اقبال، فیض ایک تقابلی جائزہ اور پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان (دوسری قسط)

Afzal Razvi

اقبال، فیض ایک تقابلی جائزہ اور پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان (دوسری قسط)

تبصرۂِ کتاب از، افضل رَضوی                        

اس باب کی خاص بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہاں ایک بار پھر یہ باور کرایا ہے کہ فیضؔ نے ہمیشہ علامہ اقبالؒ کو خراجِ عقیدت پیش کیا چُناں چِہ اس کے لیے بہ طورِ دلیل فیض ؔ کی نظم بَہ عنوان ”اقبال“ پیش کی گئی ہے۔

آیا ہمارے دیس میں اک خوش نما فقیر                           

آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا                           

محترم ڈاکٹر صاحب یہاں فیضؔ کی شاعری کی ایک بڑی خاصیت پر اظہارِ خیال کرنا نہیں بھولے؛ چُناں چہ فیضؔ کی شاعری میں موسیقیت اور موسیقاروں کا اس پر کام نظر انداز نہیں ہوا۔ 

اس کے بعد فیضؔ کی زندگی کے سیاسی سفر کو اور ان کی قید و بند کی صعبتوں کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہاں انہوں نے ”راول پنڈی سازش کیس“ اور جنرل اکبر خاں کے علاوہ سجاد ظہیر کی بابت بھی لکھا ہے کہ یہ سب فیضؔ کی زندگی سے کس طرح وابستہ تھے، دیگر کئی فوجی اور سول افسروں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ یہاں مختصراً فیضؔ  کے الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے:

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں                            

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے                            

محترم ڈاکٹر رفیق خان صاحب کے نزدیک شاعری کے تین مراحل، ”غمِ جاناں“، ”غمِ دوراں“ اور ”تصوف“ ہیں۔ چُناں چِہ ایک موقع پر جب فیضؔ کی شاعری کے مختلف ادوار کی بات آئی اور بہ قول میجر اسحاق ”فیضؔ کی شاعری کے چار رنگ تھے“۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ میجر صاحب نے کہیں چار مراحل نہیں کہہ دیا کیوں کہ ان کے نزدیک شاعری کے مندرجہ بالا تین مراحل ہی ہیں۔ 

یہاں انہوں نے فیض ؔ کے ان چار رنگوں کو مختلف حوالوں سے بیان کیا ہے اور باب کے آخر میں فیضؔ سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے اور اپنی نظم ”احساس“ ان کی موجودگی میں سنانے کی روداد نہایت اختصار سے بیان کر دی ہے۔

چوتھے باب میں پاکستان کے نام وَر مصور اسلم کمال سے تعارف اور ان سے علامہ اقبال اور فیض احمد فیضؔ کے بارے ہونے والی  گفتگو کو ایک مضمون کی شکل میں بیان کر دیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محترم ڈاکٹر خان صاحب کا حافظہ بہت اچھا ہے اور وہ کسی بھی موقع پر ہونے والی یا کی جانے والی گفتگو کو دیر تک اپنی میمُوری میں محفوظ رکھتے ہیں اور پھر اسے ریفریش کر کے جب چاہتے ہیں قرطاسِ ابیض پر بکھیر بھی لیتے ہیں۔ 

اس باب میں جہاں انہوں نے اسلم کمال صاحب کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے، نِیز ڈاکٹر صاحب ان سے فیضؔ کا درج ذیل شعر سن کر اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی رات ایک غزل کہہ ڈالی۔

سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں                            

ہم لوگ سرخ رُو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں                            

اب ڈاکٹر صاحب کی غزل کے ایک دو اشعار بھی ملاحظہ کیجیے۔

کیا جانیے کہ آج کس محفل سے آئے ہیں                           

راہِ وفا میں کونسی منزل سے آئے ہیں                            

اور

حیران ہو کے دیکھتے ہو کیوں ہمیں رفیق!                            

رنج و فراق و درد کی دلدل سے آئے ہیں                             

ڈاکٹر صاحب نے اس باب میں مختلف حوالوں، جن میں جناب اسلم کمال کے خیالات بھی شامل ہیں، سے یہ ثابت کیا ہے کہ علامہؒ کو اگر ایک شاعر کی حیثیت سے دیکھا جائے تو بَہ قول فیضؔ ان کا مقام و مرتبہ بہت اعلیٰ ہے۔

”علامہ اقبال کے بارے شفیق فاروقی سے گفتگو“ تصنیف کا پانچواں باب ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے علامہؒ اقبال کے حوالے سے گفتگو کم کی ہے جب کہ شفیق فاروقی اور ان کے فن پر تفصیل سے لکھاہے (شفیق فاروقی کو راقم الحروف نے اپنی تحریر بَہ عنوان: شفیق فاروقی عہدِ حاضر کا یگانہ مصور“ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے)۔ 

ڈاکٹر خان صاحب نے اسلم کمال صاحب کے بعد فاروقی صاحب کے ساتھ اپنی اس گفتگو میں ایک بات جس کا خاص طور پر ذکر کیا ہے وہ، اقبال، فیضؔ، اسلم کمال، شفیق فاروقی اور خود ان کا سر زمینِ سیالکوٹ سے تعلق ہے۔ گویا مصنف کو اس بات پر ناز ہے کہ اس کا تعلق بھی اسی شہر کے گرد و نواح سے ہے جہاں حکیم الاُمت علامہ اقبالؒ اور فیض احمد فیضؔ نے جنم لیا۔ ڈاکٹر خان صاحب نے علامہؒ کا ایک واقعہ لکھا ہے جو غیر معروف ہے، لیکن پُر مزاح ہے اس لیے یہاں درج کیا جاتا ہے۔ لکھتے ہیں:

