باد مخالف، چرچل اور ہماری قیادت

ملک تنویر احمد
ملک تنویر احمد

باد مخالف، چرچل اور ہماری قیادت

از، ملک تنویر احمد

یورپ میں گزشتہ صدی کا تیسرا عشرہ مایوسی، یاسیت اور نا امیدی کا عشرہ تھا۔ دنیا بھر میں ’’جمہوریت کی ماں‘‘ سمجھنے جانے والے ملک برطانیہ میں مستقبل کے بارے میں عمومی تاثرات نہایت ہی منفی اور مایوس کن تھے۔لوگوں کے دل ایک تاریک مستقبل کے انتظار سے خوفزدہ اور سہمے ہوئے تھے۔ خوف اور مایوسی کے سوداگروں کا مال خوب بک رہا تھا اور دوسری طرف ان افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی جو اپنے مستقبل کو اندھیروں کے حوالے کرنے کی بجائے ان سے لڑنے کے لیے کمربستہ تھے۔

لوگوں کے سامنے دو راہیں تھیں ۔ فاشزم کے سامنے سربسجود ہو جائیں یا پھر کمیونزم کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔شاعر اسٹیفن اسپنڈر کے الفاظ میں ’’یوں لگتا تھا جیسے میری نسل ہی مغربی تہذیب کی ناؤ کو غرقاب ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی‘‘۔’’مغربی اور لبرل جمہوریت کا خاتمہ‘‘ روزمرہ زندگی سے لے کر برطانیہ کی ثقافتی و سیاسی زندگی میں سب سے زیادہ بحث کیا جانے والا موضوع تھا۔اخبارات، رسائل و جرائد ایسے موضوعات سے بھرے ہوتے تھے جس میں لبرل ڈیموکریسی کے خاتمے کے بارے میں پیشن گوئیاں اور قیاس آرائیاں پورا زور قلم صرف کر کے شائع کی جاتی تھیں۔

مورخ آرنلڈ ٹوئن بی کے مطابق بیسویں صدی کا تیسرا عشرہ اس سوچ کے ساتھ شروع ہوا کہ مغربی طرز فکر اور جمہوریت کا معاشرہ اب ڈوبنے کو ہے اور کسی وقت بھی یہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ کمیونزم اور فاشزم کے سامنے یہ نظام حکومت اب کسی طور ٹھہرنہیں سکتا۔ایک اور مغربی اسکالر  A.L.Rowseلکھتے ہیں ’’اب بہت دیر ہو چکی ہے کہ کسی طور بھی مغربی لبرلزم کو بچایا جا سکے‘‘۔

1937 میں ایک امریکی ماہر سیاسیات Harold Lasswell نے اپنے ایک مضمون میں ایک گریژن اسٹیٹ کا تصور پیش کیا جس میں تشدد کے علمبردار اس ریاست کے امور مملکت کے نگہبان ہوں گے اور معاشی و سماجی کا ایک منظم نظام بتدریج ان عسکریت پسندی کی سوچ کے علمبرداروں کے تابع ہو جائے گا ۔1938میں جب برطانوی وزیر اعظم چمبرلین نے جرمنی کے ہٹلر کے ساتھ میونخ معاہدے پر دستخط کر کے اپنے تئیں اسے برطانیہ اور خطے کے  لیے امن کا ضامن سمجھ لیا تھا تو ایک نامعلوم خوف کے سائے مزید گہرے ہو گئے تھے۔

بظاہر یہ برطانیہ کے  لیے امن کی دستاویز تھا اور ہٹلر سے معاہدہ کر کے برطانوی وزیر اعظم چمبرلین نے اپنے ملک کے  لیے امن کی ضمانت حاصل کر لی تھی لیکن ایک انجانے خوف نے برطانیہ کے لوگوں کے ذہنوں کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ برطانیہ حلقہ اقتدار کی اکثریت نے ہٹلر کے ساتھ معاہدے پر مہر تصدیق ثبت کی اور اسے برطانیہ کی بقا کے  لیے ایک تاریخی دستاویز قرار دیا لیکن کچھ افراد ایسے بھی تھے جو اس دستاویز کو خطے میں امن کے  لیے تباہ کن قرار دے رہے تھے اور برطانیہ کے وزیر اعظم چمبرلین کی جانب سے ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی کو ہٹلر کے تو سیع پسندانہ عزائم کو ہوا دینے کے مترادف قرار دے رہے تھے۔

ان مخالف آوازوں میں سب توانا آواز ونسٹن چرچل کی تھی۔چرچل صدی کی تیسری دہائی کے شروعات سے سیاسی طور پر تنہائی کی زندگی گزار رہے تھے اور ان کے سیاسی مستقبل کے خاتمے کے بارے میں پیش گوئیاں کی جا چکی تھیں۔ جب جارج برنارڈ شاہ اور نینسی استور جو چرچل کے سیاسی مخالفین سمجھے جاتے تھے روسی مرد آہن جوزف اسٹالن سے کریملن میں ملے تو اسٹالن نے چرچل کے سیاسی مستقبل کے بارے میں استفسار کیا ۔دونوں نے یک زبان ہو کر کہا “Churchil is finished”۔

