کہانی مظہر الاسلام ہے

کہانی مظہر الاسلام ہے

کہانی مظہر الاسلام ہے

از، ڈاکٹررفیق سندیلوی

مظہرالاسلام کی کہانیوں کے بارے میں ڈاکٹر صفیہ عباد کی کتاب کا عنوان ’’کہانی مظہرالاسلام ہے‘‘ بہت ہی معنی خیز ہے۔ کہانی کار کو کہانی کہنے کا مطلب تو یہی ہے کہ ناظر و منظور ایک ہو گئے، تخلیق اور تخلیق کار کے بیچ کی دوئی ختم ہو گئی، لکھاری لکھت میں بدل گیا اور لکھت لکھاری بن گئی۔ مظہرالاسلام نے واقعی اپنی تخلیقیت کو اپنی کہانیوں کے خمیر میں اس طرح گوندھا ہے کہ وہ اُن کے وجود کا حصّہ دکھائی دیتی ہیں۔ امرتا پریتم نے کہانی کو مظہرالاسلام کے نام سے موسوم کیا تو اس کے عقب میں بھی مظہرالاسلام ہی کی تخلیقی و فکری رَو موجود تھی یا کہانی کے تنوع کو معنی و مفہوم اور احساس و ادراک کے سانچے میں لانے کی تمنا کارفرما تھی۔ یہ سوال درپیش تھا کہ کہانی کیا ہے۔

مظہرالاسلام بتاتے ہیں کہ کہانی میلہ دیکھنے آئی ہوئی دیہاتی لڑکی ہے۔ کہانی سوچ میں ڈوبی ہوئی آنکھ ہے۔ کہانی کچھ دیر پہلے روئی ہوئی عورت ہے۔ کہانی باتوں کا جنگل ہے۔ کہانی دُلہن کا عروسی جوڑا ہے۔ کہانی بوڑھا فقیر ہے۔ کہانی کرداروں کی ماں ہے۔ کہانی بیمار عہد کی گواہی ہے۔ کہانی کسی جنگل کا تار تار لباس ہے۔ کہانی شام پڑے کھیت سے لوٹتے ہوئے ہاری کے پاؤں سے بندھی ہوئی تھکن ہے۔ کہانی پھانسی پانے والے شخص کا راز ہے۔ کہانی روٹھی ہوئی محبوبہ ہے۔ کہانی پیاسی چڑیا ہے۔ کہانی بوڑھی ادا کارہ ہے۔ کہانی بغیر ٹکٹ سفر کرنے والا مسافر ہے۔ کہانی پیار کی بات ہے۔ کہانی دُکھ کی رات ہے۔ کہانی سیاہ دور کی چیخ ہے۔ کہانی پھٹا ہوا آدمی ہے۔ کہانی ورق ورق لڑکی ہے۔ کہانی عمر قید کی سزا کاٹنے والا قیدی ہے۔ کہانی ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج ہے۔ کہانی غیر مطبوعہ بوسہ ہے۔ کہانی چیخوف ہے ۔ کہانی کافکا ہے۔ کہانی منٹو ہے….مکالمے کی شکل میں مظہرالاسلام کے خیالات کا دھارا یہاں تک پہنچتا ہے تو امرتا پریتم اس دھارے کے زیرِ اثر ایک قاری کے طور پر پکار اٹھتی ہیں کہ کہانی مظہرالاسلام ہے ۔ داد دی جانی چاہیے کہ امرتا پریتم کا یہ بے ساختہ فقرہ وقت کی زنبیل سے نکل کر ڈاکٹر صفیہ عباد کی کتاب کی پیشانی پر عنوان کی صورت سج گیا۔

