جولین بارنز، Julian Barnes، اور فکشن کا منصب 

Yasser Chattha

جولین بارنز، Julian Barnes، اور فکشن کا منصب 

از، یاسر چٹھہ

جولین بارنز 1946 میں لیسٹر میں پیدا ہوئے، لیکن جلد ہی کا خاندان لندن منتقل ہو گیا۔ یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ آکسفرڈ انگریزی ڈکشنری میں بَہ طورِ لغت نویس بھرتی ہو گئے، اس کے علاوہ مختلف اشاعتی اداروں کے لیے لکھاری، اور اور تبصرہ نگاری کرتے رہے۔

آپ کا پہلا ناول، Metroland، جو 1980 میں شائع ہوا، اس کو اچھی بھلی پذیرائی ملی۔ لیکن 1984 میں شائع ہونے والا ان کا تیسرا ناول، Flaubert’s Parrot تھا جس نے ان کو بہت منفرد اور توانا تخلیقی قوتون سے بَہرہ ور ناول نگار کے طور پر ممتاز کر دیا۔ اس کے بعد ان کے کئی اور ناول آ چکے ہیں۔ جن میں

A History of the World in 10 ½

Chapters (1989) 

The Porcupine (1992)

Cross Channel (1996) کہانیوں کا مجموعہ Letters from London نیو یارکر میگزین کے لندن نامہ نگار ہونے کے دوران لکھے گئے

خطوط: Love, etc. (2001)

شروع سے ہی انہیں فرانس اور فرانسیسی ادب سے، خاص طور پر فلابیئر کے کام سے، بہت لگاؤ رہا ہے، اور جولین بارنز کے کام میں بھی فلابیئر کے بہت اثرات نظر آتے ہیں۔ فرانس میں بھی جولین بارنز کی بہت پذیرائی کی جاتی ہے۔

پیرس ریویو میگزین کے انٹرویو کرنے والے کے اس سوال کے جواب میں جولین بارنز کہتے ہیں، “میرا خیال ہے آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ برطانیہ میں بعض اوقات مجھے شک سے مملو انداز میں یورپ زدہ لکھاری سمجھا جاتا ہے۔ ایک ایسا یورپ زدہ لکھاری جس پر بہت زیادہ فرانسیسی اثرات ہوں۔ لیکن یہی بات اگر آپ یورپ میں کریں گے تو وہ کہیں گے کہ بھئی کیا بات کرتے ہو، آپ تو ہر طور سے انگریز مزاج ہیں۔ میرا خیال یے میں کہیں بیچ بیچ ہی میں ہوں، جیسے کہ فرانس اور انگلستان کو ملانے والے سمندری چینل میں کہیں ہوں۔

اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے لیے ادب کیا مقام و مرتبہ رکھتا ہے؟

جولین بارنز کہتے ہیں، “(یہ ایک عمل، process، بھی ہے، اور ایک لطیف تجربہ، experience، بھی ہے۔)

اس سوال کے کئی  ایک جواب ہو سکتے ہیں۔ سب سے مختصر جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ ادب سچ کے اظہار کا بہترین سلیقہ اور وسیلہ ہے؛ یہ عالی شان، خوب صورت، عمدہ ترین ترتیب میں جھوٹ جوڑنے اور پِرونے کا عمل ہوتا ہے؛ پر یہ مزین و مترتب جھوٹ، ایسے جھوٹ ہوتے ہیں (جو کیفیت کی لطافت و زرخیزی سے محروم، اور تہی دامن) حقائق کی کسی متبادل جمع بندی، اور ان کے کسی بھی اجتماع و مجموعے سے، کہیں بڑا کیفیتی سچ بتانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

… اس کے علاوہ بھی ادب کی کئی حیثیّتیں اور حوالے ہیں، مثلاً زبان کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے کا لطف، ان لوگوں سے بھی انتہائی قربت کے تعلق جیسا ابلاغی ناتہ اور  تعلق جن سے آپ کبھی بھی ملے نہیں ہوتے، اور نا ہی ملنے کی کوئی توقع ہوتی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بَل کہ، بَہ طورِ لکھاری آپ کو ایک تاریخی تسلسل کے ساتھ جُڑی برادری اور تعلق داری کا احساس ہوتا ہے۔ البتہ، یہ احساس مجھے اکیسویں صدی میں رہنے والے ایک فرد کے اور کسی طور پر نہیں ہو پاتا، اگر ہوتا ہے تو انتہائی کم زور سا احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور  پر مجھے ملکۂِ وکٹوریا کی دنیا سے کوئی خاص تعلق محسوس نہیں ہوتا، اسی طرح خانہ جنگی، یا War of Roses میں حصہ لینے والوں سے کوئی خاص جُڑت نہیں محسوس ہوتی۔ لیکن مجھے ان وقتوں اور واقعات سے وابستہ و متعلقین لکھاریوں اور فن کاروں سے گہرا ناتہ اور دلی تعلق محسوس ہوتا ہے۔”

