خوشامد پسند ثقافت

مہدی حیات

خوشامد پسند ثقافت

از، مہدی حیات

خوشامد کا کلچر ویسے تو دنیا بھر میں ”عام“ ہے مگر پاکستان میں کافی”خاص“ ہے۔ یہاں تو لوگو ں کو اس وقت تک روٹی ٹھیک سے ہضم نہیں ہوتی جب تک خوشامد کر نہ لیں یا کروا نہ لیں۔ بقول ارشاد بھٹی صاحب یہاں ”چٹیاں کلائیاں“ کی اتنی مانگ نہیں جتنی خوشامد کی”ڈیمانڈ“ ہے۔ پاکستان سے خوشامد نکال دیں تو بہت سارے لوگوں کو ”دنیا پیتل دی“ لگنے لگے گی۔ یہاں تو خوشامد ”بلڈ گروپ“ کی طبقاتی تقسیم کے بغیر سب کے ”بلڈ“ میں برابر دوڑتی ہے۔ خوشامد کرنے والے کو عرفِ عام میں ”پالشیا“ کہا جاتا ہے۔ تو چلو آج کی تحریر ملکی تاریخ کے ”وڈے وڈے پا لشیوں“ کے نام کرتے ہیں۔

قدرت اللہ شہاب صاحب ”شہاب نامہ“ میں مسٹر غلام محمد (گورنر جنرل) کے بارے میں لکھتے ہیں، ”ایک روز کراچی کے چند مشہورو معروف شہریوں کی در خواست موصول ہوئی کہ اہالیان ِ شہر کا ایک وفد گورنرجنرل ہاؤس میں ایک تقریب منعقد کر کے مسٹر غلام محمد کی خدمت میں ”محافظِ قوم“کا خطاب پیش کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اس پر ایک نوٹ لکھا کہ یہ لوگ خوشامدی ٹٹو ہیں۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنا ان کا شیوہ ہے۔ میرا نوٹ پڑھ کر غلام محمد سیخ پا ہو گئے۔ میرا نوٹ پھاڑ دیا اور پیچھے پڑھ گئے کہ ساری قوم قدر شناسی کے طور پر ان کے سر پر عظمت کا تاج رکھنا چاہتی ہے اور میں اس منصوبے کو سبوتاز کرنے کے لیے بے قرار ہوں۔اس کے بعد انہوں نے میرے اس خط کا جواب میرے ڈپٹی سیکرٹری سے تحریر کروا دیا کہ وہ لوگ بڑی خوشی سے تشریف لا ئیں۔

شہاب صاحب ہی لکھتے ہیں کہ اگر خوشامدیوں کی صحبت میسر آنا خوش قسمتی ہے تو مسٹر غلام محمد واقعی بڑے”خوش قسمت“ تھے، وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار غلام محمد اپنے دوستوں کے ساتھ کار میں ہوا خوری کے لیے نکلے۔ مجھے (شہاب صاحب) بھی اگلی سیٹ پر بٹھا لیا۔ ان دنوں کراچی میں غالباََ پہلی آٹھ، دس منزلہ عمارت ”قمر ہاؤس“ کے نام سے تعمیر ہو رہی تھی۔جب ہم اس کے قریب سے گزرے تو مسٹر غلام محمد نے پوچھا  ”اتنی بڑی بلڈنگ کون بنوا رہا ہے؟“ ان کے ایک دوست نے سر جھکا کر کہا”حضور کے اقبال سے بن رہی ہے “۔ ایک مسجد سے لوگ مغرب کی نماز پڑھ کر نکل رہے تھے، دوسرے دوست نے گور نر جنرل صاحب کی توجہ ان کی طرف منعطف کروائی اور کہا ”حضور کے اقبال سے آج کل مسجدیں خوب آباد ہیں۔ اتنے نمازی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ سب آپ کی برکت ہے“۔

غلام محمد چونکہ ”حاجی وارث شاہ“ کو مر شد مانتے تھے اور ان کی تصویر پاس رکھتے تھے۔اس لیے ایک طبقہ خوشامد کے لیے روزانہ جعلی منتیں مانتا اور پوری ہونے کی وجہ ”وارث شاہ“ کو قرار دے کر سارا قصہ غلام محمد کو سناتا۔غلام محمد کے پاس پڑی ”وارث شاہ“ کی تصویر سے آگے مزید تصویریں لی جاتیں۔اس طبقے کی سربراہی ایک عرصہ تک گلے میں کیمرہ لٹکائے ”حسین شہید سہروردی“ کرتے رہے۔

