خوشامد پسند ثقافت ، حصہ دوئم

مہدی حیات

خوشامد پسند ثقافت 2

از، مہدی حیات

اس مضمون کے حصۂِ اول کا لنک: خوشامد پسند ثقافت

بیوروکریسی کا تذکرہ کرتے ہوئے وارث صاحب لکھتے ہیں:

چندریگر کے زمانے میں لطیف بسواس (تعلق مشرقی پاکستان سے) وزیر ہوا کرتے تھے۔ مسٹر وزیر بن کر اہل وعیال کے ساتھ بنگلے میں منتقل ہوئے تو انہیں کھلے پانی میں نہانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وزیر صاحب مشرقی پاکستان کے دیہی علاقے میں پروان چڑھے تھے اور ندی نالوں میں نہانے کے عادی تھے۔اس محرومی کا ذکر ایک دن وہ اپنے والد سے کر رہے تھے۔ عین اسی وقت یہ بات ایک ذمہ دار آفسر نے سن لی۔چند روز بعد وزیر صاحب دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بنگلے کے صحن کی کھدائی ہو رہی ہے۔پوچھا تو جوا ب ملا ”سر! آپ کے بچوں کو کھلے پانی کی ضرورت ہے، غسل خانے میں نہاتے ہوئے گھٹن ہوتی ہے، ان کے لیے نہانے کا تالاب بنایا جا رہا ہے“۔

معروف سیاستدان سید عابدہ حسین اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ ”جب وہ پی پی کی پنجاب اسمبلی میں ممبر تھیں تو جھنگ میں شدید سیلاب آیا۔ ڈپٹی کمشنر جھنگ نے عابدہ حسین کو بتایا کہ وزیرِ اعظم بھٹو صاحب مختصر دورے پر جھنگ آ رہے ہیں جہاں سے ملتان روانہ ہوجائیں گے۔ وزیرِ اعظم بذ ریعہ ہیلی کاپٹر آ رہے تھے اس لیے سرگودھا ڈویژن کی تمام بیوروکریسی اور علاقے کے تمام ایم۔این۔ایز اور ایم۔ پی۔ ایز ہیلی پیڈ پر ایک قطار بنائے کھڑے تھے۔ ایک اسٹنٹ کمشنر صاحب آئے اور قطار میں کھڑے لوگوں میں پھولوں کے ہار تقسیم کرنے لگے۔ ہار دینے کی وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ”ہار قائد عوام کے گلے میں پہنانے کے لیے ہیں“۔ وزیرِ اعظم لٹے پٹے سیلاب زدگان کا پتہ کرنے آ رہے تھے کہ انہیں ریلیف کا سامان مل رہا تھا کہ نہیں۔۔۔اور یہاں ”خوشامدی ٹولوں“ میں ”پھولوں کے ہاروں“ کا مقابلہ چل رہا تھا۔

اسی دورے کے دوران عورتوں کے کیمپ سے ہو کر بھٹو مردوں کے کیمپ میں پہنچے تو سید عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ وہاں ایک بڑا اسٹیج تیار تھاجسے دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ جونہی بھٹو اسٹیج پر چڑھے پی پی جھنگ کا صدر عمر سیال ایک میگا فون پکڑ کر نعرے مارنے لگا”قائدِ عوام، زندہ باد“۔ بھٹو اس کی طرف گئے اور اس سے میگا فون چھین کر زمین پر پھینکتے ہوئے کہا”چمچے بیٹھ جا“۔ موصوف کو اس سے فرق نہیں پڑا دوبارہ میگا فون اٹھا کر چلائے ”مجھے قائدِ عوام کا چمچہ ہونے پر فخر ہے  ۔۔۔او چمچے مجھے تمہاری ضرورت نہیں “ بھٹو صاحب گرج دار آواز میں بولے ”مجھے پتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے کھانا کیسے کھاتے ہیں“۔ مجمع یہ سب سن رہا تھا۔۔۔آیا عنوان یاد کہ ”منی سے زیادہ بدنام خوشامد پسند طبقہ“۔