”بَہ قول فاروقی صاحب پرائمری کے بعد جب ہائی سکول میں آئے تو سکول جاتے ہوئے علامہ اقبال ؒکا گھر ان کے راستے میں پڑتا تھا۔ علامہؒ صاحب کا گھر سیال کوٹ شہر کے کشمیری محلہ میں واقع تھا جس کے سامنے ایک تھڑا تھا جس پر اکثر علامہ ؒ بیٹھ کر اشعار کی نوک پلک سنوارا کرتے تھے اور بعض اوقات چھاتی پر اپنی میوزیکل وائلن کے تاروں کو حرکت دے کر مختلف سروں پر پرکھتے تھے کہ کیا غزلیں نظمیں وزن میں ہیں یا نہیں… ایک دن جب وہ صبح کے وقت وائلن چھاتی سے لگائے تھڑے پر بیٹھے تھے تو ان کا ایک سکھ دوست ان کے پاس سے گزرتا ہوا رکا اور علامہؒ سے مذاق کرتے ہوئے کہنے لگا، ”اقبال صاحب! اج سویرے سویرے ای سینے نال لا لئی جے“۔ علامہؒ صاحب نے بے ساختہ جواب دیا،”سرادار جی! سِکھنی جوں ہوئی۔“ 

چھٹے باب کا عنوان رکھا گیا ہے،”علامہ اقبال اور فیض احمد فیض (بہ حوالہ گورنمنٹ کالج لاہور)“۔ اس باب میں مصنف نے دنیا کی ان دو بڑی شخصیات کا تجزیہ گورنمنٹ کالج لاہور کے حوالے سے کیا ہے۔ چُناں چِہ میرے لیے بھی یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ میں بھی اسی مادرِ علمی سے پروان چڑھا۔ زیرِ نظر باب در اصل ڈاکٹر صاحب کا ایک لیکچر ہے جو انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور کی ”مجلسِ اقبال“ کے تحت 2013ء میں دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال 1897ء میں سکاچ مشن کالج جب کہ فیضؔ 1929ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ اس باب میں اقبال ؒاور فیضؔ کی ابتدائی شاعری کا تجزیہ مختلف حوالوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ 

”فکرِ مراد فکرِ اقبال کے آئینے میں“ ساتویں باب کا عنوان ہے جو در حقیقت ڈاکٹر خان صاحب کا ایک لیکچر ہے جسے بہ قول ان کے  انہوں نے خرم مراد کی کتاب وفائے زندگی سے متاثر ہو کر تیار کیا۔ اس لیکچر میں نہایت دیانت داری سے انہوں نے پہلے خرم مراد کی ”اپنی تربیت کیسے کریں؟“ کا لُبِّ لُباب بیان کیا ہے اور پھر اس پر فکرِ اقبالؒ کے آئینے میں روشنی ڈالی ہے۔ 

اس سے پچھلے ابواب سیدھے سادے ہیں جنہیں عام قاری بھی سمجھ سکتا ہے لیکن یہ باب اہلِ علم کے لیے ہے اور اس میں جا بَہ جا قرآنِ حکیم فرقانِ حمید کے حوالہ جات سے اپنے نکتۂِ نظر کو سپورٹ کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”اگر مقصدِ اُولیٰ بَہ فکرِ اقبال اور بَہ فکرِ مراد اللہ کا قرب اور حصولِ جنت ہو تو بَہ غیر بندگی ]کے [حاصل نہیں ہو سکتا… علامہ اقبالؒ کے مردِ مومن یعنی اقبالیات کے ہیرو کا مقصدِ اولیٰ حقائق اولیٰ (Ultimate Realities) تک رسائی ہے جب کہ ہر مسلمان کے لیے حقیقتِ اولیٰ ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔“

محترم ڈاکٹر رفیق خان صاحب اس مؤقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال ؒ کے فلسفۂِ خودی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا نفسِ مضمون اپنے نفس کی پہچان ہے کہ ”جو اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے“۔ علامہؒ کا یہ کہنا اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دیتا ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی                            

تو، اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن                             

”سیرتِ طیبہ اور شاعرِ مشرق“ یہ کتاب کا آٹھواں باب ہے جس میں صاحبِ تصنیف نے اپنے ایک اور لیکچر میں اوراقِ تاریخ سے مختلف فلسفیوں کے ہیروز کا حوالہ دیتے ہوئے حکیم الاُمتؒ نے جس ذاتِ با برکات کو اپنا ہیرو منتخب کیا  اس ہستی کا ذکر کیا ہے جس کے بارے قرآن کہتا ہے، و ما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین اور وہ ایسی ہستی ہے جسے نہ صرف تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا، بَل کہ ان کی زندگی کو تمام انسانوں کے لیے نمونہ قرار دے دیا گیا۔ چُناں چِہ بَہ قول ڈاکٹر صاحب علامہ اقبالؒ کا عقیدہ بڑا واضح ہے جب وہ یہ کہتے ہیں:

….جاری ہے…