سکول میں ایک دن

سکول میں ایک دن (آخری قسط) سکول میں ایک دن

سکول میں ایک دن

از، نصیر احمد

حرامیو پڑھا کرو، پڑھو گے تو میری طرح کرسی پہ بیٹھو گے، نہیں تو کتوں کی طرح زمین پہ لوٹتے رہو گے’ ایک لطیفہ یہ جو ہم بدتمیز، زبان دراز اور بیہودہ گو ہیں، یہ زیادہ تر ہماری اپنی ہی کاوش ہے لیکن اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی ہے اور تقدیر کی یہ خوبی ہم پہ ہمارے اساتذہ کی شکل میں نازل کی گئی۔ سکول کا سفر شروع ہوا اور ہم لوگ گفتگو کررہے ہیں۔ یار یہ ریاضی کا کام نہیں کیا۔ آج وہ کتے کا بچہ بہت ڈنڈے مارے گا۔
کوئی بات نہیں، میں تو پورے گھر کی سویٹریں پہن آیا ہوں۔
بہت حرامی ہے یار۔ ذرا بھی شک پڑا تو وہیں ننگا کر دے گا۔
سارے ہی کنجر ہیں۔ سارا دن ہی مار پڑتی رہتی ہے۔ تو تم لوگ سکول کا کام کیا کرو نا؟
اور سنو۔ تو ڈنگر چرانے تمھارا باپ جائے گا۔
میں نے کہا تھا نا کہ سارے ہی کنجر ہیں۔
کتے کی اولاد، خبردار جو میرے ابا کو کچھ کہا۔ چور کے بیٹے، سچ ہی تو کہا ہے۔
یار لڑو نہیں۔ دیر ہو جائے گی گھر شکایت ہو گی تو دونوں طرف سے مار پڑے گی۔
ایک تو یہ دلی سردی، سارا دن ہاتھ سوجے رہیں گے۔
پھر سکول پہنچ گئے۔ تلاوت ہوئی، نعت پڑھی گئی، جبیں میری سنگ در تمھارا اور اس کے بعد یا رب دلِ مسلم کیا گیا، اور اس کے بعد شاد باد منزل مراد۔ کچھ بھی پلے نہیں پڑھتا تھا۔ آپ نے کبھی سفر کرتے ٹرکوں میں بندھے ہوئے جانور دیکھے ہیں، یہ ہم لوگوں کی صورتحال ہوتی تھی۔ حیران پریشان تماشا دیکھتے جاتے تھے۔ پھر جنھوں نے سکول کی وردی نہیں پہنی ہوتی تھی، ان کو تربیت جسمانی کے استاد بے تحاشا گالیاں دیتے تھے۔ گالی گلوچ سکول کی زندگی کا اہم حصہ ہوتا تھا۔ جو لائق ہوتے تھے یعنی رٹے باز۔ انھیں ذرا کم گالیاں ملتی تھیں، لیکن محفوظ وہ بھی نہیں تھے۔

