی لہراتی آسمانوں میں جا کر چھپ گئی۔

“اس کے بعد بکری کا دھڑ بھی حافی جی کو لے کر آسمانوں میں چھپ گیا اور ان کے پیچھے آندھی کے جیسا غبار فضا  میں پھیلنے لگا۔‘‘

پتنگ کا ذکر میں نے قصداََ چھوڑ دیا تھا کہ پتنگ سے متعلق ایسی ایسی باریک باتیں لکھی ہیں کہ ان کا لطف پڑھ کر ہی آ سکتا ہے۔ دوسرے حافی جی کی بکری کی مختلف آوازوں کے جبران کے بیان کردہ معانی، یا ترجمے اپنے آپ میں دل چسپ ہیں اور بچے کے لیے سامانِ دل چسپی کے فقدان کی صورت بکری کا سامان تسلی ہونا کرب ناک بھی ہے۔ پتنگ کے خواب میں گھر پہنچنے سے پہلے جگا دیا جانا، اخیر میں پتنگ، بکری، کٹی گردن حافی جی کا بادلوں میں غیوب، یہ سب مل کر ایک موہوم فضاپیدا کرتے ہیں۔

یہ نہیں کھلتا کہ کیا واقعی جبران حافی جی کی سابقہ نشان دہی کے مطابق مالیخولیا کا شکار ہو گیا، یا پھر بخار کی  شدت سے، یا خواب کی حالت میں ایسا ہو رہا ہے۔ بَہ ہر صورت، جبر سے مَشتَق جبران اپنے نام کا نشان بن جاتا ہے__مجسم سگنی فائر بن جاتا ہے: ’’تم چاہے جتنی کوششیں کر لو، ہو گا وہی جو اللہ میاں چاہیں گے۔‘‘ یہ لو اس جملے نے سِل بَٹّے کا کام کیا۔

اللہ کا اپنا اعلان کیا ہوا اصول کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے وہ کوشش کرے۔ یہ اصول اس جملے کے سل بٹے پر پس کر چٹ کر لیا گیا۔

پی کے فلم میں بھگوان کے ماسٹر پلان کی واٹ لگانے کے لیے دس رُوپے کی کتاب درکار ہوتی ہے۔ اب سوچیے کتاب میں کتنے جملے ہوتے ہیں۔ اور یہاں ایک جملے میں اللہ میاں کے کارخانے کا اصولی نظام دھراشائی ہے۔ جس کام کے لیے اوروں کو کتاب درکار ہوتی وہ یہاں ایک جملے سے ہو جاتا ہے۔

اس ناول کی نفسیاتی اور سماجی جہت خاموش ہے جو کرداروں کے تعامل اور مکالماتی اظہار سے واضح ہو جاتی ہے۔

زندگی میں طفولت کا مرحلہ دل چسپیوں اور تنوُّعات کا گھروندا ہے۔ بچے اس عمر میں جان وروں اور ان کی کہانیوں میں دل چسپی لیتے ہیں۔ یہاں جان ور بَہ نفسِ نفیس موجود ہیں۔ یہ کرداروں کے طبائع کو واضح کرنے کے وسیلے بنا لیے گئے ہیں۔ یہ کس نوع کا سماج ہے جہاں ایک نا پُخت مذہبیت اور منشیاتی روحانیت بار پا لیتی ہے کہ اُخروی دنیا ذہن کے پردے پر اس قدر تَن جاتی ہے کہ انسان متأہل زندگی کے تقاضے سے پہلو تہی کرنے لگتا ہے؟

یہاں نظامِ تربیت پر بھی سوال قائم ہوتا ہے۔ طفولت کی پروان چڑھتی دانش سوال کرتی ہے اور اسے جواب کے بدلے چپ یا ڈانٹ ملتی ہے تو سوالوں کے سلسلے بند ہو جاتے ہیں۔

فی الواقع سوال کے سلسلے نہیں بند ہوتے، ہٹ دھرمی، جہالت اور غیر منطقیت کے پودے لگائے جاتے ہیں۔ یہ ناول نا پُخت مذہبیت اور غیر معقول جابرانہ تربیتی طریقۂِ کار پر بھی مُسکِت انداز میں چوٹ کرتا ہے۔

