منیرہ احمد شمیم کے افسانوں میں بکھری عورت

منیرہ احمد شمیم

منیرہ احمد شمیم کے افسانوں میں بکھری عورت : افسانوی مجموعہ بے گیان گوتم کے تناظر میں

تبصرۂِ کتاب از، سمیرہ رفیق، اسلام آباد

افسانہ نگار منیرہ احمد شمیم کی شخصیت کے گلستان سے چند گلاب اور ان کی خوشبو ابتدائی طور پر جن تین افسانوں کے توسط سے مجھ تک پہنچی ان میں ’’ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجودکبھی‘‘، ’’سمجھوتہ‘‘ اور ’’دسمبر کی ایک رات‘‘ قابلِ ذکرہیں۔ یہ افسانے ایک عمدہ ادبی جریدے نالہ ء دل میں شائع ہوئے تھے۔نالہ ء دل ہی کے ایک شمارے میں مصنفہ کے افسانے ’’ دسمبر کی ایک رات‘‘ کے ہمراہ ان کے افسانوی مجموعہ ’’ بے گیان گوتم‘‘ پر بھی ایک تبصرہ میری نظر سے گزرا جسے پڑھ کر ان کے افسانوی مجموعے کے حصول میں مزید دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس طرح زینہ بہ زینہ ان کی کتاب کے مطالعہ تک کا سفر مکمل ہوا جو میرے لیے مصنفہ کے نام اور کام کی پہچان بنا۔ اُن کے افسانوں میں ایک خاص قسم کی فضا پائی جاتی ہے جو خالص احساسات و جذبات کے گرد گھومتی ہے جس میں دیگر تمام اجزاء ایک ساتھ مل کر ڈھلتے اور ابھرتے ہیں اور افسانے کی شاندار عمارت کو کھڑا کرتے ہیں۔

یوں منیرہ احمد کی شخصیت بحیثیت خوبصورت اور عمدہ جذبات نگار میرے ذہنی افق پر جگمگائی ہے۔اس تناظر میں اسلوب کی انفرادیت افسانوں سے عیاں ہو کر دامنِ دل کھینچتی ہے ۔ایسے میں دل چاہاکہ تحریر سے جھلکتی اِن تخلیقی و شخصی خوبصورتیوں کو رقم کرنے کے لیے اُن کے افسانوں کا ایک جائزہ لیا جائے کیوں کہ تخلیقات ہی کسی تخلیق کار کے تشخص کی حقیقی آئینہ دار ہوتی ہیں جو اپنے جلو میں احساسات و جذبات کے بیان کی عمدگی لیے اوراق کی زینت بنتی ہیں۔جیسا کہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے منیرہ احمد شمیم اپنے افسانوی مجموعہ ’’بے گیان گوتم ‘‘کے آغاز میں لکھتی ہیں:

’’انسان جب شعور کے مدار پر آتا ہے تو اُسے غم سے شناسائی ہوتی ہے جس کے کتھارسس کے لیے وہ کوئی نہ کوئی راستہ اپناتا ہے۔ میرے شعور نے مجھے قلم پکڑا دیا۔ تنہائی میرے اندر کہانیاں بنتی رہی۔محبت اور درد کا رشتہ میرے افسانوں کا مرکزی موضوع بن گیا‘‘

مصنفہ کے اظہارِ خیال کی تائید جمیل ملک کے ان الفاظ سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:

’’منیرہ شمیم کی افسانہ نگاری با ضابطہ طور پر کسی مکتبِ فکر یا مکتبِ نگارش کا افسانہ نہیں ہے۔اس نے برسوں مکتبِ غمِ دل میں افسانہ نگاری کا سبق لیا اور چپکے چپکے اسے اپنے مشاہدات کی دھیمی دھیمی آنچ پر پروان چڑھایا‘‘

                                                                                                   (پیش لف٭۔۔۔افسانوی مجموعہ :بے گیان گوتم)

منیرہ احمد شمیم کے افسانے جا بجاجذبات کی چاشنی اور احساسات کی رنگینیوں کے تازہ جہان لیے ہوئے ہیں۔ شعریت کی رنگ آمیزی اور مناظر کی لفظی مصوری کا حسین امتزاج بیانیہ کے حسن کو اور بھی دوبالا کیے دیتا ہے۔ لفظیات کو برتنے کا سلیقہ و قرینہ اور طرزِ اظہار کی منفرد خوبی سے خوبصورت معنویت کی کہکشاں اجاگر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرف و معنی کی قوسِ قزح ہر جا دکھائی دیتی ہے۔ شیریں جذبوں کی خوشبو پھیلتی اور رومانوی تخیل آفرینی چہار سُو اپنی روشنی بکھیریتی چلی جاتی ہے ۔جس سے ہم آہنگ ہو کر بھیتر کی باتیں لطافت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہیں جہاں یہ تمام پہلو درد اور محبت کے خالص پن کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں جیسے کلیوں کے دامن میں کسی ریشم کی مانند آپس میں مل رہے ہوں جن کی نرماہٹ کو چھو کر ان کی کوملتا کا مدھم مدھم سا احساس ہونے لگتا ہے۔


