گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کو درپیش خطرات

غلام الدین
غلام الدین

گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کو درپیش خطرات

از، غلام الدین

ماں اور ماں بولی ایک دوسرے کی پرچھائیاں ہیں لیکن ان کے ساتھ ہونے والا سلوک یکساں نہیں۔ ماں کے ساتھ ہمارا جذباتی تعلق تو زندگی کی آخری سانس تک رہتا ہے لیکن ماں بولی کے ساتھ ہمارا رویہ اسی دن سے تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے جس دن ہم ماں کی گود سے اتر کر پاؤں پاؤں چلنا شروع کرتے ہیں۔

ماں کی گود کو پہلی تربیت گاہ تو سب تسلیم کرتے ہیں لیکن جونہی ہم گھر کی چار دیواری سے باہر قدم رکھتے ہیں، اس کا پہلا درس فراموش کر دیتے ہیں۔ یہ درس اس کی بولی ہے جو کہیں ماحول کی نذر ہو جاتی ہے تو کبھی تعلیم کے جدید اصولوں اور تقاضوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کی عظمت تو اپنی جگہ آج بھی برقرار ہے لیکن ماں بولی اس قدر زوال پذیر ہے کہ اب تک سینکڑوں ماں بولیاں معدوم ہو چکی ہیں جب کہ ہزاروں آنے والے چند سالوں میں اپنا وجود کھو دیں گی۔

اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز ایجوکیشنل سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (یونیسکو) کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً 7097  زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے نصف کے قریب زبانیں رواں صدی کے اختتام تک نا پید ہوجائیں گی۔ اس کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ دنیا میں 40 فی صد افراد مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں یا وہ خود دور جدید کے تقاضو ں کے پیش نظر اپنی ماں بولی سے دور ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اہداف برائے 2030 کے حوالے سے یونیسکو کا کہنا ہے کہ ایس ڈی جیز SDGs کے 16 اہداف اس وقت تک نا مکمل  ہوں گے جب تک تمام ممالک ماں بولی کو نصابِ تعلیم کا حصہ نہیں بناتے۔

ماں بولیوں کو معدومیت سے بچانے اور ان کی ترویج کے لیے یونیسکو نے 21 فروری 1999 کو پہلی بار ماں بولی کے دن سے منسوب کیا اور اس دن تیزی سے  معدوم ہونے والی زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے لیے پروگرام منعقد کرنے شروع کیے۔ یونیسکو کے اقدامات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ محض ایک دن ماں بولیوں کے نام کرنا ان کے تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا کیوں کہ بیس سال گزرنے کے با وجود بہت کم ماں بولیاں ایسی ہیں جنہیں مقامی تعلیمی انصاب میں شامل کرایا جا سکا ہے۔ اس لیے یہ خطرہ اپنی جگہ موجود ہے کہ آئندہ 80 برسوں میں لا تعداد ماں بولیاں ذریعۂِ اظہار کے بجائے محض تاریخ کا حصہ بن چکی ہوں گی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں کم و بیش 74 علاقائی زبانیں اور بولیاں رائج ہیں لیکن تیزی سے بدلتے  ماحول اور تقاضوں کے پیشِ نظر ہر شخص اپنی ماں بولی کے بجائے اردو اور انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے اور انہی کو ذریعہ اظہار بنانے کا متمنی ہے۔

اور یہی وہ بنیادی خطرہ ہے جس سے تمام چھوٹی بڑی زبانیں اور بولیاں دوچار ہیں۔

ایک عام کہاوت ہے کہ ہر گیارہویں کوس پر کسی بھی زبان کا لہجہ، انداز اور بسا اوقات الفاظ کے معانی بھی بدل جاتے ہیں لیکن پاکستان کے شمالی علاقہ جات جنہیں گلگت بلتستان کہا جاتا ہے اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ متعدد تہذیبوں کے اس مسکن میں زبانیں بھی ایک دوسرے سے الگ شناخت اور پہچان رکھتی ہیں۔


متعلقہ تحریریں:

مادری زبان ایک ڈھکوسلا: ایک مکالمہ

کیا مادری زبانوں سے دُوری ہمیں بے رحم بناتی ہے؟


یہاں مجموعی طور پر 6 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں جو اپنے لہجے، انداز، الفاظ اور معانی میں ایک دوسرے سے یک سر مختلف ہیں۔ ان میں  شینا، بلتی، کھوار، بروشسکی، وخی، ڈوماکی ،گجری یا گوجری اور کاشغری شامل ہیں جب کہ گلگت بلتستان سے ملحقہ علاقے کشمیر میں کشمیری، کوہستان میں میان جب کہ چترال میں کھوار، کیلاشہ یا کالاشہ اور پھلورا بولی جاتی ہیں۔

معروف ماہر آثارِ قدیمہ اورمحقق ڈاکٹر احمد حسن دانی کے مطابق دریائے سندھ کے بالائی علاقوں اور کوہِ ہندو کش کے دامن  میں بولی جانے والی زبانیں کھوار، شینا، میان، کالاشہ، کوہستانی، پھلورا، کشمیری اور افغانستان میں بولی جانے والی بعض زبانیں داردی یا داردک کہلاتی ہیں جب کہ بروشسکی، واخی، بلتی اور ڈوماکی کو غیر داردی زبانوں میں شامل کیا گیا ہے۔

ایک اور تحقیق کے مطابق چترالی زبانیں کھوار، کالاشہ، یدغہ، پھالولہ، کوہستانی زبانیں کالامی، توروالی، کلکوٹی،انڈس کوہستانی زبانیں بٹیری، چیلیسو، گاوری، ووٹاپوری-کٹارقلای، تیراہی اور شینا زبانیں اوشوجو، ڈوماکی، پھالولہ اور ساوی کا شمار داردی زبانوں میں ہوتا ہے۔

