25 جولائی کے انتخابات ، pre-poll rigging اور متنازع نتائج؟ عوامی اُمیدیں اور زمینی حقائق

Ahmed Jameel Yousufzai

25 جولائی کے انتخابات ، pre-poll rigging اور متنازع نتائج؟ عوامی اُمیدیں اور زمینی حقائق

از، احمد جمیل یوسفزئی

امریکہ کے 32 ویں صدر فرینکلن روز ویلٹ نے ایک بار کہا تھا:

حکومت کسی مخفی اور بیرونی طاقت کا نام نہیں بَل کہ ہم ہی حکومت ہیں۔ ہماری جمہوریت کے اصل حکمران صدر، سینیٹرز، کانگریس مین، اور سرکاری اہل کار نہیں بَل کِہ اس ملک کے ووٹرز ہیں۔

ملک کے تین دفعہ رہنے والے وزیر اعظم اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سابق صدر محمد نواز شریف کے نعرے “ووٹ کو عزت دو” نے پاکستان میں ووٹرز اور ان کی رائے کے احترام پر بحث کو اس سال کے عام انتخابات کے لیے کیے جانے والے سیاسی جماعتوں کے کیمپیئن پر حاوی رکھا۔

الیکشن ۲۰۱۸ کے اعلان اور نگران وفاقی و صوبائی حکومتوں کے قیام کے ساتھ ہی بعض میڈیا گروپس اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کی طرف سے کچھ سیاسی جماعتوں کی ‘پری پول رگنگ’ یعنی انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا۔ پچھلے تین چار مہینے میں پیش آنے والے سیاسی واقعات نے اس تاثر کو جنم دیا کہ عوام کی رائے کے احترام کی بجائے ملک میں طاقت کے اصل مالکان (فوجی اسٹیبلشمنٹ) نے اپنے مرضی کے انتخابی نتائج لانے کے لیے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف ایسے اقدامات کیے جن سے ایک خاص طرح کی سیاسی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو ان جماعتوں کے سیاسی کردار کو کم کرکے فوج کے قریبی سمجھے جانے والی جماعتوں کے حق میں ہو۔

الیکشن سے پہلے (25 جولائی سے پہلے) پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت اور مختلف آزاد امید واروں کی جانب سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اُٹھائے گئے۔ اورکچھ خاص واقعات کو پری پول رگنگ سے تعبیر کیا گیا۔ مثلاً

۱۔ نواز شریف کی سال پہلے ایک متنازع عدالتی فیصلے میں ائین کی ‘صادق اور امین’ کی شق کے تحت وزارتِ عظمیٰ سے برطرفی اور اس مہینے انتخابات سے بمشکل ۲۰ دن پہلے ایک اور متنازع فیصلے میں اپنے لندن کے ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت ثابت نہ کر سکنے پر ان کو دس سال، بیٹی مریم کو سات سال اور داماد کیپٹن صفدر کو ایک سال قید با مشقت کی سزا کو بد عنوانی پر سزا سے زیادہ فوج سےاختیارات واپس سویلین حکومت کو دینے کے مطالبے کی سزا سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ تاثر پھیلا کہ اُن کو انتخابات سے دور رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا۔

۲۔ نواز اور ان کی بیٹی کی سزا سنائے جانے کے بعد وطن واپس آ کر سزا بھگتنے کے اعلان اور لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے ساتھ ہی صوبے کے نگران حکومت نے ان کے استقبال کے لیے نکلنے والے پارٹی کارکنوں کو روکنے کے لیے جس طرح انتظامات کیے اور سترہ ہزار کے قریب کارکنوں کو گرفتار کر کے یہ تاثر دیا کہ ن لیگ کو ہر ممکن حد تک محدود کیا جائے۔

۳۔ اس سے پہلے پنجاب کے مختلف اضلاع میں خود نواز شریف نے اپنے کے لندن کے پریس کانفرنس میں آئی ایس آئی کے نمائندوں پر اُن کی پارٹی کے امید واروں پر دباؤ ڈالنے، انتخابات سے دست بردار ہونے یا پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے الزامات لگائے۔

۴۔ اس کے علاوہ کالعدم مذہبی انتہاپسند تنظیموں پر سے پابندیاں ہٹا کر نہ صرف انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا بل کہ ان کے خلاف نفرت پر مبنی کیمپیئن چلانے کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے کو ریاست کی ایک پالیسی کے تحت دیکھا گیا۔

