دسہرہ

دسہرہ

دسہرہ

نصیر احمد

ھاھا، ناکامی تو ہے، تمھیں اچھا لگے تو بہت بڑی ناکامی کہہ لو، اور لہجے میں استہزا بھی بڑھا دو، پھر بھی دل نہ بھرے تو کاٹ کھاؤ، اس سے بھی کچھ زیادہ کرنے کا من چاہے، وہ بھی کر ڈالو لیکن اس طرف بھی تو دیکھو کہ کام بھی کچھ آسان نہیں ہے۔

اتنی راہداریاں، اتنی غلام گردشیں، اتنی بھول بھلیاں سر کرتے ہوئے برس بیت گئے، تب کال کوٹھڑی کا کچھ پتا چلا۔کال کوٹھڑی میں پہنچ بھی گئے مگر وہاں جو بیٹھا ہے وہ چنچل بالک ہے اور ایسا چنچل نہ دلار سے مانتا ہے نہ پھٹکار سے۔اسے کال کوٹھڑی سے پیار ہے اور اندھیرے اس کے کھلونے ہیں اور انھی کھلونوں سے اس کے لیے ماتا جی کا آشیر باد اور پتا جی کی شاباش جڑی ہوئی ہے، کال کوٹھڑی سے نکلا تو ان والدینی نعمتوں سے محروم ہو جائے گا اور کال کوٹھڑی سے نکل کر اسے ملے کا کیا، فکر و غم کی ہزارہا ذمہ داریاں اور کھیلنے کے لیے اک وعدہ فردا، بالک ہی سہی اتنا بھی نادان نہیں فردا کی روشنی کے لیے آج کے اندھیرے ترک کر دے، ہم بھی ہیں کہ کہے جاتے ہیں لیکن اس نے ہماری کہاں ماننی ہے لیکن کہنا ہم پر جیسے فرض ہو گیا ہے کہ اتنا جانتے ہیں فرد بنے گا تو شہری بنے گا، شہری بنے گا تو فردا میں بھی کچھ روشنی کچھ زندگی ہو گی، ورنہ کال کوٹھڑی میں ہی ہماری بحثیں چلتی رہیں گی۔

بحثیں بھی کیسی، تھوڑی اور سچی کہیں تو سمجھو بس اک غنڈہ ہے اور بھائی  دادا، انا، لالہ ہماری کہاں سنتا ہے۔ بات چیت کی حدیں طے کردی ہیں،یہ پر لوک کی بات ہے، ہم نہیں کر سکتے، وہ بیکنٹھ کا قصہ ہے، ہم ذہن پر زور نہیں دے سکتے، یہ دیوتاوں کی یاترا ہے، ہمیں آنکھوں پر پٹی باندھ لینی چاہیے، یہ سر ساگر ہے، ہمیں چاہیے کہ کانوں میں سیسے ڈال لیں، پھر بھی کچھ کہیں تو  بیلوں کی طرح ڈکرانے لگتا ہے، ہاتھیوں کی طرح چنگھاڑنا لگتا ہے اور بعد میں ایس چیخ  چنگھاڑ کو کبھی نرملتا کہتا ہے، کبھی کوملتا اور ہم داد دیے جاتے ہیں اور کبھی داد میں توقف کا لمحہ آجائے تو بڑھتے اندھیروں کی بات کرتے ہیں، وہ وہیں سوریہ نمشکار شروع کر دیتا ہے کہ اگر اندھیرا ہے تو پھر سوریہ نمشکار کیسا؟ ساتھ والے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور کال کوٹھڑی سب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، پھر سب بھجن گاتے ہیں اور بڑھتے اندھیرے کی بات کی  آئی گئی ہو جاتی ہے اور کبھی روشنی کی ضرورت کا تزکرہ بھی کر دیں تو سخت جگہوں کے ذکر سے منع کر دیتا ہے۔