مزید دیکھیے:

 اُردو شاعری میں عورت کا شعور  از، ڈاکٹر فاطمہ حسن

تبصرہ و تجزیہ کتاب افسانوی مجموعہ اضطراب از افشاں ملک، بھارت، روما رضوی، تبصرہ کار


طبیعت و مزاج میں در آتے ہزاروں موسم افسانوں کے من میں اتر کر آپس میں سرگوشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی گونج اور تپش قاری کو بھی سنائی دیتی اور محسوس ہوتی ہے اور پھر دھیمے دھیمے قدموں کے ساتھ چپکے چپکے اس کے باطن میں اتر کر دل و دماغ تک کا سفر طے کرتی اور دھیرے دھیرے اُس کی روح پر بھی چھا جاتی ہے۔

پھول، خوشبو، بہاریں، رنگ ،موسم ،فضائیں،کردار و واقعات ، تا ثرات غرض کیا کچھ نہیں ہے جو منیرہ احمد شمیم کے افسانوی قالب میں نہ ڈھل سکا ہو، بلکہ کرداروں کے رویے، اظہارات، حرکات و سکنات اور رجحانات ایک ایک کر کے اپنی گرہیں کھولتے چلے جاتے ہیں اوراِن کی نفسی کیفیات نرمی سے اور پھر کہیں کہیں شدت اختیار کر تے ہوئے ایک ڈگر سے آ گے بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔ جس کی جھلک مکالمے، کرداروں کے آپسی ربط و تعلق اور ذات کی پہنائیوں سے اٹھنے والے کرب میں ملتی ہے۔ حتیٰ کہ کرداروں کے ساتھ ساتھ ماحول اور مناظر بھی زندہ محسوس ہونے لگتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے پردہ ء اسکرین پر سب کچھ آنکھوں کے سامنے متحرک دکھائی دینے لگا ہو۔

منیرہ احمد شمیم کی مرتب کردہ مضامین کی ایک کتاب ’’میں، آپ اور وہ‘‘اور اس میں شامل ان کے نام لکھے ہوئے شوہر کے خطوط ان کی محبت بھری نجی زندگی اور شخصیت کا جو تاثر ابھارتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افسانے خود ان کے باطنی سفر کا عکس ہیں جس کے مختلف دوراہوں سے گزر کر انھوں نے اپنے احساسات و جذبات کو اظہار کا جامہ پہنایا ہے۔

جیسا کہ افسانہ’’ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کبھی‘‘ میں منیرہ احمد شمیم نے گویا اپنی ہی نجی زندگی کے رنگا رنگ پہلوؤں سے ایک مونتاژ ترتیب دیا ہے۔ انھوں نے مرحلہ وار اپنی ہی شخصیت کو ابھارا ہے اور اپنے ہمسفرکی رفاقت، راہنمائی اور علم دوستی کواجاگر کرتے ہوئے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔یہ افسانہ ابتدا میں نو عمری کے شوخ و چنچل پن کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں ، امیدوں، امنگوں اور ان سے وابستہ خوبصورتیوں کے گرد گھومتا نظر آتا ہے جبکہ بعد ازاں شوہر کی رفاقتیں اور محبتیں مصنفہ کی شخصیت میں تخلیقی سنجیدگی اور علم سے رغبت کوسطح پر لانے کا سبب بنیں۔ انھیں ایک ایسی صحبت میسر آئی جس نے انھیں لفظوں سے پہچان اور محبت کرنا سکھایا۔

اگرچہ زندگی کی شاہراہ پروہ اپنے ہمسفر سے بہت جلد بچھڑ گئیں لیکن ان کا ساتھی انھیں وہ پہچان اور مقصدعطا کر کے رخصت ہوا جو ہمارے معاشرے میں کم ہی عورتوں کو نصیب ہوتا ہے یا پھر چند خوش قسمت خواتین ہی کا خاصہ اور مقدر بنتا ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ رفیقِ حیات کے چلے جانے کے بعد وہ شوہر کی کتابوں کو مزید قدر و احساس کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں اوران پراپنے مہربان رفیق کی انگلیوں کے نشان تلاش کرنے میں محو ہیں۔

اسی طرح افسانہ ’’سمجھوتہ‘‘ مردو عورت کے ازدواجی تعلق سے منسلک خوشیوں، محرومیوں، درد و محبت اور فکر و احساس پر مبنی ہے۔ جو ہلکے پھلکے انداز میں لکھی گئی مگر گہرے احساسات کی روانی میں بہتی تحریر ہے جس نے میرے دل کو بہت متاثر کیا اورافسانہ ’’ دسمبر کی ایک رات‘‘ کے تو کیا کہنے!

