چیف جسٹس صاحب کرپشن کا دروازہ کھول رہے ہیں، یا بند کر رہے ہیں؟

یونس خان Younas Khan

چیف جسٹس صاحب کرپشن کا دروازہ کھول رہے ہیں، یا بند کر رہے ہیں؟

از، یونس خان

پنجاب میں مختلف کمپینیز کے چیف ایگزیکٹوز “تیرہ، تیرہ” لاکھ روپے تنخواہوں کی صورت لے کر اگر اچھا پرفارم نہیں کر سکے تو سوال تو یہ ہے کہ کیا معمول کی تنخواہیں لینے والے ان کمپنیز کے چیف ایگزیکٹوز کیسے بہتر پر فارم کریں گے؟ کیا وہ لاکھوں کمانے کے چکر میں کرپشن کرنے کے حیلے بہانے ڈھونڈھنا شروع نہیں کر دیں گے جب کہ ان کے بجٹ اربوں روپے کے ہوں؟
چیف جسٹس صاحب کرپشن کا دروازہ کھول رہے ہیں، یا بند کر رہے ہیں؟

کیا وہ شہباز شریف دشمنی میں کمپنیوں کے راستے میں اتنے کانٹے بکھیر دیں گے کہ آنے والی حکومت جو کہ متوقع طور پر پی ٹی آئی کی ہے ان کے لیے پرفارم کرنا ہی مشکل ہو جائے!

چیف جسٹس صاحب کرپشن ختم نہیں کر رہے کرپشن کے نام پر آنے والی حکومت کے لیے دشواریاں پیدا کر رہے ہیں۔ جب چیف جسٹس صاحب ان کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جائیں گے تو کیا آنے والے دنوں میں وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ نہیں جائیں گے کہ خوف کی فضا میں کون کام کرنے کے لیے تیار ہو گا۔

وہ یہ سوچیں گے کہ اگر کوئی بھی کام کیا تو ان کی باز پُرس ہی نہیں ہو گی بَل کِہ ذلیل بھی ہونا پڑے گا اور میڈیا ٹرائل الگ سے۔ یہ سیاسی امور اور انتظامی فیصلے ہیں جن کا عدالت سے کوئی سرو کار نہیں یے۔ اگر چیف جسٹس کی تنخواہ تیرہ لاکھ نہیں ہے جس کا کہ وہ بار بار کہہ چکے ہیں، یہ طے کرنا بھی حکومت کا کام ہے کہ چیف جسٹس کو کتنی تنخواہ دینا ہے، اس کا تعین وہ خود سے نہیں کر سکتے۔ اگر پارلیمنٹ یہ طے کر دیتی ہے کہ چیف جسٹس کو تیرہ لاکھ روپے تنخواہ دی جائے گی تو کیا پھر بھی چیف جسٹس صاحب سو موٹو ایکشن لیں گے کہ چیف جسٹس کو اتنی تنخواہ کیوں دی جا رہی یے اور کیا ان کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اسے ختم کر دیں؟


مزید دیکھیے: سوموٹو دور کی واپسی

از خودی نوٹسوں پر چلتا ملک


برطانوی قانونی روایت کے مطابق اگر پارلیمنٹ یہ طے کر دیتی ہے کہ آئندہ مردوں کو بھی عورت لکھا جائے گا تو یہ قانونی طور پر درست تصور ہو گا عین اسی طرح جیسے عورتوں اور مردوں کو مشترکہ طور پر مرد ہی لکھا جاتا ہے اور مردوں کے اس معاشرے میں اسے قبول بھی کیا جاتا ہے۔

اگر آپ پروفیشنل لوگوں کو فیلڈ ریٹ کے مطابق تنخواہیں نہیں دیں گے تو پرائیویٹ سیکٹر سے کون شخص آ کر کام کرنے کو تیار ہو گا؟ اسی طرح اگر گورنمنٹ سیکٹر میں ایسے لوگ ہیں جو اپنی کمپیٹینسی شو کرتے ہیں تو ان کو کیوں اجازت نہ دیجیے کہ وہ ان کمپنیوں کو ہیڈ کر سکیں؟ اگر وہ اِن کمپیٹینٹ ہیں اور ان کی پر فارمینس کو چیک نہہں کیا جاتا تو یقیناً یہ جرم ہے۔

اگر اسد عمر جیسا قابل شخص جو پرائیویٹ سیکٹر میں ہائیلی پیڈ تھا، کیا اس جیسے قابل لوگ صرف چند ہزار روپے تنخواہ لے کر قومی فلاح کے نام پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟

اگر ہم غیر ممالک سے پروفیشنلز کو پاکستان لانا چاہتے ہیں تو کیا وہ ان نظائر اور حالات میں پاکستان میں آ کر کام کرنے کو تیار ہوں گے، اور اصل سوال تو یہ یے کہ آخر پاکستان سے یہ برین ڈرین ہو ہی کیوں رہا ہے؟

پاکستان کے یہ ذہین ترین سپوت پاکستان سے باہر کیوں کام کر رہے ہیں؟ کیا وہاں کی لینڈ سکیپ زیادہ خوب صورت ہے جو انہیں اپنی طرف کھینچتی ہے؟ اس لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آرٹیکل 284/3 کی بڑھتی ہوئی تجاوزات پر بند باندھا جائے۔ یہ ایسے ہی کہ باڑ ہی گھر کو کھانا شروع ہو جائے۔

آپ تنخواہوں کے ریکارڈ نہیں ان کے پرفارمینس کا ریکارڈ چیک کریں۔ انویسٹیگیشن کے ادارے موجود ہیں ان اداروں کی باز پُرس کریں کہ وہ کیوں پرفارم نہیں کر رہے۔ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کیوں نا کام ہو رہے ییں۔ آپ ان کو تو پوچھ نہیں رہے دن بدن حکومت کا ناطقہ بند کر رہیں ہیں۔ یہ حکومت کا کام ہے اسے حکومت پر چھوڑ دیں۔