’’کہانی مظہرالسلام ہے ‘‘ایک ایساعنوان ہے جس پر نظر پڑتے ہی کتاب کے اندر داخل ہونے کی ترغیب پیدا ہوتی ہے اور دھیان نئی تھیوری کی طرف جاتا ہے۔ فکشن کی تفہیم میں ادبی تھیوری کے اثرورسوخ اور حاصلات سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگرھیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر صفیہ عباد نے اپنی تنقید پر ادبی تھیوری کا سایہ نہیں پڑنے دیا۔ ہرچند کہ اُن کا کہنا ہے کہ ’’تحریر خود مجھ سے لکھواتی ہے۔ وہ مجھے کبھی کوئی باقاعدہ ذہن نہیں بنانے دیتی۔ میرے لیے راستہ وہ خود ہموار کرتی ہے۔‘‘ اس بیان میں ’’لکھت لکھتی ہے، لکھاری نہیں‘‘ کے معروف فقرے کی گونج تو واضح طور پر سنائی دے رہی ہے لیکن پوری کتاب پڑھ جائیے، ادبی تھیوری سے کسی جگہ بالواسطہ طور پر بھی استفادہ دکھائی نہیں دیتا۔ غالباً ڈاکٹر صفیہ عباد کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ وہ جبراً نہیں لکھتیں۔ اُن کی تحریر اُن کے موڈ اور مزاج کے مطابق تشکیل پاتی ہے۔ ادبی تھیوری سے استفادہ نہ کرنے کے باوجود اُن کی کتاب متاثر کرتی ہے اور مظہرالاسلام کی کہانیوں کی رنگت ، بُنت اور کشش کے رموز کو بھرپور انداز میں متعارف کراتی ہے۔یوں کہ قاری کہانی کار سے مانوس ہوتا چلا جاتاہے۔ مظہرالاسلام کی کہانیوں میں جس طرح کی مانوسیت دکھائی دیتی ہے، اس سے مستعار مانوسیت ڈاکٹر صفیہ عباد کی تنقید میں بھی نظر آتی ہے۔ اصغر ندیم سیّد نے اُن کی تنقید کو سراہا ہے:

’’ڈاکٹر صفیہ عباد نے نئی صدی کے تنقیدی اُفق پر ایک ایسے نقاد کی حیثیت سے اپنی پہچان نمایاں کی ہے جس نے ادب کی تغیر پذیر قدروں کے فطری عمل کی روانی میں نئے تنقیدی اصول وضع کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ وہ تخلیقات کے نئے لب و لہجے اور اسلوب کو مروّجہ تنقیدی سانچوں میں رکھ کر پرکھنے کی بجائے نئے عہد کی تحریروں کو ان کے اپنے موجود حوالوں سے دریافت کرتی ہیں۔ تنقیدی مضامین سے عام طور پر اساتذہ ، طالب علم اور محقق ہی استفادہ کرتے ہیں اور عام قارئین کے لیے وہ دلچسپی کا باعث نہیں ہوتے۔ یہ کہنا پڑے گا کہ ڈاکٹر صفیہ عباد نے تنقید کے نئے زاویے دریافت کیے ہیں۔ اس لیے اُن کے مقالے نصابی دائروں سے نکل کر عام قارئین کو بھی اپنی پُرکشش دنیا کی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اُن کے تنقیدی مضامین ایسا جادوئی اثر رکھتے ہیں کہ ماننا پڑتا ہے کہ تنقید بھی دراصل تخلیقی عمل ہے۔ صفیہ عباد نے اردو کہانی میں نئے اسلوب اور تکنیک کو رواج دینے والے ادیب مظہرالاسلام کی کہانیوں کے بارے میں ایسے ہی خوبصورت مضامین تخلیق کیے ہیں جن کا یہ کہانیاں تقاضا کرتی ہیں۔‘‘

تنقید سے تدریس کا عمل ہمیشہ سے وابستہ رہا ہے اس لیے مغرب میں نصابی تنقید کو بھی بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ Clif Notes اور Spark Notes اور اس طرح کے ہزاروں کتابچے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہی تنقید پڑھ کرطلبہ اور عام قارئین کے دل میں نقد و ادب کی نئی منزلوں کو سر کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اردو تنقید نصابی دائروں کے اندر ہی گردش کرتی ہے اور ان دائروں کو توڑ کر باہر نکلنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ اصلاًنقاد پر لازم ہوتا ہے کہ تشریح و تعبیر کے عمل میں ادب کی نئی اور گہری سطحوں کو ابھارے تاکہ پڑھنے والے کی دلچسپی قائم رہے اور اُس کے علم میں بھی اضافہ ہو بلکہ وہ علم سمت نمائی بھی کرے۔

