عیسوی کیلنڈر اور حضرتِ عیسیٰ کی پیدائش: ایک تحقیقی سوال

(رانا محمد شفیق پسروری)

نیا سال (2017سنہ) شروع ہونے والا ہے۔ یہ سال جس مروجہ کیلنڈر کے مطابق شروع ہوگا۔ وہ یونیورسل حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ (عرف عام میں سمجھا جاتا ہے کہ اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے حساب سے وضع کیا گیا تھا)۔ اس کیلنڈر کے علاوہ ہمارے ہاں سن ہجری بھی را ئج ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا (اس کا سن 1435 ھ ہے)۔ ایک دیسی کیلنڈر بھی چلتا ہے جس کے مطابق یہ سال (جو چل رہا ہے) 2070 ب ہے۔ تبت میں مہاتما بدھ کے نروان حاصل کرنے سے سن کا آغاز ہوتا ہے۔ چین میں کوانگ ہشو کا سال ہے۔ جرمن ریاستوں نے1700ء میں اپنا کیلنڈر بنایا تھا۔ (اس سے قبل جرمن لوگ وقت کی تقسیم سفر کی دوری سے ناپتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک شہر سے دوسرے شہر کی دوری 10 دن کی مسافت پر ہے تو وہ مستقبل کے 10 دن شمار ہوتے، پچھلے شہر کی مسافت ماضی کے دن شمار ہوتے)۔ پرانے جرمنی میں اسی طرح وقت کی تقسیم ہوتی تھی۔ لیبیا کے حکمران معمر قذافی مرحوم نے اپنے ہاں وفات النبی کے لحاظ سے کیلنڈر بنا رکھا تھا۔ اگر وہ زندہ اور حکومت میں رہتے تو ان کے مطابق موجودہ سال1382 ہوتا، (حالانکہ سن ہجری کے مطابق وفات النبی کے لئے1425 ہونا چاہئے )۔ اسی طرح انہوں نے اس سال کے مہینے بھی الگ بنا رکھے تھے۔ جن کے مطابق پچھلا مہینہ’’الکانون‘‘ ہوتا جبکہ اس سے پچھلا مہینہ ’’الحارث‘‘ ہوتا۔

پتھروں کے زمانے سے وقت کی تقسیم کے پیمانے مختلف رہے تھے۔ زیادہ تر اقوام چاند کے طلوع و غروب سے وقت کی تقسیم کرتی تھیں۔ یہ تقسیم آسان تھی اور اسی کو اسلام میں رواج ملا۔ بعد میں وقت کی تقسیم سورج کے سالانہ سفر کے مطابق کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ ایک سال 365 دن، پانچ گھنٹوں، 48منٹ اور 46.1 سیکنڈ کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے ایک ماہ کم از کم29دن، 12گھنٹوں،44منٹ اور 2.8 سیکنڈ پر مشتمل ہو گا۔

مروجہ کیلنڈر (عیسوی کیلنڈر) یورپ کی فتوحات اور دنیا کے اکثر علاقوں کے یورپی کالونیاں بننے سے پوری دنیا میں پھیل گیااور 1900ء (بعد از مسیح) میں ایک طرح سے یونیورسل کیلنڈر بن گیا۔1900ء بعد از مسیح کا سال، چین میں کوانگ ہشو کا26واں، تبت میں 2444واں، یہودیوں میں 5661 واں سال تھا۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا سال 354 دن کا ہوتا ہے یا ان کا نیا سال 17اپریل سے شروع ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں جو یونیورسل کیلنڈر رائج ہے، اس کے مطابق یہ2014ء کا سال ہے جو شروع ہوا ہے مگر جدید تحقیق کے مطابق یہ ہندسے صحیح نہیں۔ نیو یارک سے 1979ء میں شائع ہونے والی کتاب ”In search of historic Jesus” by l Roddy and C.E.Sellier” کے صفحہ32سے34تک بحث ہے کہ ’’اس کیلنڈر میں حساب کے دوران پانچ سال کی غلطی ہو چکی ہے‘‘۔ یعنی موجودہ سال2014ء نہیں، بلکہ2020ء ہو گا۔2000ء کے آخر میں پاکستان کے ایک ماہنامہ میں جرمن سے ایک صاحب نے مکتوب لکھا تھا اور بتایا تھا کہ ’’سن526ء مسیح میں روما کی حکومت نے وقت کے بڑے پادری ’’ڈیوینس ایکسی گس‘‘ (Dionysius Exiguss) کو ذمہ داری سونپی کہ وہ ایک کیلنڈر تیار کرے جو عیسوی کیلنڈر کہلائے۔ مگر بڑے پادری کے حساب میں غلطی ہو گئی اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے پانچ سال کھا گیا۔ یعنی محققین کی رائے کے مطابق حضرت عیسیٰ  علیہ السلام 6 سال قبل مسیح میں پیدا ہوئے تھے اور ہم ڈیوینس ایکسی گس کے بتائے کیلنڈر کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں‘‘

