تنہائی کے سو سال اور بے انت روحانی آزار

Emran Azfar

تنہائی کے سو سال اور بے انت روحانی آزار

از، عمران ازفر

اردو ترجمے کی صورت اس ناول تنہائی کے سو سال کو اشو لال کے کم زور اور فتویٰ اساس مختصر دیباچہ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے (جو سوائے پبلشر کی ذاتی خواہش کے اور کچھ نہیں ہو سکتا)۔

اس دیباچہ تنقیدی نوٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں واحد لاطینی امریکہ کا ادب/فکشن ہی قابل ہے کہ لائقِ توجہ سمجھا جائے اور اردو ادب کم تر ہے کیوں کہ وہ مقامی روایت کے پک سے عاری ہے اور یہاں کے تخلیق کار پر موسیقی اور شاعری کا غلبہ ہے۔ لکھتے ہیں:

“بنگالی، ہندی، اردو میں چند ناموں کو چھوڑ کر ناول کی جدید روایت اس پک کو نہیں پہنچی، جسے ناول کی مقامی روایت کا نام دیا جا سکے۔ “

گو خاکسار کے اس مضمون میں یہ بحث اضافی ہے کہ اہتماماً اردو میں ناول نگاری کی روایت پر ڈسکورس قائم کیا جائے اور نہ پڑھنے والے دانش وروں تک امراؤ جان ادا، ابن الوقت، توبتہ النصوح، گئو دان وغیرہ سے آج تک کے ناول کی روایت پر تنقید تفہیمی بات کی جائے، کیوں کہ ایک تو ہمارے اردو ناول کی تخلیقی کائنات اس قدر متنوع اور ہزار رنگ ہے کہ اس روایت کا مختصر تعارف بھی وقت کی اچھی خاصی مقدار اور مطالعے کے اچھے خاصے “پک” کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ ناول کی روایت آج گُل مینہ، جندر، خس و خاشاک زمانے، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر، پھٹے آموں کا کیس، تک آ گئی ہے اور میرا گمان غلط ہو کہ بہت سے ناقدین نے ان سب ناولوں کا مطالعہ بھی نہیں کیا ہو گا ورنہ کون ہو گا جو علی پور کا ایلی، جانگلوس، خدا کی بستی، اداس نسلیں، قید، گریز، لندن کی ایک رات، آگ، جیسے ناولوں کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی عمارت کو مقامی روایت سے عاری دعویٰ کرے گا (سب ناقدین کے حوالے سے یہ نا مناسب جملہ نہیں لکھا  کہ ہمارے درمیان بہت لا جواب اور پڑھے لکھے افراد کی کمی نہیں)۔

اس شذرے کا بنیادی مفروضہ معروف لاطینی مصنف مارکیز کے ناول پر کچھ بات کرنا ہے اور اُس اُداسی کی کسک کو اپنے دوستوں سے بانٹنا ہے جو اس فکشن نگار کے توسط سے کولمبیا میں محسوس کیا جانے والا جذبہ ماکوندو کی گرد اُڑاتی اور بوئندا خاندان کے رازوں سے بھری فضا سے ہوتی اور خاک میں اَٹی گلیوں سے جادوئی حقیقت نگاری کے مُعجزے دکھاتا گل گشت کالونی ملتان تک آ گیا ہے اور پاکستان ٹاؤن اسلام آباد میں بیٹھا شخص جب اس ناول سے قرات اساس دوستی بناتا ہے تو اُس بے انت آزار میں مارکیز اور بوائندہ خاندان کی روح میں اتری اداسی کو اپنے وجود کی گہرائی میں محسوس کرنے لگتا ہے۔

مگر افسوس ہوتا ہے جب  ایک خاص انداز پر استوار کی گئی یہ اردو دشمنی مقامی تخلیق کار اور اردو ادب کی پہچان میں بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آ رہی ہوتی ہے۔

گو آج عالمی سطح پر مقامی، یا مادری زبانوں کی اہمیت پر خاص توجہ دی جا رہی ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ روز بَہ روز بڑھتی اوسط طبقے کی آبادی نے خود مادری زبان کے ساتھ وابستہ کئی تصورات کو مشکلات میں ڈال رکھا ہے۔