ایک مفکر نے کہا تھا کہ شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ بت کا دماغ نہیں ہوتا جو خراب ہو جائے لیکن جب انسان کی پوجا اور خوشامد کی جائے تو وہ فرعون بن جاتا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں ایسے”فرعونوں“کی کمی نہیں۔

پی پی کے ایک سینئر رہنما فیصل آباد میں ایک ریلی سے پرجوش خطاب کر رہے تھے۔ جناب نے خوشامد کرتے ہوئے ”جوشِ خطابت“ میں کہا، بھٹو سورج ہیں عوام اس کی روشنی ہیں، بھٹو چاند ہیں عوام اس کی کرنیں ہیں، بھٹو پھول ہیں عوام اسکی خوشبو ہیں۔ ایک نظریاتی جیالا کھڑا ہو کر کہنے لگا ”بھٹو دیگ ہیں اور ہم اس کے چمچے ہیں“۔ پارٹی رہنما یہ سن کر کہنے لگا ”تم نے میری زبان سے میری بات چھین لی ہے میں بھی یہی کہنے والا تھا“۔

بینظیر بھٹو کے دور ِ حکومت میں ایک رکنِ اسمبلی کی ہیرا پھیریاں پکڑی گئیں۔ بی بی نے بلا کر خوب لتاڑا اور پارٹی رکنیت سے استعفٰی کا مطالبہ کیا۔۔یہ صاحب بولے ”اے عظیم باپ کی بیٹی اسمبلی کی رکنیت کیا چیز ہے آپ کے لیے دنیا بھی چھوڑ سکتا ہوں“ بس آپ میری ایک خواہش پوری کر دیں۔ بی بی نے پوچھا کیا؟ جناب بولے ”بس ایک بار ویسے ہی مسکرا کر شفقت بھری نظروں سے دیکھ لیں جیسے ان گناہوں سے پہلے دیکھا کرتی تھیں“۔ بس اتنی سی خوشامد سے جنا ب نے رکنیت بچا لی۔

پاکستانی تاریخ کے انوکھے حکمران سید پرویز مشرف کے تو ”انداز ہی نرالے“  تھے۔ جناب اکثر اپنی تعریفیں آپ ہی کیا کرتے تھے۔ وہ خود کو اللہ کی کوئی ”مقرب ترین ہستی“ سمجھتے تھے جس کے لیے دلیل یہ دیتے تھے کہ میں ”تین بار خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ چکا ہوں“۔ البتہ انہوں نے اپنے کاموں کی تعریف کے لیے کالم نگاروں کا ایک خفیہ سکواڈ بنا رکھا تھا۔ جنرل صاحب نے بھارتی وزیرِ اعظم واجپائی سے مذاکرات کے لیے بھارت کی تمام شرائط مان لیں تو کالم نگاروں کے اس سکواڈ نے اسے ”صلحِ حد یبہ“ قرار دینا شروع کر دیا۔ چونکہ مشرف صاحب سید زادے تھے اس لیے کالم نگاروں کے اس ”خفیہ سکواڈ“ کے مطابق انہوں نے بھارت کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا کر ”صلح حد یبہ“ کی یاد تازہ کر دی تھی۔ کیا کیا لوگ تھے گزرے زمانے میں۔۔!