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

مسیحی اشاعت خانہ 36 فیروزپور روڈ لاہور کی شائع کردہ کتاب ’’قاموس الکتاب (لغات بائبل مولفہ ایف ایس خیراللہ (پادری) میں لکھا ہے:

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ عیسوی کا آغاز یسوع مسیح کی پیدائش کی تاریخ سے ہوا۔ مسیح کی پیدائش کی تاریخ یا سال کا صحیح علم کسی کو نہیں۔ غالباً ان کی پیدائش 753رومی سال میں ہوئی۔ رومی کیلنڈر شہر رومہ کی بنیاد کے روایتی سال سے شروع ہوتا ہے۔ اسے A.U.C جو ab urbe Condita کا مخفف ہے جس کا مطلب ’’شہر (رومہ) کی بنیاد سے‘‘ پکارتے ہیں۔ اس رومی سال کے بارہ مہینے تھے جو 29 اور 30 دن کے ہوتے ہیں۔ ہر سال میں کچھ دنوں کا اضافہ کیا جاتا، تا کہ شمسی سال اور سرکاری سال میں ہم آہنگی قائم رہے۔ لیکن بعض رومی افسروں نے جن کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ حساب کر کے دنوں کا اضافہ کریں لاپرواہی کی۔ یوں قیصر یولیس Julius Caesar کے عہد میں شمسی اور سرکاری سال میں دو تین ماہ کا فرق پڑ گیا۔ قیصر یولیس نے اس فرق کو دور کرنے کے لیے رومی کیلنڈر کی اصلاح کی اور کوشش کی کہ نقطہ اعتدال لیل و نہار یعنی موسم بہار کا وہ دن جب دن اور رات برابر ہوتے ہیں، 21 مارچ کو ہی آئے۔ اس نے یہ اصلاح سنہ 759، A.U.C کو کی۔ چنانچہ اسے پہلا یولین سال پکارا گیا۔ یہ تقریباً 45ق م تھا۔ یہ رومی کیلنڈر چھٹی صدی عیسوی تک استعمال ہوتا رہا۔ 525عیسوی میں ایک راہب بنام ڈایونیسس اکسیکوس Dionysius Exiqus نے خیال پیش کیا کہ بجائے رومی سال کے عیسوی سال رائج کرنا چاہیے۔ یسوع مسیح کی پیدائش اس کے حساب کے مطابق A.U.C 753میں ہوئی تھی۔ اس طرح اُس نے سنہ عیسوی کی بنیاد ڈالی۔ رفتہ رفتہ یہ کیلنڈر مقبول ہوا۔ لوگوں نے سالوں کا شمار اس تاریخ سے کیا اور یوں قبل از مسیح اور عیسوی سالوں کا حساب شروع ہوا۔ لیکن راہب موصوف سے حساب میں چند سالوں کی غلطی ہوئی کیونکہ مسیح کی پیدائش کا سال تعین کرنے کے لیے ذیل کی باتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے:

1.  یسوع مسیح ہیرودیس بادشاہ کی وفات سے پہلے پیدا ہوئے۔ (متی: 19:2)

2.  لوقا 2:2 مین ذکر ہے کہ مسیح کی پیدائش سوریہ کے حاکم کورنیس کے عہد میں پہلی اسم نویسی کے دوران ہوئی۔ یہ اسم نویسی 8 ق م میں ہوئی تھی لیکن اس میں ایک دو سال کی تاخیر ہوئی۔