کردار جتنا اپنے باہر ہوتا ہے، اسی قدر اپنے اندر بھی ہوتا ہے۔ اس کے عمل، رویے اور اظہار کے زیریں محرکات ہوتے ہیں۔ ایسے زیریں محرکات سے ہماری نفسیاتی سائنس ایک زمانے سے تعرض کرتی آئی ہے۔ ادب کے مُعبّرین اور ناقدین نے اسے اپنی تعبیری و تشریحی کار گزاری میں کار آمد بنانے کی کوشش کی ہے۔ نفسیاتی تجربے جن انسانی نفوس پر ہوئے ہیں، ان کا علاقہ، جغرافیہ اور ماحولیاتی دائرہ محدود رہا ہے۔

ایک انسان عالمِ اصغر ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ میں سمندر ہے۔ کسی ایک خطے کی پوری دنیا اس سے بڑی تنوُّعاتی دنیا ہے۔ جغرافیے اور ماحولیاتی دائرے کو بدل لیا جائے تو اس میں اور زیادہ تنوُّع اور گونا گونی پیدا ہو جاتی ہے۔

ناول کا فن اس لحاظ سے قابلِ قدر اور زیادہ اہم ہے کہ مختلف منطقوں اور جغرافیوں کی دنیائیں وہاں کے قصہ گووں کے توسُّط سے سامنے آئی ہیں۔ ان دنیاؤں کی بیرونی دنیا کے ساتھ ساتھ اندرونی دنیا کو چھونے اور ٹٹولنے کی ان خلاق ذہنوں نے سعی کی ہے۔ اس لحاظ سے اجتماعی سائیکی کے تعاقب میں ناول اور کہانی کی دنیائیں اپنا مثل نہیں رکھتیں۔

زیرِ بحث ناول نے بچوں کی سائیکی اور منجمد مذہبی اعتقاد و عمل کے عوامل کی طرف جس نوع سے رخ کیا ہے اور اس کے تئیں جو سوالات اٹھائے ہیں، وہ واقعی توجہ کے طالب ہیں۔ گو یہ بیرونی دنیا پر نقد کے ساتھ اندرونی سائیکی کو زیرِ بحث لانے کی ایک ترغیب و تحریک بھی ہے۔

ناول کی ایک تقسیم، عمل اور کردار سے کی گئی ہے۔ واقعاتی تسلسل، یا یہ کہیے کہ مختلف وقوعوں کی زنجیرہ بندی  سے نمو اور روئیدگی پانے والا ناول عمل کا ناول ہے کہ اس میں بیش از بیش عمل یا وقوعے حاوی ہوتے ہیں۔ وقوعات ہی قصہ میں مختلف نوع کی پیوند کاریاں کرتے اور اسے متشکل کرتے ہیں۔ کرداری ناول میں کردار میں جذابیت کی پیوستگی اور تمام تر سرگرمیوں کا ان کے گرد طواف، عمل کے ناول سے اسے ممتاز کرتا ہے۔

 اللہ میاں کا کارخانہ اس لحاظ ایک حسین امتزاج ہے کہ جبران اس کا حاوی کردار ہے۔ بَہ باطن غور کرنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جبران صرف کردار نہیں، بَل کہ وہ ایک سائیکی کا نمائندہ ہے جو تقدیر کی جبری کارکردگی کی حامل ہے۔ ناول کرداری ہوتے ہوئے عمل، داخلی اظہار، ارد گرد کی دنیا سے تعامل کی صورت عمل و کردار کا امتزاج بنتا ہے۔

کوئی سوسائٹی یا کمیونٹی زندگی کی سختیوں سے عہدہ برآ ہونے اور ایک نشاط انگیز، پُر قوت سماج بنانے سے  کیوں محروم ہوتی ہے، اس بات کا بھی اندازہ اس ناول سے یوں ہوتا ہے کہ خِشتِ اوّل یعنی بچوں کی دنیا سے بڑوں کا سلوک اور تربیتی اور تعلیمی نظام ہی اس دنیا کے مستقبل کی پیشین گوئی کا سامان پیدا کرتا ہے۔ ان معانی میں یہ ناول جبران اور اس کے اطراف کا قصہ نہ ہو کر بہت سے خاندانوں کا قصہ ہو جاتا ہے۔ ایک خاص معاشرے کا سماجی اظہاریہ۔