افسانہ’’ دسمبر کی ایک رات‘‘ میں تنہائی کا عالم، لمحاتی کیفیات اور ایک خاص ماحول میں خود کو جذب کرتے ہوئے مصنفہ اپنی ذات میں اتر کر احساسات اور سوچوں کے پَر لگائے دوسری دنیاؤں میں پرواز کر جاتی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس سفر کوصفحہ ء قرطاس پر روشن لفظوں کا روپ دیتے رہناقاری کو بھی لمحہ بہ لمحہ متاثر کرتا رہتا ہے۔ افسانے میں نہایت خوبصورت، خالص اور رومانوی فضا میں امیجری کی سحر انگیزی عجیب سا سماں طاری کیے رکھتی ہے، خود کلامی اپنی ترنگ میں اچھوتا پن لیے ہوئے ہے۔ افسانہ پڑھ کر خیا ل آیا تھاکہ منیرہ احمد شمیم بذاتِ خود اپنے اندر سے کتنے خوبصورت احساسات کی مالک ہوں گی۔

مذکورہ بالاتینوں افسانوں کے مزاج سے آشنائی نے اُن کی افسانہ نگاری کے متعلق رائے قائم کرنے میں مدد دی جو بعد ازاں دیگر افسانوں کے مطالعہ سے مزید پختگی کے مراحل سے گزری۔ یوں اُن کا نام مرے ذہن پر مرتسم ہونے لگا جو ان کے فنِ افسانہ نگاری اور دیگرتحریروں سے گہری شناسائی کا سبب بنا۔

منیرہ احمد شمیم کی افسانہ نگاری نے میرے دل کو نہ صرف حساسیت کے لطیف ترین پہلوؤں سے روشناس کرایا بلکہ تاثرات اور خیالات کے اظہاپر بھی مائل کیا جو میرے اندر اُن کے پہلے افسانوی مجموعہ ’’بے گیان گوتم‘‘ پر مضمون لکھنے کے تحرک کی بنیاد اور باعث ہے۔

منیرہ احمد شمیم کے افسانوی مجموعہ ’’ بے گیان گوتم‘‘ میں شامل بیشتر افسانے مشرقی عورت اور اُس کی ذات کی تخریب، عدم تکمیل اور دیگر نا آسودگیوں کا نوحہ ہیں۔خصوصاً ’’آنگن میں کالی دھوپ، ادھوری لڑکی، اجنبی لمحے کی قید میں، شاخ شاخ زخم، وقت کا جلتا صحرا ۔۔۔اور میں، ریزہ ریزہ خواب ، دشتِ تنہائی اور عہدِ وفا وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن کا ایک سلسلہ وار مربوط تجزیہ ہمیں منیرہ احمد شمیم کے افسانوں میں بکھری عورت کی ذات کے ایک ادھورے لیکن کسی قدر واضح امیج تک لے جا سکتا ہے۔

افسانہ ’’آنگن میں کالی دھوپ‘‘ ہمارے معاشرے کاروایتی المیہ ہے۔ جو بنیادی طور پر عورت کی کسک، خلش اور گھٹن کے گرد گھومتا ہے۔ آنگن جو کہ تحفظ کی علامت ہے مگر روایات میں جکڑی مشرقی لڑکی خواہشوں اور اندیشوں کے مابین ڈولتی رہتی ہے۔کسی اور کے گھر آنگن کی ہو کر بھی وہ تا عمر غم کے سایوں میں جلتی ہے۔ اپنی خواہشات اور محبت کی تکمیل کا حق چھین لیا جانا عورت کی ذات کا نہ ختم ہونے والاالمیہ بن گیاہے جواپنے یا پرائے ،ہر آنگن کی کالی دھوپ بن کر عورت کا مقدر ثابت ہوتا ہے۔ اسی المیہ کو بنیاد بنا کر منیرہ احمد شمیم روایات کی اَن دیکھی زنجیروں کی یوں نشاندہی کرتی ہیں:

’’ہم تو تعبیروں کی طرف بے بسی سے دیکھتے رہ جاتے ہیں یہ دیوار بن جاتی ہیں، ہمارے سامنے کبھی دنیا، کبھی روایات، کبھی سماج، کبھی مذہب اور کبھی خاندان اور یہ دیواریں ہم نہ پھاند سکتے ہیں اور نہ ہی توڑ سکتے ہیں۔آرزوؤں کا یہ سلسلہ انسان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں‘‘

’’ادھوری لڑکی‘‘ جب تکمیل کے احساس سے محروم رہ جاتی ہے تو یہ عدم تکمیل اسے محرومیوں اور تنہائیوں کی غاروں میں دھکیل دیتی ہے جہاں سے وہ بیگانگی ء ذات لے کر ابھرتی ہے جو کب اُسے ’’اجنبی لمحے کی قید‘‘ میں جکڑ دے اسے نہیں معلوم۔نخلِ ذات پر کھلنے والے سبھی پھول مرجھا جاتے ہیں اور ’’ شاخ شاخ زخم‘‘ لگنے لگتے ہیں۔ پھر معاش اور مستقبل کی فکر میں گھر ی یہی لڑکی معاشرے کے جبر و تسلط کی بھینٹ چڑھتی چلی جاتی ہے۔جذبے ماند پڑ جاتے ہیں۔اندر کا کھوکھلا پن اور بوسیدگی اس کی روح کودیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہے۔ یوں ادھوری لڑکی۔۔۔ادھورے پن سے زخم خوردگی اور زخم خوردگی سے بے بسی کا سفر طے کرتی ہے۔دکھ کے اس سفر میں مایوسی کے سائے اس پر منڈلانے لگتے ہیں۔ روح پر لگنے والے ہزاروں زخم اسے خلوص اور سچائی سے بے بہرہ کر دیتے ہیں۔ ایسے میں کوئی کنارا ہاتھ آ بھی جائے تو کبھی وہ یہ کہہ کر دامن چھڑ ا لیتی ہے کہ:

’’ تم کیا جا نو! تم تو صرف محبت کرنا جانتے ہو، جیسے ناولوں اور فلموں میں ہوتی ہے لیکن زندگی نہ ہی فلم ہے نہ ہی اسٹیج ڈرامہ‘‘

(ارونا۔۔۔شاخ شاخ زخم)

تو کبھی یہ کہہ کرکنارا کرتی دکھائی دیتی ہے کہ

’’ شادی۔۔۔شادی میں کیا رکھا ہے ہزاروں لوگوں کے ساتھ رہنا یہاں کا کلچر ہے‘‘

                                                                                                                        (امرتا۔۔۔دشتِ تنہائی)

اسی کے مماثل ایک اورنسوانی کرداربیزار کن لہجے میں کچھ یوں گویا ہوتا ہے:

’’میرا سچ یہ ہے کہ میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی میرا دل شادی کے تجربے سے بھر گیا ہے۔

                                                                                                                         (ثانیہ۔۔۔دشتِ تنہائی)

افسانہ دشتِ تنہائی میں افسانہ نگار نے تنہائی کے دشت کو لندن کے جس سرد ماحول سے ابھارا ہے وہ افسانہ پڑھتے ہوئے میرے اندر تک اترتاچلا گیا۔ سرد ماحول میں وجودی کرب اٹھائے کردار سرد راہوں پر بھٹکتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ان راہوں پر سے ہم خود بھی گزر رہے ہوں۔کرب اور سرد ماحول کا آپس میں یکجا ہو کے اثر انداز ہونا کچھ ایسا ہے جیسے وہ خودہم پر بھی بیت رہا ہو۔منیرہ احمد شمیم نے سرد ماحول اور اس میں پنپتی معاشرتی زندگی کی لاجواب عکاسی کی ہے۔