عالمی ادب کے تراجم کے لیے رابطے کی زبان کی دست یابی اور اس وسیلے سے عالمی دانش اور شعور کی ترسیل جیسے معاملات نے، ان موضوعات کے حوالے سے خاص اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کو نظر انداز کر کے کوئی بھی معتدل اور سماج دوست نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

تخلیق کار کی مانند نقاد کا فریضہ ہے کہ اول وہ اصل متن کو پڑھے اور توجہ سے پڑھے، دوئم وہ اس متن پر دیگر اہم لوگوں کی رائے کو نگاہ میں رکھے، اور سوئم اپنے نتائج کی ترتیب میں کسی بھی سطح کے تعصب اور ذہنی فکری یا سماجی محرومی کو بالائے طاق رکھے۔ گو یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عصبیت اپنی جگہ سے نہیں ہٹتی مگر عمومی سوچ اور متوازن سوچ کے درمیان حد امتیاز اسی نوعیت کی ذہنی بالیدگی سے قائم کی جا سکتی ہے اور خاکسار کے خیال میں اب وہ وقت ہے جب ہمارے تخلیق کار اور نقاد کو اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات کی تخلیقی اور تفہیمی کار گزاری کے لیے سامراج کے قوانین کو چُندھیائی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے کی بَہ جائے اپنے موجود تخلیقی اور تنقیدی سرمائے کے عمیق اور فلسفہ بنیاد مطالعہ سے مستقبل کی راہ سجھائی کے علاؤہ اپنے ماضی کو ازسرنو سمجھنے اور اس سے تجرباتی اور فکری استفادے کی منظم کوشش کرے۔

______________

گبرئیل گارشیا مارکیز فکشن نگاری کے میدان کا وہ بابا آدم ہے جنہوں نے فکشن کو تخلیقی توانائی سے لبریز کرنے کے علاوہ، اس کے وسیلہ سے اپنے سماج کی سیاسی زندگی اور تمدنی نفسیات کو کمال ہنر مندی سے واقعات کے ایک لا مختتم تانے بانے سے تخلیق کیا ہے۔

ہسپانوی زبان میں لکھا جانے والا ناول ون ہنڈرڈ ائیرز آف سولی ٹیوڈ اپنے عہد کا ایک شاہ کار ہونے کے با وصف، آج عالمی کلاسیک کا درجہ اختیار کر چکا ہے اور دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

بوئندا خاندان اور اس کے جد امجد “حوزے آرکیڈیو بوئندا” کی آباد کردہ بستی “ماکوندو” کی کہانی پر تصنیف ہوا یہ ناول بوئندا خاندان کی سات نسلوں کی یادداشت ہے، جہاں ماکوندو بستی کی آباد کاری اور توسیع، انسانی سماج کی متغیر اور وسعت پرست نفسیات کی نمائندگی کرتی ہے، تو دوسری طرف نا جائز جنسی تعلقات کی کش مکش میں مبتلا معاشرے کی داخلی شکست و ریخت کا عمدہ بیانیہ ہے جس کی اسطورہ سائنس بنیاد تشکیک زدہ علم کی مرہون ہے جس کے طفیل باہمی خاندانی رشتہ داری کی ممانعت ایک طرح سے جنسی برائی کا ایک بڑا سبب بنتی ہے۔ کیوں کہ اس خاندان کے افراد کے درمیان موجود نا جائز جنسی تعلقات ہی اس کہانی کی وہ بنیادی گِرہ ہے جو پوری کہانی کو باہم جوڑے ہوئے ہے۔

ناول میں اس خاندان کے افراد کے درمیان موجود جنسی تعلقات کو تخلیقی ہنر کاری کے طفیل ایک اسطورہ کی شکل میں ڈھال کر، ناول نگار نے عمومی زندگی اور اس سے جڑے رویوں کے معمولی اور چھوٹے چھوٹے ابعاد کو غیر معمولی وسعت دے کر عالمی بستی کی حقیقت بنا دیا ہے۔