زیرِ بحث ناول کا ایک پہلو حیوانیات بھی ہے۔ جان وروں اور پرندوں کا ذکر پیچھے ہوا بھی ہے۔ ناول کا یہ پہلو اپنے انوکھے پن کی وجہ سے خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ ناول نگار کا تعلق لکھنؤ سے ہے۔ لکھنؤ جو زبان کی سند رکھنے اور دینے والا دبستان رہا ہے، وہاں کے شاعروں اور داستان گووں نے جان وروں سے متعلق خاطر خواہ سخن پردازیاں کی ہیں۔

میر انیس نے تو اپنے یہاں جان وروں کی ایک الگ ہی دنیا آباد کی ہے۔ ان کا پورا سرمایہ ماحولیاتی ادب کے لیے بڑے کار آمد پہلو رکھتا ہے۔ سید ضمیر اختر نقوی مرحوم نے میر انیس کے اس پہلو پر مبنی کتاب تیار کی ہے۔ ایسی سر زمین سے تعلق رکھنے والے اور طاؤس چمن کی مینا کے مصنف سے سند پانے والے فن کار کے یہاں حیوانات کا ذکر تعجب کی بات نہیں ہے۔

ہاں انھوں نے جان وروں اور پرندوں کو جس طرح دل آویز اور حیات خیز بنایا ہے، وہ پہلو چونکانے والا ضرور ہے۔ وہ قصباتی فضا میں جان وروں سے انسیت، لگاوٹ اور معاملت کی ایسی سطح دکھاتے اور اپنے بچہ کرداروں ان جان وروں سے موانست و ملاطفت کرتے ہوئے، اس طرح ہمارے رُو بَہ رُو کرتے ہیں کہ جان ور انسانی زندگی کا جُزو معلوم ہوتے ہیں۔ چوزہ، مرغی، چیل، شِکرَہ، بلی، کتا، بکری، گائے، بندر، گدھ اور گدھا۔ یہ سارے الگ الگ مناسبتوں پر سامنے آتے ہیں۔ زندگی میں طاقت کی جدلیات کا جو کھیل ہے، اس کھیل کو بچے کےذہن سے گزار کر ہم تک لے آتےہیں۔

’’جب حافی جی یہ باتیں بتا چکے تو میں نے پوچھا:

’’بلی اور مرغی بھی تو اللہ میاں نے بنائی ہے۔‘‘

’’چپ بے وقوف کہیں کا، ‘‘حافی نے مجھے ڈانٹا تو سب بچے ہنسنے لگے۔

’’جب کہہ دیا کہ سب کچھ اللہ نے ہی بنایا ہے تو تمھاری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ بلی اور مرغی بھی اللہ میاں نے ہی بنائی ہو گی۔‘‘

میں کھسیا گیا۔ در اصل میں حافی جی سے یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ اللہ میاں نے اگر مرغی بنائی تھی تو بلی کیوں بنائی۔ (اللہ میاں کا کارخانہ ص، ۲۲)

’’میں نے سوچا، اللہ میاں نے بلی تو بنائی ہی تھی، معلوم نہیں چیل کوے کیوں بنا دیے؟‘‘ (ایضاً، ص، ۶۳)

ناول کا اُسلوبِ نگارش قصے سے یاری نبھانے والا ہے۔ کہیں غموض، پیچیدگی، مشکل پسندی جیسی کوئی چیز نہیں۔ زبان رواں، بہتے پانی کی طرح، قصہ آبشار کی طرح گرتا ہوا اور پھیل کر اپنا رستہ بناتا ہوا آگے کی جانب بڑھتا رہتا ہے اور ایہام کے ساگر سے جا کر مل جاتا ہے۔

قصۂِ مختصر، یہ کہ فن کا تکامل اور اُسلُوب کی سہولت بغل گیر ہو کر یک جان ہو جاتے ہیں اور اتنی آسانی سے کہ اندازہ نہیں ہوتا کہ فن کار سہل انداز میں قصہ تو سنا گیا، لیکن وہ تو فن کاری کر کے نکلا ہے۔ ابھی اس ناول کا پڑھا ہوا بہت کچھ  ہے جو پاگُر کے تھوک کی طرح شعور کی تھوتھنی سے گرا چلا آتا ہے۔ لیکن اب بس اتنا ہی کافی ہے۔