پھر سور ویر بھی  ہے اور کال کوٹھڑی اس کی جنگاہ،کون جیا کون مرا،یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں،بھائی موت کے گھاٹ اترے تو دھرم نبھتا ہے،بہن کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں، تو ریت چلتی ہے، دوست ہلاک ہو تو بلیدان ہے، جب مرنے  والے اور مارنے والے میں دوئی نہیں تو گلہ کس بات کا لیکن اسے خراش لگ جائے تو وہ واویلا مچتا ہے کہ دوئی اتنے گھور اندھیرے میں بھی نظر آجاتی ہے لیکن درجوں اور مرتبوں کے اتنے پینترے ہیں کہ  یکتائی کا جادو نہیں توٹتا اور کبھی جب ٹوٹنے لگے تو کوئی نہ کوئی مون برت رکھ لیتا ہے۔

مون برت پر یاد آیا، رشی منی بھی ہے،ذہن میں کبھی کوئی سوال ابھرے  تو وہ منتر پھونکتا ہے کہ لاکھوں کے گلے کٹ جائیں تو کٹ جائیں، سوال پھر نمودار نہیں ہوتا۔ جب ہستی کا مقصد ہی نیستی ہے  پھر مرے ہووں کا سوال کرنا نہیں بنتا اور چھایا مایا کے جنتر تنتر کو  بقا سے آشنا کرنے والے تو آسور راکھشس اور پردیسی ہی ہیں۔بلکہ صرف پردیسی کہ پل بنائیں تو سالوں قائم رہیں،ہمارا کام بنانا کب ہے، یہ کال کوٹھڑی، یہ بھرشٹا چار تو مایا جال ہے، ہمارے اندر تو  سورج اگے ہیں، ستارے جگے ہوئے ہیں، اس لیے پل اگر بننے کے فورا بعد ٹوٹ جائے، تو دکھ کی بات نہیں، یہ ہستی کا چلن ہے، ہاں اگر کوئی  شودرکسی اچھے عہدے پر پہنچ جائے، پھر قیامت اٹھا دی جائے

کہ سمرتیوں کی خلاف ورزی ہے، ہستی کا چلن نہیں۔خیر ہر قسم کے ظلم و تشدد کے زیر اثر احساس ندامت کو مٹانے کت سب گر جانتا ہے۔اسی لیے حق چھین کر اداس کوئی نہیں ملتا۔سب یہی سمجھتے ہیں ہستی کا یہی دستور ہے۔ بلکہ جن کے حق چھنتے ہیں، وہ نذر نیاز لے کر دوارے پر آ دھمکتے ہیں، او شمع مجھے پھونک دے، یہی عشق کا ہے دستور۔

رشی منی ہی نہیں کتھا والا کوی بھی ہے ،وہ کتھا جس میں جتنی بھی انسان دشمنی ہے، وہ بلند روحانی مقامات پر فائز ہے، معشوقہ در کی کتی(کتیا) ہے اور معشوق نینوں کے بان چلاتا ہے۔تیر نظر شمشیر نگاہ، جوش غلبہ اور نجانے کیا کیا۔ اوپر سے انقلابی  ماس گند چلاتے پہنچ جاتے ہیں۔ ملے گا ماس ملے گا اور مل بھی جاتا ہے۔ اور کوی اس پر تشدد کھیل کو عشق کہتا ہے، سر  تن سے اترے ،پھر بھی عشق، دیوار میں چن جائے، پھر بھی عشق، سر پر سنگ برسیں پھر بھی عشق، تن میں کیڑے پڑیں پھر بھی عشق، اس میں ہماری کیوں ،کب، کیا ،کیسے کال کوٹھڑی میں کہیں گم ہو جاتی ہے، اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود بھی کہیں کھو جاتے ہیں، کہہ ہی نہیں پاتے کہ شعر و سخن کے ذریعے بے رحمانہ تشدد کی وکالت نہیں بنتی۔ اتنی دیر میں وہ ایک نیا سوانگ بھر لیتا۔