3.  لوقا 2-1:2 سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی خدمت کا آغاز تبریس قیصر کے عہد کے پندرہویں سال میں ہوا۔ اگر تبریس نے 11 عیسوی میں حکومت کی پوری باگ ڈور سنبھالی تو یہ 26 عیسویں کا واقعہ ہے جب یوحنا نے خدمت شروع کی۔ مسیح اس وقت تقریباً 30 سال کے تھے۔ (لوقا: 33:3) سو اُن کی پیدائش 30 سال پہلے ہوئی، 26میں 30 نکالنے سے ہم 5 ق م پر پہنچتے ہیں۔

4.  مسیح کی زمینی خدمت کے دوران ہیرودیس کی ہیکل ابھی زیرتعمیر تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوحنا 20:2 کے مطابق ہیکل کو پاک کرنے کا واقعہ اُس کی تعمیر کے چھیالیسویں سال میں رونما ہوا۔ ہیکل کو ازسرِ نو 20 ق م میں تعمیر کرنا شروع کیا گیا تھا۔ یوں چھیالیسواں سال 26 عیسوی بنتا ہے۔ اس میں سے 30 سال منفی کریں تو ہم پھر 5 ق م کی تاریخ پر آتے ہیں۔ اس شہادت کی بنا پر ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مسیح کی پیدائش 4 یا 6 ق م کے سال میں ہوئی ہوگی۔ (صفحہ نمبر: 547-548)

نومبر کے آخری ہفتے میں (25 نومبر 2012ء کے اخبارات کے مطابق) سابق پوپ بینی ڈکٹ نے اپنی نئی کتاب میں واضح کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش 25دسمبر اور جو پیدائشی سال مشہور ہے یہ صحیح نہیں۔اس پر بعض حلقوں نے حیرانی کا اظہار کیا جبکہ ان کا کہنا ٹھیک ہے اور حقائق اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مقالہ ’’یسوع مسیح‘‘(Jesus Christ) میں لکھا ہے کہ ’’حیات مسیح پر لکھنے کی کوششیں ترک کر دی جائیں کہ اس کے لئے مواد موجود نہیں، ان کی زندگی کے ان دنوں کی تعداد50سے زیادہ نہیں جن کے متعلق ہمارے پاس کچھ ریکارڈ ہے‘‘۔

ماضی قریب کے معروف انگریز مسیح مبلغ ڈین انجی (Dean lnge) نے بھی اپنی کتاب ”Chrstian Ethics and Modern Problems”  میں لکھا ہے کہ’’ حضرت مسیح کی کوئی حقیقی سوانح عمری کبھی نہیں لکھی گئی‘‘۔صرف انجیل میں حضرت عیسیٰ کے حالات و نظریات اور عقائد کا بیان ہے، مگر وہ حالات مفصل نہیں۔‘‘

حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کی پیدائش کے دن اور پھر اسی حوالے سے کیلنڈر کی تقویم کے بارے میں سوالات ایک اور وجہ سے بھی اُٹھ رہے ہیں۔ عام طور پر معروف ہے کہ آپ کی تاریخ پیدائش 25 دسمبر ہے اور پوری دنیا میں اسی حوالے سے کرسمس کا دن منایا جاتا ہے۔ جبکہ لوقا کی انجیل (باب2آیت8) کے مطابق حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کی پیدائش کے بارے میں لکھا ہے:’’ اسی علاقے میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلے کی نگہبانی کر رہے تھے‘‘۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش کا موسم ایسا تھا کہ جب لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے ہوتے تھے، جبکہ دسمبر کا مہینہ شدید سردی کا ہوتا ہے۔ فلسطین میں تو دسمبر بارش، سخت دھند اور برف باری کا مہینہ ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ حضرت مریم آپ  کی ولادت کے وقت کھجور کے درخت کے نیچے گئیں۔ اس وقت کھجور پر پھل موجود تھا۔‘‘ کھجور پر پھل کا موسم جون، جولائی میں ہوتا ہے۔ ایک عیسائی مفسر’’ اے جے گریو ایم اے ڈی A.J GRAW.M.A.D‘‘ تفسیر ’’پیکن‘‘ میں انجیل لوقا کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’ یہ موسم ماہ دسمبر کا نہیں ہو سکتا۔ ہمارا کرسمس ڈے مقابلتاً بعد کی ایک روایت ہے جو کہ پہلے پہل مغرب میں پائی گئی۔‘‘ اسی طرح بشپ جارنس اپنی کتاب (Rise of Christianity) میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ اس تعین کا کوئی قطعی ثبوت نہیں کہ25دسمبر ہی مسیح کی پیدائش کا دن ہے۔ اگر ہم لوقا کی کہانی پر یقین کر لیں کہ اس موسم میں گڈریئے رات کے وقت اپنی بھیڑوں کی نگرانی بیت اللحم کے قریب کھیتوں میں کرتے تھے تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ  کی پیدائش موسم سرما میں نہیں ہوئی کہ جب رات میں ٹمپریچر اتنا گر جاتا ہے کہ یہودیہ کے پہاڑی علاقے میں برفباری عام بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کرسمس ڈے کافی بحث و تمحیص کے بعد 300ء میں متعین کیا گیا ہے‘‘۔