۵۔ تحریک لبیک پاکستان (TLP) جیسی نوزائیدہ جماعت کے امید وار شیخ اظہر حسین کا ۱۹ ستمبر کے لاہور کے ن لیگ کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقے NA120 سے ضمنی انتخابات میں ۷۱۳۰ ووٹ لے کر سب کو حیران کر دینا اور پھر ۲ جولائی ۲۰۱۸ کو کراچی میں اپنے الیکشن کیمپیئن کے سلسلے میں ایک بڑا جلسہ منعقد کرنا سیاسی مبصرین کے مطابق بمشکل اس ایک سال پُرانی مذہبی جماعت کا اس طرح اُبھر کے سامنے آنا ایک معجزہ نہیں بل کہ اس کو ایک سوچھی سمجھی پلاننگ کے تحت مسلم لیگ ن کے ووٹ کو توڑنے کے لیے سامنے لایا گیا ہے تاکہ ن لیگ کا ووٹ خراب ہونے کے بعد اس کے مقابلے میں موجود خاص امید وار کے جیتنے کے مواقع بڑھ جائے۔


مزید دیکھیے: مسلم لیگ نے 1946 کے انتخابات کیسے جیتے

عقدہ ہائے سیاست اور نا دیدہ قوتیں


۶۔ کراچی میں NA-247 اور PS-111 سے امید وار اور انسانی حقوق کے کار کن جبران ناصر پر TLP کے کار کنوں کی طرف سے احمدی طبقے کے حامی ہونے کے الزامات، اُن کے خلاف ہجرت کالونی کے ایک مقامی مولوی، نوید عباسی اور ایک مخالف پارٹی سے تعلق رکھنے والے مذہبی شخصیت کی نفرت اور اشتعال انگیز تقریریں کرنے اور ان پر مقامی انتظامیہ کی چھپ سادھ کو ریاست کے بارے میں اس تاثر کو تقویت ملی کہ ریاست جان بوجھ کر مذہب کے نام پر نفرت کو برداشت کر رہی ہے تا کہ اس کو ریاستی پالیسی کے طور پہ جاری رکھا جا سکے۔

۷۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماء فرحت اللّہ بابر کی جانب سے اُن کی ایک پریس کانفرنس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ان کے تین امید واروں کو آئی ایس آئی کے کچھ افسران کی جانب سے دھمکیاں ملی ہیں۔ یہ سنگین الزامات تھے اور ان کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی تا کہ حقیقت عوام کے سامنے آ جاتی مگر اس حوالے سے کوئی قابل قدر قدم اب تک نہیں اُٹھایا گیا۔

۸۔ اسی طرح بلوچستان میں پہچھلے سال ن لیگ کے وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللّہ زھری کی حکومت کے خاتمہ، کچھ سو ووٹ لینے والے عبدالقدوس بزنجو کے وزیر اعلیٰ بننے، اور پھر سینیٹ کے انتخابات میں بلوچستان سے ہی بظاہر غیر معروف و غیر سیاسی شخصیت صادق سنجرانی کے بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب پر بھی نہ صرف سوالات اُٹھے بل کہ اُنگلیاں بھی اُٹھی۔

۹۔ اس پر بات ختم نہیں ہوئی۔ بلوچستان میں راتوں رات بننے والی نئی سیاسی جماعت ‘بلوچستان عوامی پارٹی’ BAP کو ایک کھلے راز کے طور پر فوج کی سیاسی ونگ کے طور پہ نہ صرف سمجھا جا رہا تھا اور ہے بل کہ یہاں کوئٹہ میں پچھلے ایک مہینے سے میری جس سے بھی بات ہوئی یہ بات عام طور پر سننے کو ملی کہ BAP قومی اسمبلی کی ایک دو سیٹوں کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی دس سے اٹھارہ سیٹوں پہ بہ آسانی جیت کے صوبے میں حکومتی اتحاد کا حصہ بنے گی۔ بعض کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جیتنے کے بعد یہ پی ٹی آئی میں ضم ہو۔ ایسے میں عوام کا اپنی رائے کا احترام نہ ہونے پر شکوک شبہات کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ صوبے سے رھوڈ سکالر اور اکیڈیمک رفیع اللّہ کاکڑ کے مطابق ان کو پَرسوں ۲۳ جولائی کو کامران خان کے پروگرام میں بلوچستان میں انتخابات پہ بات کرنے کے لیے شام کو ساڑھے نو بجے مدعو کیا گیا۔ پروگرام تین گھنٹے رات بارہ بجے تک چلا مگر ان کو بات کرنے کا موقع دینے کے بجائے گیارہ بجکر پچپن منٹ پر یہ کہہ کر معذرت کی گئی کہ بلوچستان پر بات کرنے کے لیے وقت نہیں۔ ایسے روئے یہاں کے لوگوں خصوصاً یہاں کے با شعور طبقے کے اس تاثر کو مذید پختہ کرتی ھے کہ بلوچستان میں عوام کی رائے کا نہیں بل کہ صوبے پر حقیقت میں حکمرانی کرنے والوں کا احترام کیا جاتا ہے۔

