چُنی ایک افسانہ ایک کہانی

چُنی ایک افسانہ ایک کہانی

چُنی ایک افسانہ ایک کہانی

تبصرۂِ کتاب از، نوشین قمر 

سائرہ اقبال لکھتی ہیں:

”حقیقت لکھنا بھی آسان ہے اور پڑھنا بھی، مشکل ہے تو بس تسلیم کرنا… ۔“

ان ہی تمام تر حقیقتوں میں سے عورت کی حقیقت کو تسلیم کرنا اور اس پر قلم اٹھانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ جس کا وجود تو عورت کے نام سے ہی جانا جاتا ہے مگر اس کے مختلف روپ تلاشتے تلاشتے ہزاروں کہانیاں جنم لیتی ہیں اور قلم کی روانی میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔ 

عورت کی ایسی ہی تصویریں سائرہ اقبال اپنے  افسانوں میں کھینچتی دکھائی دیتی ہیں۔ کہیں وہ اس عورت کا ذکر کرتی ہیں جو طوائف کے روپ میں معاشرے کے گِدھوں کا نوالہ بنتی ہے، تو کہیں وہ ایسی زندہ لاش سماج کے سامنے لاتی ہیں جو مرد معاشرے کی بنائی گئی روایات کی چَکّی میں پِستی چلی جاتی ہے۔ 

کہیں وہ اس کانچ نما گڑیا کی کرچیاں جوڑتی دکھائی دیتی ہیں، تو کہیں وہ اس کَٹھ پُتلی کے جذبات کی عکاسی اس انداز سے کرتی ہیں کہ قاری کی آنکھیں اشک بار ہوئے بَہ  غیر نہیں رہ سکتیں۔ غرض یہ کہ عورت کو جتنے نام دے لیے جائیں ان کی ایک مکمل اور بھر پُور عکاسی ان کے افسانوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

جی تو چاہتا تھا کہ ہر افسانے کی عورت کا ذکر کروں لیکن اس نشست میں ان کے افسانے چُنی کو منتخب کیا گیا ہے لہٰذا اسی حوالے سے موضوع کے متعلق اپنے چند خیالات کا اظہار کرتی ہوں جو میری پہلی کاوش ہے۔ 

”چُنی“ جو ہر عورت کی عزت کی ایک علامت ہے۔ ہر عورت سے مراد میری یہاں ہر عورت ہے وہ چاہے اس افسانے کی راگنی ہی کیوں نہ ہو۔ افسانے کے آغاز میں جوں ہی پان والے کا ذکر، کھڑکی سے کسی کے جھانکنے کا ذکر اور حسیناؤں کا تذکرہ آیا تو بنا کچھ آ گے پڑھے ہی میرے ذہن کے دریچوں میں طوائف کا ہی ایک نقشہ ابھر کر سامنے آیا۔ مُصنفہ نے اس بازارِ حُسن کا جو منظر پیش کیا ہے وہ مجھے لاہور کی ان مخصوص گلیوں میں لے گیا جہاں گھنگھرو کی جھنکار بھی ہے اور طبلے والوں کی دکانیں بھی، اور ساتھ ہی پان کی خوش بُو بھی ہوا معطر کیے ہوئے ہے۔ 

میں نے خود کو اسی طرح کسی گلی کے نکڑ پہ کھڑا محسوس کیا۔ جہاں سلطان اس کھڑکی پہ کسی کی ایک جھلک کا منتظر ہے۔ اس کے جذبات شاید اس بازار میں آنے والے دیگر مردوں سے مختلف ہیں۔ جب وہ خیرو کی بات پر کانوں کو ہاتھ لگائے دیوانہ وار دوڑتا ہے تو اس کی بے خبری اور معصومیت پہ حیرت ہونے لگتی ہے۔ جب وہ خود کو ایک گِدھ اور اسے مردار سمجھنے لگتا ہے تو بانو قدسیہ کے راجہ گدھ کی طرف ایک بار دھیان ضرور جاتا ہے لیکن راگنی تو راگنی ہے وہ سیمی شاہ کیسے ہو سکتی ہے، اور دوسری جانب سلطان قیوم کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ تو اپنے دل میں پاکیزہ جذبات رکھتا ہے اور راگنی کو عزت دینا چاہتا ہے اپنی محبت کے ذریعے نہ کہ ہَوَس۔ 

ابھی میں وہیں کھڑی یہ منظر دیکھ ہی رہی تھی کہ خیرو اسے پان دینے کے بہانے وہاں جانے کا راستہ بتاتا ہے اور میری ہم دردی سلطان کی جانب سے نفرت میں بدل جاتی ہے کہ وہ بھی عام مردوں جیسا ہی نکلا، لیکن اپنے جذبات اس تک پہنچانے میں ہرج ہی کیا ہے چلو ایک بار ہو ہی آؤ۔ اس کا راگنی کی باتوں پہ توجہ دیے بَہ غیر لوٹ آنا ایسے لگا جیسے آج کے بعد وہ اس جگہ کا رخ نہیں کرے گا کیوں کہ راگنی ان حقیقتوں کو بلا جھجک اس کے سامنے بیان کر رہی تھی جو اس بازار کی اصل حقیقت اور اس جیسی عورتوں کی زندگیوں کا ایک کڑوا سچ تھا:

”یہاں تو لوگ غم بھلانے آتے ہیں،کچھ ٹھنڈے ہونے آتے ہیں، تو کچھ آتے ہی گرم ہیں۔ راگنی کب کسی کو بلاتی ہے۔ لوگ راگنی کے پاس خود ہی کھچے چلے آتے ہیں۔“

کاش سلطان اس سچ کو جانتے ہوئے وہاں کا رخ دَو بارہ نہ کرتا، لیکن اسے راگنی کی آنکھوں میں معصومیت دکھائی دیتی ہے وہ اسے اپنی عزت بنانا چاہتا ہے اور اس سے بھی یہی امید رکھتا ہے کہ شاید وہ بھی اس سے محبت کرتی ہے۔ دوسرے روز سلطان اس کی عزت پیروں تلے روند ڈالتا ہے کسی ہَوَس کے ذریعے نہیں، بَل کہ، اس سے محبت کی بھیک مانگتے مانگتے۔ اور یہیں سے افسانے کا اصل موڑ سامنے آتا ہے جب راگنی اس سے اس کے دھرم کے بارے میں سوال کرتی ہے۔ سلطان ایک مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، جب کہ راگنی ایک نیچ ذات کی ہندو ہے۔ اور وہ ایک ایسے کڑوے سچ سے پردہ اٹھاتی ہے جو ہمارے معاشرے کی ایک بد نُما تصویر ہے۔ 

وہ تصویر کہ جس میں مذہب ذات یا دھرم کا دخل نہیں ہے۔ یہ وہ تصویر ہے جو دن کے اجالے میں بڑے چھوٹے،امیر غریب، بے غیرت اور عزت دار، شریف اور بد معاش کے فرق کو اپنے ہی رنگوں سے رنگتی دکھائی دیتی ہے، لیکن رات کے اندھیرے میں یہی تصویر اپنا ایک سیاہ چہرہ سامنے لاتی ہے جسے اندھیرے میں کہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تصویر کی عکاسی مصنفہ نے راگنی کی زبان سے کچھ یوں کی ہے:

”شہر کے جتنے شرفاء ہیں ناں، وہ یہاں ۔۔۔ ان ہی سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے اوپر والی کھڑکی میں آتے ہیں۔ دن دیہاڑے وہ ایمان دار اور شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دن کی روشنی میں کبھی سر کی ٹوپی یا پگ نہیں اترنے دیتے اور یہاں ۔۔۔ یہ وہی شریف ہوتے ہیں جو زن کی عزت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے۔ سرِ بازار ہمیں بازاری، لونڈی، لٹا ہوا حسن جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ہم ہی جانتے ہیں کون کتنا شریف ہے۔ خیر چھوڑو… ۔“ 

مرد جب اپنی عزت کا معیار اپنی ٹوپی یا پگ کو ٹھہراتے ہیں تو دوسری جانب عورت کی عزت اس کے سر کا دو پٹہ ہے۔ جب اسے ہی روند ڈالا جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ عورت کی عزت کے ایسے انوکھے روپ کو کہ جسے ایک طوائف بھی اپنے لیے عزت سمجھتی ہے مصنفہ نے نہایت ہی عمدہ طریقے سے نبھایا ہے اور جہاں ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ”لکھاری بات ادھوری چھوڑ کر بھی قصہ مکمل کر جاتا ہے۔“ 

اپنے اس دعویٰ کو وہ اس جملے سے سچ ثابت کر دکھاتی ہیں جب راگنی کہتی ہے:

”یہ جانتے ہو یہاں آنے کے بعد سب سے پہلا کام کیا کرتے ہیں؟ ہماری چنی اتار کے اپنے پیروں میں روندتے ہیں۔“ 

 افسانے کا نچوڑ اسی ایک آخری جملے میں ادا ہو جاتا ہے۔ 

راگنی جیسا ایک ہندو کردار تراشنا اور اس کے مکالموں سے معاشرے کی ایک ایسی تصویر سامنے لانا کہ جس پہ کوئی بھی خاتون مصنفہ قلم اٹھاتے ہوئے ضرور سوچنے پر مجبور ہو گی ایک کام یاب کاوش ہے۔ سائرہ اقبال نے جو بات قاری تک پہچانا چاہی ہے ان کے بے باکانہ اسلوب سے وہ واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ راگنی کا یہ کردار ان تمام تر حقیقتوں کا عکاس ہے جو ہمارے معاشرے کے کونوں کھدروں میں جنم لیتی کئی کہانیوں کو چند جملوں میں سمیٹ دیتا ہے اور اس عورت کی ترجمانی کرتا ہے جو چاہے اپنا جیسا بھی کردار نبھا رہی ہو لیکن عزت کی آس اور اس کی خواہش اس کے دل میں بھی کہیں پوشیدہ ہے۔ وہ بھی اس ”چنی“ کی منتظر ہے کہ جسے سَر سے پیروں میں روندا نہ جائے، بل کہ، ان مجبور قدموں سے اٹھا کر اس کے سَر کی عزت بنایا جائے۔

(کتاب کی رُو نمائی کے روز پڑھا جانے والا تبصرہ)