ایک رسالہ ’’مینار نگہبانی‘‘ مجریہ جنوری 1999ء کے صفحہ29پر لکھا ہے:’’ ہسٹری ٹو ڈے کے مطابق روم کے بادشاہ’’ اورلین‘‘ نے پال میرا کی ملکہ ’’لوبیا‘‘ کو شکست دینے کے بعد وہاں کے مندرسے سورج دیوتا کے مجسموں کو اٹھایا اور اپنے نئے بنائے گئے مندر میں رکھا تو 674ء میں 25دسمبر کو سورج دیوتا کا تہوار منایا گیا۔ بعد ازاں جب روم کے حکمرانوں نے مسیحیت قبول کر لی تو یہی تہوار مسیح کے جنم دن کے طور پر منانے لگے تاکہ پرانے تہواروں کی مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر دین مسیح کو رواج دیا جا سکے‘‘۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ 25 دسمبر یوم ولادت مسیح کس بنیاد پر منایا جاتا ہے اور یہ دن بطور ولادت مسیح کس نے تعین کیا ہے؟کیا مروجہ انا جیل میں کہیں یہ دن منانے کا کوئی حکم موجود ہے؟ حضرت عیسیٰ نے بذات خود اپنی زندگی میں 25 دسمبر بطور کرسمس ڈے منایا؟ اس کے بعد عیسیٰ کے حواریوں کو دیکھئے کیا انہوں نے کرسمس ڈے کا اہتمام کیا؟ حواریوں کو بھی چھوڑیئے سینٹ پال جس نے دین مسیح کی تجدید کی، اس کے خطوط میں بھی ایسا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تاریخ ولادت یسوع مسیح سے متعلق صحیح معنوں میں کوئی بھی باخبر نہیں۔ تاریخ دن تو دور مہینہ اور سال ولادت کا بھی حتمی علم نہیں۔

حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کی پیدائش کی تاریخ اور جائے پیدائش غیر یقینی ہے۔ مرقس اور یوحنا اپنی انجیل میں کچھ نہیں لکھتے۔ ہماری معلومات کے ذرائع صرف یسوع مسیح کی پیدائش اور بچپن کے وہ از حد متضاد بیانات ہیں جن میں ایک طرف تو متی ابواب 2-1 کی وہ کہانی ہے جس میں یسوع کی پیدائش اور بچپن کو ہیروڈ اول کے عہد اور اس کی حکومت بدلنے (4 ق م) سے منسوب کیا گیا ہے اور دوسری طرف لوقاباب 2 کی رو سے یسوع کی پیدائش شہنشاہ اوگسٹس کے عہد میں یہودیہ میں ہونے والی مردم شماری 6ء سے منسوب کی گئی ہے۔ اس بیان میں یہ بات از حد اہم ہے کہ ہیروڈ بادشاہ جس کے عہد میں انا جیل میں یسوع کی پیدائش بیان کی گئی ہے، یسوع کے پیدا ہونے سے تقریباً دس سال قبل مر چکا تھا۔ یسوع مسیح کی تاریخ ولادت کا کہیں بھی پتہ نہیں چلتا۔ عہد نامہ جدید سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس رات گڈریے بھیڑوں کو لئے ہوئے بیت اللحم کے کھیتوںمیں موجود تھے لیکن انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں کرسمس ڈے کے آرٹیکل پر لکھنے والے نے اس پر تنقید کی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’دسمبر کا مہینہ تو ملک یہودیہ میں سخت سردی اور بارش کا مہینہ ہے، ان دنوں میں کس طرح بھیڑیں اور گڈریے کھلے آسمان تلے رہ سکتے ہیں؟ پھر سوچنے کی بات ہے کہ شدید سردی اور برفباری کے اس مہینہ میں کھلے آسمان تلے نو مولود کو چرنی میں کیسے رکھا جا سکتا ہے؟‘‘اس کے برعکس اگر آپ قرآن کریم کو دیکھیں تو اس سلسلہ میں سورۂ مریم پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم کو درد زہ کی تکلیف زیادہ بڑھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلا، تازہ پکی ہوئی کھجوریں تم پر گریں گی، وہ کھائو اور چشمہ کا پانی پی کر طاقت حاصل کرو۔ اب فلسطین میں موسم گرما کے وسط یعنی جون جولائی میں ہی کھجوریں پکتی ہیں۔ اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مریم کی ولادت جون یا جولائی کے کسی مہینے میں ہوئی تھی۔ ظاہر ہے گڈریے بھی گرمی کے موسم میں ہی بھیڑوں کو کھلے آسمان تلے چھوڑ سکتے تھے اور اس مہینہ میں نو مولود کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھنا بھی کوئی معیوب نہیں۔ اگر ہم لوقا کی انجیل پر غور کریں تو بقول لوقا ’’چھٹے مہینے‘‘ فرشتہ نے مریم  کو خوشخبری دی کہ تو حاملہ ہو گی۔ چھٹے مہینے یعنی جون کے مہینے میں فرشتہ حضرت مریم کو پیغام دیتا ہے کہ تو ’’حاملہ ہو گی‘‘ اگر ساتواں مہینہ حمل کا پہلا مہینہ گنا جائے تو ولادت اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں ہو گی، حمل دس ماہ کا بھی ہوتا ہے۔ اس طرح جون کا آخر یا جولائی کا شروع بنتا ہے۔ یعنی انجیلی بیان کے مطابق بھی 25 دسمبر تاریخ ولادت غلط ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ رفع عیسیٰ  کے چار صدیوں بعد تک 25 دسمبر تاریخ ولادت مسیح نہیں سمجھی جاتی تھی پھر سیتھا کے ایک راہب بنام ڈایوینسٹیس اکسی گوس (Monk Dionysius Exgus) 526ء کو تاریخ ولادت مسیح کی  تحقیق پر تعین کیا گیا۔ اس نے اپنے حساب سے تاریخ ولادت متعین کر دیا اور اس کے بعد یہی حتمی تاریخ سمجھی جانے لگی کیونکہ حضرت عیسیٰ  سے پانچ صدی قبل سے 25 دسمبر ایک مقدس تاریخ سمجھی جاتی تھی۔ بہت سے سورج دیوتا اسی تاریخ پر پیدا ہونے تسلیم کئے جا چکے تھے، اس لئے راہب نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کے لئے حضرت عیسیٰ  کی تاریخ ولادت 25 دسمبر مقرر کر دی کیونکہ 25 دسمبر رومیوں کے ایک دیوتا کی یادگار، تہوار بھی تھا اور یہ ایک مقبول دن تھا اسی لئے اس تاریخ کو ترجیح دی گئی اور لوقا کے بیان کی طرف کسی نے ذرہ بھر توجہ نہ کی۔ پادری جی ٹی مینکی کی مشہور کتاب (The New Bible hand book) کا اردو ترجمہ ’’ہماری کتاب مقدسہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ پادری جی ٹی مینکی رقمطراز ہیں:

’’مسیح یسوع بیتِ لحم میں جو یروشلم سے چھ میل جنوب مغرب کی طرف ہے پیدا ہوا، گمان غالب ہے کہ یہ ٹھیک 25 دسمبر کا دن نہیں تھا، معلوم ہوتا ہے کہ سن عیسوی سے چند سال پہلے اس کی ولادت ہوئی‘‘۔

جبکہ اشاعت خانہ36فیروزپور روڈ لاہور کی شائع کردہ کتاب’’قاموس الکتاب‘‘ مؤلفہ ایف، ایس خیر اللہ کے ص148-147پر ہے کہ

کرسمس کا مروجہ نام (بڑا دن ہے) جو یوم ولادت مسیح کے سلسلے میں منایا جاتا ہے، چونکہ مسیحیوں کے لئے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے، اس لئے اسے بڑا کہا جاتا ہے۔

رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسیائیں اسے 25 دسمبر کو، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسیا 6 جنوری کو اور آرمینیا کلیسیا19 جنوری کو مناتی ہے۔

کرسمس کے تہوار کا25دسمبر پر ہونے کا ذکر پہلی بار شاہِ قسطنطین کے عہد میں325عیسوی کو ہوا۔ یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اولین کلیسیائیں بڑا دن مناتی تھیں یا نہیں۔ تاہم جب سے یہ شروع ہوا یہ بڑا مقبول ہوا ہے۔ اگرچہ بعض رسومات جو مسیحی نہیں تھیں کرسمس سے منسوب کی گئی ہیں تاہم اب انہوںنے بھی مسیحی رنگ اپنا لیا ہے۔ مثلاً کرسمس ٹری(کرسمس کا درخت) اب اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ یہ خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس کی نعمتوں کی یاددہانی کراتا ہے۔

یاد رہے کہ یسوع مسیح کی صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں۔ تیسری صدی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے20مئی کو منایا جائے لیکن25دسمبر کو پہلے پہل روما میںاس لئے مقرر کیا تاکہ اس وقت کے ایک غیر مسیحی تہوار، جشن زحل کوSarurnaliaجو راس  الجدی کے موقع پر ہوتا تھا پسِ پشت ڈال کر یسوح مسیح کی سالگرہ منائی جائے‘‘۔

قاموس الکتاب کے مصنف پادری ایف ایس خیر اللہ لکھتے ہیں:

’’عام خیال یہ ہے کہ عیسیٰ 1ء میں پیدا ہوئے۔ علماء انجیل کے مطابق انگریزی حرف A.D سے (جو Anno Domina کا مخفف ہے) مراد ہے ’’ہمارے خداوند کا سال‘‘ لیکن جب لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ عیسی اس سے چار یا پانچ سال پہلے پیدا ہوئے تو انہیں تعجب ہوتا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ عیسوی کیلنڈر چھٹی صدی میں مرتب کیا گیا۔ (راہب ڈیوانیسٹیس اکسی گوس (Monk Dionysius Exgus) نے 526ء میں حساب لگا کر سنہ عیسوی کا اعلان کیا لیکن بد قسمتی سے اس کے حساب میں چار سال کی غلطی رہ گئی، اس نے مسیح کی پیدائش رومی کیلنڈر کے سال 754ء میں رکھی لیکن ہیرو دیس اعظم جس نے بیت اللحم کے معصوم بچوں کا قتل عام کیا تھا رومی سال 760 میں فوت ہوا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کی پیدائش رومی 750 سے کم از کم چند ماہ پہلے ہوئی ہو گی۔ غالباً وہ رومی سن 749 کے شروع میں پیدا ہوئے یعنی 5 ق م کے آخر میں۔ جب اس غلطی کا پتہ چلا تو یہ ناممکن تھا کہ بے شمار چھپی ہوئی کتابوں میں اس کو درست کیا جائے، سو سنہ عیسوی کو یوں ہی رہنے دیا گیا‘‘۔(قاموس الکتاب ص912)

اب اسی طرح کا بیان مستعفی پوپ بینی ڈکٹ نے بھی اپنی نئی کتاب The Infancy Narratives Jesus of Nazareth”میں لکھ دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کی تاریخ ولادت25دسمبر نہیں،کچھ اور ہے۔ اسی طرح ان کی پیدائش کا جو سال بتایا جاتا ہے وہ بھی صحیح نہیں، اس میں کئی برسوں کی غلطی ہے‘‘۔(پوپ بینی ڈکٹ کی کتاب میں اس متنازع بیان کے حوالے سے خبر اتوار25نومبر2012 کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔)

مندرجہ بالا حوالوں سے سوچ کے نئے زاویے اور تحقیق کے نئے دروازے کھل جاتے ہیں۔ لگتا ہے جس طرح معمر قذافی مرحوم نے وفات النبی  سے سال کا آغاز کیا تو عام مسلمانوں کے سن ہجری کے حساب سے بہت پیچھے رہ گئے، اسی طرح کسی عیسائی مؤرخ سے بھی ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے موسم میں غلطی ہو گئی تو کھلے موسم کی بجائے سردی کا مہینہ سامنے آ گیا۔ پھر غلطی کا یہ سلسلہ چلتا ہی رہا اور ابھی تک چل رہا ہے۔