پاکستانی تاریخ کے پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میں ”پالشیو ں“ کی تعداد ”خاصی کم“ رہی۔مگر اگلے ڈکٹیٹر مردِ مومن، مردِ مجاہد اور مردِ حق ضیاالحق شہید صاحب کے دور میں اتنے ”پا لشیے“ پائے جاتے تھے کہ اگر خوشامد کا کوئی ”انٹر نیشل مقابلہ“ ہوتا تو پاکستان ضرور ”نمبر ون“ ہوتا۔پاکستانی تاریخ میں ”فوجی دورِ حکومت“ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو خود ”ضیاالحق شہید“ سے بڑا ”خوشامدی“ کوئی نظر نہیں آتا۔اس

حوالے سے سابق مشیر برائے کشمیر و شمالی علاقہ جات ملک غلام جیلانی اس وقت کا ایک واقعہ سناتے ہیں جب وہ خود مشیر کے عہدے پر براجمان تھے۔ ستمبر 1976 میں ذولفقار علی بھٹو شمالی علاقہ جات کے دورے پر گئے تو بھٹو نے گلگت میں قیام کیا۔ ایک ڈنر سے رات گئے واپس آنے پر بھٹو صاحب نے مجھے (غلام جیلانی) کہا کہ آپ سو جائیں اور مجھے صبح 9 بجے ملنا اس کے بعد سکردو چلیں گے۔نئے نئے آرمی چیف ضیاالحق بھی ساتھ تھے۔ ضیاالحق نے مجھے کہا کہ صبح تیار ہو کر اکٹھے وزیرِ اعظم کے پاس چلیں گے۔ جنرل صاحب صبح 7 بجے ہی تیار ہو گئے، میں آٹھ بجے کے بعد تیار ہو کر آیا اور ہم وزیرِ اعظم کے کمرے میں جا پہنچے۔ بھٹو صا حب صوفے پر بیٹھے تھے، میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔آرمی چیف وردی میں تھے اس لیے بھٹو صاحب کو سیلوٹ کیا۔ بھٹو صاحب نے ضیاء کو سامنے پڑے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اسی کمرے میں بھٹو صاحب کا ذاتی ملازم ”نورا مغل“ ان کے جوتے پالش کر رہا تھا۔ ضیاء (وردی میں) سیدھا ”نورا مغل“ کے پاس گیا اور اس کے ہاتھ سے جوتے لے کر پالش کرنے لگا۔ اس پر بھٹو نے غصے کا اظہار کیا تو ضیاء نے ہنستے ہوئے جواب دیا ”سر میں کل دیکھ رہا تھا کہ آپ کے جوتے چمک نہیں رہے تھے اور میں تو سولجر ہوں اس لیے جانتا ہوں کہ انہیں کس طرح چمکانا ہے“۔

ضیاالحق شہید کی ”خوشامد“ کا ایک واقعہ سابق سفیر کرامت اللہ غوری نے اپنی کتاب ”بار ِشناسائی“ میں لکھ رکھا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

”وزیرِ اعظم بھٹو صاحب افغانستان کے دورے کے لیے پشاور کے ہوائی اڈے سے رخصت ہو رہے تھے۔ پروٹوکول کے مطابق سارا وفد  بھٹو صاحب کی آمد سے پہلے جہاز میں بیٹھ گیا۔میں (غوری صاحب) کھڑکی والی نشست پر بیٹھ کر باہر کی تقریب سے لطف اندوز ہو رہا تھا جس میں عمائدینِ علاقہ وزیرِ اعظم کو رخصت کر رہے تھے۔ وزیرِ اعظم سب سے ہاتھ ملا کر جہاز کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہے تھے کہ تین چار فوجی گاڑیوں کا جلوس ’رکا‘۔ ضیاالحق باہر نکلے اور دوڑتے ہوئے بھٹو کی طرف بڑھے جو انہیں آتا دیکھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔میں نے اس سے پہلے زندگی میں کسی کو اس قدر جھک کر مصافحہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ضیاالحق تقریباََ ”رکوع“ میں جا کر بھٹو صاحب سے ہنستے ہوئے مل رہے تھے۔