اب راجا سے ملاقات کرو،پرجا والے راجا سے،غدر ہو تب بھی پرجا کا بھلا، فساد ہو تب بھی پرجا کا بھلا، جنگ ہو تب بھی پرجا کا بھلا، راج محل میں کم کچھ رنگیلا ہو تب بھی پرجا کا بھلا، راجا کے لیے مرجائیں، تب بھی پرجا کا بھلا، راجا کو لگان دیتے بھوکے مر جائیں تب بھی پرجا  کا بھلا ، راجا کے رتھ کے نیچے آکر کچلے جائیں  تب بھی  پرجا کا بھلا۔آخر ہستی کا مقصد نیستی ہی تو ہے،پرجا کیا ہے بیگار کی نچنیا، ختنہ ہو تب بھی ناچے، مونڈن ہو تب بھی ناچے، تاج پوشی پر بھی ناچ اور کریا کرم پر بھی ناچ۔ناچتے ناچتے کبھی پوچھ بیٹھے شاہ مہرباں کچھ ہمارا بھی سوچا ہے، پھر ایک کوڑا سا لہراتا ہے، شعلہ سا لپک جائے آواز تو دیکھو اب رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے لیکن پرجا کو پوچھنے کی اجازت نہیں ہے، اور اجازت کا کیا کریں گے صلاحیت ہی نہیں ہے، صلاحیت ہے تو ہمت نہیں ہے، ہمت ہے تو ہستی کا مقصد بہرحال نیستی ہے۔اسی طرح کال کوٹھڑی کا اندھیرا بڑھتا رہتا ہے اور چنچل بالک کے کھیل چلتے رہتے ہیں۔

اور ان کھیلوں میں ایک کھیل برادری کے وید جی کا کھیل ہے، ہر سو سال میں ایک دفعہ تو کھیلا جاتا ہے ، ہر دفعہ دعوی یہی ہوتا ہے کہ علاج معالجہ ہوگیا، مداوے کے مرحلے طے ہو گئے، اب بیمار تندرست ہے، اور چند لمحوں میں کال کوٹھڑی کی دہلیز پار کر کے کائنات تسخیر کر لے گا، اب ہم ہیں کچھ چھان پھٹک کر لیتے ہیں، علاج کیا اٹ سٹ کوار گندل اور پکھڑے کو ہر بید جی نئے نام دیتے ہیں اور علاج وہی قدیم مرض  کے طور پر سامنے پھیلا دیتے ہیں اور ہم سب پارس پتھر ملنے کی خوشی منا لیتے ہیں، وہ بھی یہی چھل فریب کرتا ہے لیکن جب تال سے تال ملی ہو ترقی کےنام پر ککلی کلیر کی کھیلتے رہتے ہیں، بس ایک ڈھینکلی سی پھرتی ہے، سب شگون شبھ ہیں، کشل منگل اور وید جی گہری سوچوں کا کھیل کرتے ہوئے چھچھوری کرتے رہتے ہیں، اور چھچھوری سے اس کی توجہ ہی نہیں ہٹتی، ہم لاکھ کہیں کہ وید جی پردیس سے کچھ سیکھ ویکھ کے نہیں آئے بلکہ باسی کڑھی کو تازہ ابال دیتے رہے ہیں اور کبھی کچھ نئے سے ٹکرے تو رستہ ہی بدل گئے لیکن ہمارے کہنے سے کیا ہوتا ہے، وہ کچھ مانے تو۔