کچھ استادوں کے اپنے بیٹے بھی سکول میں پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک کو استاد کی شفقت کے ساتھ شفقت پدری کو بھی سہنا پڑتا تھا۔ زیادہ تر ماں کی گندی گندی گالیاں۔ وہ لڑکا بھی کبھی تنگ آجاتا تھا اور اپنے والد صاحب کی شفقت کاجواب بھرپور احترام سے دیتا تھا۔ ‘کنجری کا، وہاں امی کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے، یہاں ان کو گالیاں دیتا ہے۔’
استاد کی آمد سے پہلے کلاس میں بہت شور ہوتا تھا۔ کرکٹ، فلمیں، گالیاں، خاندانی جھگڑے، غرض یہ کہ پڑھائی کے علاوہ تمام اہم موضوعات پر گلا پھاڑ پھاڑ کر گفتگو کی جاتی ہے۔
‘بڑا بدمعاش بنتا تھا، ایسی انھوں نے اسے مار لگائی کہ بھینسے کی طرح ڈکراتا رہا۔”
چچا کی ویگن کی کیا بات ہے، پوری کرشمہ کپور ہے۔’
‘ہاں ناں نکڑ پر گالیاں دینے والی بوڑھی جیسی کرشمہ کپور۔ ‘
اتنا تو ہمارا کوڑھی کتا نہیں ہانپتا، جتنی چچا کی کرشمہ کپور ہانپتی ہے’
‘اچھا یہ بات ہے، اگلی فلم دیکھنے آنا، آوارہ کتے کی طرح بھگا نہ دیا، تو میرا نام بدل دینا’ ‘چھوڑو تمھارا نام پہلے ہی بدلا ہوا ہے۔ تمھارا اصلی نام تو تمھارے ماں باپ بھی نہیں جانتے’
استاد صاحب کی آمد ہو گئی۔ بحث کے زور شور میں کسی نے توجہ نہیں دی۔
خاموش، حرامیو، کتے کی نسلو، سور کے جنو۔ یہ گرج سن کر سور کے جنے خاموش ہو گئے۔
‘جو شور کرتے ہیں، ان کی یہ، ان کی وہ’
‘سر جی، آپ کا بیٹا سب سے زیادہ شور مچا رہا تھا’
‘افوہ۔ آپ تو سب سے بڑے حرامی ہیں۔ ذرا ہاتھ باہر نکالیں۔
سب ہنسنے لگے اور پٹائی ہو گئی۔ پٹنے کے بعد کھسیانی سی ہنسی ہنسنے لگے۔ استاد کی نظر پڑ گئی۔ دو چار ڈنڈے اور پڑ گئے۔ پھر سر جھکا لیا اور رونے لگے۔ جیسے ہی سر اٹھا یا اس دفعہ بے باکی سے ہنسنے لگے۔
‘لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔’
وہی تشدد کو ہر مسئلے کا حل جاننا۔ جو گھروں، سکولوں۔ مسجدوں اور گلیوں میں ہر روز دہرایا جاتا تھا۔ ڈھیٹوں کی طرح مار کھانے کو شجاعت کے تمغے دیے جاتے اور ظالموں کی طرح مارنے کو ایک فضیلت سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت کو ہم لوگوں کو کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ سب کچھ غلط تھا۔ ہر زیادتی کو مذہب اور ثقافت کی حمایت حاصل تھی۔ وہ تو اب بھی لیکن سنا ہے سکول کچھ بہتر ہو گئے ہیں۔
پھر پڑھائی کا مرحلہ آ تا تھا۔ ‘جنھوں نے سکول کا کام نہیں کیا وہ مرغے بن جائیں۔’
اب مرغے بنے دل میں استاد کو گالیاں دے رہے ہیں۔ کچھ کو توہین کا ملال بھی ہے اور آئندہ سکول کا کام کرنے کا عزم ذلت اور تکلیف کا غم کم کررہا ہے۔ کچھ کو سکول کا کام کرنے والے سے گلہ ہے کہ سالے ڈر جاتے ہیں۔ پتا بھی ہے جتنے زیادہ ہوں گے، اتنی کم مار پڑے گی، لیکن اچھے بننے کے چکر میں سزا کے سلسلے کو اشتر کی دم کی طرح مختصر کرنے کے بجائے سزا کے سلسلے کو ان کی زلفوں کی طرح دراز کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ کچھ کانپتی ٹانگوں کو کوستے سزا کے ساتھ دھوکہ دہی میں مصروف ہیں۔