ناول کے کردار کلاک وائز دائرۂِ حیات کے تحت اپنی زندگی بسر کرنے میں جُتے ہیں۔ اسی دائروی تسلسل کے سبب سے واقعات بار بار دُہرائے جاتے ہیں اور ان واقعات کا یہی سلسلہ انہیں محض واقعات سے بڑھا کر ایک مِتھ (اسطورہ) کے طور پر پیش کرتا ہے۔ تاریخ اور اسطورہ کے اس تخلیقی میل جول کی تفہیم کے بغیر، کوئی بھی قاری کولونیل معاشرے کی اندرونی نفسیات اور سرمایہ داری کی چھتری تلے پنپتے اسلحے کے کارخانوں کی حقیقت سے آشنا نہیں ہو سکتا۔ 1967ء میں شائع ہونے والا یہ ناول لاطینی امریکہ (کولمبیا) کے الم ناک اور پیچیدہ سیاسی، سماجی ماحول کی حقیقی رنگ میں تمثال کاری کرتا ہے۔

ناول نگار کا کمال یہ ہے کہ اس قدر طویل قصے کے انجام تک قاری یہ نہیں جان سکتا کہ اس پوری کہانی کو بیان کون کر رہا ہے سوائے اس گمان کے کہ “ملقویادس” نے چرمی صفحات پر کنندہ کچھ لکھتیں چھوڑی ہیں جو کسی بدیسی زبان یا خفیہ نشانات کی صورت میں موجود ہیں۔

فلیش بیک تکنیک سے جہاں ایک طرف ناول کو دل چسپ بنایا گیا ہے وہیں دوسری طرف کرداروں کے ہاں ایک خاص طرح کی ناسٹلجیا کی کیفیت قاری کو بھلی محسوس ہوتی ہے۔

جادوئی حقیقت نگاری کے ذریعے سے واقعات اور کرداروں کے باہمی تال میل سے کہانی کے معنی کو وسعت دی گئی ہے۔ سامراجیت کے حوالے سے کولمبیئن عوام کا بدلتا ہوا شعور لبرل پارٹی کے توسط سے ناول کو سماجی حقیقت نگاری کا تخلیقی پرتو بناتا ہے۔

تنہائی اس ناول کا وہ بنیادی نکتہ ہے جو مشینی زمانے اور پراڈکٹ سینس سے بنتے معاشرے کے انسان کی بَہ ظاہر گہما گہمی، مجلسی مزاج، شور و غل اور نفسا نفسی میں مبتلا مصنوعی ادراک کی داخلی اداسی اور اکلاپے کا استعاراتی بیان بن جاتا ہے۔

یہ بوئندا خاندان کی سات نسلوں کی وہ کہانی ہے جو ہر طرح کی تبدیلی سے نبرد آزما ہونے کے با وُجُود فرد کی داخلی تنہائی کے احساس سے لبا لب بھری ہوئی ہے۔

ناول نگار سماجی تغیرات کے سلسلے یوں جوڑتا ہے کہ انسانی معاشرے کی بنیادی نفسیات ایک اٹل حقیقت بن کر سامنے آتی ہے کہ تبدیلی نا گزیر ہے، جسے آنا ہوتا ہے اور جو آ کر رہتی ہے پھر بھلے انسان انفرادی خواہش کے تابع ہو یا اجتماعی جہد کی سعی کرے، وہ اس بدلاؤ کے سامنے کھڑے ہونے سے قاصر رہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب پوری دنیا کلاسیکی تصورات اور قواعد سے الگ ہو کر سائنسی اور مشینی زمان کو پوری شعوری صلاحیت کے ساتھ قبول کر رہی ہے تو اس رد و قبول کے عمل سے ماکوندو اور بوئندا خاندان کیسے محفوظ رہ سکتا ہے، لہٰذا یہ بدلاؤ محض بوئندا خاندان یا ماکوندو تک نہیں رہتا بَل کہ یوں کہیں کہ کولمبیا کس طرح اس سست رفتار انقلاب سے دور رہ سکتا ہے اور یوں ماکوندو کی داستان پورے کولمبیا کی داستان بن جاتی ہے۔

“انسان کا ایک سرا درخت سے بندھا ہے اور دوسرا چیونٹیاں اور دیمک کھا رہی ہے”

یہی وہ شعور ہے جو ناول میں ایک نا سور کی شکل میں پوری کہانی میں سرائیت کیے ہوئے ہے کہ تمام تر ترقی اور انقلاب کے با وُجود انسانی ماس کو چیونٹیاں ہی خوراک کرتی ہیں۔