ان میں سے بعض کی گرامر، قواعد و ضوابط اور لغات تک موجود ہیں لیکن ان کے تحفظ و ترویج کو ہنوز خطرات لاحق  ہیں کیوں کہ اس سلسلے میں کسی قسم کے عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔

گلگت بلتستان میں بولی جانے والی زبانوں اور بولیوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

شینا زبان

شینا زبان گلگت، دیامر، استور، غذر، ہنزہ، نگر، بلتستان، چترال اور کوہستان کے علاوہ   آزاد و مقبوضہ کشمیر کے بعض علاقوں میں بولی جاتی ہے۔

معروف ادیب اور شینا قاعدہ کے بانی عبدالخالق تاج کے مطابق “شینا زبان کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے جب کہ آثارِ قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شینا، سنسکرت کی ایک شاخ ہے۔”

“فورم فار لنگویج انِیشی ایٹِو” کے ٹریننگ کوارڈینیٹر امیر حیدر کہتے ہیں کہ “گلگت بلتستان کے طول و ارض میں پھیلی چٹانوں پر کندہ نقش و نگار سے معلوم ہوتا ہے کہ شینا زبان کی تاریخ تین سے پانچ ہزار سال قدیم ہو سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 12 سے 13 زبانیں شینا کے بطن سے پیدا ہوئی ہیں۔”

شینا زبان کے ایک اور نام ور محقق زبیر توروالی  کے مطابق “شینا شمالی پاکستان کی داردی زبانوں کی ماں کہلاتی ہے۔” لوٹس سترا یا گلگت بلتستان  مینوسکرپٹ اب تک پڑھا نہیں جا سکا لیکن مستقبل میں جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ان نقش و نگار اور تحریروں کے پڑھ لیے جانے کی صورت میں خطے کی قدیم تاریخی معلومات کا ایک نیا خزانہ مل سکتا ہے۔

“فورم فار لنگویج انیشی ایٹو” کے سروے کے مطابق گلگت میں بعض والدین کی جانب سے بچوں سے شینا زبان میں گفتگو ترک کر دینا تشویش ناک امر ہے۔ امیر حیدر اس بارے میں کہتے ہیں کہ انٹرجنریشنل ٹرانسمیشن ہی زبان کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کارگل، دراس اور لداخ میں شینا زبان درسی کتب میں شامل ہے جس کے باعث بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شینا ادب پر بے پناہ کا م ہوا ہے۔”

شینا زبان  کے مقبول شعراء میں امین ضیا، عبدالخالق تاج، غلام نصیر المعروف بابا چلاسی، رحمت جان ملنگ، فضل الرحمان عالم گیر، عزیزالرحمن ملنگی،جان علی، ظفر وقارتاج، عقیل خان، عطااللہ اثر، نذیر حسین نذیر، شیر خان نگری  وغیرہ شامل ہیں۔

عزیزالرحمن ملنگی شینا زبان کے واحد  صاحب دیوان شاعر ہیں جب کہ عصرِ حاضر کے ہر دل عزیز شاعر ظفر وقار تاج   دو مجموعے اشاعتی مراحل میں ہیں۔ معروف محقق شکیل احمد نے لوک داستانوں پر مبنی  “دادی شلوکے اول اور دادی شلوکے دوم ” شائع کر کے شینا زبان کی تحریروں میں اہم اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح ممتاز محقق شاہ مرزا نے قرآنِ پاک کا شینا زبان میں ترجمہ کر کے نا قابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔

ماہرِ لسانیات ڈاکٹر طارق رحمان کے مطابق قراقرم رائٹرز فورم کے پلیٹ فارم سے امین ضیا، ایس ایم ناموس اور عبدالخالق تاج نے فارسی کے حروف تبدیل کر کے شینا آرتھوگرافی مرتب کی۔ معروف ادیب اور ماہر تعلیم امین ضیا کا شمار شینا زبان کے اولین محققین میں ہوتا ہے جنہوں نے شینا گرامر مرتب کی اور شینا ڈکشنری کی اشاعت کو یقینی بنایا۔

شینا میں لوک گیت، لوک داستانوں اور شاعری پر مقامی شعرا اور ادیبوں کے علاوہ غیر ملکی محققین نے بھی شان دار کام کیا ہے جن میں جرمن اسکالر پروفیسر جی بڈرس سرِ فہرست ہیں لیکن یہ سب انفرادی طور پر ہوا ہے۔

وادئِ استور کا شمار علم و ادب کے اعتبار سے گلگت بلتستان کے ہر اول دستے میں ہوتا ہے۔ یہاں کے باسیوں محمد ظہیر سحر اور سلمان پارس نے شینا زبان میں شاعری  ضرور کی ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی یہاں کے سخن دوست حلقوں نے شینا پرکوئی قابلِ ذکرکام نہیں کیا۔

کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج  کا انحصار رسم الخط پر ہوتا ہے لیکن  شینا کا کوئی علیحدہ رسم الخط نہیں اور اب تک اسے شاہ مکھی یا نستعلیق میں ہی لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ہزاروں سال قدیم اس زبان پر تحقیقی کام بہت پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا لیکن بد قسمتی سے یہ بھی  80 کی دھائی سے شروع ہوا۔

شینا کی ترویج میں پاکستان کے سرکاری نشریاتی اداروں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

ماہرِ لسانیات ڈاکٹر طارق رحمان کے مطابق سب سے پہلے 1949 میں ریڈیو پاکستان راول پنڈی جب کہ 1979 سے ریڈیو پاکستان گلگت سے شینا زبان میں پروگرام نشر ہونے لگے جب کہ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن بھی شینا میں خبریں نشر کر رہا ہے۔ گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں مقیم شینا بولنے والے افراد تسلسل کے ساتھ ادبی و موسیقی کی محفلوں کے ذریعے ماں بولی سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

