مسلم لیگ نے 1946 کے انتخابات کیسے جیتے

پیروں اور جاگیرداروں کی کرامات

مسلم لیگ اور 1946 کے انتخابات

مسلم لیگ نے 1946 کے انتخابات کیسے جیتے

از، سالار کوکب

ایان ٹالبٹ (Ian Talbot) ساوتھمپٹن یونیورسٹی میں ماڈرن برٹش ہسٹری کے پروفیسر ہیں۔ وہ دنیا بھر میں تقسیم ہند خصوصاً تقسیم پنجاب کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ The Punjab Elections 1946 ان کا ایک مشھور تحقیقی مقالہ ہے جو 1980 میں شائع ہوا۔ اس مقالے میں انہوں نے 1946 کے انتخابات میں لیگ کی جیت پر 70 کی دھائی تک کی تحقیق کا جائزہ لیتے ہوئے کچھ نئے نتائج خذ کیے تھے۔ ان کے نزدیک پنجاب کے 1946 کے انتخابات میں لیگ کی کامیابی کی وجہ جاگیرداروں اور پیروں کی حمایت حاصل کرکے مذہب اور لوگوں کو متحرک کرنے کے روایتی طریقوں کا زیادہ موثر استعمال تھا۔

انتخابات کے دوران پیروں نے اپنے مریدوں کو مسلم لیگ کی حمایت کا حکم دیا۔ جب کہ جاگیرداروں نے اس مقصد کے لیے اپنے معاشی اثر و رسوخ اور برادری میں رہنمایانہ کردار کا استعمال کیا۔ لیگ نے انتخابات میں اپنے پرانے کارکنوں کو ٹکٹ دینے کی بجائے پیروں اور جاگیرداروں کو ترجیح دی کیوں کِہ اسے ووٹر کی حمایت کے حصول کے لیے روایتی وفا داریوں کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ جناح خضر مذاکرات کی نا کامی کے بعد مسلمانوں کے اعلٰی طبقے کو  لیگ اور یونینسٹ پارٹی میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ان میں سے اکثریت کا انتخاب لیگ تھی۔

اس فیصلے کی وقتی سماجی، معاشی اور مذہبی وجوہات کی اصل جڑ اس حقیقت میں تھی کہ برطانویوں کا ہندوستان چھوڑنا ٹھہر چکا تھا۔ یونینسٹ پارٹی حکومت میں ہوتے ہوئے پہلے ہی برطانیہ کی حمایت کی پہچان رکھتی تھی۔ انہوں نے دیہات میں حکومتی مشینری کا استعمال کر کے خود کو نا قابلِ معافی نقصان پہنچایا جب کہ مسلم لیگ عالمی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال میں کاشت کاروں کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ لیگ نے پاکستان کی حمایت کو مذہبی فریضے کے ساتھ ساتھ کاشت کاروں کے مسائل کا حل بھی قرار دیا۔ لوگوں سے یہ وعدہ کیا گیا کہ ان کے سماجی اور معاشی مسائل قیام پاکستان سے ہی حل ہوں گے۔ ٹالبٹ کے نزدیک حمایت حاصل کرنے کے لیے صرف مذہبی appeal ہی کافی نہیں تھی۔ بل کِہ مسلم لیگ کی حمایت میں مسلمان کاشت کاروں کے مفادات کے تحفظ کے تاثر کا بہت زیادہ حصّہ تھا۔

ٹالبٹ کے مقالے کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔ پنجاب میں 1937 کے الیکشن میں لیگ نے 85 مسلم نششتوں کے لیے صرف 7 امید وار کھڑے کئے تھے۔ جس میں سے صرف 2 امید وار ہی کامیاب ہو سکے تھے۔ 1946 کے انتخابات میں لیگ نے مسلمانوں کی تمام نششتوں میں سے 75 نشستیں جیت لیں۔ تاہم لیگ کے کامیاب امید واروں میں اکثریت تجربہ کار سیاست دانوں کی تھی جو ان انتخابات سے کچھ وقت پہلے ہی اپنی وفا داریاں تبدیل کر کے یونینسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔

پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے 1946 کے انتخابات جیتنا اس لیے ضروری تھا کہ پنجاب کے بغیر پاکستان نہ بنتا۔ لیکن ان انتخابات کو جیتنے کے لیے یونینسٹ پارٹی کو صوبے کے دیہات میں ہرانا ضروری تھا۔ کیوں کِہ 85 میں سے 75 مسلمان نشستیں دیہاتی حلقوں کی تھیں۔ 1923 میں یونینسٹ پارٹی کے قیام کے وقت سے دیہاتی حلقوں میں اس کا غلبہ تھا۔ یہ پارٹی جاگیرداروں اور پیروں کے ذریعے برادریوں اور مریدین کو متحرک کرکے ووٹ حاصل کرتی تھی۔ 1946 کے الیکشن سے پہلے لیگ نے مغربی پنجاب میں جاگیرداروں اور پیروں کی اکثریت کی حمایت حاصل کرکے یونینسٹ پارٹی کی کمر توڑ دی۔

1944 سے 1946 کے دوران مسلم لیگ نے یونینسٹ پارٹی کے کم ازکم 30 ارکان کی وفا داریاں اپنے حق میں تبدیل کر لیں۔ جھنگ اور شیخو پورہ کے اضلاع میں تمام 7 ارکان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ مسلم لیگ میں شامل ہونے والے جاگیر دار خاندانوں جیسے نون، دولتانہ اور حیات کا نہ صرف اپنے آبائی اضلاع میں بہت اثر و رسوخ تھا، بل کِہ ان کا حلقہ اثر پورے صوبے میں پھیلا ہوا تھا۔ بڑے پیر جیسے جلال پور، جہانیاں شاہ، رجوعہ اور شاہ جیونہ کے پیر، جو 1923 سے یو نینسٹ پارٹی کے ساتھ تھے، مسلم لیگ سے مل گئے۔ اسی طرح تونسہ شریف اور گولڑہ شریف کے پیر جو اس سے پہلے سیاست میں زیادہ فعال نہیں تھے مسلم لیگ کی حمایت میں فعال ہو گئے۔

1946 کے انتخابات میں ان تمام علاقوں میں جہاں پیروں کا اثر تھا جیسے ملتان، جھنگ، جہلم اور کرنال وغیرہ مسلم لیگ کو بہت زیادہ حمایت حاصل ہوئی۔ ان انتخابات میں اگر چہ لیگ نے تنظیم سازی خصوصاً دیہی تنظیم سازی پر بھی توجہ دی اور اپنے ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا۔ لیکن اس کی اصل کامیابی جاگیر داروں اور پیروں کے ذریعے برادری اور مریدوں تک رسائی تھی۔

پنجاب میں مسلمانوں کے با اثر طبقے کو یہ یقین ہوتا چلا گیا کہ بڑھتی ہوئی مذہبی کشمکش کی وجہ سے یونینسٹ پارٹی کے غیرمذہبی طرز سیاست کا وجود ختم ہو جائے گا۔ سکھ اور ہندو ضلعی افسران کے جانب دارانہ رویوں نے اس تاثر کو مزید تقویت دی۔ مسلم لیگ کے یونینسٹ پارٹی کو ملت اور مذہب کے غدار قرار دینے کے پراپیگنڈے نے اس کی شدت میں اضافہ کیا۔ اب ان لوگوں کے لیے یونینسٹ پارٹی کے ذریعے اپنا مقامی اثر و رسوخ قائم رکھنا مشکل تھا اور آخرِ کار یہ لوگ لیگ کی پناہ میں چلے گئے۔

اسلامی appeal اور symbolism کا استعمال شروع سے ہی مسلم لیگ کے پراپیگنڈہ کا حصّہ تھا۔ مسلم لیگ کے اجلاس گاؤں کی مسجد میں منعقد ہوتے تھے اور مسلم لیگ کے پروگرام کو قرآن اور اسلام کی روشنی میں صحیح ثابت کیا جاتا تھا۔ اسی دوران دیوبند اور فرنگی محل کے علماء نے بھی مسلم لیگ کی حمایت میں پنجاب کا دورہ کیا۔ یونینسٹ پارٹی نے بھی قرآنی آیات کے حوالوں، اسلامی جھنڈے کے استعمال، علماء کی شمولیت وغیرہ کے ذریعے مذہب کو اپنی مہم کا حصہ بنانے کی کوشش کی، لیکن ان کو مسلم لیگ جتنی پذیرائی نہ مل سکی۔ شہروں سے باہر علماء سے زیادہ پیروں کا اثر تھا جن کی اکثریت مسلم لیگ کا ساتھ دے رہی تھی۔ 1944کے بعد عُرسوں میں شرکت مسلم لیگ کی مہم کا اہم حصّہ رہی۔