اور پھر ناٹکی اتنا کچھ پتا نہیں چلتا کہ بات اس کے بھیجے میں پڑی ہے کہ نہیں۔اس کے مکالموں میں جتنا کچھ اچھا ہے ڈال دیتے ہیں، کہ پڑھے گا شاید کچھ پلے پڑھ جائے ، اور اچھا پڑھتا بھی ہے، فرد ،شہری، حقوق، سائنس، انسانیت، عقل، تفہیم، تجربہ وٖغیرہ وغیرہ لیکن پڑھتا ایسے ہے کہ ناٹک دیکھنے والوں کو یہی لگتا ہے، ان لفظوں کے معنی نہیں ہیں ، بلکہ بذات خود معنی کچھ نہیں ہیں، اور معانی کے اس خلا میں ہستی اور نیستی کا فرق مٹ جاتا ہے کہ معانی کا یہ خلا رشتوں کا خلا ہے۔لیکن کال کوٹھڑی میں وہ ہے ، اور اس کے سننے والے۔ہم تو وہاں جیسے ہیں ہی نہیں،انھونی کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتے رہتے ہیں مگر معانی کے اس خلا میں معتبر ہونے کا کھیل کاہے کو کریں۔

ابھی دھرتی کی تلاش جاری ہوتی ہے کہ آکاش سر پر گر پڑتا ہے۔لو جی اب ویشیا کے روپ بھرے وہ آن دھمکا۔ اب اسے پیسوں اور زیور کی حاجت ہے اور پیسوں اور زیور کے لیے سب کچھ بیچنے کے لیے تیار ہے، اب مایا جال نہیں بلکہ مایا مکتی ہے  اور اس مکتی کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس کے یہی تیور ہیں۔، چنچل بالک ہے، تو بھی کچھ  بھی کر سکتا ہے، موالی ہے تب بھی کچھ  بھی کر سکتا ہے،سورما ہے تب بھی کچھ بھی کر سکتا ہے،رشی منی ہے، تب بھی کچھ  بھی کر سکتا ہے،کوی چترکار ہے، تب بھی کچھ  بھی کر سکتا ہے،راجا راول ہے، تب بھی کچھ بھی کر سکتا ہے،وید حکیم ہے تب بھی کچھ کر بھی سکتا ہے،ناٹکی نوٹنکی ہے ،تب بھی کچھ  بھی کر سکتا ہے، گیشا ویشیا ہے، تب بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ ،اس کچھ  بھی کرنے والے کو میں کیسے سمجھاؤں؟ میں بے چارہ کبھی اقوام متحدہ کی دستاویزیں کھول لیتا ہوں اور کبھی انڈین پینل کوڈ کی شقیں اس کے سامنے پھیلا دیتا ہوں لیکن وہ قانون سے مہان ہے، اقوام متحدہ کی دانائی سے برتر ہے، وہ میری کب سنتا ہے؟

اب اس کا آخری سوانگ داس کا ، نوکر کا چاکر کا ہے،سو جوتے بھی مار لو تب بھی مالک کا گھر نہیں چھوڑتا، مالک کا در چھوڑ دے، تو کتوں سے بدتر سمجھا جائے گا، در پر پڑا رہتا ہے، میں لاکھ کہتا ہوں، تم انسان ہو، یہ چاکری تمھیں زیب نہیں دیتی، وہ کہتا ہے، ہر چاکری راج گیری کی سیڑھی ہے، چاکر یا راجا، اس سے الگ بات وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ برابری سے وہ ڈرتا ہے، اسے صدیوں کا ترتیب شدہ یہی کھیل اچھا لگتا ہے کہ اسے یہی کھیل کھیلنا آتا ہے، اور یہ سارے کھیل کال کوٹھڑی میں ہی ممکن ہیں، کال کاٹھڑی کہو کہ شجر ظلمت ، سنگ دل ثقافت، وہ ان بھول بھلیوں، پیچ وخم غلام گردشوں سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے، میں ناکام ہی سہی ، جو ٹھیک جانتا ہوں، کہتا رہوں گا، تم مجھے طعنے بھی دیتے رہو، لیکن کچھ اسے بھی تو سمجھاؤ کہ کال کوٹھڑی ہمارا مقدر نہیں ہے۔