پھر کرب آلود سر د راہوں پر چلتے چلتے قدم صحرا کی سمت اٹھنے لگتے ہیں۔جہاں افسانہ ’’وقت کا جلتا صحرا۔۔۔اور میں‘‘ دائمی ہجر کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ جو زندگی کی سانسوں میں ریت بھر کر زیست کو پگھلاتا رہتا ہے۔ لا یعنیت، مایوسی اور نا امیدی کے قعرِ دریا میں غوطے کھاتا کردار حسین یادوں کے بل پہ کچھ دیر کو ابھرتا ہے اور پھر ڈوبتا ہی چلا جاتا ہے۔ازل سے ابد تک پھیلی خاموشی اور اس میں رادھیکا اور شیام کا ادھورا سمبندھ اپنی جھلک دکھلا کر کردار کی حالتِ زار کو اجتماعی لا شعور سے جا ملاتا ہے۔ وقت جو اک جانب دکھ، درد اور احساس کا جہنم دل میں بھڑکاتا ہے تو دوسری جانب رشتے دار، دوست، معاشرہ اور آزادی جیسے مہا بیانیے سخت گیر پابندیاں اور آہنی زنجیریں بن جاتے ہیں۔ رزق کی تلاش میں تگ و دو کرتا انسان جب تک زندہ ہے وقت کا صحرا اس کا ماس نوچ نوچ کر کھا تا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک ہی آرزو باقی رہ جاتی ہے کہ فقط آنکھیں سلامت رہ جائیں جن میں پیا ملن کی آس ہے۔کیوں کہ زندگی محبت ہی سے عبارت ہے۔ مگر انسان۔ مچھلی۔۔۔ مچھلی۔انسان، دونوں کی قسمت میں تڑپنا ہے۔

افسانہ ’’عہدِ وفا‘‘ مثالی محبت اور تکمیلِ ذات کی آرزو کا حسین امتزاج ہے۔ حالات خواہ جیسے بھی ہوں انسان مکمل طور پر جینا چاہتا ہے۔ خدشوں اور اندیشوں، کرب اورجلن اور مایوسیوں کے اندھیروں کو چیرتا ہوا’’ سویرا ‘‘ کا کرداروفا کے عہد کو تکمیل تک پہنچا کر مرکزی کردار کو نئی زندگی بخش دیتا ہے۔

’’وہ اٹھی اور اس کے قریب بیٹھ گئی۔ اور بولی ’’سنو‘‘۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھو، تم میرے دل میں ہو، میری آنکھوں میں ہو۔ تمہارے بغیر زندگی ایک کٹھن سفر ہے۔ جس کی کوئی منزل نہیں۔ میں نے اپنی زندگی کو تمہارے ساتھ اس طرح وابستہ کر دیا ہے کہ ہر سانس میں تم ہو۔‘‘

                                                                                                                 (افسانہ: عہدِ وفا)

تمام افسانوں میں گردش کرتے بنیادی نظریات، فلسفے، سوالات، جوابات اور نروان کا دھارا اِسی افسانے ’’عہدِ وفا‘‘کے انجام پر پھوٹتا ہے جو کرداروں کی نفسیات اور زندگی کے سچ کو آدم و حوّا کی اُس ازلی و ابدی سچائی سے جا ملاتا ہے جس کے بغیر جینے کا تصور بھی محال ہے۔اور وہ سچائی محبت ہے۔

جس کی اہمیت کو مصنفہ ایک جگہ یوں اجاگر کرتی ہیں:

’’زمین کے سفر میں اگر کوئی آسمانی چیز ہے تو وہ محبت ہے۔محبت کے کئی رنگ ہیں۔۔۔دراصل یہ جذبہ شعوری طور ر پر ہر ذی روح پر اثر کرتا ہے اور جب محبت شعور میں داخل ہو جائے تو یہ جذبہء محبت صحت مند سمت میں لے جاتا ہے۔مثلاً زندگی پُر جوش، پُر مقصد اور پُر امن دکھائی دینے لگتی ہے اور ساری کائنات میں زندگی رنگوں سے بھری اور با مقصد نظر آنے لگتی ہے یا پھر یوں سمجھ لیں کہ انسان اپنے محبوب یا محبت کو پا کر۔۔۔آسمان کی وسعتوں میں اڑنے لگتا ہے‘‘

                                                                                                          (افسانہ: ریزہ ریزہ خواب)

لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ حقیقی زندگی میں وقت کا دھارا اپنا رخ بدل دیتا ہے ۔جنت نشاں زندگی آگ کے الاؤ بھڑکانے لگتی ہے۔ شعور و لا شعور کی کشمکش اور تصادم میں فلسفہ ء حیات کی غواصی کرتے کردار تھک ہار کر گیان و نروان کی دہلیز پر قدم رکھنا چاہتے ہیں لیکن نروان کے دروازے ان پر کھلنا تو در کنار ، الٹاوقت پاؤں کی زنجیر بن کر راہ میں حائل ہو جاتا ہے اور گزرے دنوں کی یادوں اور ان میں بسے سکھ اور سکون کو بھی لمحہ بھر میں اکارت کر دیتا ہے۔ پھر منوں وزنی پیر اور بوجھل جسم لیے کردار اسی تنگ دائرے کے اسیر بن کے رہ جاتے ہیں۔قید سے رہائی دلاتا گوتم کا گیان دھیان دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔

منیرہ احمد شمیم کے افسانے کرداری نوعیت کے ہیں جن کا خمیر اسی معاشرے سے اٹھایا گیا ہے۔ کردار واقعات پر حاوی ہیں جبکہ کہانی ان کے پسِ منظر میں ہے۔افسانوں میں ماضی بہت اہم ہے اورکردارگزرے وقت سے جڑ کر موجودہ صورتِ حال کی احساساتی یا جذباتی کیفیات کو بیان کرتے ہیں جس کی طرف مصنفہ عمدہ تکنیکوں کا سہارا لے کرخوبصورتی سے اشارہ کر دیتی ہیں۔

گویاکرداروں کے احساسات اورجذبات ہی ہر افسانے کے مرکزی خیال اور ماحول پر محیط ہیں۔افسانے کے ابتدائی منظر میں ہی مصنفہ جذبات و محسوسات کادائرہ بنتی چلی جاتی ہیں اورقاری اسی رو میں اخیر تک بہتا چلا جاتا ہے۔اسے بلاشبہ احساسات یا جذبات نگاری کا نام دیا جا سکتا ہے۔ افسانوں سے چند سطریں ملاحظہ ہوں:

؂’’اُس وقت ایک لمحے کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ابھی خاک بن کر ہَوا میں تحلیل ہو جاؤں گی‘‘

؂’’جیسے لندن کا سارا شہر میرے اند ر خاموشی کی چادر میں لپٹا ایک نہ بہنے والے آنسو کی طرح ٹھہر گیا ہو‘‘

؂’’مجھے یوں محسو س ہوا جیسے وہ اپنے پیچھے تنہائی کا ایک ایسا خلا چھوڑ گئی جس میں ، میں مصنوعی سیارے کی طرح لٹک رہا ہوں‘‘

؂’’لڑکی کو یوں محسوس ہوا جیسے سورج اس کے جسم میں اتر کر پھٹ گیا اور وہ ذرہ ذرہ بکھر رہی ہے‘‘

؂’’مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں جھلسے ہوئے صحرا میں۔۔۔وقت کے صحرا میں پیاسا ہوں‘‘

؂’’تازہ ہَوا کے جھونکے میں ایک لمحہ آیا جس میں سب چیزیں بولنے لگیں۔۔۔ہوائیں، پرندے، پتھر، پھول اور جھاڑیاں سب زندہ ہونے لگے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے زندگی میں ہر چیز روشن ہو گئی ہو‘‘

منیرہ احمد شمیم کے افسانوں کے کردار اخلاقی حوالوں سے مثالی اقدار کی پاسداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔آس پاس جو بھی صورتحال ہے کردار اُس کا سرسری مشاہدہ کر کے گزر نہیں جاتے بلکہ ٹھہر کے سوچتے ہیں ۔

کرداروں میں غورو خوص کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ کردار سماجی شعور یا شعور کی بلند سطح کے حامل ہیں جو بند آنکھوں سے زندگی نہیں گزار رہے۔بلکہ ان کے اندر سے جبر کے خلاف آواز اٹھتی رہتی ہے۔ سوچ کا عمل جاری و ساری ہے۔جاننے کی یہی تمنا اور تڑپ جب سوالوں کا روپ دھار لیتی ہے تو کوئی کردار کہہ اٹھتا ہے کہ:

’’وہ کون سی کیفیت ہے جس سے انسان کو سکون ملتا ہے؟ بدھا نے فاقوں، تپسیا اور عبادت کے بعد کس منزل کی جانب اشارہ کیا؟ کہاں ہے وہ منزل؟ کوئی نہیں جانتا‘‘۔

                                                                                                 (افسانہ: وقت کا جلتا صحرا۔۔۔اور میں)

افسانوں کے موضوعات بنیادی طور پر عورت اور مرد کے سماجی اور نفسیاتی تعلقات سے وابستہ ہیں۔افسانوں میں مرد و عورت کی حالت ایک دوسرے سے کچھ کم نہیں۔دونوں ہی ایک سی کیفیات سے نبرد آزما ہیں۔ لیکن بنیادی فرق صرف Treatment کا ہے۔جو نسوانی کرداروں کے ساتھ برتا گیا ہے۔جس سے عورت کی ایک ایسی تصویر سامنے آتی ہے جو دراڑوں بھری دیوار کا نقشہ ذہن میں ابھارتی ہے۔جس کی بنیادوں میں وہ تمام عوامل بالجبر گاڑھ دیے گئے ہیں جو عورت کی تکمیل میں مانع ہیں۔کہانیوں کا بامعنی پسِ منظر ظاہر کرتا ہے کہ کردار شدید کربناکیوں سے گزر کر اس نہج پر پہنچے ہیں اور ان کربناکیوں کا عکس نسوانی کرداروں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