میاں محمد نواز شریف اور ان کے خوشامدیوں کا ذکر نہ ہو تو تحریر پھیکی پھیکی سی لگتی ہے۔ قیوم نظامی صاحب لکھتے ہیں کہ میاں صاحب1990میں پہلی بار وزیرِ اعظم بنے تو سندھ میں بے گھر لوگوں میں پلاٹ تقسیم کیے، واپسی پر اپنے ساتھ بیٹھے سعید مہدی سے پوچھا ”مہدی پلاٹ تقسیم کرنے سے کیا پی پی کی مقبولیت میں فرق آئے گا؟مہدی بولے ”میاں صاحب کچھ نہ کچھ فرق پڑے گا“۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے سلمان فاروقی صاحب بولے ”میاں صاحب آپ نے پلاٹ تقسیم کر کے پی پی کا سیاسی جنازہ نکال دیا ہے“۔اتنی خوشامد سن کر میاں صاحب نے کہا مہدی آپ پچھلی نشست پر چلے جائیں اور فاروقی صاحب کو میرے ساتھ بیٹھنے دیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے

جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
خودی والے رہے خودی خودی کرتے

ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں

1980 میں نواز شریف چیف منسٹر پنجاب تھے۔ ہیلی کاپٹر کے ایک سفر کے دوران ان کے ساتھ دو ممبران اسمبلی بھی تھے جو خوشامد میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ دورانِ سفر میاں صاحب کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے۔ سفر ختم ہوا، ایک ریسٹ ہاؤس میں چائے پینے کے لیے رکے۔ ان دنوں پنجاب حکومت کی توجہ سڑکوں کی طرف تھی جس پر میاں صاحب کو فخر تھا۔ ایک ممبر اسمبلی بولا ”سر! آپ کے دور حکومت میں پنجاب میں اتنے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے ہیں کہ شیر شاہ سوری کے بعد اب تک نہ ہوئے ہوں گے“۔ میاں صاحب نے خوش ہو کر دوسرے سے رائے مانگی تو وہ بولا ”سر! اس نے بے وقوفانہ بات کی ہے۔ کہاں آپ کی کار کردگی اور کہاں شیر شاہ سوری۔ جناب! طوفانِ نوح کے بعد اگر پنجاب میں ترقی ہوئی ہے تو آپ کے دور میں ہوئی ہے “۔

شاید اس ملک کے لوگوں کا ”وطیرہ“ ہے کہ کامیابی حاصل کرو چاہے شیطان کے کندھوں پر سوار ہو کے حاصل کرنی پڑے۔ تندو تیز جملوں کے مالک رؤف کلاسرہ صاحب ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان نے مجھے (رؤف کلاسرہ) بتایا کہ نون لیگ کے پچھلے دورِ حکومت میں کئی ماہ گزرنے کے باوجود کابینہ کا اجلاس نہ بلایا گیا جس پر وزیر کافی ناراض تھے۔ میرے (چوہدری نثار) کہنے پر اجلاس بلوایا تو وہی وزیر میاں صاحب کی خوشامد میں لگ گئے۔ اس پر چوہدری صاحب برداشت نہ کر سکے اور بولے حیرت ہے میاں صاحب جو وزیر آپ کے خلاف بھرے بیٹھے تھے اب وہی خوشامدیں کر رہے ہیں۔اس پر میاں صاحب، چوہدری نثار سے ناراض ہو گئے اور ایک چٹ بھیجی کہ آپ نے میری بے عزتی کی ہے، کیا آپ یہ بات اکیلے میں نہیں کر سکتے تھے۔۔؟ خیبر پختون خواہ کے ایک ممبر اسمبلی جہاں بھی نواز شریف کا جلسہ ہوتا وہاں پہنچ جاتے۔ کسی نے وجہ پوچھی تو بولے ”میں ثواب کی نیت کر کے آتا ہوں، اپنے قائد کو دیکھ کر مجھے ثواب ملتا ہے“۔  