تعلیم کو ہماری ایذا کے ساتھ منسلک کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی مگر نظام تعلیم ایسا ہی تھا۔ صدیوں کی حماقت سے آزاد ہونا ہمیشہ سے انسانوں کے لیے انتہائی مشکل رہا ہے۔
‘سب کو معلوم ہے کہ نالائقی میں آپ کے خانوادے کا کوئی ثانی نہیں اور آپ پر پورا یقین ہے کہ آپ اس خاندانی اعزاز کو برقرار رکھنے کے پوری سعی کرتے ہیں لیکن پڑھنا بہت ضروری ہے۔ ذرا یہ نظم تو پڑھ کے سنائیں۔ مہربانی فرما کر ترجمے کی کوشش نہ کیجیے گا۔ کیونکہ پڑھنا بھی آپ کے شایان شان نہیں۔ لیکن کیا کریں، روزی روٹی ہی آپ کی صلاحیتوں کوجلا بخشنے سے جڑی ہے۔ تانبا ہو تو بھی کچھ بات ہے، یہ تو کوئی ایسی حرامی دھات ہے جس کا بدلنا کم ازکم انسانوں کی بس کی بات نہیں اور حیوان بھی یہ بیڑہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ چلیں پڑھیں
ابو بن ادھم، ابو بن ادھم، ابو بن ادھم (انگریزی کی ایک نظم ہوتی تھی)
اور کچھ نہیں لکھا
ابو بن ادھم، ابو بن ادھم واز، واز
اور استاد دانت پیستے ہوئے کہتے ہیں۔ رہنے دو، جیسا باپ ویسا بیٹا۔ یہ ہوتا ہے نتیجہ پانچ سو سوروں سے مباشرت کرنے کا۔ سر جی گالی نہ دیں۔
تو کیا ہار پہناؤں۔ یا کندھے پہ بٹھا کے نعرے لگاؤں۔
اس کے بعد استاد فر فر نظم پڑھتے ہیں۔ دیکھا یہ ہوتی ہے پڑھائی۔ ترجمہ گائیڈ میں دیکھ لینا۔
ایک سرگوشی ‘ میں نہ کہتا تھا کہ اس کنجر کو کچھ آتا جاتا ہی نہیں لیکن ہماری ہر وقت پٹائی کرتا رہتا ہے (خدا فردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے لیکن شک ہی ہے، وہ بہت بے باک تھے دامن یزداں بھی چاک کرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے، حساب کی گھڑی کچھ اُول فُول بک دیں گے)
کیا کہا سچ سچ بتاؤ؟
سر جی یہ چچا کی ویگن کو گالیاں دے رہا تھا
حرام کے پِلو، گالیاں دینا بہت ہی بری بات ہوتی ہے۔ آئندہ کسی نے گالی دی تو میں اس کتے کی زبان کھینچ لوں گا۔
اسی گالم گلوچ میں کلاس کا وقت ختم ہو جاتا تھا۔ پھر باری آتی تھی اردو کی جیسے کسی گندے نالے سے نکل کر کسی پارک میں آجائیں۔ مذہب اور فحاشی کا ایسا حسین امتزاج پھر دیکھنے میں نہیں آیا۔
تیرے کوچے میں بادشاہی کی تھی
ایہام گوئی؟ میں لیٹ آئی میں لیٹی تھی، وہ میرے اوپر لیٹا تھا حرامیو گندہ نہ سوچو میں لاڈ کے مارے اٹھ نہ سکی وہ میرا بیٹا تھا
جب سے آنکھ لگی ہے تب سے آنکھ نہیں لگی
ہائے کرشمہ کپور۔
تیری کرشمہ کپور کو میں جانتا ہوں، بچو تمھیں تو وہ کبھی بھی رشتہ نہ دیں گے۔
تمھیں تو جیسے مل گیا ہے ناں
پھر حُورانِ خلد کا تذکرہ، جن کی رانوں پہ بال بھی نہیں ہوتے تھے اور ساری رات حُوران خلد کی رانوں کے بارے میں سوچتے اور خواب دیکھتے گزر جاتی تھی۔