ان حالات میں جب برطانیہ کے طبقہ اشرافیہ میں ہٹلر اور فاشزم کے  لیے ہمدردی کے جذبات موجزن تھے اور وہ ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی پر گامزن تھے چرچل میونخ معاہدے کی سب سے توانا اور طاقتور مخالف آواز بن کر ابھرے۔ اس معاہدے کے خلاف چرچل نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا ’’ہٹلر کے ساتھ اس معاہدے کے ذریعے ہم نے زیادہ سے زیادہ کیا حاصل کیا کہ جو روٹی اس نے چھین کر حاصل کرنی تھی وہ ہم نے خود اس کی خدمت میں پیش کردی‘‘۔

میونخ معاہدہ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو ہٹلر کے جارحانہ عزائم سے نہ بچا سکا جب اس نے چیکو سلواکیہ، پولینڈ، فرانس، بیلجیم، ہالینڈ کو تاراج کرنے کے بعد برطانیہ کا رخ کیا۔جب ہٹلر کی افواج نے پولینڈ پر قبضہ کر کے اپنے توسیع عزائم کا اظہار کر دیا تو وزیر اعظم چمبرلین کے  لیے اپنے عہدے پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہ رہا ۔ اس جنگ عظیم میں برطانیہ کی قیادت کے لیے نگاہیں اب فقط چرچل پر آکر ہی رکیں کہ وہ رجعت پسند قوتوں کے خلاف محاذ کی قیادت کریں۔

چرچل کی قیادت میں برطانیہ نے ہٹلر کو شکست دینے کے  لیے کس طرح امریکہ کو اپنا حامی و مددگار بنایا اور کس طرح برطانیہ کو فاشزم کی یلغار میں فتح یاب بنایا ایک معروف و مشہور داستان ہے جسے دنیا بھر میں مانا جاتا ہے۔ تاریخ میں اپنے آ پ کو زندہ رکھنے کے  لیے مخالف ہواؤں کے سامنے ثابت قدمی اور استقامت سے جمے رہنا ہی اصل قیادت کا نام ہے۔آج کے پاکستان میں بیسیویں صدی کے تیسرے عشرے میں سانس لینے والے برطانوی معاشرے سے حالات زیادہ مختلف نہیں ہیں۔

پاکستانی معاشرہ جس تیزی سے روبہ زوال ہے اس کی نشانیاں ہمارے ہاں تقسیم در تقسیم کا وہ خوفناک گھن چکر ہے جو معاشرے میں بہت گہری میں اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ایک کے بعد ایک انتہا پسندو رجعت پسند قوتیں اس ملک پر حملہ آور ہیں ۔ ان قوتوں کے تنگ نظر نظریات و تصوارت بہت تیزی سے معاشرے میں سرایت کرتے چلے جا رہے ہیں جس سے روشن فکر، آزادانہ سوچ اور اظہار رائے کے سنہری آدرشوں کا چراغ بجھتا چلا جا رہا ہے۔

اب معاشرے میں آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنا صلیب پر لٹک جانے کے مترادف ٹھہرتا جا رہا ہے۔ اس ملک کا طبقہ اشرافیہ اور ارباب بست و کشاد ان معاہدات کے ذریعے ملک کے مستقبل کو روشن تر بنانے کے دعویدار ہیں جو اپنے باطن میں وہ تمام تر حشرسامانیاں سموئے ہیں جس سے اس ملک میں رجعت پسند قوتیں اور ان کے نظریات فروغ پذیر ہو سکیں۔ ان انتہا پسند قوتوں کی یلغار کے سامنے پاکستانی معاشرہ اور ریاست بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے ہوئے رحم و امن کی بھیک مانگ رہے ہیں اور انہیں خو ش کر کے اپنے  لیے عافیت و چین کی چند گھڑیاں حاصل کرنے کی تگ و تاز میں مصروف ہیں۔

افسوس صد افسوس کہ انتہا پسندی و رجعت پسندی کے بطن سے جنم لینے والے اس گھٹا ٹوپ اندھیرمیں جب ہم ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں تو ہمارے پاس چرچل جیسی کوئی قیادت موجود نہیں۔ ہمارے نصیب میں نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان ہیں جواسٹیٹسمین کی بجائے سیاست دان ہیں جن کی نظر فقط 2018 میں اقتدار کے حصول پر مرکوز ہے۔ اب معاشرہ جائے بھاڑ میں یہاں آگ لگے یا پھر یہ نیست و نابود ہو جائے ان کی بلا سے۔