جب جولین بارنز سے ان کی اس کہی بات، کہ کسی لکھاری کا منصب اور وظیفہ سچ کی ترسیل و ترتیب ہے، پر تھوڑی سی مزید روشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی تو جولین بولے،

“بیانیے کی طاقت، کردار نگاری، اسلوب، اور اسی طرح کی دیگر صفات کو تو لمحہ بھر کو ایک طرف رکھیے، کوئی کتاب بڑی کتاب اسی صورت کہلا سکتی ہے، جب وہ دنیا و ما فِیھا کو اس طور پر سامنے لائے جس طور کا پہلے کبھی نا لایا گیا ہو، اور اس کتاب کے قارئین اس بات کو واضح طور پر دیکھنے کے قابل بھی ہوں کہ اس کتاب نے معاشرت و معاشرے، اور جذبات و احساسات کی دنیاؤں کے ایسے سچ سامنے لائے ہیں جو اس کتاب کے آنے سے سے پہلے کہیں اور پیش نہیں ہوئے تھے؛ (میرا مطلب یہ ہے کہ) کسی نے وہ سچ سرکاری ریکارڈوں کے پلندوں، حکومتی دستاویزوں، صحافت، یا ٹیلی ویژن ذرائع سے بر آمد نا کیے ہوں۔

مثال کے طور پر جب مادام باوری ناول آیا تو اس طرح کی معاشرت میں، اس طرح کی عورت کا پورٹریٹ، جو انہیں ادب میں اس طور پر پہلے کبھی نہیں دکھائی دیا تھا، اس کے سچ کو ان لوگوں نے بھی قبول کیا جو اس ناول کو ممنوعہ کتاب قرار دینے کے داعی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ناول بہت خطر ناک کتاب تھی۔

میں پورے اعتماد اور وثوق سے یہ کہتا ہوں کہ اس طرح کی مرکزی، نئے مناظر و دنیائیں وا کرنے والی صداقت، ادب میں موجود ہوتی ہے، جو اس کی شان و  شِکوہ کا ہی جُزو ہے۔ اس امر میں کسی بھی قسم کا شک و شُبہ نہیں کہ ایسا مختلف معاشروں میں مختلف طرح سے، اور مختلف حدود کے اندر رہ کر ہی ہوتا ہے۔ کسی ظالم و قہار معاشرے میں، ادب کے حق بات کہنے کی صلاحیت اپنے طور کے مخصوص درجے پر فائز ہوتی ہے؛ اور اس انداز سے حق سچ بات کہنے کی خصوصیت کی قدر آرٹ میں موجود دیگر عوامل و عناصر سے زیادہ بلند تر قدر و منزلت حاصل کرتی ہے۔”

انٹرویو کرنے والے پچھلے جواب سے ہی ایک اور ضمنی سوال سامنے لاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ کے جواب سے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ادب کئی اصناف میں صورت پذیر ہو سکتا ہے: مثلاً، مضامین و انشائیے، شاعری، فکشن، صحافت، وغیرہ؛ یعنی بہ قول آپ کے یہ سب ہر قسم کے سچ بیان کرنے کے مساعی و منابع ہیں۔ جولین بارنز فکشن میں طبع آزمائی سے قبل خود بھی بہت عمدہ قسم کے مضمون و انشائیہ نگار اور صحافی رہے تھے۔ تو جب سچ ہی بیان کرنا مطلوب و مقصود ہے تو ایسا تو دیگر اصناف میں بھی ممکن تھا۔ پھر ان حالات میں ایسی کیا خاص وجہ تھی کہ آپ فکشن نگاری کی جانب آئے؟

 اس سوال کے جواب میں جولین بارنز کہتے ہیں:

“جی سچی بات تو یہ ہے صحافتی کام کی بَہ جا آوری کے دوران مجھے لگتا ہے میں فکشن کے مقابلے میں کہیں کم سچ بتا اور سامنے لانے کے قابل ہوتا ہوں۔ میں ان دونوں ذرائعِ ابلاغ میں رہ کر کام کرتا ہوں، اور یہ دونوں ذرائع ابلاغ مجھے لطف دیتے ہیں؛ پر ذرا سیدھے سبھاؤ اور بَہ غیر کسی لگی لپٹی کے بات کروں تو صحافتی تحریروں کے لکھنے دوران آپ کا مَطمَحِ نظر یہ ہوتا ہے کہ آپ دنیا و ما فیھا کا بیان بہت سادہ کر کے پیش کریں، اور دنیا و ما فیھا کو اس انداز سے بیان کریں جو پہلی ہی خواندگی میں قابلِ تفہیم ہو؛ جب کہ فِکشن لکھتے وقت آپ کے سامنے یہ مقصد ہوتا ہے کہ آپ دنیا و ما فیھا کی، جس قدر ممکن ہو، ساری پیچیدگیاں اور پہنائیاں سامنے لائیں۔ اس دوران ایسی باتیں بھی ضبطِ تحریر و بیان میں لائیں جو بالکل ایسی سیدھی سادی نا ہوں جیسی کہ ان ہی چیزوں کی بابت میرے کسی صحافتی متن سادہ اور سپاٹ سے طریقے سے بیان ہوئی ہوتی ہیں؛ بَل کہ، آپ کے زیرِ نظر یہ ہوتا ہے کہ ایسی تحریریں اور متن سامنے آئیں جس سے آپ یہ آس وابستہ کر سکیں کہ وہ سچ کی نئی اور گہری پَرتیں وا کریں گی۔

جب انٹرویو کرنے والے پوچھتے ہیں کیا آپ اوائلِ عمری سے لکھاری بننا چاہتے تھے؟ تو جولین بارنز بہت بر جستگی سے جواب دیتے ہیں:

“بالکل بھی نہیں۔ لکھاری اور فن کار بننے کا سوچنا، اور آرٹ کی تخلیق کرنے کا سوچنا، خلافِ معمول و عادت یعنی abnormal سی بات ہے۔ اس کے مقابلے میں تشریحی و توضیحی آرٹ (interpretative art) کی تیاری نسبتاً حسبِ معمول ہے۔ لیکن چیزوں کا نا موجود سے وجود میں لانے کا سوچنا ایسی بات نہیں کہ جس کے لیے گھروں میں بتایا جاتا ہو، یا جس کے بَہ طورِ پیشہ اختیار کرنے کی کوئی سفارش و ترغیب دی جاتی ہو۔

انٹرویو کرنے والے اس جوابِ بالا سے کسی حد تک مختلف طرف اشارہ کرتے دریافت کرتے ہیں کہ اس کے با وُجُود انگلستان نے بہت اچھے اچھے لکھاری پیدا کیے ہیں، اور دنیا کے بہترین ادبوں میں بہترین درجے کا ادب تخلیق کرنے کا مُوجب بنا ہے۔ اس پر جولین بارنز کہتے ہیں:

“یہ بھی ایک طرح کا سچ ہی ہے۔ اگر آپ آرٹ خود تخلیق نا کرتے ہوں، تو بے شک آپ اچھے بھلے پڑھے لکھے بھی ہوں تو جیون کے آگے کی طرف بڑھتے برسوں کے ساتھ ساتھ بھی آپ اپنے آپ کو قاری، شارح، یا آرٹ کے صارف کہنے کے علاوہ کوئی اور کچھ ہونے کے مجاز نہیں ہوتے۔ جب میں اپنی بلوغت کے اوّلِین سالوں میں ذوق شوق سے پُر قاری بن گیا، تو میں سوچتا تھا کہ لکھنا وِکھنا ایسا کام ہے جسے کوئی خاص قسم کے لوگ ہی ہوتے ہیں، جو کرتے ہیں۔ اسی طرح، اس چیز سے قبل جب میں چار پانچ برس کا تھا تو میں انجن ڈرائیور بننا چاہتا تھا۔ اس بابت بھی میرا خیال تھا کہ یہ کام بھی شاید کوئی خاص طرح کے لوگ ہی ہوتے جو اسے کرتے ہیں۔

میرا تعلق سکول میں اساتذہ کے پیشے سے منسلک خاندان سے تھا۔ میرے والد اور والدہ دونوں ہی اساتذہ تھے۔ اس لیے ہمارے میں گھر میں کتابیں تو ہوتی ہی تھیں، اور لکھے لفظ کی حُرمت بھی تھی۔ لیکن کوئی ایسی بات یا فضا نہیں تھی کہ کوئی لکھاری بننے کی اُمنگ رکھتا ہو، یا کم از کم کوئی درسی کتاب لکھنے کی ہی تمنا رکھتا ہو۔ ہاں، ایک چیز یاد آ رہی ہے کہ ایک دفعہ میری والدہ کا London Evening Standard اخبار میں ایک خط شائع ہوا، اور یہ ہی ہمارے خاندان کی سب سے بڑی ادبی پیدا وار تھی۔

نوٹ: یہ تحریر The Paris Review میگزین پر جولین بارنز کے انٹرویو کے ایک حصہ پر مشتمل ہے۔ مکمل انٹرویو کے مشمولات کا دعویٰ نہیں ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