جدید علوم کی ترقی حکمرانوں کی ترجیحات؟

Zaheer Akhter Bedari aik Rozan
ظہیر اختر بیدری، صاحبِ مضمون

جدید علوم کی ترقی حکمرانوں کی ترجیحات؟

ظہیر اختر بیدری

ہماری اجتماعی بدقسمتی یا اجتماعی غیر ذمے داری ہے کہ 70 سالوں میں ہمیں ایک بھی ایسا حکمران نہیں ملا جو قومی اہمیت کے مسائل کو سمجھتا ہو اور انھیں حل کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حکمرانوں کی ترجیحات ہیں، دیکھا یہی گیا ہے کہ 70 سالوں کے دوران ہر حکمران کی عمومی ترجیح دولت کا حصول رہا ہے اور وہ اس مقصد کے لیے اس قدر مصروف رہے کہ قومی مسائل کو سمجھنے اور انھیں حل کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں رہا۔

قومی اہمیت کے مسائل کو تین حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے، ایک حصے میں سماجی مسائل ہیں، دوسرے حصے میں سیاسی مسائل ہیں اور تیسرے حصے میں اقتصادی مسائل ہیں۔ ہمارا فیوڈل معاشرہ آقا اور غلام میں بٹا ہوا ہے۔ زرعی معیشت سے جڑی ملک کی 60 فیصد آبادی اسی آقا اور غلام کے کلچر میں پھنسی ہوئی ہے۔

ایک طرف آبادی کے 60 فیصد حصے پر مشتمل کسان اور ہاری ہیں دوسری طرف ایک چھوٹی سی اقلیت ہے جو جاگیرداروں اور وڈیروں پر مشتمل ہے۔ جو آقا اور غلام میں بٹے ہوئے ہیں اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے اور یہ کام پاکستان کے علاوہ دوسرے تمام پسماندہ ملکوں میں ہو چکا ہے۔

دوسرا مسئلہ سیاسی ہے ہمارے ملک میں سیاست اور اقتدار پر 70 سال سے زمینی اور صنعتی اشرافیہ کا قبضہ ہے اور اس اشرافیہ نے سیاست کو اس قدر مہنگا اور اشرافیائی بنا دیا ہے کہ عام آدمی جس کا تعلق 90 فیصد آبادی سے ہوتا ہے سیاست میں بھی ہاری اور کسان ہی بنا ہوا ہے۔

انتخابی نظام کو اس قدر مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ مہنگائی کے طوفان میں ہچکولے کھانے والا غریب طبقہ سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، اس کی ذمے داری ایلیٹ کے جلسوں جلوسوں کی رونق بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں۔

تیسرا حصہ اقتصادیات کا ہے، اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ معاشرے کو طبقات میں بانٹ دیا گیا ہے اور اس طبقاتی تقسیم میں آبادی کا نوے فیصد حصہ محتاج بنا ہوا ہے یہ کلچر اس معاشی اور سیاسی نظام کا نتیجہ ہے جس کی تقسیم آقا اور غلام پر استوار کی گئی ہے جو معاشرہ اس قدر دقیانوسی استحصالی تقسیم کا شکار ہو اس میں جدید علوم کی حیثیت بارہویں کھلاڑی کی ہوتی ہے۔

پاکستان میں ایسے حکمرانوں کا قحط  رہا ہے جو جدید علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی ضرورت کو سمجھتے ہوں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان ان شعبوں میں زیرو پوائنٹ پر کھڑا ہوا ہے اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کو اقتداری ایلیٹ نے بڑی ہوشیاری سے’’قرارداد مقاصد‘‘کی زنجیروں میں اس طرح باندھ کر رکھ دیا ہے کہ ریاست کا رخ جدید علوم، سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ٹی تحقیق اور انکشافات کی طرف کرنے کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے یہ ایک منظم سازش ہے جس کا مقصد پاکستانی عوام کو جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی تحقیق کے شعبوں سے نا بلد رکھنا ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ بڑی عیاری سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ شہروں میں انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج بنانا، ییلوکیب، اورنج اور گرین ٹرانسپورٹ کا اجرا ہی سب سے بڑی ترقی ہے اور دیہات میں سڑکوں کی تعمیر اور سستی یوریا کھاد فراہم کرنا ترقی کی معراج ہے۔

پاکستان کے 20 کروڑ عوام کو 70 سالوں سے انھی بھول بھلیوں میں پھنسا کر رکھا گیا ہے اور اب راہداری منصوبے کو ترقی اور خوشحالی کا شاہکار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پاور جنریشن کے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کو ترقی کی مثال بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔

جدید علوم تحقیق و ایجادات کے اس قحط الرجال میں بعض اداروں کی جانب سے جدید علوم کی ترقی کی کوششوں سے ہمت بندھتی ہے کہ شاید یہ ادارے ترقی کے حقیقی شعبوں کو مہمیز کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔

جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم کے سربراہ ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے ڈاکٹر پنجوانی سینٹرکراچی میں کلاسیکی پروٹین کیمسٹری کے موضوع پر تیسری قومی ورکشاپ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک فرسودہ سائنسی سرگرمیوں کا مقلد بن کر رہ گیا ہے۔ ہم نے گزشتہ 20 سال صرف بائیو ٹیکنالوجی جیسی چند اصلاحات کو سمجھنے ہی میں گزار دیے۔

ڈاکٹر اقبال چوہدری نے کہا کہ پروٹین کیمسٹری سائنس کا ایک اہم شعبہ ہے جس میں ترقی کرنا ملک کے لیے نا گزیر ہے تاکہ امراض کے اسباب کا صحیح شعور اور صحت کے شعبے میں خاطر خواہ ترقی حاصل ہوسکے۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی نے سندھ کی تمام جامعات میں سب سے زیادہ نیشنل ریسرچ پروگرام فار یونیورسٹیز کے پراجیکٹ حاصل کیے ہیں ہم اپنی مادرِ علمی کو آگے بڑھائیں گے اور جدید علوم کی ترقی کے حوالے سے دنیا کی صف اول کی جامعات میں شامل کریں گے۔

اس قسم کی کوششوں سے امید بندھتی ہے کہ ہمارا ملک جلد یا بدیر سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں میں آگے بڑھے گا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید علوم کے شعبوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، نہ اس کے لیے ان کے پاس وقت ہے کیونکہ ان کی ساری دلچسپی اور وقت پاناما لیکس کے مقدمات کے دفاع میں مرکوز ہے۔


بشکریہ: ایکسپریس ڈاٹ پی کے