بلتی زبان

بلتی، گلگت بلتستان کی دوسری بڑی زبان ہے۔ تبت خورد یعنی بلتستان 4 اضلاع پر مشتمل ہے جہاں کے تقریباً 95 فی صد باشندےبلتی بولتے ہیں لیکن اسکردو کے قریبی قصبے روندو سمیت بلتستان کے ایک درجن سے زائد دیہات ایسے بھی ہیں جہاں شینا بھی بولی جاتی ہے۔

بلتی در حقیقت تبتی زبان کی ایک بولی ہے اور اس کی تاریخ بھی ہزاروں سال پرانی تبتی تہذیب سے ملتی ہے۔ مغربی محقق بیکسٹروم کے مطابق بلتی بولنے والے اپنی زبان سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اسے کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں۔

معروف محقق اور دانش ور یوسف حسین آبادی کے مطابق ساتویں صدی عیسوی  یعنی632 تا 652 کے درمیان اگے کے نام سے بلتی کا اپنا رسم الخط مرتب کیا گیا۔ 1381 کے بعد مبلغین اور صوفیا کی آمد کے ساتھ خطے میں فارسی  اور عربی کو فوقیت ملی اور اگے معدوم ہوتے ہوتے متروک ہو گیا۔ اگے کے بجائے فارسی اسکرپٹ متبادل رسم الخط کے طور پر رائج ہوا جب کہ اگے کے متروک ہونے کا ایک سبب ریاست کے حکم رانوں کی جانب سے بلتی کے بجائے فارسی  کو ریاستی زبان کا درجہ دینابھی تھا۔

مغربی محقق اے ایف سی ریڈ کے مطابق عیسائی مشنریوں نے 1915 سے 1938 کے درمیان فارسی اسکرپٹ کی مدد سے بائیبل کا بلتی میں ترجمہ کیا۔ بعد ازاں بلتی کے معروف محقق خلیل الرحمٰن نے فارسی اسکرپٹ کی مدد سے بلتی زبان کا پرائمر اور گرامر مرتب کی۔ اُن کے بعد ان کے جانشین محمد یوسف نے بلتی پرائمر میں تبدیلی کی جب کہ آنے والے برسوں میں مقامی باشندوں نے بلتی زبان میں شاعری اور ادب پر بہت کام کیا۔

تقریبا 600 برس بعد 80 کی دھائی میں بلتی زبان کے نام ور محقق یوسف حسین آبادی نے بلتی اسکرپٹ “اگے” کو دو بارہ دریافت کیا اور بلتی زبان میں 30 حروفِ تہجی پر مشتمل قاعدہ مرتب کیا گیا۔ یوسف حسین آبادی کا کہنا ہے کہ “اگے” اسکرپٹ تبت، لداخ، سکم، بھوٹان اور بلتستان میں رائج تھا جس کے ذریعے بلتی ادب کو بے پناہ فروغ ملا، تاہم بلتی زبان میں فارسی اسکرپٹ کے متعارف ہونے کے بعد ادب کا ذخیرہ اسی اسکرپٹ کے تحت چلا آ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت اگے استعمال کرنے والوں کی تعداد سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

یوسف حسین آبادی گلگت بلتستان میں علاقائی زبانوں کو نصاب میں شامل کرنے کے حوالے سے تشکیل پانے والے بورڈ کی کمیٹی میں بلتی زبان کی نمائندگی کر رہے ہیں جب کہ کمیٹی میں محمد حسن حسرت اور معروف صحافی محمد قاسم نسیم بھی شامل ہیں۔ کمیٹی نے بلتی زبان میں عہدِ حاضر  میں مرتب کیے جانے والے ادبی ذخیرے کو مد نظر رکھتے ہوئےنصاب میں فارسی اسکرپٹ رائج کرنے کی سفارش کی اور بلتی قاعدہ مرتب کر کے مزکزی کمیٹی کے سپرد کیا ہے۔

قدیم “اگے” اسکرپٹ کو نصاب کا حصہ نہ بنانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فی الفور “اگے” اسکرپٹ قابل عمل نہیں تاہم آگے چل کر بلتی زبان کا تاریخی رسم الخط نصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہماری نو جوان نسل فارسی اور اگے دونوں طرح کے اسکرپٹ سے مستفید ہو سکتی ہے۔

یوسف حسین آبادی کی تصانیف میں بلتستان پر ایک نظر، تاریخِ بلتستان، بلتی زبان کے عنوان سے کِتابچَہ اور قرآن مجید کا بلتی زبان میں ترجمہ شامل ہے۔ قدیم بلتی رسم الخط “اگے” کا قاعدہ بلتستان پر ایک نظر اور تاریخ بلتستان، دونوں تصانیف کا حصہ ہے۔

یہاں اس امر کا تذکرہ بے حد ضروری ہے کہ کسی بھی تہذیب کا ورثہ مختلف تاریخی حالات و واقعات کے نتیجے میں معدوم ہونا یا ختم ہونا بڑا المیہ ہوتا ہے اور یہی کچھ شمالی اور وسطی امریکا کی مایا تہذیب کے ساتھ ہوا۔ مایا کے وارث میسو آج بھی قدیم روایات پر عمل کرتے ہیں مگر مایا تہذیب کے پیچیدہ رسم الخط کو بھول چکے ہیں۔ ایسا ہی بلتستان کےقدیم بلتی رسم الخط”اگے”  ساتھ ہوا۔

معروف شاعر حسن حسرت کا کہنا ہے کہ بلتستان میں اشاعتِ اسلام کے بعد فارسی اور عربی ادب کو بے حد فروغ ملا، یوں قدیم اسکرپٹ متروک ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے تہذبیں اپنی ارتقا کے ساتھ ابلاغ کے عمل کو بھی متاثر کرتیں ہیں، بلتی زبان کا رسم الخط بدل تو گیا لیکن زبان اپنی جگہ موجود ہے اور بلتی زبان میں 100 سے زائد کتابوں کی اشاعت اس کی تشخص کو مزید مستحکم کرتی ہے۔