منیرہ احمد شمیم نے عورت کے حقیقی تشخص کو مثالی مرد کی پیکر تراشی اور مرد کی عورت کے لیے والہانہ وارفتگی کے ذریعے ابھارا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ان افسانوں میں مرد کہیں بھی عورت پر جبر کرتے نہیں دکھائے گئے۔لیکن بین السطورجبر کی علامت مردانہ معاشرہ اور اس کا تسلط ہی ہے۔ مرد ہی نے درحقیقت عورت کوعدم تحفظ کا شکار کیا ہے اور اس کی شخصیت کو زنگ آلود کر کے لطیف احساسات و جذبات کو سرد مہری اور بے حسی کی دبیز تہوں تلے دبا دیا ہے۔ اس طرح عورت کی اصل شخصیت ہمیشہ پوشیدہ رہتی ہے۔ پرت در پرت اپنی اصل کو چھپائے ایک عورت دنیا داری نبھانے اور بس یونہی جیے چلے جانے کے عمل سے تب تک دو چار رہتی ہے جب تک کہ وہ زندہ رہنے پر مجبور ہے کیوں کہ کوئی راہِ فرار بھی تو میسر نہیں۔۔۔ یوں اپنے جابرانہ رویوں کے باعث مرد اپنے ہی ہاتھوں خود کو ادھورا کر چکا ہے۔ بہر کیف منیرہ احمد شمیم نے روایتی منظر نامے کے بر عکس مرکزی مرد کرداروں کو عورتوں سے ہمدردی کرتے دکھایا ہے اور مرد انہ کرداروں کو عورت کی شراکت دارانہ اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہی سامنے لایا گیا ہے۔ کیوں کہ مرد و عورت کی تکمیل ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔

ایک دوسرے کی جانب مرد اور عورت کی کشش اوروالہانہ فطری میلان دراصل محبت ہی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسی محبت عموماً اپنے منطقی انجام کونہیں پہنچ پاتی۔ لہذٰا ہمارے جیسے معاشرے میں ایسے مثالی کردار داستان کی شکل اختیار کرتے آئے ہیں۔جیسا کہ رادھیکا شیام، ہیر رانجھا، سسی پنوں، مرزا صاحبہ ۔۔۔

اسی تناظر میں منیرہ احمد شمیم کے افسانے یہ صدا دیتے محسوس ہوتے ہیں کہ اس مادی دنیا میں ایسی مثالی امن و آشتی اور محبت بھری زندگی سے عورت کی ذات کی تکمیل کا تصور شاید ممکن ہی نہیں۔۔۔ ایسے حالات میں مرد کو ٹھکراتے رہنا عورت کی سائیکی بن جاتا ہے۔

منیرہ احمد شمیم کے نزدیک محبت ہی دراصل نروان ہے۔ دکھ،درد،تکلیف دنیا میں ضرور ہے لیکن اگرکوئی جذبہ اسے مٹا سکتا ہے وہ محبت ہی کا جذبہ ہے۔ ایسے میں عورت کے لیے سچی محبت کا پا لینا ہی حقیقی نروان ہے۔لیکن جہاں محبت ہے وہاں درد بھی ہے۔ہجر بھی ہے اور ہزاروں کرب اوربے انتہا جلن بھی، یوں مصنفہ کے نزدیک درد کا دائرہ گویا ازل اور ابدپر محیط ہو جاتا ہے۔لیکن اگر محبت میسر ہو تو درد اور محبت کے سنگم میں انسان دنیا اور وقت کے ساتھ بھی چل سکتا ہے۔مجموعی طور پر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ درد اورمحبت منیرہ احمد شمیم کے نزدیک ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔شاید اس قول کے مطابق کہ’’محبت اپنے آپ میں درد آمیز جذبے کا نام ہے اور درد اپنے آپ میں ایک محبت آمیز کیفیت کا نام ‘‘۔ان دونوں کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔

منیرہ احمد شمیم کے افسانوی مجموعہ ’’بے گیان گوتم‘‘ کا سفر ۷۰ کی دہائی کے اواخر اور ۸۰ کی دہائی کے اوائل اور نصف تک کے دورانیے پر محیط ہے۔جبکہ افسانہ علامت سے تجرید تک کا سفر طے کر کے پھرسے حقیقت نگاری کی طرف لوٹ رہا تھا لیکن ایک بالکل نئے رنگ ڈھنگ کے ساتھ۔ یہ جدید حقیقت نگاری اپنے اندرتہہ در تہہ نفسی کیفیات و عوامل کی آمیزش لیے ہوئے تھی۔

