شب و سَحر کی سرحدوں میں آنکھ کھلنا، فکشن اور احساس گناہ کی سماجیات

یاسر چٹھہ

شب و سَحر کی سرحدوں میں آنکھ کھلنا، فکشن اور احساس گناہ کی سماجیات

از، یاسر چٹھہ

آج صبح بہت پہلے کی جاگ آ گئی ہوئی ہے۔ جس وقت جاگا ہوں اسے صبح کہنا بھی کچھ درست نہیں ہوگا۔ یہ رات اور صبح کی سرحد ہے۔ کچھ خدا کے محب اور کچھ خدا کی حب کے بازاری سوداگر اس وقت کو ہماری ثقافت میں تہجد کا وقت کہتے ہیں۔ (ویسے راقم  کو سرحدوں پر رہنا ہی ذہنی اور ذہنی و فکری طور پر بھاتا ہے۔ اس وجہ سے عام احباب الجھن میں رہتے ہیں۔ احقر شاید فکر کے کوانٹمی عہد میں ہے۔ الجھن کی ایک وجہ ہمیں اپنی تحدیدات و محدودات کا)  رات تا دیر جاگتا رہوں تو مطالعہ میں صرف ہوتا ہے۔

صبح جلدی جاگ آ جانے سے سرہانے پڑی تین کتابوں میں سے ایک نان فکشن اور دو فکشن کی ہیں۔ کسی ایک کو پڑھنے کے لیے اٹھانے لگتا ہوں تو ایک سوال بار بار سر اٹھاتا ہے کہ ایسا کرنا کسی کا حق مارنا تو نہیں؟ کس کا حق؟ شاید خدا کا حق؟

بچپن کے دنوں سے دن کا آغاز خدا کے ذکر و عبادت کے تصور و ماحول آفرینی سے عبارت ہے۔ ہماری فوق انا (super ego) کی تشکیل کس قدر توانا چیز ہوتی ہے۔ ہر چند کہ آپ اس دور کے اعتقادات کی بابت بقدرہ ترمیمی نظرثانی دہرائی (revision) کر چکے ہو؟

ان سرہانے پڑی کتابوں میں سے کسی کتاب میں بھی تصور خدا سے کوئی لینا دینا نہیں۔ نا اسے کوئی خاص چیلنج ہے، نا اس کی کوئی تبلیغ ہے۔ زندگی اور ذہن میں تصور خدا، وجود خدا، جاہ خدا اور ان سے تصورات سے راقم کے تعلق و وابستگی میں ایک متحرک توازن ہے/آیا ہوا ہے/ محسوس ہوتا ہے کہ ہے۔ ان تینوں حیثیوں کے بیچوں  بیچ کچھ ہے۔ (اس تعلق کا بیان اور تذکرہ ہر جا مناسب نہیں بھی لگتا۔ کوئی پوچھ لے تو بتانا اچھا بھی نہیں لگتا۔ ہلکا سا اشارہ البتہ کر دیں کہ راقم کو خدا خوب صورتی، تازگی اور تجسس کی تشفی میں دکھائی دیتا ہے۔ اب یہ تصورات باہم کیسے جڑتے ہیں، اور ان کی سرحدات کس مختلف قسم کے فرد و افراد اور معاشرہ کے لیے کیا ہیں، وہ شعوری طور پر مجتمع نہیں کروں گا۔)

اب اسی سوال کی طرف پھر سے آتے ہیں کہ صبح کے آغاز میں کسی ایسی کتاب کا جو زمینی و ذہنی زندگی سے متعلق ہو اسے ہماری عمومی ثقافت نے اخلاقی خلش سے کیوں وابستہ کر دیا ہے؟ ہماری عمومی ثقافت اپنے معتقدین کی ذہنی و فکری صلاحیتوں پر اعتماد رکھنے سے قاصر کیوں ہے؟ ہر وقت اس کے بھٹک جانے کا ہی دھڑکا کیوں لگا رہتا ہے؟ چھوٹے چھوٹے فیصلے اتنے بڑے تصورات و اعتقادات کی بنیادوں کو کمزور کرتے کیوں دیکھے جاتے ہیں؟

زندگی سیکھنا کیوں کر ناپسندیدہ،  کم پسندیدہ، یا گناہ کے عکسوں سے آلود خیال ہو سکتا ہے؟ اکثریت میں موجود طبقہ و اعتقادی گروہ کب تک اپنے عدم تحفظ کے نفسیاتی عارضے کو فسطائی رجحانات میں ظاہر کرتا رہے گا؟ کب تک فوق انا پر اس قدر کوتوال بٹھائے رکھے گا؟

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