مزید دیکھیے: 1۔ کچھ اہم انتخابی حلقے اور ان میں جیت ہار کی مختصر تاریخ

ستر برس کی داستان

ستر برس کی دُہائی اور نواز شریف کی واپسی

4. انتخابات میں رائے دہی (voting) کا تاریخی خاکہ


مسلم لیگ نے ووٹوں کے حصول کے لیے برادری کا بھرپور استعمال کیا۔ لیگ کی طرف سے خصوصی گجر کانفرنس کا انعقاد، اس کی ایک مثال تھی۔ مضبوط برادری والے امید واروں کی کارکنوں پر فوقیت کی ایک مثال راولپنڈی مسلم لیگ کے نائب صدر جو Artisans’ Union کے صدر بھی تھے کے مقابلے میں سردار سکندر حیات کے چھوٹے بھائی کی لیبر سیٹ پر نامزدگی تھی۔

یونینسٹ پارٹی نے کئی جگہوں پر ووٹر پر حکومتی دباؤ استعمال کیا۔ جس نے ووٹرز میں منفی رد عمل کو جنم دیا۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے دیہی آبادی کے لیے جو مسائل پیدا ہوئے اس کی وجہ سے یونینسٹ پارٹی پنجاب کے مشرقی حصّے میں ارائیں اور جاٹ زمین داروں میں غیر مقبول ہوئی۔ اگر چہ جنگ کی وجہ سے اجناس کی قیمت میں اضافہ ہوا لیکن اس سے دیہی علاقوں میں کپڑے، چینی، اور مٹی کے تیل کی فراہمی پر بہت اثر پڑا۔ 1944 کی خزاں میں اجناس کی قیمتوں میں کمی، ذخیرہ اندوزی، اور دوسرے مسائل کے نتیجے میں مشرقی پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی مقبولیت میں واضح کمی ہوئی اور انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے لدھیانہ، ہوشیار پور اور فیروز پور میں ہنگامے شروع ہو گئے۔

مسلم لیگ نے جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھایا اور راشن بندی میں بے قاعدگیوں کے خلاف مہم چلائی بل کِہ بعض جگہوں پر لوگوں میں دوائیں اور کپڑا تقسیم کیا۔ لوگوں سے کہا گیا کہ پاکستان کی حمایت صرف مذہبی فریضہ ہی نہیں بل کِہ سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بھی ضروری ہے۔

مسلم لیگ پنجاب سے برٹش آرمی کے تقریبا آٹھ لاکھ جوانوں کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوئی جن میں سے زیادہ تر کا تعلق راولپنڈی، جہلم اور میانوالی سے تھا۔ یونینسٹ پارٹی جنگ سے واپس آنے والے جوانوں کے لیے متبادل روزگار کے مناسب مواقع اور دوسری سہولتیں فراہم نہیں کر سکی جس کی توقع فوجی جوان حکومت سے کرتے تھے۔ جب کہ لیگ نے نہ صرف مسئلہ فلسطین وغیرہ پر ان جوانوں کی تشویش کو اہمیت دی بل کِہ برطانوی فوج سے بغاوت کر کے آزاد ہند فوج کا حصّہ بننے والے پنجابی فوجیوں کے مقدموں میں دفاع کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی۔ اس طرح جلال پور کے پیر فضل شاہ کی کوششوں اور فوجیوں کی حمایت کی وجہ سے مسلم لیگ نے فوجی بھرتی کے دو بڑے علاقوں راولپنڈی اور جہلم سے تمام 13 مسلم نشستیں جیت لیں۔


مزید مطالعے کے لیے

Talbot, I.A., 1980. The 1946 Punjab Elections. Modern Asian Studies, 14(01), pp.65-91.