حسن حسرت زبانوں کی معدومیت کے تصور کو نہیں مانتے  وہ کہتے ہیں کہ ڈیجٹل دور میں تو زبان کی زیادہ سے زیادہ پرچار ہو رہی ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والی اقوام بڑی زبانوں میں ابلاغ کے علاوہ مادری زبان یا بولی میں بات چیت کو ترجیح دیتی ہیں۔

یوسف حسین آبادی  کے مطابق بلتی زبان کے قابل ذکر شعراء میں حسین علی محب، عباس علی شاہ، جوہر علی جوہر، غلام مہدی مرغوب، راجہ محمد علی شاہ صبا، شیخ غلام حسین سحر، اخوند محمد حسین حکیم، غلام مہدی شاہد، احسان علی دانش، فرمان علی خیال، رضا بیگ گائل اور ذیشان مہدی ذیشان شامل ہیں جب کہ نثر نگار افضل روش  نے بلتی زبان میں افسانہ اور غلام حسن لوبسنگ نے اقوالِ زریں مرتب کرکے ماں بولی کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

کھوار زبان

محققین کی ایک بڑی تعداد ضلع غذر اور چترال میں بولی  جانے والی کھوار کو داردی زبانوں میں شامل کرتی ہے۔

ڈاکٹر طارق رحمٰن کی تحقیق کے مطابق 1680 میں پہلی مرتبہ معروف شاعر عطالیق محمد شاہین نے کھوار زبان میں فارسی اسکرپٹ کی مدد سے اشعار تخلیق کیے اور انہیں اپنی فارسی تصنیف کا حصہ بنایا۔ 1892 میں برطانوی فوج کے کیپٹن ڈی جے ٹی اوبرائن نے رومن اسکرپٹ کی مدد سےکھوار زبان کے الفاظ کی ایک فہرست مرتب کی۔ بعد ازاں پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر کے ایک ملازم عبدالحکیم خان نے “گنج پشتو” کا ترجمہ کھوار میں کیا، لیکن اس کے لیے بھی انہیں رومن اسکرپٹ کا سہارا لینا پڑا۔

کھوار کے حوالے سے ایک اور اہم کام محمد اسماعیل سولان نے کیا ہے جنہوں نے کھوار انگلش ڈکشنری مرتب کی۔

کھوار زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے ناصرالملک، مرزا محمد غفران اور وزیرخان کاکام بھی قابل تحسین ہے ۔ اس کے علاوہ انجمن ترقی کھوار کے پلیٹ فارم سے بھی کھوار کی ترقی کے لیےنمایاں کام ہوا ہے۔

تاجِ برطانیہ کے دور میں ان علاقوں میں تعینات افسران پر لازم تھا کہ وہ پوسٹنگ کے تین ماہ کے اندر مقامی زبان سیکھیں بَہ صورتِ دیگر سزا کے طور پر گشت الاؤنس سے محروم رہیں گے۔ تاجِ برطانیہ کے دور کے علاوہ بھی افسر شاہی پر لازم تھا کہ وہ مقامی زبان سیکھیں تا کہ مقامیوں کے مسائل سنے جائیں۔ تاج برطانیہ کے دور کی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ چترال اسکاؤٹس کے لیے کھوار زبان کا امتحان پاس کرنا لازمی تھا۔

کھوار زبان پر انفرادی طور پر بہت کام ہوا ہے لیکن سرکاری سطح پر اس کی ترویج کے لیے کسی قسم کے فنڈز مختص نہیں کیے گئے تاہم کھوار زبان میں ریڈیو نشریات کا آغاز 1965 میں ہوا لیکن سرکاری ٹی وی پر کھوار کووقت نہ مل سکا۔

چترال سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب و محقق ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے کھوار کی ترقی و ترویج پر بہت کام کیا ہے۔ عنایت اللہ فیضی کے مطابق کھوار زبان کے حروفِ تہجی کی تعداد 36 ہے جن میں سے 26 عربی، 4 اردو جب کہ 6 حروفِ خالص کھوار زبان سے ماخوذ ہیں۔

کھوار قاعدہ 1921 میں پہلی بار ناصر الملک نے لاہور سے شائع کیا۔ 1957 میں انجمن ترقی کھوار کا قیام عمل میں لایا گیا جب کہ اسکولوں کے لیے کھوار کی پہلی کتاب 1962 میں شائع ہوئی۔ عنایت اللہ فیضی کے مطابق کھوار نثر میں 60 اور شاعری میں 115 کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر احمد حسن دانی کے مطابق کھوار کا ادب 1917 سے 70 کی دھائی تک عربی اسکرپٹ میں شائع کیا جاتا رہا۔ 80 کی دھائی میں پشاور یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم طلبہ نےکھوار میں “ترچھ میر” (ترچ میر) کے نام سے ایک میگزین شائع کیا تاہم وہ بھی زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا۔

 80 کی دھائی سے انجمن ترقی کھوار کے زیر نگرانی کھوار زبان میں سالانہ ثقافتی میلے، مشاعرے، کانفرنس اور کتابیں شائع کی جارہی ہیں۔ کھوار کے مقبول شعراء میں بلبل چترال امیر گل، امین الرحمان چغتائی، مولا نگاہ، عنایت اللہ جلیل، اقبال حیات، محمد سیار، مرزا علی جان، مہربان الہیٰ، خالد بن ولی، جاوید حیات، گل مراد حسرت وغیرہ شامل ہیں۔