۱۰۔ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں یہاں تک کہا کہ عمران خان کی تحریک انصاف کو عوامی مینڈیٹ کے برعکس جتوا دیا جائے گا۔

۱۱۔ میڈیا بد ترین سنسرشپ کا سامنا کر رہا ہے۔ جیو اور ڈان نیوز کی نشریات کئی بار بند کی گئی اور بقول ڈان میڈیا گروپ کے سی ای او ڈان اخبار کی ترسیل پر ملک کے مختلف علاقوں میں پابندیاں لگائی گئی۔ اس کے علاوہ تمام جماعتوں کو برابر کے مواقع ملنے کے آزاد اور شفاف انتخابات کے اصول کے برخلاف بڑی جماعتوں کے الیکشن کیمپیئن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔

۱۲۔ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج شوکت عزیز صدیقی کے راولپنڈی بار کے سامنے اپنی تقریر میں آئی ایس آئی کے اہل کاروں پر عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے الزامات کو بھی انتخابات پر اثر انداز ہونے سے تعبیر کیا گیا۔ ان الزامات پر تحقیقات کا اعلان تو ہوا مگر قوم کو اب تک انتظار ہے کہ آیا ان کی تہہ تک جایا جائے گا یا یہ بھی ہمیشہ کی طرح محض نعرہ ثابت ہو گا۔

۱۳۔ الیکشن سے محض چار دن پہلے پنڈی سے نون لیگ کے امید وار حنیف عباسی کو ایفیڈرین کیس میں نا اہل قرار دے کر عمر قید کی سزا بھی ان شکوک و شبہات کو تقویت ملی کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے قریبی سمجھے جانے والے شیخ رشید کو جتوانے کی کوشش تھی۔

سیاسی مبصرین اور پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار پر گہری نظر رکھنے والے مصنفین کے خیال میں فوج یقیناً یہ چاہتی تھی کہ منتخب حکومت کی شکل میں بظاہر عوامی نمائندے آ جائیں، مگر پسِ پُشت ہمیشہ کی طرح خارجہ پالیسی (خصوصاً ہندوستان، امریکہ، افغانستان اور چین کے ساتھ تعلقات)، اور ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فیصلے فوج خود کرے۔ فوج نہیں چاہے گی کہ حقیقی معنوں میں عوامی سیاست دان حکمران بن کر اُبھریں جن کو نا صرف عوامی حمایت حاصل ہو بل کہ ملک کے ستر سال سے جاری پالیسیوں پر اپنے فیصلے لینے کے مجاز بھی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ فوج نے ہمیشہ ایک سیاسی جماعت کی پُشت پناہی کی تا کہ اس کو دوسری عوامی مینڈیٹ رکھنے والے جماعتوں کے خلاف استعمال کیا جا سکے اور ملکی پالیسیاں تشکیل دینا ان کے دائرۂِ اختیار میں رہے۔

اس دفعہ تحریک انصاف کو وہ جماعت سمجھا جا رہا ہے جس کو نہ صرف جلسے جلوس کرنے کی آزادی رہی بل کہ وہ مذہبی جذبات اُبھار کر وہی سیاست کر رہی ہے جو عشروں سے چلی آرہی ریاستی پالیسیوں سے مطابقت رکھتی ہے۔

ایسے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی جیت پر مستقبل قریب میں ریاستی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا عبس ہو گا۔ کیوں کہ تحریک انصاف کو فوج کے ساتھ بنائے رکھنے کے لیے اپنی پالیسوں خصوصاً خارجہ پالیسیوں پر سمجھوتا کرنا ہو گا۔

ایسے میں ان متنازع انتخابات کے نتائج سے زیادہ بڑی توقعات وابستہ کرنا عقل مندی نہیں ہوگی کیوں کہ جب تک اختیارات کے اصل مالکان کا تعین نہیں کیا جاتا اور اُن کو آئین کے دائرۂِ کار میں کام کرنے کا پابند نہیں کیا جاتا تب تک ظاہر ہے کسی بہتر نتیجے کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

جمہوریت کا اصل ثمر تب ملتا ہے جب عوام کی ایک بڑی آبادی پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ یہ شعور بھی رکھے کہ اگر ان کی رائے کا احترام نہیں ہے تو اس کو کون روند رہا ہے اور پھر وہ پوری قوت سے اس کو بحال کرنے کے لیے اپنی آواز اُٹھانے کے قابل بھی ہو۔