کچرا چونکہ بکتا تھا ، اس لیے میں بھی کچرا فروش بن گیا

Tariq Ahmed Siddiqui aik Rozan
طارق احمد صدیقی، صاحبِ مضمون

کچرا چونکہ بکتا تھا ، اس لیے میں بھی کچرا فروش بن گیا

طارق احمد صدیقی

کچرے کے پاس مستقبل ہو نہ ہو، اس کا ایک ماضی ضرور ہوتا ہے۔ کبھی وہ شو کیس میں لذیذ بسکٹ کا پیکٹ ہوا کرتا تھا۔ جب بسکٹ ختم ہو گئی، تو اس کو ٹھکانے لگا دیا گیا۔ ایسے ہی تم بھی استعمال شدہ ہو۔ تمہیں بھی ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا۔

اور تم وہاں پڑے ہوئے بھج بھجا رہے ہو۔ تم وہاں سے اپنے سنہرے ماضی کی طرف دیکھتے ہو، اور اسی میں لوٹنا چاہتے ہو۔ اور تمہیں مستقبل کی فکر نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟

کچرے کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا الا یہ کہ وہ سڑ گل جائے۔ لیکن مشکل تو یہ ہے کہ تم ایکوفرینڈلی کچرا نہیں ہو۔ تم پلاسٹک ہو۔ اور تمہیں صرف ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔

کچرا کبھی کہتا ہے کہ میں ری سائیکل ہونا چاہتا ہوں؟ ہاں کچرے کی یہ تمنا ضرور ہوتی ہے کہ وہ واپس شو کیس میں پہنچ جائے۔ واپس چاکلیٹ کا ریپر، صابن کی ٹکیا کا چمکیلا کاغذ بن جائے۔

اس لیے وہ بار بار ذہن کو متوجہ کرتا کہ دیکھو، ہم بھی کبھی شو کیس میں سجے تھے، بلا سے تم مانو، نہ مانو، لیکن ہماری بھی کچھ شان و شوکت تھی۔ لوگ ہم کو خریدنے آتے تھے۔

کچرے کو ری سائیکل ہونے کی تمنا نہیں ہوتی۔ وہ جہاں پڑا ہے وہیں پڑا ڈینگ مارتا رہتا کہ دیکھو ہم لکس، ہم سنتور، ہم ڈب شیمپو، اور یہ دیکھو، ہم شیمپین، ہم بیگ پائیپر، ہم فلاں ہم چلاں۔

کچرا اپنی جگہ آواز لگاتا رہتا، دعوتِ فکر دیتا رہتا، مگر کس کو فرصت، کون سنتا ہے؟ کون رکتا ہے ان پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے کو کہ ڈسٹ بن میں پڑے ریپر کا برانڈ نیم کیا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ وہ کچرا ہے۔

البتہ غریب غربا کے کچھ ندیدے بچے ایسے ہوتے ہیں جو پہلے تو کھیل کھیل میں کچرا جمع کرتے، پھر آہستہ آہستہ یہی ان کا کام ہو جاتا، وہ اپنے سنہرے ماضی پر نازاں ان کچروں کو بورے میں بند کر کے کباڑ خانے یا ری سائیکل فیکٹری میں لے جاتے اور سو پچاس روپے میں فروخت کر دیتے ہیں۔

میں بھی ایسا ہی ایک کچرا فروش ہوں۔ پہلے کبھی  بڑے غور سے پڑھتا تھا کہ کچرے پر کیا دعوے تحریر ہیں۔ میں ہوں اصلی لائف بوائے صابن، لائف بوائے ہے جہاں، تندرستی ہے وہاں۔ اب نہیں پڑھتا کہ کچرے پر کیا لکھا ہوا ہے۔

کچرا اپنی اصل حیثیت کے متعلق جتنا ہی چیخے میں اس  کو بورے میں بند کر کے پیٹھ پر لادتا، اور کباڑخانے میں پٹک آتا ہوں۔ جہاں اس کے اوپر لکھے ہوئے دعوے کا وزن نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ خود کس قسم کی پلاسٹک سے بنا ہے۔ پھر وہ لاکھ شور مچائے، اس کو ری سائیکل ہونا ہی ہے۔

وما علینا الا البلاغ۔ و آخر دعونا ان الحمد للہ!۔


عرض مدیر:

طارق احمد صدیقی کی تحریر کو پڑھ کے صرف ہنسنا بھی جنابِ قاری آپ کا ہی اختیاری عمل ہے؛ اور اس پر ہنس کے کچھ وقت سوچ لینا بھی آپ ہی کا دائرہِ اختیار ہے۔ ملا جلا رد عمل بھی آپ ہی کو سزاوار ہے۔ مزید یہ کہ کوئی مماثلت اتفاقی اور غیر اتفاقی دونوں ہو سکتی ہیں۔ امید ہے یہ تحریر قاری کو کچھ سوچنے کے لمحے دینے میں کامیاب ہوگی۔ ہمیں اپنے اپنے ارد گرد اور اپنے قرب میں (اور اپنے وجود میں بھی) ہر قسم کے فکری، طبعی اور نظریاتی کچرے کو قابلِ استعمال اور مفید بنانے کے لیے اسے ری سائیکل کرنے کی کچھ سبیل نکالنا ہو گی۔