کھوار کے نام ور محقق ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق  معروف شعراء و مصنفین کی تصانیف میں ناجی خان ناجی کی کھوار اردو لغت، پروفیسر اسرار الدین کا ملکھوں سلامی کے نام سے ڈرامہ، گل مراد خان حسرت اور یوسف شہزاد کا افسانہ، نقیب اللہ رازی کا عروض و قوافی، شہزادہ عزیز الرحمن کا شع مجموعہ گداز، امین الرحمن کی تھک نہ تھکی جب کہ اسلامی کتب میں شہزادہ صمصام الملک کی سیرت النبی اورقاری برزگ شاہ الازہری کا قرآن مجید کا کھوار زبان میں ترجمہ شامل ہیں ۔ حال ہی میں معروف مصنف ظفراللہ پروان نے “انگرستانو “کے نام سے افسانہ لکھ کر کھوار زبان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ضلع غذر میں کھوار کے نامور شعرا اور ادیبوں میں سید مراد علی شاہ عاجز، جاوید حیات کاکاخیل، سرفراز شاہ جندروٹ اور شمس الحق نواز کے نام سرِ فہرست ہیں۔ جاوید حیات کاکاخیل کا مجموعہ کلام “گرزین” 2018 میں شائع ہوا ہے۔ چترال اور غذر کے علاوہ کھوار سوات، سنکیانگ، پامیر کلاں اور پرون افغانستان میں بھی مادری زبان کے طور پر بولی جاتی ہے۔

علاقائی زبانوں کی ترویج کے لیے خیبر پختون خوا اسمبلی نے 2011 میں دیگر بڑی زبانوں کی طرح کھوار کو بھی اول جماعت سے اعلیٰ ثانوی تک نصاب کا حصہ بنانے کا بل پاس کیا۔ نصاب پر 2013 تک کام ہوا تاہم اسی سال پی ٹی آئی حکومت قائم ہوتے ہی نصاب پر کام بند ہو گیا۔ عنایت اللہ فیضی کے مطابق مئی 2018 میں نگراں حکومت نے نصاب پر دو بارہ کام شروع کرایا اور اس وقت پہلی اور دوسری جماعت کی کتابیں نظرِ ثانی اور چھپائی کے مراحل میں ہیں۔

بروشسکی زبان

ہنزہ، نگر، غذر اور گلگت میں سمجھی اور بولی جانے والی بروشسکی کو محققین نے غیر داردی زبانوں میں شامل کیا ہے۔

ریاست ہنزہ کے حکم ران بروشو رہے ہیں لیکن عدالتی اور دفتری زبان فارسی رہی ہے جس کے باعث کوئی علیحدہ اسکرپٹ مرتب نہ ہو سکا۔مغربی محققین نے البتہ بروشسکی زبان پر مختلف ادوار میں بھر پُور انداز میں کام کیا جن میں جی ڈبلیو لیٹنر، بیڈلف، بیکسٹروم ،لوری مر اور ہرمن برجر قابلِ ذکر ہیں۔

جی ڈبلیو لیٹنر نے 1889 میں بروشسکی زبان میں رومن اسکرپٹ متعارف کرایا جب کہ ان کے جانشین بیڈلف نے اسے مزید بہتر بنایا۔ ڈاکٹر طارق رحمن کے مطابق 1936 تک معروف یورپی محقق لوریمر نے دیگر علاقائی زبانوں کی  طرح بروشسکی پر بھی تحقیق کے عمل کو جامع انداز میں آگے بڑھایا۔ بعد ازاں ہنزہ کی معروف شخصیت حاجی قدرت اللہ بیگ نے رومن اور اردو کی مدد سے بروشسکی رسم الخط مرتب کرنے کی کوشش کی لیکن اُن کی یہ کاوش کار گر ثابت نہ ہو سکی۔

سن 1940 سے بروشسکی زبان کے معروف محقق، ادیب اور  صوفی شاعر علامہ نصیرالدین ہنزائی نے صوفیانہ کلام اور نثری کتب کے  ذریعے بروشسکی زبان کی ترقی اور ترویج میں اہم کردار ادا کیا اور وطنیت پر بھر پُور انداز میں شعر کہے۔  موصوف 100 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے اور بروشسکی زبان کے پہلے صاحب دیوان شاعر کہلاتے ہیں۔ علامہ نصیرالدین ہنزائی نے نجی سطح پر بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا جس کی سرپرستی میں مختلف تصانیف کی اشاعت کو ممکن بنایا گیا۔

معروف محقق ہرمن برجر نے جرمنی کی مشہور جامعہ ہائیڈل برگ میں علامہ نصیرالدین کی معاونت سے بروشسکی زبان میں تین جلدوں پر مبنی ڈکشنری کی اشاعت کو ممکن بنایا۔ پروفیسر اسلم ندیم کے مطابق علامہ نصیرالدین ہنزائی نے بھی فارسی، عربی، سامی، ہندی، اردو  اور سنسکرت کی مددسے بروشسکی رسمُ الخط مرتب کیا۔ علامہ نصیرالدین ہنزائی کے مطابق بروشسکی زبان کے دو الفاظ “گرمنس” لکھنا اور “غہ تنس” پڑھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بروشسکی زبان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

ڈاکٹر احمد حسن دانی گو 17 زبانوں اور بولیوں کو بولتے اور سمجھتے تھے لیکن وہ ہنزہ کے قدیم گاؤں گنش کے قریب واقع آثارِ قدیمہ “دونگیں دس” میں پتھروں پر تراشے گئے نقش و نگار پڑھ نہیں پائے۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ نقش و نگار بروشسکی رسم الخط میں ہوسکتے ہیں۔ اگر مستقبل میں جدید سائنسی آلات اور مزیدتحقیق کے ذریعے بروشسکی زبان کے قدیم رسم الخط کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ  بروشو اپنے تاریخی ورثے اور علم کے حوالے سے محروم ہو چکے ہیں۔

بروشسکی زبان میں صوفیانہ کلام کے حوالے سے دوسرا بڑا نام غلام الدین ہنزائی کا ہے جو علامہ نصیرالدین ہنزائی کے ہم عصر شاعر ہیں۔ غلام الدین ہنزائی صاحب  دیوان شاعر ہیں اور ان کا شب و روز مطالعہ اور تحقیق میں گزرتا ہے۔ معروف محققین فداعلی ایثار اور ڈاکٹر نجیب اللہ نجیب نے بھی بروشسکی زبان میں صوفیانہ شاعری کے علاوہ غزلیں بھی تخلیق کی ہیں۔