جنّاتی یا اصطلاحاتی زبان میں تنقید کا عمل فسخ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صفیہ عباد کی تنقید میں تفہیم کا عمل سادگی اور دلچسپی کے عناصر سے ترتیب پاتا ہے جس میں محسوسات کو اوّلیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب سے مظہرالاسلام کی کہانیوں کی خوشبو آتی ہے۔ ان کی تحریر پر بھی مظہرالاسلام کی لفظیات اور اسلوب کا اثر نظر آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے انہوں نے اپنی تنقید کی ساری توانائی مظہرالاسلام کی کہانیوں کی فضا سے کشید کی ہے۔ خود ڈاکٹر صفیہ عباد کاکہنا ہے کہ اُنھوں نے مظہرالاسلام کی کہانیوں میں سے اُن کی ذات اور کائنات کی باتیں چُنی ہیں۔ اُنھوں نے مظہرالاسلام کی کہانیوں کو ایک ایسے قاری کے طور پر پڑھاہے جو اپنے مطالعے میں موسم ، مزاج اور کیفیت کو بھی شامل سمجھتا ہے اور جس کے نزدیک فطرت کے موسم اور ناقد کے کیفیاتی و مزاجی اابعاد بھی کہانی کی تفہیم و تعبیر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پیش لفظ میں ایک جگہ لکھتی ہیں:

’’یہ کہانیاں موسموں کے مختلف مزاجوں میں پڑھی گئی ہیں۔ دن تھا یا رات ۔ بارش تھی یا دھوپ۔ اداسی تھی یا تنہائی۔ کسی گمنام سی جگہ کی سیڑھیاں تھیں یا پرندوں کے چہچہوں سے آباد چمن زار۔ کچھ علم نہیں۔ جس موسم ، جس کیفیت نے اس لمحے میں مجھ سے لکھوایا، میں نے لکھ دیا۔ کسی عنوان کو سوچنے، بولنے اور بار بار دیکھنے کا اس موسم کے مزاج نے وقت ہی نہیں دیا۔‘‘

    ڈاکٹر صفیہ عباد نے مظہرالاسلام کی کہانیوں پر جن عنوانات کے تحت بحث کی ہے، ان میں اختراعی اور غیر رسمی انداز کا احساس بھی ہوتا ہے۔ مثلاً یہ عنوانات دیکھیے:

بات ایک کہانی کی

        مظہرالاسلام کہانی کیسے بُنتا ہے

        سماج کا رنگ بدلتا ہے

        خود کشی، موت، مرحوم، قبرستان اور اس کے بعد کی بات

        وہ سچ کی پوڑھی چڑھتا ہے

        گڑیا اور چڑیا کی کہانیاں

        بارش ، انتظار،جدائی، اُداسی اور وہ دونوں

ڈاکٹر صفیہ عباد نے لکھا ہے کہ ’’۔ مظہرالاسلام کی کہانی نے جس رنگ، جس لفظ اور جس عنوان میں ظاہر ہونا چاہا۔ میں نے وہی رنگ اور راستہ اختیار کیا‘‘ ۔ان کے نزدیک یہ عنوانات کسی شعوری کاوش اور سوچ بچار کا نتیجہ نہیں ہیں مگر اس کے باوجود اُنھوں نے تمام عنوانات کی وضاحت کی ہے، اِس طرح کہ اِنھیں پھر سے رسمی صورت میں ڈھال دیا ہے۔مظہرالاسلام کی کہانیوں نے ڈاکٹر صفیہ عباد کی تنقید میں زیرِ بحث آنے کے لیے اگر اپنے عنوانات خود ہی تراش لیے تھے تو آخر وہ کون سی ضرورت تھی جس نے اُنھیں توضیح کی طرف مائل کیا ۔مائل ہونے کی وجہ اگر قاری کی ذہنی سہولت تھی تو گویا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ رسمی عنوانات یا نصابی طرز کے عنوانات زیادہ قابلِ فہم ہو سکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ محض عنوانات کے رسمی یا غیر رسمی ہونے سے تنقید کی اثر انگریزی اور کارکردگی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ تنقید میں اصلاً فن پارے کے تخلیقی عمل سے واقفیت حاصل کی جاتی ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ فن پارہ زندگی اور زمانے سے کس درجہ مربوط ہے اور اِ س کے انوکھے پن کا راز کیا ہے۔