پھر باری آتی تھی ریاضی کی۔
بڑے بال شال سنوارے ہیں۔ مشقیں یاد ہیں کہ نہیں۔
جی سر یاد ہیں۔
ذرا یہ سوال تو حل کرو۔
اوہ یہ کم بخت سوال، ابھی تو یاد تھے، جانے کیوں بھول گئے۔
ابھی یاد کراتے ہیں۔
پھر وہی دھینگا مشتی۔ سر پر ڈنڈے، چہرے پر طمانچے۔ گھور مت، گھور مت۔ پھر وہ استاد پڑھاتے تھے۔ بس وہ دو چار جو لائق تھے، انھیں ہی کچھ تفہیم ہوتی تھی۔ نالائق تو جیویں جنگل وچ ڈھور۔ کرکٹ کے میچ کے بارے میں سوچتے وقت گزرتا تھا۔
رچرڈ ہیڈلی کی طرح آؤٹ سوئنگ کرانا سیکھ لیا ہے، یہ آؤٹ سوئنگ انھیں تو باولا کر دے گی۔
بڑے بیٹسمین بنتے ہیں۔
تو میں کیا کہہ رہاتھا
جی سر، کہ الجبرا حضرت ابن جوزی نے ایجاد کیا تھا  یہ ابن جوجی کون ہے؟
یہ ہوتا ہے جب نالائقوں سے دوستی کر لو۔ مہربانی فرما کر توجہ دیں۔ لگتا ہے گھر شکایت لگانی پڑے گی۔
پھر بیالوجی کی باری آتی تھی۔
او سر جی چھوڑیں بیالو شالوجی کو ایک سوال کا جواب تو دیں دنیا میں سب سے بد صورت تین آدمی کون ہیں؟
مجھے نہیں علم۔ تم ہی بتاؤ
ایک عطا اللہ خان عیسی خیلوی
چہرے پر مسکراہٹ
دوسرا شیشہ
ہنسی توقف تیسرا کون؟
تیسرے آپ انھیں اپنی بدصورتی کا گہرا احساس تھا۔ اس وقت ان کے ہاں جتنی روشنی تھی بجھ گئی تھی۔ اور ہم سب ہنسنے لگے۔ اب تو ہم بہت شرمندہ ہیں کہ اتنی کچرا بات کیوں کی۔ لیکن تذلیل کو ذریعہ تفاخر بنانا ان ہی لوگوں کا درس تھا اور ہم لوگ بھی تذلیل کرنا سیکھ گئے تھے۔ وہ ذرا شریف تھے اس لیے مشق ستم ہی رہتے تھے۔
سر یہ تو بتائیں کہ لکھا ہے انسان مٹی سے بنا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ انسان پانی سے بنا ہے۔ دونوں میں کون سی بات درست ہے؟
اس سوال کا جواب تو نہ ملا لیکن ہماری پٹائی ہو گئی کہ ذات خداوندی کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہو۔
اس عالم میں بیالوشالوجی میں دلچسپی کتنی دیر تک قائم رہتی؟ سو ختم ہو گئی۔ ہم بیت بازیوں میں گم ہو گئے۔

لام نستعلیق کا ہے اس بت خوشخط کی زلف
ہم بھی کافر ہوں گر بندے نہ ہوں اسلام کے

کہاں وہ خلوی جھلیاں، خلوی دیواریں اور فائیلم نیما ٹوڈا کی دشواریاں اور کہاں زلف جاناں کے خم سنوارنے کی آسانیاں۔ بہت سارے تھے جو اس کے باوجود خلوی جھلیوں سے لپٹے رہے۔ لیکن جہاں جہاں پڑھنے گئے، کسی کے پاس جواب نہ تھے، شعروں سے ہر کوئی مالا مال تھا۔ ایک دو شاید رازوں سے آشنا ہوئے لیکن پچاس ساٹھ میں ایک دو تو تعلیمی نظام کی کامیابی تو نہیں۔ پھر تفریح۔ سکول کی زندگی کا سب سے شاندار وقت۔ کھیل ہی کھیل۔ اور وہ کھیل اب بھی ساتھ ہیں۔

(جاری ہے)