اس تناظر میں مصنفہ کے افسانوں میں ایک طرف گہرے نفسیاتی عوامل اوراہم اور بنیادی نوعیت کی نفسی کیفیات کا تجزیہ ملتا ہے تو دوسری طرف ان افسانوں میں جدید افسانے کی دیگر نمایاں خصوصیات بھی شامل ہیں جیسا کہ مرد و عورت کی آویزش، فرد اور معاشرے کی آویزش، یاسیت، عدم تحفظ اور پہچان کی گم شدگی وغیرہ۔

فراواں رومانوی تخیل آفرینی کے پہلو بہ پہلو افسانوں میں موجودمنظر نگاری ابتدائی دور کی افسانہ نگاری کے مماثل بھی ہے۔منیرہ احمد شمیم کے ہاں گویانئے اور پرانے افسانے کی خصوصیات یکجاہو گئی ہیں۔ یوں ان کے افسانے سادہ، دلکش اور خوبصورت بیانیہ کے حامل ہونے کے علاوہ اپنی دیگر نمایاں خصوصیات اور تکنیکی اعتبار سے جدید افسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔

منیرہ احمد شمیم کے اندر جوابی رد عمل کے طور پرجو فلسفہء حیات یا نظریہء زندگی بیدار ہوا وہ ان کے تمام افسانوں میں ترتیب وار ملتا ہے۔کردار جو مثالی محبت بھری زندگی جینا چاہتے تھے وہ جی نہیں پائے مگر کرداروں کا ایسی زندگی کی چاہت میں جیے چلے جانا جا بہ جا دکھائی دیتا ہے۔معاشرے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے کردار اس پراگرچہ کھل کراظہارِ مذمت کرتے ہیں لیکن ایک خاص سطح پرپہنچ کر رک جاتے ہیں لیکن کہیں اندر ہی اندر اضطراری وغیر ارادی طور پر اس لکیر کو پھلانگ بھی جاتے ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا۔یوں باغیانہ ریڈیکل کردار افسانوں میں واضح طور پر اپنی جھلک دکھلاتا ہے۔جس کی نشاندہی مصنفہ ان الفاظ میں کرتی ہیں:

’’عجیب گورکھ دھندا ہے یہ زندگی بھی۔جس میں ہر طرف پابندیوں کی زنجیر ہے اور یہ زنجیریں ازل سے انسان کے پیروں سے باندھ دی گئی ہیں اور ان کو کیسے خوبصورت نام دیے گئے ہیں۔رشتہ دار، دوست، معاشرہ، آزادی۔ یہ سب دو دھاری تلواریں ہیں۔۔۔زنجیریں ہیں۔۔۔اور پھر اپنی تقدیر۔۔۔اور وہ صلیب جسے انسان اٹھائے پھرتا ہے۔‘‘

                                                                                       (افسانہ: وقت کا جلتا صحرا ۔۔۔اور میں)

’’ہماری نمود کتنی عارضی ہے اور اس مختصر نمود میں انسان کیا کیا کرتا ہے۔محبت کے الاؤ جلاتا ہے، گناہ ثواب کے تانے بانے تیار کرتا ہے،نفرت اور کدورت کے جہنم بھڑکاتا ہے۔ اس سارے کھیل کو وہ زندگی کا نام دیتا ہے اور پھر ایک دن یہ کھیل ختم ہو جاتا ہے‘‘                                                                                                         (افسانہ: تیری قربت۔۔۔تیری جدائی میں)

سچ تو یہی ہے کہ منیرہ احمد شمیم کے افسانے تین دہائیوں کے بعد آ ج بھی اپنے ظاہر و باطن میں جدت، دلکشی اور تازگی لیے ہوئے ہیں۔مزید برآں مصنفہ کی تحریروں کی خاصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایسے گہرے محسوسات اور جذبات میں گندھی ہوئی ہیں جن کی بلندی ان کی لطافت اور ملائمت ہے۔اسی لیے میں منیرہ احمد شمیم کو جہاں بطور عمدہ جذبات نگار دیکھتی ہوں وہیں انھیں ایک عورت کے طور پر بھی سوچتی ہوں۔

ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے الفاظ عورت کے جذبہ و احساس کی زندہ آواز ہیں۔ پس بہتر مقصد کے لیے تخلیق کی راہ اختیار کرتے ہوئے مصنفہ کا کتھارسس پڑھنے والوں کے کتھارسس کی بھی راہ ہموار کرتا ہے۔جسے بلاشبہ ارتفاع کا عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