کس کس کا ذکر کروں، خوشامد کا لفظی مطلب تو ”مشکوک ڈگری“ کے حامل لیہ کے ایک بڑے گدی نشین اور سابق ایم ان اے بھی جانتے ہوں گے جنہوں نے خوشامد کے بل پر میاں نواز شریف سے ”پارلیمانی سیکرٹری“ کا عہدہ بٹور لیا تھا۔ یہاں تو اپنے وقت کے ”فرعون“ سابق وزیرِ اعظم بھی اسمبلی میں نواز شریف کی”خوشامد“ کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہاں تو رہنما اپنے لیڈر کو ایک ہی وقت میں ہٹلر اور چرچل کہ دیتے ہیں۔ خدا کے بندو نہیں پتا تو پتا کرواؤ، دونوں کی شخصیت میں زمین وآسمان کا فرق تھا، دشمن تھے دونوں۔ق لیگ کی حکومت میں ایک رہنما نے اپنے لیڈر کے بارے میں یہاں تک کہ دیا کہ ”میرے قائد کی حکومت آئی تو وہ ہوئی جہاز کا ریٹ سوزوکی کی کار کے برابر کر دیں گے“، کون سا سستا نشہ کرتے ہیں یہ لوگ۔

ہم نے تو وہ نمونہ ایم این اے بھی دیکھا ہے جس نے ضیاء کے جنازے میں کہا تھا”آج اگر ضیاء زندہ ہوتے تو خود آ کر دیکھتے کہ ان کے جنازے میں کتنے لوگ آئے ہیں“۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں اس ممبر اسمبلی کو جس نے ”بادشاہِ وقت“ میاں نواز شریف کا اس وقت ”ہاتھ چوم“ لیا تھا جب وہ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران پیشی سے واپس گھر جا رہے تھے۔بھلایا بھی کیسے جائے ان نون لیگی خواتین رہنماؤں کو جنہوں نے پانامہ کیس کی سماعت کے دوران ”کمرۂ عدالت“  میں پہلے پیچھے اور نظر نہ آنے کی صورت میں ”بادشاہ وقت“ کی بیٹی مریم نواز کے سامنے آ کر قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دی تھی۔

کل تک مشرف کے ”پالشیے“ اور آج نواز شریف کے”خوشامدی“ المعروف ”پھٹے چُک دیو میاں صاحب “ کو بھلانے کی ہمت کس میں ہے؟ وڈے سائیں مولا بخش چانڈیو کی ”خوشامد بھری آواز“ ابھی بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ ”میرے چیئر مین (بلاول بھٹو) کا فرمان میرے ایمان کا حصہ ہو جاتا ہے“۔

میدانِ صحافت میں دوڑتے گھوڑے بھی کسی سے کم نہیں۔ روزنامہ”جنگ“کے ایک ”بزرگ“ کالم نگار کو میاں نواز شریف کی ”خوشامد کرنے، گندے گندے لطیفے سنانے“ میں اتنا ہی بڑا مقام حاصل ہے جتنا مزاح نگاری میں ”پطرس بخاری“ کو حاصل ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ”جنگ“ کے ایک کالم نگار نے ”خادمِ اعلٰی“ کو خوش کرنے کے لیے الیکشن سے پہلے ہی اپنے ایک”کالم“ میں ”ڈی۔جی۔ خان“ والی نشست جتوا دی تھی۔

وقتِ حاضر کی ”ریاستِ مدینہ“ کے”امیرالمومنین“ عمران خان صاحب بھی بری طرح سے ”خوشامدیوں“ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دعا کرتے ہیں کہ یہ ”خوشامدی“ خان صاحب کو اس ”مقام“ پر نہ لے جائیں جہاں ”اپنے وقتوں کے حکمران“ آج نظر آتے ہیں۔

آخر میں بس اتنا کہ واصف علی واصف کا کہنا ہے کہ ”خوشامد وہ بیان ہے کہ جس کے دینے والا جانتا ہے کہ وہ جھوٹ ہے اور سننے والا سمجھتا ہے کہ یہ سچ ہے“انہی کا کہنا ہے کہ ”خوشامدی لوگ کبھی سچے لیڈر نہیں چن سکتے“۔ زرا یاد کریں ”قائدِ اعظم اور ان کے چند ساتھیوں“ کو نکال کر اپنی 70سالہ تاریخ کو۔۔۔ کیا کوئی ”سچا لیڈر“ چنا ہم نے؟  ہیں جی۔۔۔ہاں جی۔