عصر حاضر میں عاجر کریم بھی صوفیانہ کلام کے باعث خاصے مقبول ہیں۔ وادئِ ہنزہ سے بروشسکی زبان میں  رومانوی شاعری کے حوالے سے ہمایوں شاہ، استاد غلام عباس حسن آبادی، شیرباز علی خان، سلطان علی، شاہد اختر، منیم داور، عمران ہنزائی اور رحیم حیات ہنزائی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

وادی یاسین میں بروشسکی شاعری پر بہت کام ہوا ہے۔ معروف شاعر بشارت شفیع کی تصنیف طباعت کے مرحلے میں ہے۔ اس کے علاوہ شیرماچی، جمائل، عبدالمالک، علی مدد بائی، مایون، نیت شاہ قلندر، بلبل یاسین،نادر شاہی، آصف علی اشرف، ریاض ساقی، فخرالدین، گل نایاب، عاصم شکست، عبدالکریم کریمی، جمشید فگار، عمران نسرند، فخر فانی، دلدار علی دلدار، محمد رحیم بیگانہ، انور امین، علی احمد جان، محبوب یاسینی، اشفاق علی، اور عابد علی شاہ بروشسکی میں معیاری کلام کے ذریعے زبان کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

وادئِ یاسین سے تعلق رکھنے والے محقق ایڈوکیٹ وزیر شفیع نے بروشسکی زبان کے قواعد، قدیم الفاظ کی تدوین اور اسکرپٹ پر کام کیا ہے۔ ان کی تصنیف “بروشسکی رژن” جامعہ کراچی کے شعبۂِ تصنیف و تالیف سے شائع ہوئی۔ وادئِ نگر میں بروشسکی زبان میں آغا سید محمد یحیی شاہ  کے محاورے جنہیں سیاسی و سماجی محفلوں میں استعمال تو کیا جاتا ہے لیکن انہیں کتابی شکل نہیں دی گئی۔

وادی نگر میں بروشسکی مرثیہ نگاری پر  بہت کام ہوا ہے۔ مرثیہ نگاری میں اسماعیل ناشاد، محمد علی نون، شیخ محسنی اور احسان علی سرِ فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ احسان علی شینا میں بھی اشعار کہتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان گلگت سے بروشسکی زبان میں خبر نامہ، ڈرامے اور دیگر پروگرام تسلسل سے نشر کیے جا رہے ہیں،  اس کے علاوہ مختلف انجمنیں بروشسکی زبان میں ادبی و ثقافتی محفلوں کا انعقاد کرتی ہیں۔

بروشسکی پر تحقیق کرنے والے امیر حیدر کا کہنا ہے کہ “فورم فار لنگویج انیشی ایٹو کے حالیہ سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ ہنزہ میں بروشسکی بولنے والے افراد اردو اور انگریزی میں اظہارکو ترجیح دے رہے ہیں جب کہ غذر میں آہستہ آہستہ بروشسکی پر کھوار زبان کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔”

وخی زبان

وخی زبان بالائی چترال، بالائی غذر اور بالائی ہنزہ کے علاوہ افغانستان میں واقع واخان کی پٹی، چین، روس اور ترکی میں بھی بولی جاتی ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ ان تمام علاقوں کی بولی میں کوئی خاص فرق نہیں۔ ڈاکٹر احمد حسن دانی پشتو اور بلوچی کی طرح وخی زبان کو بھی قدیم ایرانی گروپ میں شامل کرتے ہیں لیکن ان کے مطابق اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وخی بولنے والوں کا تعلق ایران سے ہے۔

ڈاکٹر طارق رحمان کے مطابق 80 کی دھائی تک وخی کا کوئی منفرد اسکرپٹ سامنے نہیں آیا تھا تاہم وخی زبان کے معروف محقق حقیقت علی نے رومن کی مدد سے پہلا وخی پرائمر مرتب کیا۔ اُن کے  جانشین احمد جامی نے فارسی حروف کی مدد سے وخی زبان میں علیحدہ پرائمر مرتب کیا۔ 80 کی دھائی میں کراچی میں زیرِ تعلیم طلبہ نے فارسی اسکرپٹ کی مدد سے “واخ” نامی ایک مجلہ شائع کیا۔  ماہرِ لسانیات فضل امین کے مطابق 1991 میں واخی زبان کی ترویج کے لیے وخی تاجک کلچرل ایسوسی ایشن کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا گیا؛ بانی صدر رائے غلام الدین تھے، ان کے بعد ابو زر علی اور شوکت علی کے پاس ادارے کی صدارت رہی حال ہی میں سرور خان صدر جب کہ فضل امین بیگ کو نائب صدر چنا گیا ہے۔ یہ ادار ہ تسلسل کے ساتھ مشاعروں اور ثقافتی میلوں کا انعقاد کرتا ہے جس میں سرحد پار سے بھی کثیر تعداد میں وخی زبان سے محبت کرنے والے افراد شریک ہوتے ہیں۔

گلگت بلتستان سے وخی زبان کے نامور شعرا میں عصمت اللہ مشفق، نذیر احمد بلبل، سیف الدین سیف، سفر محمد افغان، فضل امین بیگ، احمد ریاض، غلام مصطفی، حسن علی ساگر، شاہد علی یخسوز، امان اللہ ناچیز، سعادت شاہ سعادت، تاجکستان سے شیر علی، افغانستان سے بخت علی، چین سے زنجیر بیگ جبکہ روس سے سنگین مراد سَرِ فہرست ہیں۔

 1993 میں ریڈیو پاکستان گلگت سے وخی زبان میں نشریات کا آغاز ہوا۔ معروف محقق بیکسٹروم کے مطابق واخی بولنے والے اپنی زبان میں اظہار و ابلاغ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے بھی اسی کو جاری رکھیں۔