ناول لبرل اور کنزرویٹیو پارٹی کے درمیان موجود سیاسی کشمکش، انتخابی دھاندلیوں، ووٹ کی گنتی میں گڑ بڑ، نو جوان ڈاکٹر کے لیے لالچی شر پسند مزاج چودہ سالہ پوتی کو جسم فروشی پر مجبور کرنے والی دولت کی پجاری دادی، ارسلا کی ایمان داری، دم دار انسان اور ایسے لا تعداد واقعات کا باہمی ربط ناول کے پلاٹ میں موجود وسعت اور تنوع کا نمائندہ ہے۔

بوئندا ہاؤس ایک ایسی جگہ تعمیر ہے جہاں چیونٹیاں حکم ران ہیں مگر ارسلا کی زندگی میں ان کو انسانی ماس تک رسائی حاصل نہیں ہوتی لیکن ارسلا کی موت کے ساتھ ہی یہ زور پکڑتی ہیں اور انہیں ایک زبر دست سطح کی کام یابی حاصل ہوتی ہے جب وہ نو مولود آرے لیانو بوئندا کو گھسیٹ کر لے جاتی ہیں اور اسے اپنی خوراک بناتی ہیں۔

نسلِ انسانی کے حاصلات مارکیز کے ناول کی تعمیر کا اولین نمونہ نہیں بل کہ اس سے پہلے قرات العین حیدر نے آگ کا دریا میں اسی تکنیک کے استعمال سے ہندوستانی سماج میں ہند اسلامی تہذیب کی کش مکش کو تخلیق کیا ہے مگر فرق یہ ہے کہ مارکیز کے تجربات کا پھیلاؤ لگ بھگ سات پشتوں کے متعلق ہے جب کہ آگ کا دریا میں یہ وسعت وقت اور انسانی حیات کے امکان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس کے بعد مستنصر حسین تارڑ نے خس و خاشاک زمانے میں اسی تکنیک کے برتاؤ سے کہانی کی سیاسی اور سماجی معنویت کو بیان کرنے کے علاوہ پاکستانی معاشرے کی اساس کو مبحث کیا ہے۔

اختر رضا سلیمی نے اپنے ناول جاگے ہیں خواب میں بھی وقت کے اسی دائروی تسلسل (clock wise) کو کہانی کے کرداروں اور واقعات کے درمیان بنیادی وسیلہ بنایا ہے۔ مارکیز کا ناول بیسویں صدی کے نصفِ آخر میں تصنیف ہونے کے با وُجود آج کے کالونیل فرد اور اس کی سیاسی سماجی زندگی کا بیان ہے با وُجود اس کے کہ انسانی ماس آج بھی چیونٹیاں ہی خوراک کرتی ہیں لیکن بدلاؤ ایک مغالطہ اور بہلاوا ہے جس سے کولمبیا کا فرد بھی دوچار ہے اور پاکستان کا انسان بھی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اردگرد پھیلی بلند قامت مشینی زندگی، لمحہ بھر میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکے کی طاقت سے کانوں کے پردوں کا ہمیشہ کے لیے نا کارہ کرنے والی بے پناہ طاقت، ٹی وی سکرین پر رقص کرتے نیم برہنہ اجسام اور واہمات کے ڈیلر چشموں سے جھانکتی آنکھوں اور لفافوں میں لپٹی سچائیوں کے با وُجود انسان اپنی داخلی تنہائی اور روح کی بے چینی کا کوئی درماں تلاش نہیں کر پایا۔

سرمایہ داروں نے کمال ہنر مندی سے اس کے خواب بھی اس سے چھین لیے ہیں بل کہ 2020ء میں داخل ہوتا پراڈکٹ اساس یہ انسانی سماج بہت جلد اس شعور کو پا لے گا کہ چھیننے والے نے اس سے خواب نہیں بل کہ ان خوابوں کے ساتھ نیند بھی چھین لی ہے کہ وہ اب نہ جاگتی آنکھوں سے کوئی مثالیت تلاش کر سکے اور نہ ہی مندی آنکھوں سے کسی فردوس بریں کے گلی کوچوں میں آوارگی کا ہنر آزمائے۔