ڈاکٹر صفیہ عباد عنوانات کی تشریح نہ بھی کرتیں تو اس سے کوئی فرق نہ پڑتا۔متن خوداپنی تشریح کا مطالبہ کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اس کے بطون میں کیا ہے۔ ڈاکٹر صفیہ عباد کی کتاب بتاتی ہے کہ وہ ایسے فن کار کے بارے میں ہے جس کا اسلوب و انداز جُدا گانہ ہے، جس کی کہانی میں کرداروں اور بے نام کرداروں کا تنوّ ع ہے ،جس کا ادراک سوزو گداز اور حسن و عشق سے معمور ہے ،جس کے مکالمے میں زندگی بولتی ہے ،جس کے شعور میں روشنی رقص کرتی ہے، جس کی حقیقت اُس کے ماورا سے اور جس کاماورا اُس کی حقیقت سے مکمل ہوتا ہے، جو چڑیا اور گڑیا کی کہانیاں لکھ کر نسائیت اور نسوانیت کے عقدے کھولتا ہے اور سچائی اور معصوصیت کا دفاع کرتا ہے ۔،جو نیند کی قوس قزح اور خوابوں کی پریوں کا قائل ہے ، جس کی خوابناکی میں سنہری اور اُلوہی نیندوں کے تار بجتے ہیں،جس کی دُعا میں بچوں کے کھوئے ہوئے کھلونوں کے لیے آنسو ہیں۔ جو بیک وقت زندگی اور موت کی طرف کھڑکی کھول کر بیٹھتا ہے ،جس کے پاس یادوں کا لامتناہی سلسلہ ہے، جس کی باتوں سے خود کشی کی مہک آتی ہے ،جس کے اپنے پرندے اور اپنے درخت ہیں، جس کے فن میں پرندوں کو اُڑان، تتلیوں کو رنگ ، آوازوں کو سُر، بارشوں کو رم جھم اور دیوانگی کو کشف کاتحفہ ملتا ہے ،جس کی روح میں تنہائی، دل میں اُداسی اور آنکھ میں سچائی نے ڈیرہ جما رکھا ہے، جس کی دسترس میں کیفیات کا خزانہ ہے،جو فنکار کی تخلیقیت اور صوفی کی دھمال کو باہم آمیز کر سکتا ہے، جس کو مٹّی کے پیالے سے پیار ہے۔ جو کبھی داتا ؒ دربار اور کبھی بابا فریدؒ کے بہشتی دروازے سے گزرتے ہوئے گم ہو جاتا ہے، جس کی گم شدگی اُس کو اپنا سراغ دیتی ہے، جس کے تصوّ رِ حسن میں تقدس اور پاکیزگی کا خمیر شامل ہے، جس کا ’’میں‘‘ اُس کے ’’وہ‘‘ سے ہم آہنگ بھی رہتا ہے اور متصادم بھی، جس کا دِل وصال سے زیادہ فراق کے موسموں کو پسند کرتا ہے،جو گڈریے کے درد بھرے گیتوں اور جدائی کی بارشوں میں محبت کا متلاشی ہے ،جس کا تصوّرِ محبت طمع سے پاک ہے، جو خوشبو نہ لگائے تو کہانی نہیں لکھ سکتا ،جس کے لفظوں میں سلائی، کڑھائی اور بُنائی کا ٹانکا لگاہوا ہے۔جس کی کہانیوں کا رنگ یقین کے پیرائے میں نکھرتا ہے، جس کی خود کلامی میں کلام کے اجزا ہیں، جو خط میں دوپہر پوسٹ کر سکتا ہے ،جو گڑیا کی آنکھ سے شہر کا نظارہ کر سکتا ہے، جس کی ساری علامتیں لوک ورثے کی علامتیں ہیں، جو دُنیا سے ختم ہوتی ہوئی محبت کو بچانے کے لیے مردہ پھولوں کی سمفنی کو سُن سکتا ہے۔