سرحد پار واخان، تاجکستان اور روس میں وخی زبان پر بے پناہ کام ہوا ہے۔ وخی زبان میں ڈاکٹریٹ کرنے  والے محققین میں پروفیسر ڈاکٹر بخشو لشکر بیکوف، ڈاکٹر عزیز میر بابا اور ڈاکٹر عید محمد سَرِ فہرست ہیں۔ ماہرِ لسانیات فضل امین بیگ کا کہنا ہے کہ محققین نے وخی زبان پر تحقیق کے لیے لاطینو-گریک اسکرپٹ کا سہارا لیا ہے لیکن  پروفیسر ڈاکٹر بخشو لشکر بیکوف عشروں پر محیط تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر وخی سمیت دنیا کی تمام چھوٹی زبانوں کو زندہ رکھنا مقصود ہے تو انہیں انگلسائزڈ اسکرپٹ کو اپنا نا ہو گا۔ موصوف کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے حال ہی میں فلوریڈا یونیورسٹی میں ٹودہیو نامی محقق نے وخی زبان میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ انگلسائزڈ اسکرپٹ میں لکھا ہے۔ وخی زبان کے محققین کا کہنا ہے کہ تاجکستان اور روس  میں انگلسائزڈ اسکرپٹ کو لاطینو-گریک اسکرپٹ پر ترجیح دی جارہی ہے۔ مرحوم ڈاکٹر عید محمد کا تعلق تاجک واخان سے تھا۔ ڈاکٹر عید محمد کو وخی ساؤنڈز اور گرامر پر عبور تھا۔ اس کے علاوہ روس سے ڈاکٹر پاکھالینہ نے پامیری بولیوں پر تحقیق کی ہے جن میں رونی، اشکومنی، سراقولی، شوگنی، روشونی، قابلِ ذکر ہیں۔ ماہر لسانیات فضل امین بیگ کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر اعید محمد کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں وخی پر اردو اور فارسی، جب کہ تاجکستان میں روسی زبان کا اثر نظر آتا ہے۔

فضل امین بیگ لکھتے ہیں کہ بروشسکی اور داردک زبانوں  میں وخی کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وخی زبان کے 43 ساؤنڈز جنوبی اور  وسطی خطوں کے علاوہ چین اور یورپ میں ایک پل کا کردار ادا کرسکتےہیں۔

 ڈوماکی زبان

محققین کے مطابق ڈوماکی انڈو-آرین گروپ میں آتی ہے جس پر بروشسکی کے اثرات زیادہ نظر آتے ہیں لیکن ڈی آر لوریمر نے 1950 میں اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ ڈوماکی تیزی سے معدوم ہو رہی ہے۔ معروف ماہرِ لسانیات ڈاکٹر طارق رحمان نے اپنی کتاب “لینگویج اینڈ پولیٹکس ان پاکستان” میں بھی اس کی نشان دہی کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ڈوماکی بولنے والوں کی تعداد بَہ مشکل 500 ہے اور اس کا شمار پاکستان میں تیزی سے معدوم ہونے والی زبانوں میں ہوتا ہے۔ لیکن تازہ ترین اعدا و شمار کے مطابق گلگت بلتستان میں ڈوماکی بولنے والوں کی بعداد تقریباً دو سو کے لگ بھگ رہ گئی  ہے۔

بیکسڑوم کے مطابق ہنزہ میں آباد ڈوماکی زبان بولنے والے اپنی زبان میں ابلاغ کو پسند نہیں کرتے اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بروشسکی یا اردو میں گفتگو کریں۔ ہنزہ، نگر  سمیت گلگت بلتستان کے حکم رانوں نے ڈوماکی بولنے والوں کو عوام کی خدمت کے لیے مختلف علاقوں میں بسایا تا کہ وہ اوزار سازی کے علاوہ علاقائی تہوار اور شادی بیاہ میں موسیقی کے آلات بجا کر حاضرین کو محظوظ کر سکیں، نیز تعلیم اور دیگر شعبوں میں شمولیت سے بھی دور رکھا گیا۔

بد قسمتی سے ڈوماکی بولنے والوں کو سماج میں وہ مقام نہیں ملا جو دیگر قبائل کو حاصل رہا۔ باالفاظ دیگر ڈوماکی بولنے والوں کا ہر سطح پر استحصال ہوتا رہا اور یہ لوگ اپنی محرومیوں کو کم کرنے کی خاطر شینا، بروشسکی، واخی، کھوار اور بلتی میں ابلاغ کو ترجیح دیتے رہے۔ یہ وہ سماجی جبر تھا جس کے باعث ڈوماکی زبان بولنے والے اپنی تشخص کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔

عصرِ حاضر کی بات کی جائے تو  اچھوت سمجھا جانے والا ڈوم قبیلہ اب مکمل طور پر سماج میں ضم ہو چکا ہے اور اس پر عائد  تمام سماجی بندشیں ختم ہو چکی ہیں۔ اب ڈوم قبیلے کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر قبائل کے افراد کو حاصل ہیں۔ اس کے بَر عکس ہنزہ میں”مومن آباد” کے نام سے آج بھی ایک علیحدہ گاؤں مشہور ہے جہاں 100 فیصد ڈوم قبیلہ مقیم ہے لیکن بیش تر مکین ڈوماکی زبان بولنے سے کتراتے ہیں۔ راحت علی عالمی بینک سے وابستہ ہیں ان کا تعلق بھی ڈوم قبیلے سے ہے وہ کہتے ہیں کہ مومن آباد ہنزہ میں تقریباً 70 سے 80 گھرانے آباد ہیں جن میں صرف 7 سے 8 افراد کو ڈوماکی پر عبور حاصل ہے۔ وہ کہتے ہیں ڈوماکی زبان کی معدومیت کی بنیادی وجہ سماجی تفریق اور استحصال ہے۔ محققین کے مطابق اگر یہی صورتِ حال رہی تو ڈوماکی زبان آئندہ ایک عشرے میں مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔

گجری یا گوجری زبان

گجری، گجراتی یا گوجری زبان گلگت بلتستان، کوہستان، سوات، چترال، مانسہرہ ، پنجاب، آزاد اور بھارت کے زیرِ انتظام نتظام کشمیر کے علاوہ بھارتی گجرات میں کثرت سے بولی جاتی ہے۔ بھارت میں گوجری زبان کے لیے ہندی اسکرپٹ رائج ہے اور گوجری زبان میں فلمیں بھی بنی ہیں۔

پاکستان میں گجر کمیونٹی کی فلاح و بہود کے لیے گجر فورم ملک بھر میں کام کرتا ہے۔ سابق چیرمین ایل ڈی اے چوہدری عبدالحمید نے گجر برادری کی فلاح و بہود اور گوجری زبان کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد اور لاہور میں گوجری ادب کے حوالے سے تقاریب اور مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں گجر برادری طویل عرصے سے مقیم ہے اور ان کا آبائی پیشہ گلہ بانی رہا ہے۔ اس کے علاوہ  یہ لوگ گلگت بلتستان میں کاشت کاری، کار و بار، نجی و سرکاری ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں مویشی چراتے ہوئے یہ لوگ بڑی سریلے انداز میں لوک  گیت بھی گاتے ہیں۔

 80 کی دھائی میں گلگت بلتستان میں گجر یوتھ فورم کا قیام عمل میں لایا گیا جسے اپنے قیام سے جمہوری انداز سے چلایا جا رہا ہے اور ہر سال اس کے انتخابات ہوتے ہیں۔ 2017 تا 2018 گجر یوتھ فورم گلگت بلتستان کی صدارت ڈاکٹر سراج کے پاس رہی ہے۔ شاہ جہان گجر یوتھ فورم وادی نلتر کے چیرمین ہیں۔ وہ کہتے ہیں گجریوتھ فورم کا بنیادی مقصد گوجری زبان کی ترقی و ترویج، تعلیم، صحت اور گجر برادری کی فلاح وبہود ہے۔ شاہ جہان کے مطابق پاکستان میں گوجری زبان کو اردو رسم الخط کی مدد سے لکھا جارہا ہے تاہم گوجری کے 5 سے 6 الفاظ بھی حروفِ تہجی کا حصہ ہیں۔

گلگت بلتستان سے گوجری زبان کے شعراء میں سکندر شمسی، شاعر و گلو کار وکیل ساجن، شاعر و گلو کار ہمدرد، صدر اور قیصر عباس، صابر جان، عالم جان، بضیر، بشارت اور عرفان شامل ہیں۔ شاہ جہان کا خیال ہے کہ گوجری زبان بولنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اس لیے اس زبان کو خطرہ لاحق نہیں۔

 ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کی دیگر زبانوں کی طرح گوجری زبان میں بھی اردو اور انگریزی کے الفاظ شامل ہورہے ہیں تاہم گجر برادری آپس میں گوجری زبان بولنے کو ترجیح دیتی ہے۔

 گلگت بلتستان میں ماں بولی کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنانے کے لیے حکومت نے ظفر وقار تاج کی سربراہی میں “سیلبس ریویو کمیٹی” قائم کی اور عبدالصبور کو فوکل پرسن مقرر کیا۔ اس کے علاہ  ماہرینِ تعلیم، شُعَراء اور ادیبوں پر مشتمل شینا، بلتی، بروشسکی، کھوار اور وخی زبان کی ذیلی کمیٹیاں بھی قائم کی گئیں تا کہ متفِقّہ طور پر ایک ہی اسکرپٹ کو نافذ کیا جا سکے۔

فوکل پرسن عبدالصبور کے مطابق  شینا، بروشسکی اور وخی کی کمیٹیوں نے پرشو -عربک (فارسی و عربی) رسمُ الخط پر اتفاق کرتے ہوئے تینوں زبانوں کا  قاعدہ مرتب کیا ہے جس کی وزارتِ اُمورِ کشمیر اور وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ سے عن قریب منظوری ملنے والی ہے۔ عبدالصبور پُر امید ہیں کہ آئندہ تعلیمی سال کے آغاز سے نرسری جماعت سے مرحلہ وار شینا، بروشسکی اور وخی زبان کو نصاب کا حصہ بنایا جائے گا، جب کہ یہ منصوبہ پانچ برسوں میں مکمل ہو جائے گا۔

دوسری جانب ہنزہ اور اشکومن سے عمائدین اور انجمنوں نے وخی زبان  میں پرسو-عربک اسکرپٹ کے ممکنہ نفاذ پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وخی سمیت دیگر علاقائی زبانوں کو انگلسائزڈ اسکرپٹ ہی معدومیت سے بچا سکتا ہے۔ بلتی اور کھوار زبان کی ذیلی کمیٹیوں کی سفارشات پر تحفظات کے باعث معاملہ کٹھائی میں پڑ چکا ہے۔ متعلقہ کمیٹیوں کے اراکین کا کہنا ہے کہ انہوں نےزبان کے ماہرین سے ہر سطح پر مشاورت کے بعد سفارشات مرتب کیں ہیں جن پر عمل کیے بغیر بلتی اور کھوار کو نصاب میں شامل کرنا ناانصافی ہو گی۔

فوکل پرسن کا کہنا ہےکہ کھوار اور  بلتی زبان کی متعلقہ کمیٹیوں کو رسم الخط کے حوالے سے تحفظات ہیں جنہیں جلد از جلد دور کرکے تمام بڑی زبانوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کرکے ماں بولی کے تحفظ کے اقدامات کو مکمل کیا جائے گا۔


غلام الدین الیکٹرانک میڈیا جرنلسٹ ہیں۔ ان کے اس مضمون کا ایک مختصر ورژن انڈی پینڈنٹ اردو کی ویب سائٹ پر فروری 2020 میں شائع ہو چکا ہے۔ ہماری درخواست پر انھوں نے کمال مہر بانی سے پہلے والے مضمون پر مزید تحقیق و اضافہ کیا ہے، جسے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