”جرنیل اور سیاست دان، تاریخ کی عدالت میں“ کے مصنف قیوم نظامی جنرل ضیاء کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وزیرِ اعظم بھٹو صاحب کہا کرتے تھے میرا بندر جنرل کہاں ہے؟ ضیاء یہ سن کر بھی مسکراتے اور کہتے ”آپ کی مہربان توجہ سر“۔

نظامی صاحب ہی لکھتے ہیں کہ آرمی چیف بننے کے بعد ضیاء وزیرِ اعظم سیکرٹریٹ کے کمرے میں بھٹو سے ملاقات کے لیے انتظار کر رہے تھے اور سگریٹ پی رہے تھے۔ بھٹو صاحب اچانک کمرے سے باہر آئے تو ضیاء نے انہیں دیکھ کر جلتا ہواسگریٹ اپنی یونیفارم کی جیب میں ڈال لیا۔ جس پر بھٹو نے تاریخی جملہ کہا، ”جنرل تم پاکستان آرمی کو جلا رہے ہو“۔

قیوم نظامی صاحب ہی لکھتے ہیں کہ ”ضیاء کو خوشامد کا فن آتا تھا۔ اس نے ملتان میں پوسٹنگ کے دوران بھٹو کو شاندار استقبالیہ دیا جس میں فوجی افسران کی بیگمات کی حاضری کو لازمی قرار دیا گیا۔اس موقع پر ضیاء کی تقریر بھی ”خوشامد کا شاہکار“ تھی۔ آرمی چیف بننے سے پہلے ضیاء قرآن پاک لے کر بھٹو کے پاس گئے اور کہا ”سر آپ اس قوم کے اتنے بڑے محسن ہیں کہ آپ سے بڑے کسی ہیرو کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا

اور آپ کو قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کے یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ اور آپ کے خاندان کا وفادار رہوں گا“۔ یہ واقعہ اظہر سہیل کی کتاب

”جنرل ضیاء کے گیارہ سال“ میں بھی موجود ہے مگر اسی وفادار نے اپنے ”محسن“ کے ساتھ بعد میں جو ”محسن کشی“ کی وہ ساری دنیا جانتی ہے۔

شمیم احمد صاحب لکھتے ہیں، ”ایک رات بھٹو صاحب ملتان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔وہ رات کو کم سوتے تھے۔ رات دو بجے برآمدے میں کسی کے چلنے کی آواز آئی۔ بھٹو صاحب باہر نکلے تو ضیاء الحق (اس وقت کور کمانڈر ملتان تھے)چوکیدار بنا گھوم رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے وجہ پوچھی تو بولا”میں اس لیے جاگ رہا ہوں کہ شاید آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو“۔ وہی ضیاء اگلے دن شام کو دیگوں کے ڈھکن اٹھا اٹھا کر کھانا چیک کر رہا تھا۔

بھٹو صاحب کے دور میں بھٹو کو پی این سی اے میں فیض احمد فیض کے لگانے پر بڑی خوشی تھی۔ فیض صاحب روس کے دورے پر گئے۔ اس دوران بھٹو دور کے ”مایہء ناز سیاست دان“ حفیظ پیر زادہ کی خالد بٹ نے اتنی خوشامد کی کہ جب فیض صاحب روس سے واپس آئے تو ان کی کرسی پر خالدبٹ بیٹھا تھا۔

لگے ہاتھوں تذکرہ پروفیسر وارث میر صاحب کی کتاب ”فلسفۂ خوشامد“ کا بھی کر لیتے ہیں جو ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اس کام میں علماء بھی پیچھے نہ رہے۔ لاہور میں ایک جلسے میں صاحبزادہ فیض الحسن محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کی حمایت میں زوردار تقریر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے”ہمیں ایسا صدر چاہیے جو مرد ہو، طاقتور ہو، صحت مند ہو، مشقت برداشت کر سکتا ہو اور اپنی وجاہت سے دوسروں کو متاثر کر سکتا ہو“ جلسے کی آخری صفوں سے آواز ابھری: ”تو پھر بھولو پہلوان کے بارے میں کیا خیال ہے“، آیا عنوان یاد۔۔”مُنی“ سے زیادہ بدنام ”خوشامد پسند طبقہ“۔

نوٹ: اس مضمون کے حصۂِ دوئم کا لنک: خوشامد پسند ثقافت2