بلاشبہ ڈاکٹر صفیہ عباد نے اپنے انداز میں مظہرالاسلام کی کہانیوں کا احاطہ کرنے کی پوری کوشش کی ہے مگر مظہرالاسلام کوئی معمولی فنکارنہیں۔ صرف ایک کتاب یا صرف ایک ہی رنگ کی کتاب میں اُسے مکمل طور پرنہیں سمیٹا جاسکتا۔اُس کی تکنیک اور اُسلوب پر الگ سے کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ اُس کی کہانی زبان اور کلچر کے dialogism میں کس طرح نکھار پیدا کر دیتی ہے؟وہ نثر میں شعری وسائل کا اِس قدر خوبی سے کیسے استعمال کر لیتا ہے کہ کہانی اُڑتے ہوئے بادل کے بجائے کھلے سمندر پر تیرتی ہوئی کشتی کی طرح اپنی سمت کی طرف رواں دواں رہتی ہے؟ یہ سوال غور طلب ہیں۔ اُس کے اسلوب میں تلازمے کے حُسن اور کارنیوال کے انداز پر ابھی کسی کی نظر نہیں گئی۔

پھر یہ کہ وہ اپنی تحریر کو افسانہ کیوں نہیں کہتا اور اِسے کہانی کا نام کیوں دیتا ہے؟ اُس کے نزدیک اگر کہانی زندگی کی بنیادی سچائی ہے اور افسانے میں زیبِ داستاں کے طور پر بہت کچھ شامل کیا جا سکتا ہے تو کیا اُس کی کہانیاں فکشن نہیں ہیں؟ کیا اُس کی کہانیاں حقیقت ہیں یا حقیقت کا پَر تو ہیں۔۔ جُزوی حقیقت یا کُلی حقیقت!۔ ڈاکٹر صفیہ عباد نے بھی اپنی کتاب میں اُس کی کہانیوں کے حوالے سے سچ اور سچائی کے الفاظ کا بہ کثرت استعمال کیا ہے۔ کیا سچ وہی ہے جوڈاکٹر صفیہ عباد کے فہم اور بیان میں آیا؟ ادبی تھیوری کہتی ہے کہ زبان شفاف نہیں ہوتی۔ وہ پورے سچ کو گرفت میں نہیں لاسکتی ۔اگر ایسا ہے تو مظہر الاسلام کی کہانیوں میں سچ سے کیا مراد ہے؟ مظہر الاسلام کی طرح احمد ہمیش اور نیئر مسعود بھی کہانیاں لکھتے ہیں۔ فکشن میں ایسے فن کاروں کوکس درجے میں رکھناچاہیے اور اُن کی کہانیوں کی تعبیر وتفہیم کے لیے کون سا تنقیدی ڈسپلن اختیار کرنا چا ہیے ؟ یہ سوالات بہت اہم ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹرصفیہ عبادنے کتاب لکھ کر مظہرالاسلام کی کہانیوں میں اُترنے کے لیے ایک بنیادی فضا تیار کر دی ہے۔اصلاً ادبی تھیوری سے واقفیت رکھنے والے ناقدین ہی زیادہ بہتر اور باضابطہ انداز میں ان سوالات سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔مظہر الاسلام کی کہانیاں ان ناقدین کی راہ دیکھ رہی ہیں ۔